Transcript for:
موجودہ سیاسی صورتحال کا جائزہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہو آج ہم کچھ امپورٹنٹ سٹیٹمنٹ جو ہیں گورنمنٹ کی ان کو انیلائز کریں گے اور ان کے پیچھے ان کے ریزنز و بہرکات دیکھیں گے پچھلے دنوں ایک بہت بڑی مہم چلی آئی پی پیز کے خلاف جس کو بہت سارے چینلز نے بھی لیڈ کیا بہت سارے بی لاؤگرز نے بھی اس پہ کام کیا اور ایک اچھا خاصا پریشر بیلڈ ہو گیا جماعت اسلامی نے دھرنا دیا اور تنہیں تنہا ادھر سے گوھر اجار صاحب نے جو موو کی وہ بھی ایک ماسٹر سٹروک تھا آئی پی پیس کے خلاف اور ایک اچھا خاصا مومنٹم گین ہو گیا گورنمنٹ نے اس کو نیوٹرلائز کرنے کے لیے اس کو کارپٹ کے نیچے ڈالنے کے لیے اس معاملے کو دبانے کے لیے جو کیا کیا اس پہ دو سٹیٹمنٹس ہم دیکھتے ہیں اور تین سٹیٹمنٹس ہم انیلائز کرتے ہیں جو بڑی انٹرسٹنگ ہیں ایک تو پنجاب گورنمنٹ نے پینتالیس ارب روپے وفاق کو دیئے اور ان سے دو سو سے پانچ سو یونٹ استعمال کرنے والوں کے لیے چودہ روپے کی ریلیف لی دو مہینے کے لیے اس کے بعد عویس لگاری صاحب نے ایک سٹیٹمنٹ دی کہ اگر قوم دو گھنٹے کی لوڈ شیئر شیڈنگ کی مجھے اجازت دے دے تو میں ملک کو پورے پچاس ارب کی بچت کر کے دے سکتا ہوں ساتھ ہی پرائنسٹر صاحب نے فرمایا کہ باقی صوبوں کو بھی حکومت پنجاب کی تقلید کرنی چاہیے اور ان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بجٹ میں سے کٹوتیاں کر کے پیسے فیڈل کامنٹ کو دیں تاکہ فیڈل کامنٹ ان کو ان کے بجلی کے بیلوں میں ریلیف دے سکے بہت اچھا انہوں نے پرپوزل دیا بہت اچھی ایک گھمنگیری کے اندر ڈالا بہت اچھے ایک رگ مرول اور ایک ایسی بحث کے اندر ڈالا کے ساتھ سارے لوگ اس کے پیچھے لگ جائیں گے اور اصل مدے کو اور اصل قوض کو بھول جائیں گے تو سب سے پہلے تو میں عبیس لگاری صاحب کو مبارک بات دینا چاہتا ہوں مجھے نہیں توقع تھی کہ وہ اس طرح کی سٹیٹمنٹ دیں گے وہ فاروق احمد لگاری صاحب کے بیٹے ہیں جو ایک نہایت بڑی اور قداور شخصیت تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی سٹیٹمنٹ دے کے انہوں نے اپنے والد صاحب کا جو پلیٹیکل ایسٹ تھا اس کو بھی لوز کیا ہے اور اس کو بھی ضائع کیا ہے اور اپنی بھی کیتی کرتی نوڑ دی ہے اور وہ اچھے خاصے پڑے لکھے انسان ہیں تو میں ان کو ایک کاؤنٹر پرپوزل دیتا ہوں کہ سر آپ پچاس ارب کی بچت کیوں کر رہے ہیں صرف دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ سے اگر آپ چوبیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کر دیں قوم سے اجازت لینے کی مہم میں چلال لیتا ہوں تو جناب یہ آپ چھے سو ارب روپے کی بچت کریں گے جو آپ نے فامولا اور پرسنٹیجز سے آپ نے بتایا ہے کہ دو گھنٹے آپ بزلی بند کر کے پچاس ارب بچا سکتے ہیں تو چھے سو ارب روپے یہ آپ بچائیں گے جو حکومت کے خزانے میں بچ رہے ہیں ہے گا جس سے آپ اپنی منسٹری کو پورے سال کی اضافی بونس تنخواہیں دے سکتے ہیں اپنے لیے بلٹ پروف گاڑی خرید سکتے ہیں بین انہیں ممالک کے دورے کر سکتے ہیں کہ جناب یہ جو آئی پی