Transcript for:
9:Important Issues of Faith and Good Deeds

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہو نحمده ونسلی لرسوله الكریم اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم رب شرح لی صدری ویسر لی امری وحلو الاقدتم اللسانی یفقه قولی نوما پارا شروع کرتیم اللہ کے نام سے جو بے انتہام حربان نہائیت رحم فرمانے بالا ہے قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لَنُخْرِ جَنَّكَ يَا شُعَيبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعْخَ مِنْ قَرْيَتِنَا مِنْ قَرْيَتِنَا اَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا قَالَ اَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ اس کی قوم کے سرداروں نے جو اپنی بڑائی کے گھونڈ میں مبتلا تھے اس سے کہا کہ اے شعیب ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ تم لوگوں کو ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا شعب علیہ السلام نے جواب دیا کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں ہم اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے ہوں گے اگر تمہاری ملت میں پلٹ آئیں جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے ہمارے لئے تو اس کی طرف پلٹنا اب کسی طرح ممکن نہیں الا یہ کہ اللہ ہمارا رب ہی ایسا چاہے ہمارے رب کا علم ہر چیز پر حاوی ہے اسی پر ہم نے اعتماد کر لیا ربنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق و انت خیر الفاتحین اے ہمارے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر پیغمبروں کی طرح شعب علیہ السلام نے بھی اپنے قوم کو اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دی اور اس قوم میں جو خاص بیماری پائی جاتی تھی ناپ تول میں کمی کرنے کی اس سے رکا لیکن قوم نے سن کر نہ دیا اور خاص طور پر جو ان کے بڑے بڑے لیڈرز تھے وہ بطور خاص شعب علیہ السلام کے سامنے تکبر کرنے لگے اکڑ گئے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اگر تم باز نہیں آوگے اپنی اس تبلیغ سے اس نصیحت سے تو پھر ہم تمہیں اس بستی سے ہی نکال دیں گے اور جو لوگ تیرے ساتھی ہیں ایمان والے ان کو بھی نکال دیں گے تم ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے یاد رکھئے حق کو قبول نہ کرنا تکبر کی علامت ہوتا ہے اور یہاں پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں قَوْلَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِنْ قَوْمِهِ کہ ان کی قوم کے جو متکبرین تھے تکبر کرنے والے تھے یعنی جو بڑے بڑے سردار تھے انہوں نے یہ باتیں کہیں یعنی ان کے جو اشرافیت ہی ان کے جو الیٹ تھے اور یاد رکھئے کہ تکبر کی تعریف بھی یہی کی گئی ہے نا بطر الحق و غمط الناس حق کا انکار اور لوگوں کو حکیر سمجھنا جسے شیطان نے اپنے آپ کو بڑا سمجھا اور آدم علیہ السلام کو جنہیں اللہ سبحانہ وتعالی نے عزت بخشی اپنے ہاتھ سے بنایا ان کو حکیر سمجھا تو انسان جب اپنی لذتوں میں گم ہو کر اپنی خواہشات نفس کی پروی کرتا ہے اپنے لئے ایک خاص لائف سٹائل تیہ کر لیتا ہے کہ مجھے بس اس طرح جینا ہے چاہے وہ حلال ہے حرام ہے جائز ہے یا نجائز ہے تو اس میں پھر وہ کسی کو مداخلت نہیں کرنے دیتا اگر کوئی بھی اس کو نصیحت کرنے کی کوشش کرے تو اس کا شدید ریاکشن سامنے آتا ہے اور وہ اس کا انکار کر دیتا ہے تو جب ان لوگوں نے دیکھا کہ شعب علیہ السلام کی جو تعلیم ہے وہ ان کی خواہشات کے بالکل برقص ہے تو انہوں نے اس کو قبول نہیں کیا ہم سب کو بھی غور کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جب دین کی کوئی بات ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتی تو ہم اس کو ایک دم ٹھکرا دیتے ہیں اس کا انکار کر دیتے ہیں کہ یہ تو میں نہیں کر سکتی چاہے دل میں کہیں یا زبان سے کہیں یا عملی رویہ یہ کرنا درست نہیں اسی طرح آپ دیکھیں کہ جو متقبرین ہیں وہ حق بات کہنے والوں کی عزت بھی نہیں کرتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سعید بن عبادہ کی عادت کے لیے جا رہے تھے وہ بیمار ہو گئے تھے تو راستے میں آپ پر گزر ایک ایسی مجلس پر ہوا جس میں مسلمان اور مشرقین اور یہودی سب ہی کٹھے بیٹھے ہوئے تھے یعنی ایک شہر کے رہنے والے لوگ تھے رشتہ داریاں بھی تھے تعلقات بھی تھے تو وہاں مل کے بیٹھے ہوئے تھے انہی کے اندر عبداللہ بن عبی اور عبداللہ بن رواحہ بھی موجود تھے جب اس مجلس کے پاس سے آپ گزرے تو جس سواری پر آپ تھے اس کی وجہ سے تھوڑا سا غبار اٹھا تو عبداللہ بن عبی نے اپنے ناک اپنی چادر رکھ لی اور تکبر کا سا مظاہرہ کیا اور کہا ہم پر یہ گرد نہ اڑایا کرو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں رکھ کر انہیں سلام کیا اور تھوڑی دیر بعد سواری سے نیچے اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلانے اور پران پڑھ کر سنانے لگے یہ دیکھ کر عبداللہ بنو بھائی کہنے لگا ارے بھائی جو بات آپ کہہ رہے ہیں اگر یہ سچ ہے تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں لیکن آپ ہماری مجلسوں میں آ کر ہمیں تکلیف نہ دیا کریں ہم اپنی باتوں میں لگے ہوتے ہیں آپ ہمیں یہ سنانے لگتے ہیں آپ اپنے ٹھکانے پہ واپس چلے رہیں اور جو آدمی وہاں آئے آپ کے پاس بس آپ ان کو بتایا کریں آپ ہمارے پاس آ کے نہیں بتائیں جو آپ کے پاس آئے بس اپنی تبلیغ وہیں تک رکھیں اب دیکھیں کہ کس قدر تکلیف دے جملے تھے یہ اللہ کا کلام سن کر کس طرح کا ریاکشن تھا جو عبداللہ بن عبیشہ کرنا تھا اس پر عبداللہ بن رواحہ کہنے لگے آپ ہماری مجالس میں ضرور تشریف لائے کریں یعنی وہ آپ کو ویلکم کرنے لگے کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں اسی طرح وہاں بیٹھے مسلمانوں اور مشرقین اور یہود کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہونے لگی کچھ بحث مباعثہ ہونے لگے اور قریب تھا کہ آپس میں ایک دوسرے سے لڑائی جگڑا ہو جاتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسلسل خاموش کراتے رہے جب وہ لوگ پرسکون ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر سعاد بن عبادہ کی طرف چلے گئے تو آپ دیکھئے کہ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسی کیسی مخالفتوں کیسے کیسے تنظر کیسی کیسے باتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے اپنا کام جاری رکھا لیکن آپ جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق اتنا ولند تھا کہ یہی عبداللہ بن عبید جو ساری زندگی ایک مسئلہ بنا رہا جب وہ فوت ہو گیا اور اس کے بیٹے نے آپ سے کہا کہ آپ جنازہ پڑھا دیں اور آپ نے اس کے لئے اپنی قمیص بھی بھیجی اس کو کفن پہنانے کے لئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنازے کے لئے تشریف لے گئے تو اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا کہ استغفر لہم اولا تستغفر لہم خواہ ان کے لئے استغفار کرو یا نہ کرو اگر آپ ستر بار بھی کریں گے تو اللہ ان کو نہیں بخشے گا ان کے عمال کی وجہ سے پھر بھی آپ نے فرمایا کہ میں ستر سے زیادہ بار کر دوں گا آپ نے جنازہ پڑھا دیا اخلاق دیکھئے آپ اتنی باتیں بنانے والوں کے ساتھ آپ کی یہ مہربانی آپ کے دل میں لوگوں کی نجات کے لئے ایسی تڑپ اور اتنا احساس کہ چلے یہ بھی بخشا جائیں لیکن اس کے بعد آپ کو ونا کیا گیا کہ آج کے بعد آپ کسی منافق کا جنازہ نہیں پڑھائیں گی تو صحابہ جو تھے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تھے کہ آپ کس کا جنازہ پڑھاتے ہیں جس کا آپ پڑھائیں گے ہم بھی ساتھ شریک ہو جائیں گے اور اگر آپ نہیں پڑھاتے تو ہم بھی نہیں جائیں گے اس میں تو یہ ہے تکبر کا انجام اور اس میں آپ دیکھیں کہ عبداللہ بن عبی کا کردار اور عبداللہ بن رواحہ کا کردار آگے آپ دیکھیں گے کہ انسانوں میں سے کچھ خبیص ہوتے ہیں کچھ طیب ہوتے ہیں کچھ روحیں نیک ہوتی ہیں کچھ روحیں بد ہوتی ہیں جو نیک روحیں ہوتی ہیں انہیں نیکی سے محبت ہوتی ہے اور جو بد روحیں ہوتی ہیں وہ نیکی سے نفرت کرتی ہیں اللہ سبحانہ وتعالی ہمیں نفس کے شر سے بچائے اس کی قوم کے سرداروں نے جو اس کی بات ماننے سے انکار کر چکے تھے آپس میں کہا اگر تم نے شعب علیہ السلام کی پیروی قبول کر لی تو برباد ہو جاؤ گے مگر ہوا یہ کہ ایک دہلا دینے والی آفت نے ان کو آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اندھے پڑے کے پڑے رہ گئے جن لوگوں نے شعب علیہ السلام کو جھٹلایا وہ ایسے مٹے کہ گویا کبھی ان گھروں میں بسے ہی نہ تھے شعب علیہ السلام کے جھٹلانے والے ہی آخر کار برباد ہو کر رہے سردار کہہ رہے تھے قوم کو کہ شعب علیہ السلام کے پیچھے چلو گے تو برباد ہو جاؤ گے لیکن نتیجہ کیا ہوا اس کے بالکل برعکس برباد وہ ہوئے جو ان کو جھٹلا رہے تھے اور شعب علیہ السلام یہ کہہ کر ان کی بستیوں سے نکل گئے اے میری قوم میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دیئے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کر دیا اب میں اس قوم پر کیسے افسوس کروں جو حق قبول کرنے سے انکار کرتی ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو یعنی پہلے ان کو آزمایا اس خیال سے کہ شاید وہ آجزی پر اتر آئیں پھر ہم نے ان کی بدھالی کو خوشحالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور برے دن آتے ہی رہے ہیں آخر کار ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی ان آیات سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی تکلیف کے ساتھ بھی آزماتا ہے اور نعمت کے ساتھ بھی آزماتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ جب انسان اچھے حال میں ہوتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اللہ مجھ سے راضی ہے اس کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ میری نافرمانی کی وجہ سے اللہ مجھ سے ناراض بھی ہو سکتا ہے اب یہاں کیا ہوا کہ لوگ دنیا میں مس تھے کہ اچانک ان کی پکڑ ہو گئی اور انہیں خبر تک نہ تھی اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے یعنی اللہ کی اطاعت کرنے سے دنیا کا نقصان نہیں ہوتا وہ تو ہر ایک پر آزمائش آتی ہے کمی بیشی سب کے ساتھ ہوتی ہے لیکن جو لوگ اللہ کی اطاعت کرتے ہیں فرمبرداری کرتے ہیں اللہ سبحانہ وتعالی ان پر اپنی برکتیں نازل فرماتا ہے لوگوں کے اکثریت نے کیا کیا ولیکن کذب ہو لیکن انہوں نے جھٹلایا لہٰذا ہم نے اس بری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہو گئے کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آ جائے گی جبکہ وہ سو رہے ہوں کہ یعنی رات کو بھی انسان کو ڈرنا چاہیے کیونکہ بعض وقت آفات اچانک آ جاتی ہیں ہم نے دیکھا ہوگا کہ ہر روز خبروں میں پڑھتے ہیں کہیں لینڈ سلائیڈنگ ہو گئی ہے کہیں پر زلزلہ آ گیا ہے کہیں کوئی طوفان آ گیا ہے کہیں کچھ اور مصیبت آ گئی ہے کہیں کوئی فتنہ فساد ہے قتل و غارت ہے امن سے رہنے والے لوگ یا کئے ایک مصیبتوں میں آ جاتے ہیں تو اگر اللہ سبحانہ وتعالی ہمیں امن کی رات دے تو اس میں بھی اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ہم پر کوئی تکلیف یا آزمائش نہ آ جائے اور اللہ سے توبہ استخوار کرتے رہیں یا انہیں اتمنان ہو گیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکا یک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جبکہ وہ کھیل رہے ہوں کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو اور کیا ان لوگوں کو جو سابق اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں اس عمر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں مگر وہ غفلت برتے ہیں اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں کہ اگر انسان زیادہ دن غفلت میں رہے تو پھر دل سخت ہونا شروع ہو جاتا ہے جو ہی دل کے اوپر کچھ ذرا سی بھی گرد آئے تو فوراں رخ کریں نیکی کے کاموں کی طرف تاکہ دل روشن ہو جائے اور جب دلوں پہ مہر لگ جاتی ہے تو کیا ہوتا ہے پھر وہ کچھ نہیں سنتے فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ یہ قومیں جن کے قصے ہم آپ کو سنا رہے ہیں ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے پھر اسے ماننے والے نہ تھے دیکھو اس طرح ہم انکار کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاس احد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا نا فرمان تھے وہ لوگ پھر ان قاموں کے بعد جن کا ذکر پیچھے گزر چکا ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا مگر انہوں نے بھی ہماری نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا پھر دیکھو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے فرعون میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں کائنات کے رب کی طرف سے آیا ہوں میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں پیغمبر ایسے ہی ہوتے اللہ کے نام سے جو بات کسی کو بتاتے ہیں وہ بالکل سچ بتاتے ہیں اس لئے قرآن مجید کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث ہیں ان میں سے جو صحیح ہیں اور آتھینٹک ہیں ان کو ماننا بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح ہم قرآن مجید کو مانتے ہیں میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے کھلی نشانی لے کر آیا ہوں