برٹیس رول سے پہلے انڈیا کی ایکانومی کافی انڈیپنڈنٹ تھی جہاں ادھکتر لوگ اگری کلچر میں انوالڈ تھے وہیں دیش کی ہینڈی کرافٹ انڈسٹریز ورلڈ وائیڈ پاپیلر تھی ساتھی انڈیا بیشو بھر میں کوٹن، سلک، رائس اتیادی کے ایکسپورٹ کے لیے جانا جاتا تھا بٹ اب انڈیا میں بریٹیسرز کا رول تھا برٹش گورنمنٹ اور ان کی ایکانومک پولیسیز کا دھیان انڈیا نہیں بلکہ برٹین کی ڈیولپمنٹ پہ تھا ان کی پولیسیز کے کارن انڈیا کی ایکانومی چینج ہونے لگی اب انڈیا برٹین کی انڈسٹریز کے لیے ایک راو مٹیریل سپلائر اور ان کے فنشت گوڈز کا کنزیومر بن کر رہ گیا اگری کلچر سیکٹر میں گروتھ رکھ سی گئی جس کا مین کارن تھا برٹشرز کے دورہ لگائے گئے الگ الگ لینڈ سیٹلمنٹ سسٹمز جیسے اس سمیت کے بنگال میں جمینداری سسٹم لگایا گیا جس میں جمیندار کسانوں سے لینڈ ریونیو کلیکٹ کر کے برٹش گورنمنٹ کو دیتے تھے اور ایسا نہ کر پانے پر ان سے ان کی جمینداری چھین لی جاتی تھی اسی لئے جمینداروں کا دھیان جیادہ سے جیادہ ٹیکس کلیکٹ کرنے اور اپنی جمینداری بچانے میں ہوتا تھا نہ کی اگری کلچرل پروڈکٹیوٹی بڑھانے میں اس کے علاوہ ٹیکنالوجی اور ایڈیگیشن فیسلیٹیز کی کمی کے قارن اگری کلچرل سیکٹر ڈیکلائن کرنے لگی کلونیل گورنمنٹ کی پولیسیز نے انڈیا میں موڈرن انڈسٹریز کا بیس نہیں بننے دیا جیسا ہم نے دیکھا ان کی پولیسیز کا دو مین موٹیف تھا پہلا کی انڈیا کو بریٹین کی موڈرن انڈسٹریز کے لیے راو مٹیریل سپلائر بنانا اور دوسرا انڈیا کو ان انڈسٹریز کے فینشٹ پروڈکٹس کا مارکٹ بنانا تاکہ بریٹین کی انڈسٹریز گروہ کرسکے بریٹین کی موڈرن انڈسٹریز کے مشین میٹس اور سستے پروڈکٹس کے سامنے انڈیا کی ورلڈ فیمس ہینڈی کرافٹ انڈسٹریز سروائیب نہیں کرسکی جس سے انیمپلائمنٹ ریٹ بھی بڑھ گیا 19 سنچوری کے سیکنڈ ہاف میں کچھ کارٹل اور جوٹ ٹیکسٹائل ملز سیٹ اپ کیے گئے 1907 میں ٹسکو یعنی ٹاٹا آئیڈن اینڈ سٹیل کمپنی اور پھر سیکنڈ ورل وار کے بعد کچھ سگر سیمنٹ اور پیپر انڈسٹریز بھی آئے لیکن تب بھی شاید ہی کوئی کیپٹل گوڈز انڈسٹریز سیٹ اپ کیے گئے کیپیٹل گوٹس انڈسٹریز وہ انڈسٹریز ہوتی ہے جو ایسے مشین ٹولز بناتی ہے جس مشین ٹولز کی مدد سے آگے کسی پروڈکٹس کو بنایا جا سکے پھل ملا کے انڈیا کی انڈسٹریز کا بیس بھی ہل چھپا تھا انڈیا کی ایکسپورٹ اور امپورٹ پہ بھی برٹین کا پورا کنٹرول تھا جس کی وجہ سے انڈیا کا آدھا فورن ٹریڈ برٹین کے ساتھ ہی رسٹرکٹر تھا وہیں باقی ٹریڈ کچھ کنٹریز جیسے چائنہ، شری لنکا اور ایران کے ساتھ الاؤڈ تھا سوز کنال کے کھل جانے سے بریٹین اور انڈیا کی بیچ کی دوری کم ہو گئی اور اس سے اب ان کے لیے انڈیا کے ساتھ ٹریڈ کرنا اور بھی آسان ہو گیا بھلے ہی انڈیا کافی ایکسپورٹ کر رہا تھا لیکن ان ایکسپورٹ سے انڈیا کو کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ ان پیسوں کو بریٹش گورنمنٹ اپنے وار اور اوفیشل خرچوں میں یوز کرتی تھی سوشل ڈیولپمنٹ انڈیکیٹرز بھی کافی خراب تھے جیسے سکسٹین پرسنٹ اوورال لٹریسی ریٹ، ہائی مورٹالٹی ریٹ، لو لائف ایکسپیکٹنسی، ایکسٹینسیپ پاورٹی ایٹسیکٹرا بیسک ��نفرسٹرکچر میں ڈیولپمنٹ جرور ہوئے لیکن یہ لوگوں کی سمیدھا کے لیے نہیں بلکہ بریٹسرز کے اپنے فائدے کے لیے تھے جیسے ریلویز اور پورٹس بنائے گئے جس سے راو مٹیریلز کو آسانی سے بریٹین پہنچایا جا سکے روڈز بنائے گئے تاکہ برٹش آمی کو دیس کے کسی بھی کونے میں جانے میں آسانی ہو الیکٹرک ٹیلیگراف کے آنے سے اوفیسیلز کو کمیونکیشن اور لاؤ اینڈ آرڈر مینٹین کرنے میں آسانی ہوئی ان سبیدہوں کے کچھ فائدے عام جنتہ کو بھی ہوئے لیکن اس کا اوورال بینفٹ بریٹیسرز کو ہی ہوا اب جب پندر اگسٹ 1947 کو بھارت آجاد ہوا تو ہمارے سامنے کئی چیلنجز تھے اگریکلچر سیکٹر، انڈسٹریل سیکٹر، فورین ٹریڈ، انفرسٹرکچر ان سب میں انڈیا کو کافی امپروومنٹس کی ضرورت تھی اس کے علاوہ گریبی اور بے روچگاری سے بھی نپٹنا تھا ایکانومی پہ دو سو سالوں کی گلومی کا امپیکٹ صاف نجر آ رہا تھا