پیز کا ایشو ہے اس کو کیسے ریزولف کیا جائے یا باہر سے کوئی پانچ سو چھ سو ملین ڈالر دے کے کنسلٹنٹس ہائر کر سکتے ہیں اور آپ یہ والا کام شروع کر آ سکتے ہیں تو یہ تو میں آپ کو کاؤنٹر پرپوزل دے رہا ہوں کٹیں پنجاب گورنمنٹ نے جو پنتالیس ارب دیئے ہیں کہیں پنجاب گورنمنٹ نے یہ ثابت نہیں کیا کہ یہ پنتالیس ارب روپے ہم نے ڈیفرنٹ سیونگ سے کریئٹ کی ہیں یا ہم نے اپنے جو ایسے اضافی اخراجات سے جن کے ساتھ جن کے بغیر حکومت پنجاب گزارہ کر سکتی تھی یعنی جو ترخاؤں کے الاؤنس ہیں جو پرکس اینڈ پریولیجز ہیں جو ٹی اے ڈی اے ہیں جو جو فضول اضافی اخراجات ہیں جو پبلک اپیرنسز کے اوپر اخراجات کیا جاتے ہیں جو دعوتوں پر اخراجات کیا جاتے ہیں جو پروٹوکال پر اخراجات کیا جاتے ہیں وہ ہم نے بچا لی ہیں اور وہ پنتالیس ارب روپے ہم نے وفا کو دے کے یہ ریلیف لے دیئے تب تو وہ شاباشی کی مستحق ہیں بیسیکلی وہ کیا کر رہے ہیں بڑا سمپل طریقہ ہے کہ ڈیولپنٹ کے بجٹ میں سے وہ کٹیں گے کچھ ڈیولپنٹ کی سکیمیں رول بیک کریں گے کچھ کو کو سکیل ڈاؤن کریں گے کچھ کو ڈیلے کریں گے جو پنتالیس ارب روپے ہاں وہاں سے بچانے کی کوشش ہوگی وہ ان فیکٹ وہی ڈیولپنٹ کی پروجیکٹ اگلے سالوں میں وہ سو ارب یا ڈیڑھ سو ارب سے کر لیں گے بیکس کاؤسٹ جو ہیں وہ اوپر جا چکی ہوں گی دوسری چیز ہے کہ میں ویسٹ لگاری صاحب کو بتانا چاہوں گا کہ جب آپ دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کریں گے پچاس ارب روپے حکومت کے لیے بچانے کے لیے یا ملکی خزانے کے لیے بچانے کے لیے تو ملک کے اندر جتنے جنریٹرز چلیں گے جتنا ڈیزل کا استعمال ہوگا وہ شاید پچاس ارب کے فورنر ایکسچینج سے زیادہ ہو جس کا آپ کو فیول امپورٹ کرنا پڑتا ہے اس دوران جو لوسز ہوں گے انڈسٹری کے اندر کمیشنل اداروں کے اندر گھروں کے اندر ایڈوکیشنل انسٹیوشنز کے اندر ہاسپیٹلز کے اندر پرائیوٹ اداروں کے اندر گورنمنٹ کے اداروں کے اندر سٹیٹ کے اداروں کے اندر وہ شاید پانچ سو ارب سے بھی زیادہ ہوں گے تو میں بڑا حیران ہوں کہ جب آپ نے یہ اسٹیٹمنٹ دی تو نہ آپ نے کچھ سوچا نہ سمجھا مطلب ہمارے پرنمیشنر صاحب تو عادی تھے ہی اس طرح کے بیانات داغنے میں وہ تو مشہور تھے ہی نہ ان کو کوئی شیر یاد رہتا ہے نہ ان لوگوں کو مصرہ یاد رہتا ہے نہ کوئی مقولہ یاد رہتا ہے نہ کوئی محابرہ یاد رہتا ہے شاید اب جو ہے ایج کا فیکٹر ان کے اوپر واضح طور پر نظر آ رہا ہے جس طرح ہم اس کو جو بائیڈن کے اوپر دیکھ سکتے ہیں لیکن آپ تو ایک ینگسٹر ہیں آپ سے اس چیز کی مجھے توقع نہیں تھی کہ آپ اس طرح کی آف دی کاف سٹیٹمنٹ دے دیں گے میرا خیال ہے کہ آپ کی سٹیٹمنٹ کو دینے سے پہلے آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے سیکریٹری کو اپنے ایڈز کو کنسلٹ کر لیا کریں تاکہ فیوچر میں آپ اس طرح کی جگہ سائی کا باعث نہ بن سکیں آج کل کے دور میں پبلک سپیکنگ سکیلز ہونا اندہائی ضروری ہے۔ آپ کوئی بھی کام کریں، کاروبار ہو، نوکری ہو، سکول کے اندر ہو، جتنا آپ اچھا بولیں گے، جس طرح آپ آرگیمنٹس اور تھاٹس اپنی پریزنٹ کریں گے، اتنی ہی مقبولیت آپ کو معاشرے میں ملے گی۔ کلارٹی آف تھاٹ ڈائریکٹلی ریلیٹڈ ہے کلارٹی آف سپیچ کو۔ تو ایان پہ ہم نے ڈیسائیڈ کیا کہ ہم پہلی دفعہ، کورس آفر کریں گے پبلک سپیکنگ اور کانفیڈنس بیلڈنگ کے اوپر ہم چاہیں گے کہ آپ یہ کورس ضرور جوائن کریں اس کی فیزیکل سیشنز بھی ہوں گے اور آن لائن سیشنز بھی ہوں گے ایک تو ہمارے چینل کو سپورٹ ہو جاتا ہے اور ہم فیل کرتے ہیں کہ ایک سکل جو ہمارے پاس ہے جس کا ہمارا انڈرلیو بیکراؤنڈ بھی ہے ہم وہ آپ کو سکھا سکتے ہیں تو پلیز ضرور ہمارے کورس کو جوائن کریں سپریم کورٹ میں آج ہیرنگ تھی نائنٹھ میں کہ حملہ کیس کی جو جنرل ہاؤس پہ ہوا جس پہ جنرل ہاؤس کو نقصان ناقابل تلافی نقصان پچھایا گیا دو جائز صاحبان اس کیس کو سن رہے تھے جسٹس اطر من اللہ جسٹس منصور علی شاہ اس میں ایک حماد نامی شخص کا بیل کا کیس ان کے سامنے لگا جس میں وہ ہائی کورٹ سے اس کی بیل ریجیکٹ ہو چکی تھی کیس یہ تھا کہ اس پہ الزام تھا کہ اس نے ایک پلیس کانسٹیپل کے سر پہ ڈھنڈا مار کے اس کو زخمی کر دیا ویر ایز پلیس ریپورٹ یہ کہتی ہے کہ کراؤٹ سے ایک پتھر آیا جو اس کانسٹیول کے سر پہ لگا اور وہ زخمی ہو گیا جب جج سب نے پوچھا کہ کیا ثبوت ہے کہ یہ شخص اس موقع پہ وہاں تھا تو وکیل نے بتایا کہ جی یہ تو وہاں موقع پہ موجود نہیں تھا جج سب نے کہا کوئی اسی کیمرے کی فوٹیج موجود ہے انہوں نے کہا جی نہیں انہوں نے کوئی اور ایویڈنس انہوں نے کہا نہیں کوئی ایویڈنس ہمیں انویسٹیکیشن کے دوران پروائیڈ نہیں کیا نہ کوئی ایف آئی آر کے ساتھ لگایا گیا کہ جی یہ چیزیں ہیں یہ ایویڈنس ہے یہ ثبوت ثابت کرتی ہیں کہ یہ شخص اس وقت موجود تھا اس کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا اور کانسٹیبل کا سر تھا اور اس نے اس کو زخمی کر دیا اس پہ بڑی انٹرسٹنگ ڈیویلپمنٹ ہو گئی ہے جو ٹرننگ پوائنٹ ہو سکتا ہے اس نومہی حملہ کیس کی ساری داستان کا وہ یہ ہے کہ جج سہبان نے ایویڈنس طلب کر لیا ہے انہوں نے کہا جی ہمیں ایویڈنس بھی پیش کیا جائے اور سی سی کیمراز کی فوٹیج دی جائے یہ وہ سی سی کیمراز کی فوٹیج ہے جو سپریم کورٹ کے دو ججوں نے طلب کر لی ہے جس کے بارے میں بانی پی ٹی آئی ہمیشہ کہتے ہیں کہ جناب سی سی کیمراز کی فوٹیج پروائیڈ کی جائے اور ہر کیس کے اندر ہر وکیل یہی کہتا ہے جی کہ وہ ہمیں کیمراز کی فوٹیج دکھائی جائے جو پبلک عام طور پر ہر ٹاک شو میں یہ بات ہو رہی ہے کہ آپ وہ فوٹیج دکھا دیں کہ جہاں پر پی ٹی آئی کے یہ وہ لیڈرز جن کو آپ نے نومینیٹ کیا ہوا ہے کیسز کے اندر جہاں پہ وہ یہ نعرے لگا رہے ہیں یا وہ حملہ کر رہے ہیں جی ایچ کیو کے اوپر یا جنرل ہاؤس لاہور کے اندر تو آپ وہ دکھا دیں تو لہذا اب یہ ایک بڑا انٹرسٹنگ کیس ہو جائے گا اور یہ بڑی انٹرسٹنگ ڈیولپنٹ ہوگی جہاں آپ دیکھیں گے کہ یہ کس طریقے سے اس کو لے کے آگے چلتے ہیں اس کے بعد میں دو ناموں کی بات کرنا چاہوں گا جو میرے کانوں میں گونجتی ہیں ایک نام محب اللہ اور ایک نام نتاشا دونوں بڑے خوبصورت پیارے نام