لہٰذا تم بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو فیرون نے کہا اگر تو کوئی نشانی لیا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر موسیٰ علیہ السلام نے اپنا اسحا پھینکا اور یکا یک وہ ایک جیتا جاگتا اشدہا تھا اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا اس پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا یقیناً یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے تمہیں تمہاری زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے اب کہو کیا کہتے ہو پھر ان سب نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اسے اور اس کے بھائی کو انتظار میں رکھئے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجئے میری لوگوں کو جمع کرنے والے کہ ہر ماہر فن جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں چنانچہ جادوگر فیرون کے پاس آ گئے انہوں نے کہا اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلح تو ضرور ملے گا نا فیرون نے جواب دیا ہاں اور تم مقرب بارگاہ ہوگے پھر انہوں نے موسیٰ سے کہا تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں موسیٰ نے جواب دیا تم ہی پھینکو انہوں نے جو اپنے انشر پھینکے تو نگاہوں کو مسور اور دلوں کو خوب زدہ کر دیا اور بڑا ہی زبردست جادو بنا لائے ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو اشارہ کیا کہ پھینک اپنا اصہ اس کا پھینکنا تھا کہ آن کی آن میں وہ ان کے اس جھوٹے تلسم کو نگلتا چلا گیا اور دیکھیں کہ یہاں موسیٰ علیہ السلام کی ایک حکمت تظر آتی ہے انہوں نے کہا کہ موسیٰ آپ پہل کریں گے یا ہم پہل کریں تو انہوں نے کیا کہا تم ہی پھینکو اور پھر انہوں نے اپنے جو کچھ کرشمیں دکھانے تھے وہ سب دکھا دیئے اور اس کے بعد پھر موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا پھینکا جس نے سب کو نگر لیا تو اس میں ایک بہت بڑی حکمت کی بات تھی وہ یہ کہ موسیٰ علیہ السلام یہ دیکھنا چاہتے کہ کرتے کیا ہیں اور اگر موسیٰ علیہ السلام پہل کرتے تو ان جو عصا تھا وہ ساپ بن کے ادھر ادھر گھومتا لوگ ڈر تو جاتے لیکن وہ بات تو نہ بنتی جس مقصد کے لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس چیز کی دعوت دی تھی اب آپ دیکھیں کہ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ پیچھے ہونے کی وجہ سے ہماری باری بعد میں آنے کی وجہ سے ہم اپنے آپ کو کمزور یا کم تر سمجھنے لگتے ہیں تو بعض وقت تھوڑا پیچھے ہو کر دوبارہ اقدام کرنا وہ زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے بنسبت اس کے کہ انسان ہمیشہ آگے ہی آگے رہے اب دیکھیں کہ جب کبھی گاڑی چل رہی ہوتی ہے اور آگے کوئی رکاوٹ آجائے اور گاڑی بند ہو جائے تو پھر کیا کرنا پڑتا ہے تھوڑا سا پیچھے ہو کر پھر آپ اس رکاوٹ کو پار کر سکتے ہیں تو زندگی میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم فرنٹ لائن پر ہوتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم بیک بنچز پر ہوتے ہیں تو جس حال میں اللہ رکھے جہاں پر رکھے اللہ کے فیصلوں پر راضی ہونا چاہیے کبھی ہماری بات ماننی جاتی ہے اور کبھی ہمیں کسی کی بات ماننی ہوتی ہے کبھی ہمیں آگے جگہ مل جاتی ہے اور کبھی ہمیں پیچھے بیٹھنا پڑتا ہے تو اپنے دل کو ان مختلف مقامات تو راضی رکھنا کہ کوئی بات نہیں پھر کیا ہوا کوئی بات نہیں کیونکہ اس وقت انسان اگدم دل چھوٹا کر بڑھتا ہے اور بہت دیر اسی غم میں مبتلا رہتا ہے کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہو گیا حالانکہ اس میں بھی خیر ہوتی ہے تو موسیٰ علیہ السلام نے یعنی خود ہی آپٹ کیا کہ تم لوگ پہلے پھینکو اور پھر موسیٰ علیہ السلام نے ہر چیز کا جائزہ لے لیا کہ کیا کچھ لائے ہیں آخر کتنا ہیں اور اس کے بعد جب دیکھا کہ ہاں ہے تو کافی لیکن اللہ کی حکم سے جب اسا پھینکا تو سب صفائی ہو گئی اس طرح جو حق تھا وہ حق ثابت ہوا اور جو کچھ انہوں نے بنا رکھا تھا وہ باطل ہو کر رہ گیا فیرون اور اس کے ساتھ ہی میدان مقابلہ میں مغلوب ہوئے بلکہ الٹا زلیل ہو گئے اور جادوگروں کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے انہیں سجدے میں گرا دیا وہ ایمان جاگ اٹھا جو فطرت میں تھا کہنے لگے ہم نے مان لیا رب العالمین کو آمنہ برب العالمین رب موسیٰ و حارون وہی جو رب ہے موسیٰ اور حارون کا علیہ السلام قال فرعون آمن تم بھی قبلہ ان آذن لکم فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لے آئے اس سے پہلے کہ میں تمہیں اجازت دوں میری اجازت کے بغیر یقیناً یہ کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں نے اس دار السلطنت میں کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بے دخل کر دوں ایک دم الزام تراشی اچھا تو اس کا نتیجہ اب تمہیں معلوم ہوتا ہے میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پہ چڑھا دوں گا سوچیں کتنی اتنی سخت دھم کی تھی فرعون کی طرف سے ان سارے جادوگروں کے خلاف جو فرعون کے کہنے پر حاضر ہوئے تھے اپنے سارے کرتب دکھانے اور اسے انام مانگ رہے تھے اور سب کچھ وہ ڈیل ہو رہی تھی لیکن انہوں نے کیا جواب دیا قَالُوا إِنَّا إِلَى رَبِّنَا وُنْقَلِبُونَ بے شک ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں تو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آ گئیں تو ہم نے انہیں مان لیا رَبَّنَا أَفْرِغَ لَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ اے ہمارے رب ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرم بردار ہوں اس موقع پر آپ دیکھئے کہ جب جان کو خطرہ تھا تو انہوں نے کونسی دعا مانگی صبر کی دعا مانگی یا اللہ ہمیں ایسی طاقت اتا کر جس کے ذریعے ہم وہ کچھ برداشت کر سکے جس کی فیرون ہمیں دھمکی دے رہا ہے یاد رکھئے سبر کی خوف کے موقع پر بھی ضرورت ہوتی ہے تاکہ انسان کے دل جمع رہے کیونکہ یہ دھمکی بہت بڑی دھمکی تھی اتنی بڑی دھمکی تھی جسے انسان برداشت نہیں کر سکتا اپنے آپ کو وہاں رکھ کے دیکھئے کوئی آپ کو یہ کہے کہ آپ کو ہاتھ پاؤں کٹ دیا جائے گا اور آپ کو سولی پر لٹکا دیا جائے گا اگر آپ اس کام سے باز نہ آئے تو واقعی کیا کیفیت ہوگی لیکن انہوں نے اپنے نفسوں کو اللہ سے صبر کی دعا کی ہمارے ہاں عام طور پر صبر کسی مسئیبت کی آ جانے کے بعد کیا جاتا ہے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب لیکن یہاں پر ابھی مسئیبت آئی نہیں وہ دکھائی دے رہی ہے سامنے لیکن اس کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ دعا کر رہے ہیں تیار رکھیں آئندہ کبھی خوف ہو کبھی کسی چیز کی پریشانی ہو کہ کہیں یہ نہ ہو جائے کہیں وہ نہ ہو جائے تو اس وقت بھی اللہ سبحانہ وتعالی سے صبر مانگیے اور دعا بھی کیسے کی کہا ربنا افرغ لینا صبرہ اللہ ہم پہ صبر انڈیل دے افراق کہتے ہیں کہ برطن میں جو کچھ ہو وہ سب کا سب انڈیل دیا جائے کچھ بھی باقی نہ بچے مثلا آپ جگ سے پانی ڈال دیں گلاس میں تو پورے کپ پورا پانی گلاس میں ڈال دیں تو اس کو افراق کہتے ہیں کہ یا رب جتنا بھی صبر ہوتا ہے اس سارا ہمارے اندر ڈال دے اور جب دل صبر سے بھر جائے تو پھر دل کے اندر کیسی کیسی قوت ہوگی کوئی بزدلی کا نام نہیں ہوگا پھر ایسے خوف کا مقابلہ کرنے کی سکت آ جائے گی کہیں بھی ایسی کوئی کیفیت آئے کہ جس میں آپ خوف کا شکار ہوئے گبرہ ہڑ کہ یارب ہمارے قدم جمع دے ہمیں صبر عطا کر دے اور پھر ساتھ انہوں نے ایک اور دعا بھی مانگی وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ اور ہمیں اسلام کی حالت میں خوت کرنا انہیں صرف اپنے اوپر اعتماد نہیں کیا کہ ہم تو اب ایمان لے آئے ہیں اور یہ اگر ہمیں مار دے گا تو ہم مومنی مریں گے پھر بھی کہا کہ اللہ ہمیں اسلام پر ہی رکھنا کیونکہ اب انہیں زندگی کی کوئی امید نہیں رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی پھر جب صبر آ گیا تو فیرون کی دھمکی کی بھی پرواہ نہیں رہی اب ان کی زندگی کا مقصد کیا تھا کہ آخرت میں نجات ہو جائے اسلام پر موت آئے اور جو کچھ اللہ کے پاس انام و اکرام ہے اس کو حاصل کر سکیں اس سے کیا ہوا فرعون ہی زلیل ہوا اور اس کی دھم کی باطل ہو گئی یاد رکھئے سبر سب سے زیادہ وسیع اور بہترین نعمت لہٰذا آج کی اس دعا کو پکڑ لیں ربنا افرغ علینا سبر مثلا یہاں آنے میں کوئی مشکل پیش آ رہی ہے کوئی رکاوٹ آ رہی ہے کوئی چھوڑا ہے ربنا افرغ علینا سبر ابو سید خدری کہتے ہیں کہ انسار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مال کا سوال کیا تو آپ نے ان کو دے دیا انہوں نے پھر مانگا آپ نے پھر دے دیا حتیٰ کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا سارا ہی ختم ہو گیا تو آپ نے فرمایا میرے پاس جو بھی مال ہوگا میں تم سے ہرگز بچا کے نہیں رکھوں گا وہ تمہیں کو دوں گا تمہیں میں بانٹوں گا لیکن جو شخص سوال سے بچنے کی کوشش کرے گا اللہ اسے بچا لے گا اسے کسی کا محتاج نہیں کرے گا جو بینیازی اختیار کرے گا اللہ اسے بینیاز کر دے گا اور جو صبر کرے گا اللہ اس کو صبر عطا کر دے گا اب یہاں صبر کیا ہے سوال سے بچنا اور کسی کو کوئی ایسا عطیہ توفہ نہیں دیا گیا جو صبر سے بہتر اور وسیطر ہو تو آپ دیکھیں کہ جہاں جلدوازی کی کیفیت دل میں آ جائے اور جہاں ہم تھوڑ دلیں ہونے لگے جہاں آپ کو کوئی کچھ کہہ دے تو آپ کو دل چاہے کہ بس میں ابھی اس کو جواب دوں اور سارے کام چھوڑ کے آپ فون اٹھائیں آپ کے دل میں جو غبار بھرا اس کو نکالنے کی سوچیں اس وقت بھی یہ دعا مانگے ربنا افرغ لینا سبران اللہ آپ جتنا سبران وہ سارا میرے اندر ڈال دے تاکہ میرا دل کابو میں آجائے اور میں اس غلط کام سے بچ جاؤں تو اللہ ضرور مدد کرے گا ہر موقع پر جہاں اپنا آپ کمزور دکھائی دے کہ ہم اپنا مقابلہ خود بھی نہیں کر سکتے خود کو کنٹرول نہیں کر سکتے وہاں اللہ سے سبر کی دعا کیجئے اور یاد رکھئے کہ جب انسان سبر مانگتا ہے اور سبر کرنے لگتا ہے تو اللہ کی مدد آ جاتی ہے وَصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور پھر اللہ کی مدد کیسے آتی ہے جیسے جنگِ بدر میں آئی تھی اِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِن فَوْرِهِمْ ہَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَتِ آلَافِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُصَوِّمِينَ کیوں نہیں اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر دشمن تم پر فوراً چڑھائے تو تمہارا رب خاص نشان رکھنے والے پر پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا یعنی اللہ کی مدد آئے گی لیکن کب ان تسبرو و تتقو تم سے بھی تو کچھ چاہیے نا اور وہ صبر ہے اور تقوی ہے تم صبر کرو گے مدد آئے گی اور پھر آخرت میں عجر عظیم انما یوف فالصابرون عجرہم بغیر حساب صبر کرنے والوں کو ان کا عجر بے حساب اس لئے روزے کی جزا انلیمیٹڈ ہے اللہ نے چھپا کے رکھی ہے کیونکہ اس میں سارا دن انسان کو صبر کرنا ہوتا ہے کھانے پینے سے خواہشات کی تکمیل سے اور فضول باتوں سے بھی ہر طرح کی ایسی گفتگو سے بھی بچنا ہوتا ہے جس سے روزہ خراب ہوتا ہے فیرون سے اس کی قوم کے سرداروں نے کہا کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو یوں ہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھے فیرون نے جواب دیا میں ان کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور ان کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا تاکہ ان کو اپنی کنیزیں بنا لیں ہمارے اقتدار کی گریفت ان پر مضبوط ہے تکبر کے جملے موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کیا استعین باللہ وصبر اللہ سے ودد مانگو اور صبر کرو زمین اللہ کی ہے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور آخری کامیابی انہی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں متقین اس کی قوم کے لوگوں نے کہا تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں یعنی ہمارے حال کب بدلیں گے ہمیں اس ظلم سے کب نجات ہوگی اس نے جواب دیا قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو حلاق کر دے اور تمہیں زمین میں خلیفہ بنائے پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ہم نے فرعون کے لوگوں کو کئی سال تک قہت اور پیداوار کی کمی میں مبتلا رکھا کہ شاید ان کو ہوش آئے مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب اچھا زمانہ آتا تو کہتے کہ ہم اسی کے مستحق ہیں فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا حَذِهِ ہم اس کے مستحق ہیں we deserve it اور جب برا زمانہ آتا تو موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو اپنے لئے منحوس قرار دیتے حالانکہ در حقیقت ان کی نحوست تو اللہ کے پاس تھی مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے یعنی ان سے برا شغول لیتے حالانکہ یہ بچگونی کے خود ہی اہل تھے مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے یاد رکھیں کہ جب انسان کے پاس کوئی بھی نعمت آئے تو اس کو سب سے زیادہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور فوراں یہ سوچنا چاہیے مجھ پر اللہ کی رحمت ہوئی یہ برکت ہے یہ اس کی انعائت ہے یہ اس نے دیا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ شکر ادا کرنے کی بجائے خود کو نعمت کا حقدار سمجھتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ تو ہمیں ملنی چاہیے تھے یہ تو ہمارا رائٹ تھا یا اپنا کمال سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ ہماری کوششوں کی وجہ سے بعض لوگ کہتے ہیں انما اوتیتہو علا علمن یہ سب کچھ تو میرے علم کی وجہ سے مجھے ملا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں بل ہی یہ فتنہ یہ تو فتنہ ہے ولیکن اکثرہم لایالمون لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں قارون نے بھی تیئے کہا تھا نا کہ مجھے یہ سب کچھ میرے علم کی بنا پر ملا ہے اور پھر جب لوگ یہ سمجھتے ہیں نا کہ یہ ہماری کوشش کا نتیجہ ہے ہمارے علم کی وجہ سے ہماری ذہانت کی وجہ سے ہماری کسی قوت اور ہماری کسی بڑائی کی وجہ سے یہ سب کچھ ہمیں مل رہا ہے تو یہ بہت ہی ناپسندیدہ خیال ہے ہمیں جو کچھ بھی ملا ہے قرآن مجید میں آتا ہے وَمَا بِكُم مِّن نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ تمہارے پاس کوئی بھی جو نعمت ہے کوئی بھی سب اللہ کی طرف سے ہے اس نے بن مانگے ہمیں بہت کچھ دیا ہے آپ دیکھیں کہ کیا آپ نے مانگا تھا کہ آپ کی نگاہ صحیح کام کرے اور وہ جس طریقے پر ہماری آنکھ کام کرتی ہے وہ سسٹم سارا ہم نے مانگ کر لیا تھا اللہ سے بین مانگیں ملا نا یہ بہت سی نعمتیں جنہیں ہم شمار بھی نہیں کر سکتے اللہ ہی کی دی ہوئی ہیں لہٰذا وہ نعمت جسے ہم نعمت سمجھتے نہیں اور وہ نعمت جسے ہم بطور نعمت دیکھتے ہیں ان سب مواقع پر ہمیں اللہ کا ہی شکر گزار بننا چاہئے اور کبھی اس کو اپنے سے منصوب نہیں کرنا چاہئے کہ یہ میری وجہ سے ہوا ہے پھر اسی طرح ان کا حال کیا تھا کہ جب ان کو کوئی مصیبت آتی تو موسیٰ علیہ السلام کو فالِ بد قرار دیتے حید رکھیں یہ بھی ایک بڑی مشکل ہے اکثر لوگ مسئیبت آنے کی وجہ نہیں جان پاتے لہٰذا اس وجہ کو دور بھی نہیں کرتے بہت سے لوگوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ جب ان کی زندگی میں کوئی بھی مسئلہ آتا ہے تو ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ مسئلہ پیدا کیوں ہوا ہے اور جس کو یہی سمجھ نہ آئے کہ مسئلہ پیدا کیوں ہوا ہے وہ اس کا حل کیسے نکالے گا تو پھر پھر اس کی پریشانی بڑھتی رہے گی یہ بھی بہت بڑی نعمت ہے کہ انسان پر کوئی تکلیف آئے کوئی مشکل آئے کوئی آزمائش آئے کوئی امتحان ہو اور اس کو یہ سمجھ آ جائے کہ یہ اس وجہ سے ہوا ہے اور پھر وہ یا تو اگر کوئی گناہ ہے تو اس پر توبہ استغفار کرے اور اگر کوئی ظاہری سبب نظر آ رہا ہے تو اس کا علاج کرے اب دیکھیں کہ آپ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں آپ اس کے ادھر ادھر کی بات بتاتے ہیں اصل مرضی نہیں بتاتے تو وہ بھی پھر آپ کو ایسی دوا دیتا ہے تو اس سے بیماری گھٹنی کے بجائے اور بڑھ جاتی ہے ایک دو میں ایک ریپورٹ پڑھ رہی تھی کہ اس میں بغیرہ فگرز دیئے ہوئے تھے امریکن ڈاکٹرز کے بارے میں کہ ان کے کتنے لوگ صرف ڈاکٹرز کی غلط تشخیص کی وجہ سے مرتے ہیں جن کی تعداد روڈ ایکسیڈنٹس میں مرنے والوں سے بھی کہیں زیادہ ہے موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن انسانوں کی وہ کونسی غلطیاں ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے انسانوں پر مشکل آ جاتی ہے اس کو جاننا بھی ایک علم ہے اور اس کے لیے صرف ظاہری علم نہیں اس کے لیے حکمت درکار ہے اس کے لئے گہرا فہم درکار ہے اس کے لئے اللہ کی توفیق درکار ہے ہم میں سے ہر شخص اپنے بارے میں سوچو کسی دوسرے کے لئے نہیں ہم میں سے ہر شخص سوچے کہ اس کی زندگی میں کوئی چھوٹا مسئلہ ہے یا بڑا مسئلہ ہے وہ کیوں پیش آ رہا ہے اس کی بجا کیا ہے دوسروں کو صرف مورد الزام نہ ٹھہرائیں اپنے اندر کی کمی کو تاہی کو بھی پہچانے اللہ سے وہ شعور مانگے وہ سمجھ مانگے کہ اللہ سبحانہ وتعالی آپ کو اپنی غلطی دکھائے تاکہ آپ کے پارٹ پر اصلاح ہو جائے جب آپ اصلاح کے لئے قدم اٹھا لیں گے تو انشاءاللہ دوسری طرف سے بھی اصلاح ہو جائے گی جو شخص اپنی اصلاح نہیں کر سکتا اپنے آپ کو ٹھیک نہیں کر سکتا وہ کیوں توقع رکھتا ہے کہ دوسرا ٹھیک ہو جائے آپ تو اپنے آپ کو کنٹرول کر نہیں سکتے نہ اپنے غصے کو نہ اپنی فریسٹریشن کو اور آپ دوسرے سے توقع رکھتے ہیں کہ وہی سیدھا ہو جائے اور وہی بہت اچھا انسان بن جائے یہ کیسے ممکن ہے یاد رکھئے اللہ سے جب ہم علم مانگتے ہیں اور فہم مانگتے ہیں تو اس کا بھی مانگیں یعنی صرف کتابی علم نہیں مانگے کیونکہ جب ہم کہتے ہیں ربی زدنی علم تو ہمارے ساتھ کتابیں آ جاتی ہیں اور ہم بہت سی کتابیں پڑھ لیں بہت سی لیکچر سن لیں اس سے سب کچھ نہیں آتا اللہ سبحانہ وتعالی بہت سا علم اور سمجھ انسان کو امتحان میں ڈال کر دیتا ہے اگر انسان کی دل کی آنکھیں کھلی ہوں تو اس کو سب نظر آتا ہے وہ پڑھ سکتا ہے اپنی ان آنکھوں سے کہ اس پر آنے والی مسئیبت کیوں آئی ہوئی ہے اللہ تعالی اس کو کیا سکھانا چاہتے ہیں اس کا سبب کیا ہے اور اس کا حل کیا اس سے نکلنے کا راستہ کون سا ہے ورنہ وہ میز کی طرح جیسے وہ پزل ہوتی ہے اس میں سے پزل ڈی رہتا ہے اس کو راستہ نہیں ملتا لوگوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ ان پر جو قہد سالی یا تکلیفیں جو ان کے گناہوں کی وجہ سے آئی ہیں یا اللہ سبحانہ وتعالی ان کو سکھانا چاہتا ہے کچھ اور کیا سکھانا چاہتا ہے وہ جب اس سے کچھ نہیں سیکھتے تو یہ انسان کے لئے دنیا کے لئے بھی بدبختی اور آخرت کے لئے بدبختی کا باعث بن جاتا ہے سعید کہتے ہیں کہ میں سلمان کے ساتھ اپنے ساتھی کے ساتھ کندہ کے ایک مریض کی عادت کے لئے گیا جب وہ مریض کے پاس آئے تو انہوں نے کہا خوش ہو جاؤ مومن کے مرض کو اللہ کفارہ اور اپنی رضا کا سبب بنا دیتا ہے اور فاجر کا مرض ایسا ہے جیسے اونٹ کہ اس کے مالک نے اسے باندھیا اور اس کے بعد کھول دیا اس نے نہیں پتا باندھا کیوں اور کھولا کیوں کیا مقصد تھا اس بیماری کا لیکن مومن کو سمجھ آ جاتی ہے کہ مجھ پر یہ جو بیماری آئی ہے یہ کیوں آئی ہے اس کی اصل وجہ دیکھیں ہم غلط وجوہات تلاش کرتے رہتے ہیں دوسروں میں اور جگہوں پر اپنا کیا قصور ہے میرا میں نے کہا غلطی کی اور پھر جب اس سے نکلتا ہے تو وہ خوش ہو جاتا ہے کہ اللہ نے میرے اس کے بدلے گناہ معاف کر دیئے ہیں اور دعائیں کرتا ہے کہ اللہ اس تکلیف کو اپنی رضا کا سبب بنا دے اور اس کے ذریعے درجات کی بلندی عطا کر تو ایک دعا ہے اللہ مجھے چیزوں کی حقیقت ویسے ہی دکھا دے جیسے وہ ہے نہ میں اپنے آپ کو دھوکہ دوں نہ کسی اور کو دھوکے میں رکھوں سب سے بڑا دھوکہ وہ ہے جو انسان خود اپنے آپ کو دیتا ہے اپنے گناہوں کی تعویلیں کر کر کے اور دوسروں کے بارے میں بدگمانی کر کر کے اس کی وجہ سے انسان پھر اس گناہوں کی دلدل سے باہر نکل ہی نہیں سکتا اسے نہیں سمجھ آتی یہ اونٹ کیوں باندھا گیا اور کیوں کھول دیا گیا انہوں نے موسیٰ سے کہا کہ تُو ہمیں مصور کرنے کے لیے خواہ کوئی نشانی لے آئے ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں آخر کار ہم نے ان پر طوفان بھیجا ٹڈڈی دل چھوڑے سرسریاں پھیلائیں مہنڈک نکالے خون برسایا یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں مگر وہ سرکشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے جب کبھی ان پر بلا نازل ہو جاتی تو کہتے اے موسیٰ تجھے اپنے رب کی طرف سے جو منصب حاصل ہے اس کی بنا پر ہمارے حق میں دعا کر خود نہیں دعا کرتے خود آجزی نہیں کرتے اللہ تعالیٰ مصیبت میں مبتلا کرتے تکلیف ہے تاکہ بندہ گڑ گڑائے روئے معافی مانگے اللہ کی طرف رجوع کرے لیکن ایسے متکبرین خود دعا کرنے کے بیٹے کسی کو کہہ دیتے ہیں ہم مشکل میں تو ہمارے لئے دعا کر دو اللہ تو چاہتا ہے تم اللہ کے سامنے سجدے میں گرو اور تم ابھی بھی نہیں اس کے آگے جھکتے اور صرف دوسروں پر ہی رکھتے ہو کہ وہ تمہارے لئے دعائیں کرتے رہیں دوسروں کی دعائیں بھی اس وقت قبول ہوتی ہیں جب بندہ اپنے لئے خود بھی دعا کر رہا ہو اور وہ کہتے کہ اب اگر تم ہم سے یہ بلاں ٹلوا دوگے تو ہم تمہاری بات مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ بھیج دیں گے مگر جب ہم ان پر سے اپنا عذاب ایک وقت مقرر تک کے لیے جس کو وہ بہرحال پہنچنے والے تھے ہٹا لیتے تو وہ یکا یک اپنے اہد سے پھر جاتے بھول جاتے کہ انہوں نے کیا وعدہ کیا تھا تب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کر دیا کیونکہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلا دیا تھا اور ان سے بے پرواہ ہو گئے تھے اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے یعنی بن اسرائیل اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا یعنی فلسطین میں بسا دیا اس طرح بن اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدہ خیر پورا ہو گیا کیونکہ انہوں نے صبر سے کام لیا تھا سبحان اللہ یہ ہے صبر کی جزا اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے بنی اسرائیل کو کہا گیا تھا موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے کہلوایا گیا اے قوم وستائینو باللہ وصورو اللہ سے مدد مانتے رو اور صبر کرو ابھی انتظار کرو اللہ سے اچھا گمان رکھ کے اچھے دنوں کا انتظار کرو اچھے دن بھی آئیں گے تو پھر چونکہ انہوں نے صبر کیا تو اللہ نے اپنا وعدہ پورا کر دیا صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ اپنا وعدہ پورا کرتا ہے لہٰذا انسان کسی بھی تک تکلیف میں مایوس نہ ہو اللہ کی رحمت سے اور یہ وعدہ کیا تھا ان کے ساتھ کہ اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کرے گا اور تمہیں نجات دے گا بنی اسرائیل کے ساتھ اللہ سبحانہ وتعالی نے ایک اور مقام پر بھی یہ بات فرمائی وَأَوْفُوا بِعَهْدِي وَأُفِي بِعَهْدِكُمْ وَيَّا يَفَرْحَبُونَ تم میرا اہد پورا کرو میں تمہارا اہد پورا کروں گا اور صرف مجھے سے تم ڈرو یاد رکھئے کہ صبر سے اللہ کا ساتھ ملتا ہے اللہ سبحانہ وتعالی عجر بھی عطا کرتے ہیں اور مدد بھی دیتے ہیں اور فیرون اور اس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کر دیا گیا جو وہ بناتے اور چڑھاتے تھے بدی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر ان کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی کہنے لگے اے موسیٰ ہمارے جیب کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو یہ لوگ جس طریقے کی پیروی کر رہے ہیں وہ تو برباد ہونے والا ہے اور جو عمل وہ کر رہے ہیں وہ سرہ سر باطل ہے پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود تمہارے لئے تلاش کرو یہ کیسے لوگ ہوتو حالانکہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں دنیا بھر کی قوموں پر فضیلت بخشی آج آپ دیکھیں بنی اسرائیل کے طرح ہم بھی اس فضیلت کو کوئی فضیلت نہیں سمجھتے اور اس دین کی قدر نہیں کرتے اور اس پر شکر ادا نہیں کرتے کہ اللہ نے ہمیں یہ نعمت عطا کی ہے وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فیرون والوں سے تمہیں نجات دی تھی جن کا حال یہ تھا کہ تمہیں سخت عذاب میں مبتلا رکھتے تھے تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی قتل تو فیرونی کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے کہا آزمائش میری طرف سے میں نے تمہیں اس حال میں ڈالا تھا تمہارے عامال کی وجہ سے یاد رکھئے جب مسلمانوں پر کوئی غیر قوم مسلط ہو جائے تو بظاہر یہو لگتا ہے نا کہ یہ دوسروں کی سازش ہے اور وہ آکر مسئیبت میں مبتلا کر رہے ہیں ان کو لیکن یہ دراصل اللہ کی طرف سے امتحان ہوتا ہے اور اس کی حکمت کو بھی سمجھنا چاہیے کہ امتحان کیوں آیا ہے اور جو ابھی تک امن میں ہیں ان کو بھی سبق سیکھنا چاہیے کہ ہم اللہ کی طرف رجوع کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آفیت میں رکھے ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو تیس راتوں کے لیے کوہ سینہ پر طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کر دیا اس طرح اس کے رب کی مقرر کردہ مدت پورے چالیس دن ہو گئی موسیٰ علیہ السلام نے چلتے ہوئے اپنے بھائی حارون سے کہا کہ میرے پیچھے تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ٹھیک کام کرتے رہنا اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلنا جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچے یعنی موسیٰ علیہ السلام تو اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو انہوں نے التجا کی اے رب میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں رب بیاری نے اے میرے رب مجھے دکھا انظر علیک میں تجھے دیکھوں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں قال الانترانی کہا تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہاں ذرا سامنے پہاڑ کی طرف دیکھ اگر وہ اپنی جگہ پر قائم رہ جائے تو تمہیں جو ضرور دیکھ لے گا چنانچہ اس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے جب ہوش آیا تو بولے سبحانکہ پاک ہے تو تب تو علیک میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں کہ میں نے ایسا مطالبہ ہی کیوں کیا حالانکہ وہ ان کا شوق تھا کہ اللہ کو دیکھیں اور دیکھیں کہ جو کسی سے محبت کرتا ہے اس کو دیکھنے کا شوق رکھتا ہے ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا چاہتے ہیں صحابہ کو دیکھنا چاہتے ہیں جن جن