ہیں نتاشا ایک بڑا سٹائلش نام ہے اور محب اللہ تو ظاہر ہے وہ اپنے نام کے مطلب سے ہی ایک بہت بڑا مینی خیز نام ہے محب اللہ ایک بلوچ لڑکا ہے he is a young man اور نتاشا جو ہے وہ کراچی کی خاتون ہے تو پہلے نتاشا کی کارگزاری دیکھ لیتے ہیں کہ نتاشا کے نام کے کیا ایسپریشنز ہیں کیا ہماری اسے توقعات ہیں کیا ہماری اس نام سے محبتیں اور چاہتے ہیں نتاشا نامی خاتون نے تیز رفتاری سے اپنی لینڈ کروزر چلاتا ہے ہوئے اس نے کراچی میں تقریباً پانچ افراد کو کچل دیا جو لکمہ جل بن گئے اور اپنے خالقے کی کیسے جا ملے اور اس نہ صرف اس نے ایک دفعہ ان گاڑیوں کو ٹکر ماری جب اس نے پھر اس کے بعد دوبارہ آگے چلنے کی کی کوشش کی اور وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو اس نے اپنی اس کاوش کے اندر اور گاریوں کو اپنے دیچے رون دیا اور وہ لوگ رکمہ جل بن گئے اب فوری طور پہ قانون بھی حرکت میں آیا اور فوری طور پہ کراچی کے مقتدرہ حلقے بھی حرکت میں آئے اس خاتون کو بچانے کے لیے تو پہلی چیز جو ہے کہ چوبی سٹھالیس گھنٹوں میں یہ اسٹیبلش ہو چکا ہے کہ جو خاتون ہے وہ سین مائنڈ کی نہیں ہے اس کا مائنڈ کو انسین ڈیکلئر کر دیا ڈاکٹرز نے کہ ان کی جینی حالت جو جو ہے وہ ٹھیک نہیں ہے اور ایک دن کا صرف فیزیکل ریمانڈ پولیس کو ملا ہے اس خاتون کو انویسٹیکیٹ کرنے کے لیے دوسری طرف یہ ہے کہ وہ خاتون جو تو ہے دو میں اس پرائیوٹ گروپ کا نام نہیں لوں گا کہ ان کی ساخ متاثر نہ ہو ان کی وہ دو کمپنیوں کی سی ایو ہے چیف ایگزیکٹیو آفسر ہے یعنی شی ورچولی رن دوز دو کمپنیز اور پانچ اسی گروپ کی کمپنیوں کی بورڈ اوف ڈیریکٹرز پہ بیٹھتی ہیں کمپنیوں میں ان کی شمولیت ہے اور وہ کوٹ نے ان کا مائنڈ انسین عدالت وکیٹ ڈاکٹرز نے ان کا مائنڈ انسین ڈیکلیئر کر دیا ہے یہ کیسے ہو گیا ہے یہ کراچی کے اندر کراچی کے ڈاکٹرز کراچی کے اسپطال کراچی کا جو پولیس کا نظام ہے یہ وہی ایکسپلین کر سکتا ہے لیکن میں آپ کی توجہ ایک اور طرف دلاؤں گا میں یہ کہتا ہوں کہ اگر اس گاڑی کے نیچے آ کے جو کچھلے گئے لوگ ہوتے اس میں کسی جج سب کا بیٹا ہوتا اس میں کسی فوجی افسر یا کسی جنرل صاحب کا بیٹا یا بیٹی ہوتی یا اس میں گاڑی کے نیچے آئے ہوئے جو بچے تھے یا جو خواتین تھیں یا جو مزرک تھے وہ کسی بیوروکرائٹ کے والد یا بچے ہوتے یا وہ سندھ کے کسی وڈیرے یا لینڈ لارڈ کے بچے ہوتے تو پھر نتاشا بی بی کے ساتھ کیا ہوتا اگر تو وہ کسی جرنیل کے بچے حساس ادارے کے افسر کے بچے ہوتے تو اب تک نتاشا کو حساس اداروں نے اپنی تحویل میں لے لیا ہوتا اور یہ ثابت ہو چکا ہوتا کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی دہشتگرد ہے اور یہ کسی ایسی اکٹیوٹی کے لیے جاری تھی تھی تو اس کو بروقت پکڑ لیا گیا اور صرف نقصان پانچ جانوں کا ہوا اور باقی بچ گئی اگر یہ کسی جج کی اولاد میں کوئی نقصان پہنچاتی تو نہ اس کی زمانت ہوتی نہ اس کے خلاف کوئی بھی اس کو ریلیف ملتا کسی بھی عدالت کسی بھی کوٹ سے اور اگر یہ کسی وڈیرے کے بچوں کو نقصان پچاتی تو اب تک وڈیرہ اپنی عدالت لگا کے اس کو کیفر کردار تک پہنچا چکا ہوتا اور خود اس کا احتساب کر چکا ہوتا اور اب تک نتاشا کے ہوش بلکل ٹھیک ہو چکے ہوتے اور وہ بلکل سین مائنڈ کی ڈیکلیئر ہو چکی ہوتی اور کوئی اس کی کامکلی یا نا سمجھی کا مظاہرہ نہ کیا جا رہا ہوتا یہ علمیات یہ حال ہے ہمارے ملک کا دوسری طرف جو نویر صاحب نے ایک نام آتا ہے ایک شخص کا وہ ہے محب اللہ ایک بلوچ لڑکا ہے پچھلے دنوں بلوچستان میں طوفانی بارشیں ہوئیں اور وہاں پہ چکے پہاڑوں سے پانی آتا ہے تو فلیش فلیٹز آتے ہیں جو بالکل اچانک اور آنن فانن سیکنز کے اندر آتے ہیں اور آپ بالکل ریاکٹ بھی نہیں کر سکتے تو ہم ایک ویڈیو دیکھتے ہیں کہ ایک ٹیوٹا کی پرائیڈو جیب جو بڑی ہے سفید رنگ کی وہ فسی ہوئی ہے پانی کے ریلوں کے اندر اور پانی کیا ہے وہ سمندر لگتا ہے اور اس جیب سے چند گز پیچھے ایک فال ہے جہاں بلکل وہ نیاغرا فالز کی طرح پانی جو ہے وہ نیچے گر رہا ہے اور وہ جیب کا ڈرائیور جو ہے اس کے ساتھ ایک خاتون ہے اور تین چھوٹے بچے ہیں وہ سٹرگل کر رہا ہے جیب کو روکنے کی بچانے کی جس میں وہ کام یاب نہیں ہو رہا اور وہ لہروں کے رحم و کرم پہ ہے ندی کے دونہ طرف اس روین کے دونہ طرف لوگ کھڑے ہیں جو شور مچا رہے ہیں اور اس دوران یہ محب اللہ نامی شخص سب لوگوں کی محنت کرتا ہے کہ آو مل کے ہم پانی میں اتریں اور اس کو بچائیں سب لوگ ریلیکٹنٹ ہیں کیونکہ پانی کا بہاؤ اتنا تیز ہے کہ ایک انسان ایفرٹ ہی نہیں کر سکتا اس پانی میں جا کے اس کو پچانے کی شیر شاٹ موت ہے اور جو گاڑی کے اندر لوگ ہیں جو خاتون ہیں جو بچے ہیں وہ چکو پکار کر رہے ہیں مدد کے لیے اور ان کو نظر آ رہا ہے کہ بہت جلد گاڑی کے اندر پانی آ جائے گا اور وہ گہرے پانی میں ڈوب جائے گی اور وہ موت کی آغوش میں چلے جائیں گے اور یقیناً مجھے یقین کامل ہے کہ اس وقت وہ خدا تعالیٰ سے مدد مانگ رہے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ سے رحم کی مدد مانگ رہے ہیں اور اپنے لیے زندگی کی مدد مانگ رہے ہیں اسی دوران محب اللہ کو خیال آتا ہے کہ لوگ تو شاید مدد نہ کر سکیں یا شاید لوگوں کے بس میں نہیں ہیں اس تیز و تند لہروں کے اندر میرے ساتھ اترنا اور مقابلہ کرنا اس کو فوراں ایک خیال آتا ہے وہ وہاں سے ایک موٹر سائیکل کو بھگاتا ہے اور اپنے گھر پہنچتا ہے اور وہاں وہ اپنا ایکسکویٹر کیونکہ وہاں بیسیک ایک ایکسکویٹر ڈرائیور ہے ایکسکویٹر وہ مشین ہوتی ہے جو زمین کی خدائی کے اندر جو پریسائیس اس خدائی کی جاتی ہے اس کے لیے کام آتی ہے وہ اس کو تیزی سے چلا کے لاتا ہے اور اس سلابی ریلے اس ندی کے اندر اتار دیتا ہے یقیناً وہ موت کو چیلنج کرتا ہے وہ موت کو آواز دیتا ہے اور اس کو کہتا ہے میں تیرا مقابلہ کروں گا اور آج میں ایک دفعہ ان کی جان بچانے کی برپور کوشش کروں گا اس کے بعد جو قسمت جو نصیب اگر میرے قصے میں موت لکھی ہے تو میرا رب مجھے دے گا اگر اس نے میرے ہاتھوں ان کی زندگی بچانی ہے تو وہ ضرور بچائے گا جو جو اس کا ایکسکویٹر اس گاڑی کے قریب آتا ہے اس کے پریشر سے وہ دھکا لگتا ہے اور وہ گاڑی اور اس دھلان کی طرف جانے لگتی ہے اور ایک دفعہ تو ویڈیو میں نظر آتا ہے کہ لگتا ہے کہ شاید وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہو لیکن چونکہ وہ ایک ایکسپرٹ ڈرائیور ہے وہ بڑی کامیابی سے گھما کے ایک اینگل سے لاتا ہے اپنے ایکسکویٹر کو اور بالکل ایک ماں کی طرح جس طرح ماں اپنے بچے کو آغوش ملے وہ اس گاڑی کو اپنے ایکسکوویٹر کی مدد سے جو اس کا وہ آم ہوتا ہے جو خدائی کرتا ہے وہ اس کو سمیٹ کے لپیٹ کے اپنے سینے سے لگاتی ہے جس طرح ایک ماں اپنے بچے کو وہ اس طرح اس کو سمیٹ لیتا ہے اپنے اندر اور آستہ آستہ کرتے کرتے وہ کنارے پہ پہنچ جاتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے پیچھلے دنوں دیکھا پنجاب کے اندر ای ایس پی شہربانوں نے ایک بڑی بہادری کا ایکٹ کیا انہوں نے ایک خاتون کی جان بچائی ایک ایسے موب سے جو بالکل وائلنٹ ہو چکا تھا لیکن وہاں پر میں سمجھتا ہوں کہ ای ایس پی شہربانوں کی ڈیوٹی تھی شی واز ای پولیس آفسر شی وزن ان چارج اف دیٹی ایریا اٹ وز ہر ڈیوٹی کہ اس نے اس خاتون کی جان اپنی جان کو وار کے بچانی تھی یہ اس کے اس کے اس کے اس کے حلف میں تھا اس کی کمیٹمنٹ کے اندر تھا اس کی ڈیوٹی میں تھا اس کی فرائز میں تھا اس کے باوجود ہم نے ان کی بہت عزت افضائی کی پورے چینلز نے انٹریو کیے اور وہ ابھی ہماری نیشن کی سٹار ہے ہم سب ان سے بہت پیار کرتے ہیں اور وہ اس کے قابل ہیں دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ عرشت ندیم نے جیولن کو ایک بہت بڑے فاصلے پر پھینکا اور اس کے بعد انہوں نے گولڈ میڈل دیا اور اولمپک ریکارڈ بنایا وہ پاکستان تشریف لائے ہیں پورے پاکستان کے طول و عرض میں ان کی عزت افضائی ہو رہی ہے ان کی رسپیکٹ ہو رہی ہے ان کو انعامات سے نوازہ جا رہا ہے لیکن یہ ان کا کام تھا ارشد ندیم کو وابڈا نے امپلائی کیا تھا اس کام کے لیے کہ آپ نے کام کوئی نہیں کرنا آپ نے اپنی ٹریننگ کرنی ہے اور جیولن پھنکنا ہے نیزا پھنکنا ہے اس کے بعد پاکستان علم پنکسو اسسوسییشن نے ان کی مدد کی اس کے بعد وہ بیشتر ٹورنمنٹس میں اندر جا رہے تھے تھے یعنی وہ اس کام کے اندر تھے اور اس کام کے اندر ان کی جان کو کوئی خطرہ نہیں تھا ان کی جان کو کوئی رسک نہیں تھا شہربانوں جب وہاں اندر اترین ہیں تو ان کے پاس کم از کم تین چار پولیس کے کانسٹیبلان تھے جن کے پاس آرمڈ ویپنز تھے اسلا تھا ان کے پاس گولیاں تھیں اگر خدا نہ خواستہ کوئی شہربانوں کے اوپر حملہ آور ہوتا تو وہ فائر کر کے ڈائریکٹ یا انڈیریکٹ فائر کر کے اپنی ای ایس پی کی جان بتا سکتے تھے لیکن وہ حب اللہ میں سمجھتا ہوں کہ اس شہربانوں سے بھی بڑا انسان ہے عرشد ندیم سے بھی بڑا ہیرو ہے جو اس پانی کی لہروں میں اگر آپ اس ویڈیو کو دیکھیں تو آپ گھر بیٹھے ہوئے اپنے ڈرینگ رونڈ کے اندر بیٹھے ہوئے اور پانی کی اس تند و تیزی کو دیکھ کیا آپ گھبرا جائیں گے اس نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اپنی جان دے دوں گا لیکن یہ جو جانیں ہیں یہ جو چیخوں کی