سے امام کہتے ہیں ہمیں کبھی خواب میں ہی نظر آ جائیں کچھ لوگ بقاعدہ کچھ وظیفے کرتے رہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو خواب میں نظر آئیں بہت شوق ہوتا ہے محبت ہے نا اس لئے شوق ہے دیکھنے کا اسی طرح کچھ لوگ کو اللہ کے دیدار کا بھی بڑا شوق ہوتا ہے خاصل خاص لوگ جو تھے وہ ہر کام اللہ کے چہرے کی خاطر کرتے ہیں مشکل سے مشکل کام کر لیتے ہیں کہ کل ہمیں یہ سعادت نصیب ہو جائے تو موسیٰ علیہ السلام بھی اللہ سے محبت کرتے تو ان کو شوق تھا اللہ کو دیکھنے کا تو انہوں نے جو دل میں خواہش تھی وہ اس کا اظہار کر دیا اللہ پاک میں آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں اور یہ حمد کیسے ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اس سے پہلے تو کبھی ایسا مطالبہ نہیں کیا لیکن ہوتا ہے یہ نا انسان کو جب ایک نعمت ملتی تو انسان چاہتا ہے ایک تھوڑی سے اور بھی مل جائے ایک قدم اور آگے ایک حمد ہو جاتی ہے جرت ہو جاتی ہے تو اپنے مطالبے کا اظہار کر لیا لیکن بعد میں کہا اللہ میں توبہ کرتا ہوں میں نے ایسی بات بھی کیوں کی اور سب سے پہلے ایمان لانے والا میں ہوں قال یا موسیٰ انی استفیتکا الان ناس برسالاتی وبکلامی فرمایا اے موسیٰ میں نے تمام لوگوں پر ترجیح دے کر تجھے منتخب کر لیا کہ میری پیغمبری کرے اور مجھ سے ہم کلام ہو بس جو کچھ میں تمہیں دوں اسے لے لو اور شکر بجالو فَخُذْ مَا آتَئِتُكَ وَكُمْ مِنَ الشَّاکِرِينَ اب دیکھئے کہ جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے منع کردہ چیز سے منع ہو گئے اور توبہ کر لی اور اللہ کی پاکی بیان کی تو اس کے عوض خیرِ کثیر ملی ان کو یعنی اس مطالبے کے بعد بے ہوشتہ ہوئے گرے پھر اللہ نے اٹھایا اور انہوں نے توبہ کی فرمایا کہ میں نے تجھے چن لیا ہے اپنا رسول بنا لیا ہے جو میں تمہیں دے رہا ہوں اس کو لے لو اور اس پر شکر ادا کرو جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کسی خیر کے کام کے لیے آپ کو چن لے تو اللہ کا شکر بجا لائیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے خاص شکر ادا کریں اس شکر میں خاص صدقہ کریں خاص نفل پڑھیں یعنی کوئی بھی آپ کام کرنا چاہیں اگرچہ شکرانے کے نفل نہیں ہوتے بطور خاص کوئی سجدہ شکر ہوتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خوشی کی کوئی خبر ملتی تھی تو آپ سجدہ کرتے تھے شکر کے طور پر اس کے بعد ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو ہر شعبہ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلوں کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی یعنی اللہ سبحانہ وتعالی نے ان کو جو دینا تھا پہلے فرمایا کہ لے لو اس کو اور پھر یہ سب کچھ لکھ کر دیا اور ان سے کہا کہ ان ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں انقریب میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھاؤں گا اللہ سبحانہ وتعالی نے جو احکامات دیئے ان کی طرف اشارہ ہے کہ تم ان کو لے لو اور ان میں سے جو بہترین ہیں ان کی پیروی کرو یاد رکھئے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے سارے احکاماتی بہترین ہیں لیکن کچھ احکامات دوسروں کے نسبت زیادہ بہترین ہیں یعنی سب ہی اچھے ہیں لیکن کچھ خاص احکامات ہیں تو ہمیشہ یاد رکھئے کہ اللہ نے جو بھی ہمیں دیا ہے وہ اچھا ہی ہے لیکن اس میں سے کچھ بہت ہی اچھا ہے مثلا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر تم صدقہ ظاہر کر کے دو تو یہ بھی اچھی بات ہے اور اگر اسے چھپا کے دو اور محتاج کو دو تو یہ تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے تو اب آپ دیکھئے بہت سے لوگ اس کنفیجن میں رہتے ہیں دکھا کے دیں چھپا کے دیں کیسے دیں کیسے نہ دیں تو اب دیکھئے کہ سامنے دینے میں بھی خیر ہے لیکن اگر انسان خفیہ صدقہ کرے تو اس کا عجر زیادہ ہے اور کبھی سامنے دیکھا اگر نیت کنٹرول میں تو سامنے دینے سے یہ کہ وہ اوروں کو بھی خیال آ جاتا ہے تو آپ دوسروں کے لئے ایک اچھی مثال قائم کر دیتے ہیں اسی طرح قرآن مجید سے ہمیں پتا چلتا ہے پیچھے آپ چھٹے پارے میں پڑ چکے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو بدگوئی پہ زبان کھولنا پسند نہیں مگر یہ کہ جس پر ظلم کیا گیا اس کو کچھ اجازت ہے لیکن بعد میں کیا فرمایا کہ ماف کر دو درگزر کرو اللہ ماف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے پھر اسی طرح بدلہ لینے کی ہمیں اجازت ہے اگر کوئی ہم پر ظلم کرے لیکن صبر کرنا زیادہ بہتر ہے قرآن مجید میں آتا ہے وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُلَائِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِّن سَبِيلٍ اور بے شک جو شخص اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد بدلہ لے لے تو یہ وہ لوگ ہیں جن پر کوئی الزام نہیں کوئی راستہ نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان کر دیا کہ صبر اور معاف کرنا زیادہ بہتر ہے وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ بِلَا شُبَا جو شخص سبر کر جائے اور ماف کر دے تو یقیناً یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے لیکن عام طور پر ہم ماف کرتے نہیں ہیں دل میں ضرور رکھ لیتے ہیں اور اس کی تعویل بھی کوئی نہ کوئی کر لیتے ہیں کہ اس وجہ سے نہیں ہم ماف کر رہے بھلے وجہ کوئی بھی ہو پھر بھی ماف کر کے درگزر کر کے اپنے تعلقات کی اصلاح کر لینا اللہ کو زیادہ پسند ہے یاد رکھئے کہ اقل مند لوگ ہمیشہ اچھی اور بہتر چیز کو ترجیح دیتے ہیں مثلاً آپ بزار گئے ہیں کچھ خریدنے لگے ہیں کیا خرید کے لے آئیں گے؟ ماں جا کے کچھ دیکھتے ہیں گے؟ کونسے اپل زیادہ اچھے ہیں؟ یہ اچھے ہیں یا وہ اچھے ہیں؟ خوشبو سنگ کے دیکھتے ہیں پھر رنگ دیکھتے ہیں پھر آگے پیچھے دیکھتے ہیں پھر بھاو پوچھتے ہیں تو اقل مند لوگ سوچ سمجھ کے ہی کچھ خریدتا ہے جو بہترین چیز ہوتی ہے وہ لاتا ہے اور پھر آگے ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں دیکھو کتنی کم قیمت میں کتنا اچھا لے کر آئیں یعنی اس سے اپنی اقل مندی ثابت کرتے ہیں اور جو نا سمجھ ہوتا ہے آپ بعضوں کا سرمنٹس کو پیسے دیتے ہیں جاؤ یہ چیز خرید لو وہ اتنی بیکار ردی اٹھا کے لے آتے ہیں میں تھے اس سے اچھا تھا میں خود ہی چلی جاتی تو یاد رکھئے اقل مند لوگ ہمیشہ بہتر کو ترجیح دیتے ہیں پرانے مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اللذین يستمعون القول فیتبعون احسنہ اولائک الذین هداهم اللہ وَأُولَائِكَهُمْ أُلُو الْأَلْبَابِ وہ جو کان لگا کے بات سنتے ہیں پوری ترجیح سے سنتے ہیں کیا بتایا جا رہا ہے کیا کہا جا رہا ہے اور پھر اس میں سے سب سے اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں وہ ہی نہیں کہتے کہ اس کی بھی تو اجازت ہے نا وہ ہی ہے لیکن بہتر کیا ہے یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور یہی اقل مند ہیں عللالباب ہیں تو اپنی زندگی میں ایک اصول بنائیے کہ اگر کوئی بد اخلاقی کا مظاہرہ کر رہا ہے تو مجھے کیا کرنے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنے مجھے اس جیسا نہیں بننا کہ یہ وہ شخص ہے جو اچھی باتیں بھی سنتا ہے اور بری بھی تو وہ اچھی باتیں کرتا ہے اور بری باتوں سے رک جاتا ہے اور بری باتوں کو آگے نہیں لے کے جاتا سبحان اللہ یعنی بعض اگر تھا تھا نا آپ کسی مجلس میں ہوتے ہیں اچھے اچھے باتیں بھی ہوئیں اور کچھ وہاں ناپسندیدہ چیز بھی ہو گئی جب آپ گھر جاتے ہیں مثلاً آپ یہاں سے جاتے ہیں دورہ قرآن کے بعد تو آپ سے گھر والے پوچھتے ہیں کیسا رہا آج کچھ نہ پوچھو میں تو آج اکڑی گئی ایسی کرسیاں رکھی ہوئی ہیں جن پر دو گھنٹے گزارنا بڑا ہی مشکل اور کچھ لوگ وہ کیا جواب دیتے ہیں اللہ میری تو ہنج روح سرشار ہوگی میں نے تو اللہ کا یہ حکم سنا مجھے تو فلاوات میں اس چیز کا جواب مل گیا اور وہ اچھی اچھی باتیں شیئر کرتے ہیں یہ دونوں روئیے پائے جاتے ہیں پھر اسی پر ہمارے اچھا یا کم اچھا ہونے کا انسار ہے کہ ہم کس کٹیگری میں ایک بات کرنے والا کہاں پہنچ جاتا ہے اور دوسرا کہاں جا گرتا ہے ایک شکر گزار ہے دوسرا صرف خامیاں دیکھتا ہے ایک شخص صرف اچھی چیزوں پر نظر رکھتا ہے اور دوسرا صرف کانڈے دیکھتا ہے تو بات یہ ہے کہ اچھے لوگ اقل مند لوگ کہیں پر بھی ہو صرف قرآن کی مجلس میں نہیں کہیں پر بھی ہو وہاں سے اچھی چیزیں اٹھا کے لاتے اچھی چیزیں چن کے لاتے اس مجلس کی اچھی باتیں یاد رکھتے ہیں اور پھر انہی کو آگے شیئر کرتے ہیں اور بری باتوں سے اجتناب کرتے ہیں پھر اس کا یہ معنی بھی کیا گیا کہ وہ قرآن سنتے ہیں اور اس کے علاوہ اور باتیں بھی سنتے ہیں لیکن وہ پیروی قرآن ہی کی کرتے ہیں سبحان اللہ ہے نہیں علم تو بہت سارے ہیں حکمت کی باتیں بھی بہت لوگ کرتے ہیں اقوال زرین اور وزڈم کی باتیں اور وزڈم گروز بھی بہت سے ہیں ہاں سب ٹھیک ہے اپنی جگہ لیکن جو بات اللہ کی ہے وہ اللہ ہی کی ہے اور وہ اس کو سب پر ترجیح دیتے ہیں یہ سب پر ٹاپ پر ہے یہ ان کے فوکس میں ہے ایسے بندوں کے لیے خوشخبری ہے فَبَشِّرِ عِبَادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ اَحْسَنَا میرے بندوں کو خوشخبری دے دیجئے جو کان لگا کے بات سنتے ہیں پھر اس میں سے سب سے اچھی کی پیروی کرتے ہیں اس کو فالو کرتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور وہ دوسروں سے شیئر بھی کرتے ہیں موسیٰ علیہ السلام کو یہی ہدایت دی گئی تھی کیونکہ وہ اخلاق کی بلندیوں پر ہوتے ہیں پیغمبر اور وہ عظیمت کی راہ اختیار کرتے ہیں رخصت کی نہیں اب دیکھیں کہ بہت سے فقی احکامات ایسے ہیں جن کو جان کر آپ کو رخصت کے پہلو دین میں ملتے ہیں کہ اس کی اجازت ہے یہ کر سکتے ہیں مجبوری میں یہ کیا جا سکتا ہے لیکن جو صاحب ایمان اور عقل مند لوگوں تہبو رخصتوں کی بجائے کس میں نظر رکھتا کہ زیادہ بہتر کیا ہے عظیمت کس میں زیادہ عجر کس میں ہے کون سی راہ زیادہ بہتر ہے اور وہ اختیار کرتا ہے اور یہ اس کے عقلمند ہونے کی علامت ہوتی ہے پھر فرمایا میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں کبھی اس پر ایمان نہ لائیں گے اگر سیدھا راستہ ان کے سامنے آئے تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ٹیڑا راستہ نظر آئے تو اس پر چل پڑیں گے اس لیے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے بے پروائی کرتے رہے ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھٹلایا اور آخرت کی پیشی کا انکار کیا اس کے سارے عامال زائے ہو گئے اللہ اکبر کیا لوگ اس کے سوا کچھ اور جزا پاسکتے ہیں کہ جیسا کریں ویسا بھریں یہاں بھی ایک بڑی اہم بات کی گئی ہے اور وہ یہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اپنی آیات سے ان لوگوں کو پھیر دوں گا جو زمین میں نہق تکبر کرتے ہیں تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تکبر اور بے سبرہ پن علم سے محروم کر دیتا ہے انسان کو اللہ کی آیات سے دور کر دیتا ہے ہم نے جب اپنے ماسٹرز میں پہلے دن کی کلاس اٹینڈ کی تو ہمارے استاد نے ایک بہت اچھی بات کہی اور مجھے آج تک یاد ہے کہ علم جو ہے وہ شرم کرنے اور تکبر کرنے سے زائع ہو جاتا ہے اس دن میں نے اصول بنایا تھا کہ جو بات مجھے سمجھ نہیں آئے کہ میں بغیر جج کے پوچھ لوں گی استاد سے کیونکہ بعض اکت سوال ہوتا ہے یہ کوئی اچھی بات ہم شیئر کر سکتے ہیں لیکن ہم کہتے ہیں ہاں یہ لوگ کیا کہیں گے پتہ نہیں ٹھیک ہے کہ غلط ہے ٹھیک ہے کہ غلط ہے اگر غلط ہوگی تو بتا دیا جائے کہ غلط ہے کیونکہ یہ بھی ایک تکبری کی ایک قسم ہے نا کہ ہم چھوٹا نہیں بننا چاہتے کہ کوئی ہمیں کچھ کہہ دے گا یا پھر ساتھ جھجک بھی شامل ہو جاتی ایک اور کسی بزرگ نے کہا کہ جو علم سیکھنے کی زلک پر ایک گھڑی سبر نہ کر سکے وہ جہالت کی زلط میں ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گا باز وقت ایسا ہوتا ہے کہ آپ سیکھ رہے جاتے ہیں آپ کو ڈانٹ پڑ جاتی ہے باز وقت کوئی اور آپ کو کچھ کہہ دیتا ہے تو پھر آپ کہتے ہیں چھوڑو آج کے بعد میں نہیں جا رہی تو آپ نہیں جا رہے علم کی مجلس میں تو کیا ہوگا لا علم رہ جائیں گے وہ خیر جو دوسرے تکلیف اٹھا کے حاصل کر رہے ہیں آپ اس سے محروم ہو جائیں گے نقصان کس کا ہے اپنا ہی تو یاد رکھئے ہمارے اندر جو کمزوریاں نفس کی اور ہمارے دلوں کی نجاستیں یہ بعض اوقات قرآن کے حقائق کو سمجھنے نہیں دیتی جس طرح قرآن پڑھتے ہوئے ہم پاکیزگی کا احتمام کرتے ہیں ظاہری پاکیزگی کا اسی طرح دل بھی جن کے پاکیزہ ہوتے ہیں اس میں سے وہ اس کو خالی کر لیتے ہیں جیسے پہلے میں نے بات کی کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے اپنے جو پری کنسیوڈ آئیڈیاز ہیں ان کو نکالنے کی ضرورت ہے کھلے دل سے کھلی آنکھوں سے اس کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے جب یہ سمجھ میں آتا ہے ورنہ اللہ سبحانہ وتعالی ایسے دلوں کو جو گندگی سے بھرے ہوئے ہیں قرآن میں غور و فکر سے روک لیتا ہے قرآن ان کے دلوں تک نہیں اترتا جب دلوں تک نہیں جاتا تو پھر عمل بھی نہیں بدلتا اب کیا ہوا موسیٰ علیہ السلام کے پیچھے اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچڑے کا پتلا بنا لیا جس میں سے بیل کسی آواز نکلتی تھی کیا انہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملے میں ان کی رہنمائی کرتا ہے مگر پھر بھی انہیں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے پھر جب ان کی فریب خردگی کا تلسم ٹوٹ گیا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ در حقیقت وہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے کیا کہنے لگے اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ کیا اور ہم سے درگزر نہ کیا تو ہم برباد ہو جائیں گے ادھر سے موسیٰ علیہ السلام غصے اور رنج میں بھرے ہوئے اپنے قوم کی طرف پلٹے آتے ہی انہوں نے کہا بہت بری جانشینی کی تم لوگوں نے میرے بعد کیا تم سے اتنا سبر نہ ہوا کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کر لیتے اعجل تم امر ربکم کس بات کی جلدی تھی مجھے آنے دیتے میں تمہارے لیے ہدایت لے کر آتا تم اس پر چلتے تم نے میرے پیچھے سے ایک اور چیز کو اپنا معبود بنا لیا اور یہ سب کس وجہ سے ہوا جلد بازی کی وجہ سے اعجل تم امر ربکم تم اپنے رب کی حکم سے آگے بڑھنا چاہتے تھے یاد رکھئے جلد بازی قابل مزمت فیل ہے دو چیزیں ہوتی ہیں ایک ہوتی ہے اجلا اور ایک ہوتی ہے سرعہ سرعہ کہتے ہیں تیزی سے کوئی کام کرنے کو یعنی اول وقت میں کام کرنا اور اجلا ہوتا ہے وقت سے پہلے ہی کر دینا یعنی کسی چیز کا وقت آنے سے پہلے اس کی طرف چلے جانا یہ اجلت کہلاتا ہے یہ قابل مزمت ہے اور سرعت ایک کام کو اول وقت میں کرنا اور یہ قابل تعریف ہوتا ہے یاد رکھئے جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا التعنی من اللہ والعجلت من الشیطان تحمل مزاجی اللہ کی طرف سے ہے انسان تھنڈے دل سے کام ہو کے آرام سے سکون سے کام کرے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے آپ دیکھئے کہ جب مثلا کلاس ختم ہوتی ہم اتنی دیر بیٹھے رہتے ہیں اور جب ہمیں گھر جانا ہوتا تو ہم کس قدر جلدی بچا دیتے ہیں دوسروں کو دھکے دینے لگتے ہیں پش کرتے ہیں آپ دیکھیں سب نہیں جانا ہے سب نہیں نکلنا ہے یہاں تو نہیں بیٹھے رہنا لیکن اگر انسان ذرا سے انتظار کرے کہ پہلے یہ نکل جائے پھر میں نکلتا ہوں گھڑی دیکھتے رہیں اتنی دیر لگی کچھ زیادہ دیر نہیں لگے گی اتنی دیر میں آپ کچھ پڑھ لیں کچھ ذکر کر لیں مسکراتے رہیں کسی کو سلام کر دیں مگر کسی کو تکلیف نہ دے ہر ہاتھ اور زبان سے کسی اور کو پریشانی نہ ہو لیکن ہماری جلدبازی بعض اوقات ہمیں مسئیبت میں ڈالتی ٹرافک جو بلوک ہوتی ہے اور بعض اوقات وہ رستے روک کے کھڑے ہو جاتے ہیں یہ جلدبازی کی وجہ سے ہوتے ہیں ایکسیڈنٹس کس وجہ سے ہوتے ہیں جلدبازی کی وجہ سے ہوتے ہیں اور دوسری طرف سستی نہیں اول وقت میں کام کرنا جب وقت ہو جائے اور اس وقت اس کام کو اول وقت میں کر لینا وائس اجر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا عامال میں کون سا عمل سب سے افضل ہے آپ نے فرمایا نماز کو اس کے اول وقت پہ ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن غسل جنابت کیا غسل تو سب ہی کرتے لیکن خاص سر پر غسل جنابت کا ذکر اس لیے ہے کہ ظاہر ہے کہ غسل جنابت ایک خاص عمل کے بعد کیا جاتا ہے یعنی انسان اپنی دنیا میں تھا اپنی لذتوں میں تھا اور پھر اس نے اللہ سبحانہ وتعالی کے لئے عمل کرنے میں جلدی کی کس طرح کہ غسل کیا پھر نماز کے لئے گیا اور سب سے پہلے پہنچا وہاں نا تو اس نے گویا ایک اونٹ کی قربانی کی جو شخص دوسری گھڑی میں گیا اس نے گویا گاہے کی قربانی کی جو تیسری گھڑی میں گیا اس نے سینگ والے ایک دمبے کی قربانی کی جو چوتھی گھڑی میں گیا اس نے گویا ایک مرگی قربان کی جو پانچ میں گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک انڈا اللہ کی راہ میں دیا پھر جب امام خطبے کے لیے نکل آتا ہے تو فرشتے ذکر سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں ریجسٹر بند ہو جاتے ہیں اور نام نہیں لکھے جاتے تو یہ وقت پہ جانا یعنی ٹائم ہو گیا آزان ہو گیا اب آپ بیٹھے ہیں سستی کریں اچھا ابھی تو بڑا لمبا خطبہ ہوگا میں ذرا آدھا ٹائم گھر پہ ہی گزار لوں نہیں جب کسی کام کا وقت ہو جائے تو اس میں ٹال مٹول نہ کریں یہ سستی اچھی نہیں ہوتی یہ ناپسندیدہ ہوں لیکن ابھی وقت ہوا ہی نہیں اور آپ اس سے پہلے ہی کرنے لگ دیں تو اس کا نقصان ہوتا ہے مثلا چھوٹی سی مثال بڑی عید کے دن قربانی کب کرنی چاہیے جب نماز پڑھ لیتا ہے تو بعض خواتین ماشاءاللہ بہت افیشنٹ ہوتی ہیں عمر جو ہی نکلے نماز کو پیچھے سے قربانی کروا دی یہ میک شور کیا ہی نہیں کہ نماز ہوئی ہے کہ نہیں ہوئی یہ ہے اجلت اب وہ قربانی ہی نہیں وہ تو خالی صدقہ ہے آپ کا تو اس کو اجلت کہتے ہیں کہ ابھی ٹائم ہی نہیں ہو اور آپ پہلے سے ہی وہ کام کر کے بیٹھ گئے جیسے روزہ سارا دن رکھا اور ابھی افطار ہوا نہیں تو آپ کہتے ہیں میرا خیال ہے ہو گیا چلو کھاؤ کھاؤ یہ عجلت ہے سارے دن کے روزے کا ثواب گیا اس طرح کی چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے اسی طرح کہیں جا رہے ہیں کچھ معاملہ کریں جلدی نہ مچائیں کیونکہ جلدی مچانے سے دوسرے گھبرا جاتے ہیں اور بعض اوقات کام صحیح ہونے کے بجائے غلط ہو جاتا ہے اور تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی حارون کے سر کے بال پکڑ کے اسے کھینچا حارون نے کہا میری ماں کے بیٹے ان لوگوں نے مجھے دبا لیا اور تریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے میں ان کو کتنا سمجھاتا کیسے سمجھاتا پس تو دشمنوں کو مجھ پہ ہسنے کا موقع نہ دے یعنی یہ بھی میرے خلاف تھے آپ نے بھی آگے مجھ پہ چڑھائی شروع کر دی اور اس ظالم گروہ کے ساتھ مجھے شامل نہ کر میں ان کے ساتھ نہیں تھا قال رب غفر لی والی اخی اللہ مجھے بخش دے اور میرے بھائی کو بھی بخش دے وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكْ اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر دے وَأَن تَأَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ اور تو سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے جواب میں ارشاد ہوا جن لوگوں نے بچڑے کو معبود بنایا وہ ضرور اپنے رب کے غزب میں گرفتار ہو کر رہیں گے اور دنیا کے زندگی میں زلیل ہوں گے جھوٹ گھڑنے والوں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں اور جو لوگ ورے عمل کریں پھر توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں تو یقیناً توبہ اور ایمان کے بعد تیرا رب درگزر اور رحم فرمانے والا ہے غلطی تو ہوئی جائے گی لیکن توبہ سے معافی بھی مل جائے گی انشاءاللہ پھر جب موسیٰ علیہ السلام کا غصہ تھنڈا ہوا تو اس نے وہ تختیاں اٹھا لیں جن کی تحریر میں ہدایت اور رحمت تھی ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ہدایت اور رحمت کس کے لیے؟ جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس نے اپنے قوم کے ستر آدمیوں کو منتخب کیا تاکہ وہ اس کے ساتھ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر حاضر ہوں جب ان لوگوں کو ایک سخت زلزلے نے آ پکڑا تو موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا اے میرے رب آپ چاہتے تو پہلے ہی ان کو اور مجھے ہلاک کر سکتے تھے کیا آپ اس قصور میں جو ہم میں سے چند نادانوں نے کیا تھا ہم سب کو ہلاک کر دیں گے یہ تو آپ کی ڈالی ہوئی ایک آزمائش تھی جس کے ذریعے سے آپ جسے چاہتے ہیں گمراہی میں مبتلا کر دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ہدایت بخش دیتے ہیں ہمارے سر پرست تو آپ ہی ہیں انت ولینا فخفر لنا پس تو ہمیں بخش دے ورحمنا اور ہم پر رحم فرما وانت خیر الغافرین اور آپ سب سے بڑھ کر معاف کرنے والے ہیں آپ دیکھئے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی ناراضگی سامنے آنے کے باوجود موسیٰ علیہ السلام پیچھے نہیں اٹھے اپنا مدعا بیان کیا اور بخشش کی درخواست کی بہت زیادہ ہم سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے یا ہمارے ساتھیوں سے یہ کچھ اس وقت ہم اس پر چپ ہو جاتے ہیں کبھی موڈ آف کر لیتے ہیں کبھی دعا نہیں مانگتے ہیں بہت دعائیں کر لیں کوئی فائدہ نہیں ہو نہیں آپ دیکھئے کہ کتنے خوبصورت انداز میں وہ التجائیں کر رہے ہیں اور آپ سب سے بڑھ کر معاف کرنے والے ہیں آپ ہمیں بھی معاف کر دیں یہ کچھ نادانوں نے ایسی غلطی کی جس کی وجہ سے آپ ہم سب کو نہ پکڑیں کیسا خیرخواہ ہوتا ہے پیغمبر اپنی قوم کا وَقْتُبْ لَنَا فِيهَا ذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَا اور ہمارے لئے اس دنیا کی بھلائی بھی لکھ دیجئے وَفِي الْآخِرَةِ اور آخرت کی بھی اِنَّا هُدْنَا اِلَيْكَ ہم نے آپ کی طرف رجوع کیا توبہ کی جواب میرشاد ہوا سزا تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اور اسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھ دوں گا جو نافرمانی سے پرہیس کریں گے زکاة دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے تو اللہ کی رحمت کس کے لیے للذین يتقون ویؤتون الزکاة یعنی جو اللہ کا تقوی اختیار کریں اور تذکیہ کی ربش اختیار کریں مال کا بھی تذکیہ کریں اپنے نفسوں کا بھی کریں بس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے جس پیغمبر نبی امی کی پیروی اختیار کریں یہاں پر بنی اسرائیل کے تذکرے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفت بتائے گی امی بتائے گی کیونکہ بنی اسرائیل امیوں کو کچھ سمجھتے نہیں تھے اللہ سبحانہ وتعالی نے انہی میں رسول بھیجا اور اس کا یہاں لقب امی بتایا گیا کہ تم ان کو کمتر سمجھتے تھے دیکھو اللہ نے ان کو کیسی شان عطا کی تو یہ رحمت اس کو ملے گی جو نبی امی کو مانے گا جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے اور ودی سے روکتا ہے ان کے لئے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جھکڑے ہوئے تھے کیسے کیسے آپ کی صفات بیان کی تاکہ لوگ آپ کی طرف مائل ہوں لہٰذا جو لوگ ان پر ایمان لائے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان کی حمایت اور مدد کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو ان کے ساتھ نازل کی گئی ہے وہی فلاح پانے والے ہیں قل یا ایوہ الناس کہہ دیجئے اے لوگو انی رسول اللہ علیہ کم جمعہ میں تم سب کی طرف یقیناً اللہ کا رسول ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت قیامت تک کے لئے آپ دیکھئے باقی پیغمبر صرف اپنے قوم کے لئے تھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سارے انسانوں کے لئے رہتی دنیا تک کے لئے اس رب کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اللہ لہو ملک السماوات والارد جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے لا الہ الاہو اس کے سوا کوئی الہ نہیں یحی و یمیت وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی امی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے اور پیروی اختیار کرو اس کی لالکم تحت دون تاکہ تم ہدایت پا جاؤ موسیل سلان کی قوم میں ایک ایسا گروہ بھی تھا جو حق کے مطابق ہدایت کرتا اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا تھا اللہ سبحانہ وتعالی ان کی تعریف بیان کر رہے ہیں اور ہم نے اس قوم کو بارہ بھرانوں میں تقسیم کر کے انہیں مستقل گروہوں کی شکل دی تھی اور جب موسیٰ علیہ السلام سے اس کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اس کو اشارہ کیا کہ فلان چٹان پر اپنی لاتھی مارو چنانچہ اس چٹان سے یکا یک بارہ چشمیں پھوٹ نکلیں اور ہر گروہ نے اپنے پانی لینے کی جگہ متین کر لی کس طرح منظم کر دیا تھا موسیٰ علیہ السلام نے اپنے قوم کو ایک اچھے لیڈر کی یہی خوبی ہوتی کہ وہ اپنی قوم کو اپنے فالورز کو اپنے ٹیم کو منظم کرتا ہے ہم نے ان پر بادل کا سایا کیا اور ان پر من و سلوہ اتارا کھاؤ وہ پاک چیزیں جو ہم نے تمہیں بخشی مگر اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا وہ تو ہم پر ظلم نہیں تھا بلکہ اپنے آپی پر ظلم کرتے رہے یعنی اللہ کی بات کو جو بدل دیں وہ اپنے اوپر ہی ظلم کرتے ہیں اور آپ دیکھیں کہ بات بدل کے خود پر ہی ظلم کیا یعنی جب انہوں نے اللہ کے قول کو تبدیل کیا جو کہ آسان تھا کرنے میں تو اس کو چھوڑ دیا لہذا نتیجہ کیا ہوا کہ انہیں پھر بعد میں مشکت کا سامنا کرنا پڑا یاد کرو وہ وقت جب ان سے کہا گیا تھا کہ اس بستی میں جا کر بس جاؤ اور اس کی پیداوار سے اپنے حسب منشاہ روزی حاصل کرو اور حتتن حتتن کہتے جاؤ اور شہر کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہو ہم تمہاری خطائے ماف کر دیں گے اور نیک رویہ رکھنے والوں کو مزید فضل سے نوازیں گے مگر جو لوگ ان میں سے ظالم تھے انہوں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی بدل ڈالا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے ان کے ظلم کی پاداش میں ان پر آسمان سے عذاب بھیج دیا اور ذرا ان سے اس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی انہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سبت یعنی ہفتے کے دن احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن اُبر اُبر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھی اور سبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھی یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے اور انہیں یہ بھی یاد دلاؤ کہ جب ان میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا تھا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ حلاق کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کی حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لئے کرتے ہیں لوگوں کو حق بات بتانے والے کو اس بات کی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ ان کا ریاکشن کیا ہوگا وہ مانیں گے کہ نہیں اور اگر یہ ہو کہ یہ نہیں مانیں گے تو وہ بتانے ہی چھوڑ دے اور جب انسان اپنا فرض ادا کرتا ہے تو اللہ کے ہاں اس کی معذرت دکھی جاتی ہے کہ اس شخص نے اپنا فریضہ پورا کر دیا اب باقی ذمہ داری لوگوں کی ہے جنہوں نے نہیں مانا اور اس امید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیس کرنے لگیں آخرے کار جب وہ ان ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھی تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانی پر سخت عذاب میں پکڑ لیا یاد رکھئے امر بالمعروف اور نہیان المنکر نجات دلانے والا ہوتا ہے لیکن جب انسان اپنے اس کام کو چھوڑ دیتا ہے تو پھر اللہ کی پکڑ آ جاتی پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کرتے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا کیسے روکا گیا تھا کہ ہفتے کے دن مچھلیاں نہیں پکڑنی لیکن انہوں نے مان کے نہیں دیا تو کیا سزا ملی ان کو تو ہم نے کہا کہ بندر ہو جاؤ زلیل اخار اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان کر دیا کہ وہ قیامت تک برابر ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتا رہے گا جو ان کو بدترین عذاب دیں گے یقیناً تمہارا رب سزا دینے میں تیز دست ہے اور یقیناً وہ درگزر اور رحم سے بھی کام لینے والا ہے ہم نے ان کو زمین میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے بہت سی قوموں میں تقسیم کر دیا کچھ لوگ ان میں نیک تھے اور کچھ اس سے مختلف اور ہم ان کو اچھے اور برے حالات سے آزمائش میں مبتلا کرتے رہے کہ شاید یہ پلٹ آئیں پھر اگلی نیسلوں کے بعد ایسے ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جو کتاب الہی کے وارث ہو کر اسی دنیا دنی کے فائدے سمیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ توقع ہے کہ ہمیں ماف کر دیا جائے گا اور اگر وہی متائے دنیا پھر سامنے آتی ہے تو پھر لپک کر اسے لے لیتے ہیں یعنی اللہ کی نافروانیاں کیے چلے جاتے ہیں اور وہ فالس امید رکھتے ہیں کہ ہم جو بھی کریں اللہ تو ماف کرنے والا وہ کر ہی دے گا کیا ان سے کتاب کا احد نہیں لیا جا چکا کہ اللہ کے نام پر وہی بات کہیں جو حق ہو اور یہ خود پڑھ چکے ہیں جو کتاب میں لکھا ہے آخرت کی خیامگاہ تو اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہی بہتر ہے متقین کے لیے افلا تاقلون کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے والذین یمسکون بالکتاب وعقام السلاط انہا لانو دیو عجر المصلحین جو لوگ کتاب کی پابندی کرتے ہیں اسے مضبوط پکڑتے ہیں اور جنہوں نے نماز تائم کر رکھی ہے موسیقی یقیناً ایسے نیک کردار لوگوں کا عجر ہم زائے نہیں کریں گے اللہ کا وعدہ ہے خوشخبری ہے کہ جو کتاب کو مضبوط پکڑے مرتے دم تک اس کو نہ چھوڑے اس کے ساتھ زندگی بسر کرے اور اللہ کی عبادت کرتا رہے یعنی نماز قائم کرے نماز کو اہمیت دے تو پھر کیا ہوگا ان کا عجر محفوظ ہو جائے گا انہیں وہ وقت بھی کچھ یاد ہے جبکہ ہم نے پہاڑ کو ہلا کر ان پر اس طرح چھا دیا تھا کہ گویا وہ چھتری ہے اور یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ ان کے اوپر آ پڑے گا اور اس وقت ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ شاید کہ تم غلط ربی سے بچے رہو گے وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِ آدَمَ مِن زُحُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَا شَہِدْنَا اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو یاد دلائیے وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں انہوں نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں اور ہم اس پر گواہی دیتے ہیں یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں قیامت کے دن تم یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس بات سے ہی بے خبر تھے یا یہ نہ کہنے لگو کہ شرک کی ابتداء ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے پھر کیا آپ ہمیں اس قصور پر پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا یعنی یہ ہماری غلطی نہیں بڑوں کی ہے یہاں جس بات کو یاد کرانے کے لیے کہا گیا ہے وہ بادہ علست ہے اس کے بارے میں عبی ابن کعب نے جو کچھ کہا وہ ان آیات کو بہت اچھی طرح واضح کر دیتا ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا یعنی آدم علیہ السلام کی جب پیدائش ہوئی پھر سب کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا پھر عبیس نے انکار کیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم کی جتنے بھی اولاد قیامت تک آنے والی ہیں ان سب کو پیدا کیا ان کی روحوں کو ان کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں یعنی ایک ایک دور کے لوگ انہیں انسانی صورت اور گویای اتا کی یعنی بولنے کی قوت دی پھر ان سے وعدہ لیا اور انہیں اپنے آپ پر گواہ بناتے ہوئے پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں انہوں نے عرض کیا کہ ضرور آپ ہمارے رب ہیں تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر زمین اور آسمان سب کو اور خود تمہارے باپ آدم کو گواہ ٹھہراتا ہوں تاکہ قیامت کے دن تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمیں تو اس کا علم نہیں تھا میں نہیں کہہ سکو ہمارا رب کون ہے خوب جان لو کہ میرے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں میرے سوا کوئی رب نہیں تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا میں تمہارے پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا جو تمہیں یہ اہد و میساک جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا اس پر سب انسانوں نے اول سے آخر سب انسانوں نے کہا ہم گواہ ہیں آپ ہی ہمارے رب ہیں اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں آپ کے سوا نہ کوئی ہمارا رب ہے نہ معبود ہے تو یہ ہے وہ وعدہِ علس جو ہم سب کر چکے ہیں اللہ سے کہ اللہ ہم تجھے اپنا رب مانتے ہیں اور کسی اور کو اس میں شریک نہیں کرتے لیکن ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں ہمیں تو یاد نہیں تو اس کے لئے کیا فرمائے کہ پیغمبر بھیجوں گا جو تمہیں یاد کراتے رہیں اور ہر دور میں پیغمبر آتے رہے اور اب یہ کتاب موجود ہے ہمارے پاس جو ہمیں یاد کرارہی ہے اور اس سے انسان پر ایک حجت تمام ہو گئی یاد رکھئے کہ یہ جو اللہ نے ہمارے اندر چیز رکھ دی اپنی پہچان کر آ کے تحقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جو اللہ کو مانتے نہیں جب ان پر کوئی سخت وقت پتاتا ہے تو اچانک ان کے موں سے اللہ ہی کا نام نکلتا ہے کیونکہ ان کے اندر کی گہرائیاں اپنے رب کو پہچانتی چاہے اس پہ جو انہوں نے پردے ڈال رکھے ہیں اور فطرت مسک ہو گئی ہے اور اب وہ دنیا میں مگن ہو کر اس کو بھول گئے ہیں تو یہ اور بات ہے یا یہ نہ کہنے لگو کہ شرک کی ابتدا ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی یعنی اپنی غلطیوں کا الزام ان کو نہ دینے لگو اور ہم بعد میں پیدا ہوئے تھے تو آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط لوگوں نے کیا مبتلون نے کیا دیکھو اس طرح ہم نشانیاں واضح طور پر پیش کرتے ہیں اور اس لئے کرتے ہیں کہ یہ لوگ پلٹ آئیں اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے اس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم اتا کیا تھا ایک عالم کی بات ہو رہی ہے نام نہیں لیا گیا لہٰذا ہر وہ شخص جو علم حاصل کرتا ہے اور علم حاصل کر کے کسی مقام اور درجے پر پہنچتا ہے وہ اپنے آپ کوئی زگہ رکھ لے مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا میں نے علم تو بہت حاصل کیا لیکن عمل کچھ نہیں تھا آخر کار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا اور شیطان تو پڑھا ہی رہتا ہے عام لوگوں کے پیچھے شاید ایک شیطان ہو لیکن عالموں کے پیچھے دیندار لوگوں کے پیچھے تو اس کی فوجیں لگ جاتی ہیں اور پیچھے ایسا لگا شیطان یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا اس نے میک شور کیا کہ یہ شخص واپس پلٹ جائے دین کا راستہ چھوڑ دے اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیتوں کے ذریعے ولندی عطا کرتے یعنی وہ قرآن کے ساتھ بھی بہت ایکسل کر سکتا تھا جو اللہ نے اس کو صلاحیتیں دی تھی مگر وہ تو زمینی کی طرف جھگ گیا یعنی دنیاوی فائدوں نے اس کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اپنی خواہشیں نفسی کے پیچھے پڑا رہا یعنی دل کیا چاہتا ہے بہت دفعہ ہم پڑ پڑا بھی لیتے ہیں لیکن پھر کرتے وہ ہیں جو ہماری خواہشات ہوتی ہیں ان کی تکمیل کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہوتے ہیں لہٰذا اس کی حالت کتے کسی ہو گئی ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ کتے سے تشبیح دیتا ہے کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور تم اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے یعنی وہ ہر حال میں لالچ ہی رکھتا ہے آپ اس کے طرف کو پتھر فینگے تب بھی وہ ایک دوبارہ دیکھے گا کوئی ہڈی تو نہیں لالچ کی انتہا ہے یعنی کتہ جو ہے وہ لالچ کا سمبل ہے گریڈینیس کا تو جو شخص دین پڑھتا ہو اور اس کے ساتھ دنیا کی شدید محبت میں مبتلا ہو تو پھر اس کا حال یہی ہوتا ہے کہ اس ویکنس کو دیکھتے ہوئے پیچھے پڑھا تھا نہیں شیطان سونگتا ہے انسان کیا کمزوری ہے اس کے اندر اور پھر جب وہ دیکھتا ہے کہ یہ شخص مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہے تو وہ راستے اس کو دکھاتا ہے اور ان چیزوں کو خوشنواہ بنا کے پیش کرتا ہے جس سے وہ چند ٹکے کما سکے اور پھر جب انسان اس میں پڑتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ آہستہ سب کچھ بھول جاتا ہے دین کو کمپرومائس کرنے لگتا ہے دنیا والوں کو خوش کرنے کے لیے اللہ کے حکامات کو پیچھے ڈال دیتا ہے فرمایہ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں تم یہ ایک آیات ان کو سناتے رہو شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں کتنا مہربان ہے رب وہ کیا چاہتا ہے کہ انسان شیطان کی اغواس سے نکل آئیں وہ ہمیں اس کے پنجے سے چھڑانا چاہتا ہے تو یاد رکھئے کسی انسان کا آیات کا علم ہونے کے باوجود قرآن کا علم ہونے کے باوجود ان سے روگردانی کرنا ان پر عمل نہ کرنا یہ شیطنت ہے اس کے اندر اور پھر اس شیطنت کی وجہ سے شیطان انسان کو اپنے قابو میں کر لیتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق چلاتا ہے علم کے باوجود جب انسان بھٹکتا ہے تو یہ شیطانی وسوسوں کی وجہ سے اور کون بھٹکتا ہے جو شیطان کے وسوسے کی پیروی بھی کرتا ہے جو اس کو جھٹک دیتا ہے اس کو چھوڑ دیتا ہے وہ نہیں تو جب انسان شیطان کے ذرا بھی پیچھے لگتا ہے تو وہ اس کو ہانکنے لگتا ہے اور آگے لے جاتا ہے اور اپنے کنٹرول میں لے لیتا ہے اس کو پھر وہ اسی کی زبان بولتا ہے اسی کی آنکھ سے دیکھتا ہے کیونکہ وہ اس کے دل کو کابو کر چکا ہے اور پھر اسے ہمیشہ گمراہی کی کھائیوں میں گراتا ہے اور گمراہی کے راستے پہ لے جاتا ہے اور یہاں یہ جو کہا گیا ہے نا فَأَتْبَعَهُ کہ وہ اس کا پیروکار بن جاتا ہے لہٰذا انسان پھر اسی گروہ میں جا شامل ہوتا ہے جو گمراہوں کا ہوتا ہے اور خوب گمراہی میں جڑ پکڑ چکے ہوتے ہیں پھر ایسا شخص ہدایت سے بہت دور نکل گاتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جماعت سے مراد یہاں پر خاص کوئی سیاسی یا کوئی دینی جماعت نہیں تہی پر بھی جب لوگ اکتھے ہو کر دین کا کام کرتے تو وہ خود بخود ایک جماعت بن جاتے جس کو ہم آج کلاس کہتے ہیں پہلے اس کو کیا کہتے تھے جماعت اول دوم سوم جماعت کیوں کہتے ہیں اس کو کیونکہ کچھ بچے سال بھر کے لیے روزانہ جماعت ہوتے ہیں اور اکٹھے پڑھتے ہیں اور آپ نے دیکھا ہوگا جو بیج میٹس ہوتے ہیں کسی خاص جگہ پر اکٹھے پڑھے ہوتے ہیں کسی خاص ادارے میں وہ زندگی بھر اپنے آپ کو اس سے منصوب کرتے رہتے ہیں کیا کہتے ہیں ہم کون ہیں آپ سب کو پتہ ہے جس چیز کی طرف لوگ نسبت کرتے ہیں اپنی یونسٹریز کی طرف اپنے اداروں کی طرف کیونکہ اس کے ساتھ ان کی ایک ایسوسییشن ہو جاتی ہے اکٹھے رہے کہ جب انسان کام کرتا تو ایک سوچ بنتی ہے ایک استعمائیت آتی ہے اور پھر جب انسان اس کے ساتھ افیلیئیٹڈ رہتا ہے ون وے اور دی ادر تو پھر انسان خیر کے کچھ نہ کچھ کام کرتا رہتا ہے یا جس مقصد کے لیے وہ خاص ادارہ یا وہ جماعت یا وہ کلاس یا وہ ٹیم ہوتی ہیں اس مقصد کے ساتھ اس کے ایک وفاداری ہو جاتی ہے لیکن جب انسان اس سے نکلتا ہے گھول جاتا ہے ان سب کو اور خاص طور پر اگر دین کے کام کرنے والوں سے انسان الگ ہو جاتا ہے اور اپنی مجلس اور سوشل سرکل اور اپنی ساری دلچسپیاں اور لوگوں میں رکھتا ہے تو پھر شیطان پیچھے لگ جاتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے شیطان اس کے ساتھ ہے جو جماعت سے الگ ہو وہ اس کو ایڑی مار کے بگاتا ہے اور بہت دور