آوازیں آ رہی ہیں اس کو یہ بھی تو پتا نہیں تھا کہ اندر وہ کون لوگ ہیں اس کو کوئی امید نہیں ہے کہ اس کو کوئی نام ملے گا کوئی اس کی پذیرائی ہوگی اس کو ریسپیکٹ ملے گی اس لمحے اس نے فیصلہ کیا اور اس کے دماغ نے کام کیا اس کے اس کی آپ انسٹنکٹ دیکھیں گے جب اس نے دیکھا کہ لوگوں کے لیے ناممکن ہے مشکل ہے لوگ تیار نہیں ہیں مدد کولو تو وہ بائیک کو بھگا کے اپنے گھر جاتا ہے اور وہاں سے اپنا ایکسکویٹر سٹارٹ کر کے لاتا ہے اور پھر اپنی جان پر کھیل کر رسک لے کے وہ ان کو زندگیاں بچاتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ محب اللہ کو سلام ہے یہ ہے میرا بلوچ بیٹا یہ ہے میرا بلوچ بھائی ہمیں اس پر فقر ہے اور اس نے ہمارے سر فقر سے انچے قدر دیئے ہیں میری ریکویسٹ ہوگی جناب صرف راض بکتی صاحب سے کہ آپ نے اس کو جوب دیئے اور بھی جو کچھ آپ اس کے لئے کر سکتے ہیں وہ کیجئے جو بلچستان کے عمراء ہیں جو عمائدین ہیں میری ریکویسٹ ہوگی کہ ہمارے ٹی وی چینل سے جو وہاں پہ on ground موجود ہیں میرے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم بلوچستان میں وہاں پہنچ کے اس کا انٹرویو کر سکیں یا میرا نہیں خیال کہ وہ اتنا tech savvy ہے کہ کہیں وہ zoom پہ آ کے ہمیں اپنا انٹرویو دے سکیں ہم try کریں گے لیکن میری request ہوگی ان چینل سے جن کی وہاں پہ physical موجود کی ہے کوئٹہ کے اندر وہ جا کے اس کا انٹرویو کریں because میں چاہوں گا کہ پوری قوم کو پتہ لگے کہ وہ جو گھنٹہ ڈیڑھ تھا اس میں اس کے جذبات کیا تھے اس کے feelings کیا تھے جب وہ ایکسکویٹر لے کے پانی کی اندر اترائے تو اس وقت اس کی کیا فیلنگز تھی اس کو کیا لگ رہا تھا اور پانی کی اس کو کیا وائبز اور کیا فیل آ رہی تھی تا کہ یہ جذبہ جو ہے ہماری یوت کے اندر بھی ٹرانسفر کرے ٹرانسلیٹ کرے اور وہ بھی سمجھ سکیں کہ زندگی صرف کھانا پینا ہسنا بولنا نہیں ہے زندگی صرف کسی کا تمسکر اڑانا نہیں ہے زندگی صرف بیٹھ کے یوٹیوب پہ اچھی اچھی ویڈیوز دیکھنا اور لائکز دینا اور کومنٹس دینا نہیں ہے زندگی میں کسی کی خاطر اپنی جان کو دعو پہ لگانا ایک بہت بڑا عمل ہے جس کے لیے بہت حوصلہ چاہیے ہوتا ہے جس کے لیے بہت بڑا عظم چاہیے ہوتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ آج کی ویڈیو جو ہے وہ مہربان بولا کے نام ہے آج کی ویڈیو نتاشا کے اس مسک چیرے کے نام ہے جس کو اب ہماری بہادر سندھ پولیس کپڑے کے اندر دھام کے کوٹ میں لے کے جاتی ہے تاکہ لوگ اس کے چیرے کو زیادہ نہ دیکھیں کیونکہ وہ ایک بہت موڑی ہے محسوس گھرانے کی ہیں کیونکہ وہ ایک بہت بڑے بزنس گروپ کو بلانگ کرتی ہیں یعنی آج یہ ان سے غلطی ہو گئی انشاءاللہ دس پیس دنوں میں وہ نومل لائف گزار رہی ہوں گی کراچی کے اندر مختلف دعوتوں میں مختلف کانفرنسز میں مختلف میٹنگ میں بیٹھ رہی ہوں گی تو ان کا چیرہ جو ہے وہ داغدار اور مسخ نہ ہو لیکن وہ محب اللہ جس نے انسانیت کو بچایا جس نے ہمارے سرف و خرص سے بلند کیے ہمارے پاس کوئی ٹائم نہیں ہے کوئی وقت نہیں ہے کہ ہم اس کا چیرہ ایک دوسرے کو دکھا سکیں آپ سب کی توجہ کا بہت شکریہ اپنے کومنٹس ضرور دیجئے گا آپ کے کومنٹس ہمارے لئے بہت ضرور دیئے ہیں ہمارے چینل کو سبسکرائب اچھی باتیں یہ باتیں جن میں کوئی نہ کوئی میسیج ہے جن میں کوئی نہ کوئی مقصد ہے یہ پورے ملک کے طول و عرض میں ہمارے سب لوگوں میں پھیل سکے آپ سب کی توجہ کا بہت شکریہ کوئی بھی اگر آپ کے بولنے کا حق دبائے تو آپ نے نہیں دبنا یوٹیوب سے آخری مذاکرات کر کے حتمی طور پر انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ہمارا جو مین چینل ہے وہ ڈی مونیٹائز ہی رہے گا اور بار بار انہوں نے یہی بات کی ہے کہ آپ فلسطین کے موضوع پر آواز اٹھاتے ہیں ادھر کی گراؤنڈ ریپورٹنگ کرتے ہیں ریل نمبرز فیکٹس اور فگرز دیتے ہیں اور یہ چیز جو سامراج ہے اس کو پسند نہیں آتی اب اس صورتحال کے اندر نہ ہم ہٹیں گے نہ ہم پریشان ہوگے نہ ہم گھبرائیں گے کیونکہ آپ سب ہمارے ساتھ ہیں ہم آپ کو تین ایکشن پلان دیں گے اور آپ نے ان کو انشاءاللہ اتالہ فالو کرنا ہے سب سے پہلا آپ ہمیں سپورٹ کر سکتے ہیں ہمارے کورسز خرید کے دوسرے نمبر پہ آپ تین ہزار روپے کی سبسکرپشن خرید سکتے ہیں جو ہماری کورسز کو سپورٹ کرتی ہے اور اس تین ہزار روپے کی سبسکرپشن کے عوض آپ کو جتنا بھی ہم کانٹینڈ نیا فلسطین کا شوٹ کریں گے وہ ایکسکلوسیولی ملے گا جو یوٹیوب پہ ہم ہوسٹ نہیں کریں گے وہ پیڈ وال کے پیچھے ہوگا تیسری چیز آپ جو کر سکتے ہیں جو ہمارے ایکزسٹنگ چینلز اور بکیا چینلز ہیں وہ یہاں پہ ڈسپلے ہو جائیں گے ہیدر ڈال دے گا ایڈٹ میں آپ ان کو لائک کریں سبسکرائب کریں بیل آئیکن دبائیں اور ان کو شیئر کریں کسی کو حق نہیں ہے چاہے وہ جتنا مزی طاقتور ہو کسی کی آواز دبائے ای آن کے اوپر ہم نے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے فریڈم آف سپیچ کے لیے وہ چاہے کسی یوٹیوبر کی ہو جسے ہم اختلاف کریں چاہے کسی سیاستدان کی ہو جو اس وقت قیدی بن کے جیل میں بیٹھا ہوئے کیوں؟ چونکہ جب تک میں اور آپ گفتگو کریں گے تب تک طاقتور حلقوں کی مجبوری ہوگی کہ وہ صحیح فیصلے لیں فریڈم آف سپیچ کو ڈیفینڈ کرنا ہمارا فرض ہے یہ اتنا کرٹیکل ہے کہ آپ سوچ نہیں سکتے پچھلے ڈیٹھ سال سے ہمارا یہ یوٹیوب کا سفر شروع ہوا ہے اور اس وقت وہ ایک انتہائی نازک موڑ کے اوپر ہے ہم بار بار آپ کو بتاتے رہے ہیں کہ ہم چینل لاس پر آپریٹ کرتے ہیں یہ انکم جانے سے ہماری آدھی انکم چلی گئی ہے جہاں پہ ہم ٹیم ایکسپینڈ کر رہے ہیں، ریسرچز ایکسپینڈ کر رہے ہیں، ریپورٹرز ایکسپینڈ کر رہے ہیں آپ کے لیے بہتر سے بہتر ایکوریٹ کانٹینٹ بننا چاہ رہے ہیں وہاں پہ اتنی بڑی ڈاز وجی کیوں؟ کیونکہ ہم نے فلسطین کیلئے آواز اٹھائے اور بات کی فائر وال تو ملک میں آ گئی ہے لیکن امریکہ کے اندر بیٹھی یوٹیوب جیسی کمپنی اور فیس بک جیسی کمپنی کریک ڈاؤن پھر بھی کرتی ہیں تو یعنی یہ جو تاثر تھا آپ کو کہ شاید فریڈم آف سویج باہر کے ملکوں میں ایگزسٹ کرتی ہے ان کی بھی بے شمار ریڈ لائنز ہیں اس ریڈ لائن کو توڑنے میں آپ ہماری مدد کیجئے شکریہ