لے جاتا ہے یعنی اس کا تو پیچھے پڑ جاتا اور پھر اس کو نکال لے جاتا ہے کہ پلٹ کے نہ ہو وہ کوئی نہ کوئی بس بسے ڈال کے غلط فہمیاں ڈالتا ہے یہ سارے دین کی باتیں کرنے والے ایسے لوگ ہیں ایسے لوگ ہیں ان کے ساتھ چل کے تمہیں کیا پائدہ ہوگا دیکھو اور دنیا بھی دنیا یہی تھوڑی ہے یہی تھوڑی بیٹھے رہو گے لیکن انسان کو رہنا تو دنیا میں ہی جانا ہے دنیا میں لیکن پلٹ کر اپنے مرکز کی طرف تو آتا رہے جہاں سے اس کو مزید خیر کی غزہ ملتی رہے اور وہ خیر کے کاموں میں آپس میں تعاون کرتا رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جماعت کو لازم پکڑو جیسے پیچھے کہا نا جمیئن اکٹھے ہو کے خیر کے کام کرو بھیڑیا ہمیشہ دور رہنے والی اکیلی بکری کو ہی کھا جاتا ہے اور بھیڑیا کون ہے یہاں شیطان بڑی ہی بری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور وہ اپنے آپ پر خود ہی ظلم کرتے ہیں وَأَنفُسَهُمْ قَانُوا يَزْلِمُونَ یعنی وہ خود ہی اپنے لئے ظالم ہے مَيَّهَدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُحْتَدِ جسے اللہ ہدایت بخشے بس وہی راہ راست پاتا ہے یعنی ہدایت اللہ کی توفیق سے ملتی ہے اور جس کو اللہ اپنی رہنمائی سے محروم کر دے وہی ناکام و نامراد ہو کر رہتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم کئی دن بنانے کے لیے ان کو پیدا کیا یا اس کا ارادہ تھا کہ یہ جہنم میں جائیں یہ نہیں مطلب یہ ہے کہ وہ کیوں جہنم میں جائیں گے آگے وجہ بتا دی گئی لَهُمْ قُلُوبُ اللَّهِ يَفْقَهُونَ بِهَا ان کے پاس دل ہے مگر وہ ان سے سوچتے نہیں یہ کہ دل تو دنیا کے محبت میں گرفتار ہے وہ کیوں سوچیں گے دین کے بارے میں آخرت کے بارے میں ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں دل کی نگاہوں سے نہیں دیکھتے بصیرت نہیں ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں حق بات نہیں سنتے خیر کی مجلس میں دین کی مجلس میں جانے کو ان کا دل نہیں چاہتا اور جائیں بھی تو لگے بدھے کچھ حاصل نہیں کرتے ایسے لوگ جانوروں کی طرح ہیں جو اللہ کی بات نہ سن سکے اللہ کی نشانیاں نہ دیکھ سکے جو اللہ کے بارے میں نہ سوچیں اس سے محبت نہ کریں تو ایسے لوگ پھر کیا ہیں جانوروں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے کیونکہ جانور بھی اپنا فائدہ اور نقصان پہچانتا ہے اپنے مالک کو پہچانتا اور اس کی اطاعت کرتا ہے لیکن غافل لوگ اپنے مالک کو بھولے رہتے ہیں وہ جانوروں کی طرح اپنی زندگی کا مقصد صرف کھانا پینا رکھتے ہیں کھانا پینا سیر تفریح اب دیکھیں کہ ایک عام شخص جو گھر میں ہوتا ہے یا جس کے پاس اور کوئی کام نہیں اس کا دن کیسے گزرتا ہے اور خاص طور پر جب اللہ نے ساری سہولتیں دے رکھیا ہر کام کے لیے ایک الگ نوکر ہے پھر آپ کیا ہوں گے فارغ ہوں گے نا جب فارغ ہوں گے تو پھر کیا کریں گے بور ہوں گے جب بور ہوں گے تو پھر آپ کدھر نکل جائیں گے کبھی کسی فرنڈ کے پاس کبھی کسی کے پاس دن گزارنے جا رہے ہیں کبھی کہیں لنچ ہو رہا ہے کہیں پارٹی ہو رہی ہے کہیں دعوت ہو رہی ہے کبھی بازار گھومنے نکل جائیں کہ آپ نے دل تو لگانا ہے نا کسی چیز میں تو جب انسان کے پاس کوئی آلہ مقصد نہیں ہوتا تو پھر وہ اپنی فراغت کے عقاد کو ایسے ہی بے سوچے سمجھے گزارتا ہے پھر وہ صرف ان چیزوں میں دلچسپیاں رکھتا ہے جو جانوروں کی دلچسپیاں ہوتی ہیں جانوروں کی دلچسپیاں سب سے زیادہ کس سے ہوتی ہیں ہر وقت کھانے کو دیکھتے سنگتے رہتے ہیں کسی بھی جانور کو دیکھیں اندر آپ اس سے ذرا بھی پیار کریں گے بات کریں گے تو اس کا دھیان کس پہ ہوگا اگر آپ کے ہاتھ میں کھانا ہے یا کچھ تو وہ آپ کو نہیں دیکھے گا وہ کھانے کو دیکھے گا اس کے توجہ بس کھانے پینے پہ ہے اب کیا ہے اگر فراغت ہے تو بس ایک کے بعد ایک کھانا ٹیس کرو اس ریسٹوران میں جاؤ اس میں جاؤ میں نہیں کہتی کہ یہ جانا نہیں چاہیے یہ حرام ہے سارے کام ہاں آپ اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں اور آپ لوگوں کی خدمت بھی کر رہے ہیں آپ اپنے دین کا کام بھی کر رہے ہیں تو اس کے ساتھ اللہ نے دنیا کی نعمتیں حرام نہیں کی آپ ان چیزوں کو انجوائے کر سکتے ہیں مگر ایک لیمٹ کے اندر یہ نہیں کہ سب کو چھوڑ کے صرف عیش و عشرت کی زندگی انسان بسر کرتا رہے اور پھر جب کوئی مقصد نہیں ہوتا زندگی میں فراغت ہوتی پھر اس سے باتیں کر رہے ہیں اس سے کر رہے ہیں ادھر جا رہے ہیں ادھر جا رہے ہیں اور پھر بھی کیا کہتے ہیں بور ہو گئے ہیں تھوڑی دیر کے لیے کہیں جا کے مزا آتا ہے اس کے بعد پھر مزا ختم پھر گھر آ کے وہی اداسی وہی ڈپریشن آخر کتنے دن ہم ایسی زندگی بسر کریں گے کیوں نہیں ہم اپنی اس مسئیبت سے باہر نکلتے اور پھر آپ دیکھیں جانوروں میں دوسری چیز کیا ہوتی ہے کھانے کے بعد سیکس دوسری دلچسپیاں ایسی دوستیاں ناجائز تعلقات یہ خرابیاں لیکن جانور یہ کھانے پینے اور سیکس کے ساتھ ساتھ اپنے مالک کو پچانتے وہ بلاتا ہے اس کو کچھ کہتا ہے تو وہ جس کام کے لئے اس کو رکھا ہوتا ہے جیسے گھوڑا ہے گدہ ہے گائے بھینس ہے جب ان کا دودھ دوتے ہیں یہ گھوڑے پر سواری کرتے ہیں ہوتا ہے اور رکھوالی کرتا ہے ساتھ ساتھ اپنے مالک کا حق دیتا ہے وہ لیکن ایسا انسان جو مالک کا کوئی حق نہیں پہچانتا صرف جانوروں کی طرح زندگی بسر کر رہا ہے اللہ سبحانہ وتعالی اس کے لئے سخت ناراض ہے ہم سب کو اپنے اوپر غور کرنا چاہئے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ میری زندگی میں کوئی عالی مقصد ہی نہیں جو کچھ بھی آتا ہے اپنے ہاتھوں سے کسی کی خدمت کریں کسی کی مدد کریں کسی کے کام آئیں کسی کا کچھ بنائیں دوسروں کے لئے جیئیں اپنے دین کا کام کریں لوگوں کی جہالت دور کریں لوگوں کو آخرت کی فکر دلائیں یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں سب کچھ بولے ہوئے ہیں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر سے واپس آ رہے تھے جب ہم بنو نجار کے ایک باغ کے قریب پہنچے تو پتا چلا کہ اس باغ میں ایک اونٹ ہے جہاں ایک کو اٹیک کر دیتا ہے تو لوگوں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی کہ آپ اس باغ میں تشریف لائیں آپ نے اس اونٹ کو بلایا وہ اپنی گردن چھکا کے آ گیا آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا سامنے آ کر بیٹھ گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی لگام لاؤ تو آپ نے وہ لگام اس کے موں میں ڈال کر اونٹ کے مالک کے حوالے کر دیا اس کو پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا آسمان و زمین کے درمیان جتنی چیزیں ہیں سوائے نافرمان جنوں اور انسانوں کے سب جانتے ہیں میں اللہ کا رسول ہوں سب جانتے ہیں اور انسان سرکش وہ نہیں جانتے کہ اللہ نے کس کو ہماری ہدایت کے لیے بھیجا اور ان کو جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے اور مومن کو اونٹ سے مثال بھی دی گئی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن نکیل ڈالے ہوئے اونٹ کی طرح ہوتا ہے اسے جہاں لے جایا جاتا ہے چل پڑتا ہے اس کے اندر کوئی ہٹ درمیوں نہیں ہوتی کوئی اس کو خیر کی طرح بلاتا ہے آ جاتا ہے آپ نے دیکھو آگئے نا کہ آپ کسی کو دعوت دیتے ہیں آو تم بھی سنو وہ کہتے ہیں اچھا کس وقت ہوتا ہے اچھا میں ہوتی تو مصروف ہوں لیکن میں کچھ وقت ضرور نکالوں گی میں چلتی ہوں کچھ لوگوں کو آپ کہتے ہی رہتے ہیں ہر طرح سے فسیلیٹیٹ کرتے ہیں مگر ان کے کان پر جون ہی رنگ تھی وہ خیر کی بات سننا نہیں چاہتے اور آپ کو بتایا قیامت کے دن انسان اس پر ریگریٹ کرے گا لو کنہ نسمع او ناقلو ما کنہ پی اصحاب اس سائی تاش ہم سن لیتے تاش ہم کچھ تو سمجھتے کیونکہ یہ بھی تو زندگی میں ایک کام ہے نا اللہ کی کتاب اور اللہ کی دین اور اللہ کی پیغام کو سمجھنا ما کنہ پی اصحاب اس سائی یہ سمجھتے تو آج ہم یہاں نہ پڑے ہوتے اور پھر آپ دیکھئے کہ ان باتوں کے بعد فرمایا وللہ الاسماء الحسنہ اور اللہ کے ہیں اچھے اچھے دام اچھے اچھے نام فَدْعُوهُ بِهَا ان ناموں کے ساتھ اس کو پکارو ان کے ساتھ اس سے دعا کرو اس سے دعائیں زیادہ قبول ہوتیں اسی لئے ہم کہتے ہیں یا حیو یا قیو برحمتِ کستغیث یا ذل جلالِ والاکرام یا رحمن یا رحیم یا کریم یعنی اللہ کے ناموں کے ساتھ اس کو پکارتے رہنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالی نے خود اس کا حکم دیا ہے اور یہ اچھے اچھے نام کون سے اللہ کے نام ہے جو اللہ سبحانہ وتعالی نے ہمیں خود قرآن میں بتا دیا ہے اللہ کی بہت سے سپاعت اور نام موجود ہیں یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے ناموں بتائیں اس لیے ہمیں صرف ان ناموں کو ہی پڑھنا چاہیے جو ہمیں قرآن اور سنت سے ملتے ہیں کچھ لوگوں نے کیا کیا کہ اللہ تعالیٰ کے جو افعال تھے مثلا یحی و یمیت اس کو نام بنا دیا اور وہ جو 99 نیمز بنے ہوئے نا کارڈ یا قرآن کے آدھے پیچھے لکھے تھے اس میں سے کچھ نام ایسے جو قرآن اور سنت میں نہیں ملتے لوگوں نے خود سے وہ قیاس کر کے بنا لیے اس لئے ہم نے بہت ریسرچ اور کوشش کے بعد یہ کارٹس چھاپے ہیں جن میں پورے اوثنٹک نیم ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالی کے ہیں ان ناموں کو یاد کر لیجئے اور جب آپ پڑھیں تو اس کے ساتھ اللہ سے دعا بھی کیا کریں اور ان کا مطلب بھی سمجھیں اور اس کارٹ میں الحمدللہ اردو اور انگریزی دونوں زمانوں میں مطلب لکھا ہوا ہے وَذَرُ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جو اس کے نام رکھنے میں سیدھے راستے سے ہٹ جاتے ہیں یعنی خود ساختہ نام اللہ کے بنا دیتے ہیں جو کچھ وہ کرتے رہتے ہیں اس کا بدلہ وہ پا کر رہیں گے ہماری مخلوق میں سے ایک ایسا گروہ بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا ہے رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا تو ہم انہیں بتدریج ایسے طریقے سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں میری چال کا کوئی توڑ نہیں اللہ اکبر جو اللہ کی آیات کا انکار کرتا ہے اللہ سبحانہ وتعالی دنیا میں اس کو کچھ دن تو جینے دیتا ہے انجوائے کرنے دیتا ہے لیکن بل آخر پھر پکڑ بھی لیتا ہے اور کیا ان لوگوں نے کبھی نہیں سوچا کہ ان کے رفیق پر جنون کا کوئی اثر نہیں یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مجنون نہیں وہ تو ایک خبردار کرنے والا ہے یعنی نذیر مبین ہے جو گرہ انجام آنے سے پہلے صاف صاف متنبہ کر رہے ہیں کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی بھی چیز کو جو اللہ نے پیدا کی آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا یعنی غور و فکر نہیں کیا اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی محلت زندگی پوری ہونے کا وقت قریبہ لگا ہو پھر آخر پیغمدر کی استنبیح کے بعد اور کونسی ایسی بات ہو سکتی ہے جس پر وہ ایمان لائیں جس کو اللہ رہنمائی سے محروم کر دے اس کے لئے پھر کوئی رہنما نہیں جس کو اللہ کی بات سمجھ نہیں آتی پھر اس کو کسی اور کی کیا آئے گی اور اللہ نے ان کی سرکشی میں بھٹک رکھتا ہوا چھوڑے دیتا ہے یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی حالانکہ ہونا کیا چاہیے تھا کہ وہ کیسی گھڑی ہوگی ہم اس کی کیا تیاری کریں اس کے بجائے کیا پوچھتے رہتے ہیں اچھا وہ آئے گی کب ایک شخص نے یہ سوال کیا تو ہم نے پنوا اور تم نے اس کے لئے تیاری کیا کیے کہو اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے اسے اپنے وقت پر ہی وہ ظاہر کرے گا آسمانوں اور زمین میں وہ بڑا سخت وقت ہوگا استغفراللہ وہ تم پر اچانک آ جائے گا یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا کہ تم اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہو ہنی آپ سے بار بار اس طرح کے سوال ایسے کرتے ہیں جیسے آپ کا کوئی اور کام نہیں بس یہی سوچتے رہتے ہیں اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے یہ تو نبی کو بھی نہیں دیا گیا مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے نواقف ہیں قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِ نَفْعًا وَلَا دَرْنًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهِ ان سے کہیے کہ میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے یہاں اللہ کی قدرت کا پتہ چلتا ہے کہ اس کی ملکیت میں اس کی بادشاہت میں اس کی اختیارات میں کوئی اس کا شریک نہیں حتیٰ کہ رسول بھی نہیں بس وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے ایک شخص ہے اور اس نے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں آپ نے فرمایا اَجْعَلْتَنِي لِلَّهِ نِدًّا کیا تم نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا کہو بس وہی جو اللہ چاہے کیونکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا عِيَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ رب العالمین نہ چاہے لہذا ہمیں اپنی ساری توجہ اللہ کی طرف کرنی چاہیے ہر مشکل میں صرف اسی کو پکارنا چاہیے کیونکہ وہی مشکلوں کو دور کر سکتا ہے وہی بند راستے کھول سکتا ہے کسی انسان کے بس میں کچھ بھی نہیں یہ سوچنا کہ فلان کے آنے سے فلان کے ایسا کرنے سے یہ مسئلہ حال ہو جائے گا کوئی کچھ نہیں کر سکتا لہٰذا توجہ اللہ ہی کی طرف رہے فرمایا آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لئے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مشکل وقت بھی آئے طائف میں آپ آپ کو لہو لہان کر دیا گئے جنگ احد میں آپ کا دانت شہید ہو گیا اسی طرح آپ کی زندگی میں آپ کے کئی بہت عزیز پیارے اولاد اور آپ کی اہلیہ حضرت خجیجہ پوت ہو گئیں تو اصل اختیارات کس کے پاس ہیں زندگی اور موت کس کے پاس ہے صرف اللہ کے پاس ہے میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کے لئے جو میری بات مانے وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جن سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے یعنی شوہر بیوی کا جو تعلق ہے یہاں اصل میں بات تو آدم اور ہوا کی ہو رہی ہے لیکن اس کے بعد اللہ نے جو جوڑے بنائے ہیں ان کا مقصد کیا ہے کہ وہ ہم سکون پائیں لیکن اس سکون کو قائم رکھنا بھی بڑا ضروری ہے اور اس کے لئے صبر کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کو اتنا بڑا ایشو بنا لیتے ہیں اور صبر کو چھوڑ کر انہی پیار کے رشتوں کو ہم اپنے لئے مصیبت بنا لیتے ہیں اور وہ ہمارے لئے رنج و غم کا باعث بن جاتے ہیں ایسے موقع پر بھی جب حضمن وائف کے بیچ میں ناچاکی ہو آپس میں نہ بنتی ہو اور ایک دوسرے کے لئے بس ایک دشمنی کا کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ سکون کا باعث نہیں تو اللہ سے دعا کرنے چاہیے وَسْتَعِنُوا بِاللَّهِ وَسْبِرُوا صبر سے کام لینا چاہیے یاد رکھئے جو شخص صبر سے کام لیتا ہے اور اللہ کو پکارتا رہتا ہے اپنی ایسی مشکلات میں اللہ سبحانہ وتعالی اس کو بطور انعام اسی زندگی میں اسی تعلق اسی رشتہ میں خوشیاں بھی عطا کرتے ہیں کبھی بھی ازمند کے ساتھ کوئی ناچاکی ہو جائے کوئی لڑائی ہو جائے کوئی اونجنی چھو جائے تو اس کو یہ نہ سمجھے کہ بس اب تو ہمارا گزارے نہیں اور ہم یہاں رہا نہیں سکتے کتنی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک بات ایکسٹریم حد تک پہنچ جاتی ہے لیکن اس کے باوجود جب حالات اچھے ہوتے ہیں تو پھر وہی محبتیں لوٹ آتی ہیں پھر بہار آ جاتی ہے زندگی میں اس لئے مشکل وقت صبر سے گزارے اور اس میں حد سے نہ بڑھے اور مردوں کو بھی خاص طور پر بہت سمجھداری سے کام لینا چاہیے اور چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں یا بڑے جھگڑوں میں طلاق کے لفظ سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اللہ نے یہ رشتے جو بنایا ہے جب ان کی قدر نہیں کی جاتی تو زندگیاں بے سکون ہو جاتی ہیں ان کی قدر کرنی چاہیے عورت کو اپنے ہزمین کا شکر گزار رہنا چاہیے جس رشتے پر ہم شکر گزار ہوتے ہیں اللہ اس میں ہمارے لئے خوشیاں رکھ دیتا ہے اور جس رشتے پر ہم ہر وقت کرتے رہتے ہیں ناراض ہی ہوتے رہتے ہیں اس میں یہ خامی کیوں ہے یہ ایسا کیوں نہیں کرتا یہ ایسا کیوں نہیں کرتا تو وہ اس شخص کی خیر کبھی نہیں پاسکتا شکر گزار رہیے اللہ نعمتوں میں اضافہ کرے گا ڈھونڈ کے نکال لیجیے اگر نہیں نظر آنا ڈھونڈ کے کوئی اچھی بات نکال لیجیے حزبن کی اور اس پر شکر کرنا شروع کرنے اسی سے خوشی ملے گی پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے خفیب سے حمل رہ گیا جسے لیے وہ چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ بوجل ہو گئی تو دونوں نے مل کر اللہ اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تُو نے ہمیں اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے مگر جب اللہ نے ان کو ایک صحیح سلامت بچہ دیا تو اس کی اس عنایت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرانے لگے بزرگان کو اور پیروں کو اور معلوم نہیں کس کس کو پھر نام بھی ویسے ہی رکھنے شروع کر دیتے ہیں اللہ بہت بلند و برتر ہے ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ ان کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی بھی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں اتنے ہی لوگ جہالہ سے ہی کہتے ہیں یہ بچہ مجھے اس پیر نے دیا ہے یہ فلان زیارت والے نے دیا ہے اللہ اکبر اتنا بڑا شرک صرف اللہ ہی دیتا ہے اولاد وہ ہی دیتا ہے بیٹے اور وہ ہی دیتا ہے بیٹیاں اور وہ ہی نہیں چاہتا تو نہیں دیتا اور اس میں بھی کوئی حکمت ہوتی ہے اور اس پر بھی راضی رہنا چاہیے تو وہ ان کو شریک بناتے ہیں جو نہ ان کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ اپنی مدد پہ آپ قادر ہیں اگر تم انہیں سیدھی راہ پہ آنے کی دعوت دو تو وہ تمہارے پیچھے نہ آئیں تم خائنے پکارو یا خاموش رہو دونوں صورتوں میں تمہارے لئے یقصہ ہیں تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو یعنی اپنے جیسے انسانوں کو اتنا بڑا بنا لیتے ہو کہ ان کو اللہ کی علوہیت میں تم شریک کر لیتے ہو ان سے دعائیں مانگ دیکھو یہ تمہاری دعاؤں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمہارے خیالات صحیح ہیں یعنی نہیں جواب دیں گے دے ہی نہیں سکتے کیا یہ پاؤں رکھتے ہیں کہ ان سے چلیں خصوصاً پتھر کے بت خود چل بھی نہیں سکتے اٹھا کے رکھتے ہیں ادھر سے ادھر اور اسی طرح جو مرے ہوئے بزرگان دین ہیں وہ اپنی قبروں میں لیتے ہوئے ہیں وہ کسی کی اٹھ کے نکل کے وہاں سے چل کے مدد نہیں کر سکتے کیا یہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ ان سے پکڑیں کیا یہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ ان سے دیکھیں کیا یہ کان رکھتے ہیں کہ ان سے سنیں ان سے کہہ دیجئے بلالو اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہرگز محلت نہ دو میرا حامی و ناصر وہ اللہ ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے تاہم دیکھیں کہ یہاں پر خاص طور پر اس بات کا اظہار کیا گیا کہ اللہ کے سوا جو دوسری ہستیاں ہیں وہ تمہارے کام نہیں آسکتی اور یہاں خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہاتھوں کا آنکھوں کا کانوں کا اور پاؤں کا سب سے پہلے پاؤں کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ سارے جو ہیں یہ خیر کے کاموں میں ہمارے مددگار ہوتے ہیں ہمیں کسی کی مدد کرنی ہے ہمیں اپنے لئے کوئی کام کرنا ہے تو آنکھوں کے بھی ضرورت ہے کانوں کے بھی ضرورت ہے اور پھر ہاتھوں کے بھی تب ہی کام ہوتے ہیں نا آپ کچن میں کیسے کام کرتے ہیں آنکھیں بند کر کے تو نہیں کر سکتے آپ نے دیکھا ہوگا خواہ آپ ایک چیز کو ہر شخص کو اس کا کچھ نہ کچھ ایکسپیریس ہوا ہوگا اندھیرے میں اپنا بیلنس قائم نہیں رکھ پاتے کتنی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم دیکھیں اسی طرح جب ہمارا کوئی کان بند ہو جائے یا گرانی ہو اس میں کوئی مشکل ہو جائے تو پھر بھی بیلنس لوز کر جاتے ہیں کتنی مشکل ہوتی ہے پھر اسی طرح ہاتھ پاؤں کی بھی ہمیں ہر کام میں ضرورت آتی ہے اسی طرح علم حاصل کرنے کے لیے بھی یہ سب کچھ ضرورت ہے دوسروں کی مدد اور خدمت کے لیے بھی یہ آلات ہیں اسی لیے ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ ان کو سلامت رکھے بہت خوبصورت دعا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے اللہم ممتعنی بسمعی وبصری واجعلهم الوارث منی وانصرنی علی منی ظلمنی اے اللہ مجھے میری سمات اور بسارت سے فائدہ پہنچا کہ میں ان سے اچھے اچھے کام کروں اور انہیں میرا وارث کر دے یعنی مرنے کے بعد بھی ان سے جو میں نے کام لیا وہ میرے لئے صدقہ جاریہ بنے اور میری زندگی کے آخر تک انہیں باقی رکھ ویسے تم اردو میں بھی کہتے ہیں اللہ ہماری نگاہ سلامت رکھے ہاتھ ماؤں سلامت رکھے کہتے رہتے ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا بھی بہت جامع ہے اور پھر کہا کہ جو مجھ پر ظلم کرے اس کے خلاف میری مدد فرما بہت ہی خوبصورت دعا ہے اور پھر اس میں آپ دیکھیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے ایک اور بہت اچھی بات فرمائی ہے آیت 196 میں کہ اللہ ذی نزل القطاب جس نے کتاب نازل کی سبحان اللہ یعنی دوستی کا تعلق کتاب کے ساتھ بھی رکھا ویسے تو نیک عمل کرنے والوں سے اللہ کی دوستی ہوتی ہے لیکن وہ دوستی جو کتاب کی وجہ سے ہے یعنی اللہ سے دوستی کیسے بڑھتی ہے یا اللہ سبحانہ وتعالی کی محبت کیسے حاصل ہوتی ہے جتنا جتنا ہم اس کتاب سے تعلق قائم کرتے ہیں تو جب اللہ تعالی اپنے بندوں کا دوست بن جاتا ہے وہ بندے جو اس کی کتاب سے تعلق رکھتے ہیں رکھتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی مہربانیاں ہوتی ہیں ان پر اللہ کی مدد آتی ہے ان کے دین دنیا کے کاموں میں اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کے ایمان کی وجہ سے ان کو مصیبتوں سے دور رکھتا ہے اور اگر مصیبت آ بھی جائے تو ان کو سمجھا دیتا ہے کہ کیوں آئی ہے جس سے ان کی مزید اصلاح ہو جاتی ہے وہ سالحین سے دوستی رکھتا ہے اگر اللہ کی دوستی چاہتے ہیں تو کیا کریں نیک کاموں میں دور لگا دیں آگے بڑھیں بخلاف اس کے تم جنہیں اللہ کو چھوڑ کے پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں نہ خود اپنی مدد کے قابل ہیں بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پہ آنے کے لئے کہو تو وہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے بظاہر تمہیں ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہوں مگر فیل واقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کیجئے یعنی یہ لوگ اتنے شرک کر رہے ہیں اور ایسی ایسی خرابیاں کر رہے ہیں لیکن آپ ان کو کیسے سمجھائیں جیسے ہم میں سے بہت سے دیندار لوگ کرتے ہیں ڈنڈا لے کے لوگوں کے پیچھے پڑتے ہیں کیوں نہیں مانتے ونہاں ہم یہاں دباکہ کر دیں گے اور یہ اڑا دیں گے اور وہ کر دیں گے نہیں حرام سے ایسی بات جو دلوں میں اتر جائے خرخاہی کے ساتھ معروف کی تلقین کیے جائیں وَأَمُرْ بِالْعُرْفِ اور جاہلوں سے نہ الجھیں سبحان اللہ آپ کو بتایا جا رہا ہے لیکن یہ ہم سب کے لئے بہت بڑی نصیحت ہے وَآَرِذَنِ الْجَاهِلِينَ یعنی اگر آپ کے خلاف کوئی ہماکت کا مظاہرہ کرتا ہے آپ کے ساتھ کوئی بدتمیزی بد اخلاقی کرتا ہے آپ اس کے مقابلے میں ہماکت کا مظاہرہ نہ کریں آپ ان جیسے نہیں بنیں احراز برتیں کہتے ہیں کہ اویائنہ بن حسن حضرت عمر کے پاس آئے کہنے لگے ہے خطاب کے بیٹے اللہ کی قسم نہ تم انصاف کرتے ہو نہ ہمارے ساتھ کچھ سخاوت سے پیش آتے سبحان اللہ وہ عمر جن کے انصاف کو دنیا مانتی ان پر آ کر ان کے موپے اعتراض کیا تھا آپ دیکھیں کتنا غصہ آیا ہوگا اور حضرت عمر کو بہت غصہ آیا قریب تھا کہ انہیں کچھ لگا دیں تو ان کے پاس سن کے ساتھی حرب بیٹھے ہوئے تھے وہ کہنے لگے اے امیر المومنین اللہ نے اپنے نبی سے فرمایا ہے خضل عفو وَأَمْرُ بِالْعُرْفِ وَآرِدَنِ الْجَاهِلِينَ کدھر گزر کیجئے نیکی کو حکم دیجئے اور جاہلوں سے کنارہ کشی کیجئے اور یہ شخص بھی جاہلوں میں سے ہے کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم جب حُر نے قرآن مجید کی سائت کی تلاوت کی عمر وہیں رک گئے وہیں رک گئے اتنا سیلف کنٹرول تھا انہیں اور آپ اللہ کی کتاب کے حکم کے سامنے گردن جھکا دینے والے تھے اللہ کا حکم ہے بس میں پیچھے اٹ گیا ورنہ اتنے غصے کے موقع پر انسان کیا کچھ نہیں کہہ سکتا جس چخص کی ساری زندگی جو اپنے بارے میں اتنی سختی سے کام لیتا اپنے اولاد کے بارے میں اسے کہا جائے تم انصاف نہیں کرتے کتنی بڑی زیادتی کی بات اب آپ دیکھئے یہ مثالیں ہم پڑھ تو لیتے ہیں ہم کیا کریں گے جب بچے بچے نا سمجھ بچے نا سمجھ ہوتے ہیں نا ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو ہمیں بہت غصہ دلاتی ہیں یا کوئی بھی انسان جس کے پاس علم نہیں ہے کوئی بھی بجا سے رولز ریگولیشنز پالیسیز بغیرہ بغیرہ اور وہ ایسی بات کہتا ہے آپ کو جو آپ کو بہت ناغوار گزرتی تو کیا کرنا ہے ہم نے اپنے آپ کو ذرا کنٹرول کریں کام رہیں آرام سے سن لیں اس کی بات اور پھر موسیٰ علیہ السلام کی طرح اپنا اصحاب چھوڑ دیں وَعَارِدَنِ الْجَاهِلِينَ وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغُنِ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِعٌ عَلِيمٌ اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو اصل میں جہاں غصہ آتا ہے وہاں شیطان ضرور ہوتا ہے اور وہ اور اکس آتا ہے وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کی اثر سے کوئی برا خیال انہیں چھو بھی جاتا ہے تو فوراں چکرنے ہو جاتے ہیں ان کو فوراں پتہ چل جاتا ہے یہ شیطانی بسوس ہے شیطان کی ڈالی اکسہ ہٹے اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے سبحان اللہ تقوی سے انسان کو بہت کچھ نظر آنے لگتا ہے جو اس کے بغیر نظر نہیں آتا تو انہیں پتہ چل جاتا ہے کہ ان کے لئے صحیح طریقے کار کیا ہے رہے ان کے یعنی شیعتین کے بھائی بن تو وہ انہیں ان کی کجروی میں کھینچے چلے جاتے ہیں پھر انہیں بھٹکانے میں کوئی قصر اٹھا نہیں رکھتے تو یاد رکھئے اللہ کا ذکر ہر شر سے بچنے کا ذریعہ ہے جب انہیں شیطانی بسوس آتا ہے تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اذا مسہ ہم طائف و من الشیطانی تذکرو اللہ کا ذکر یحییٰ علیہ السلام نے بیت المقدس میں بنی اسرائیل کو جمع کیا جب مسجد بھر گئی تو خود ایک کیلے پر بیٹھ گئے اونچی جگہ پر پھر اللہ کی حمد و سنا کی اور فرمایا میں تمہیں کسرت سے اللہ کے ذکر کا حکم دیتا ہوں بہت زیادہ اللہ کا ذکر کرو کیونکہ اس شخص کی مثال ایسی ہے جس کا بہت تیزی سے دشمن پیچھا کر رہا ہو اور وہ ایک مضبوط کلے میں گز جائے اور پناہ لے لے اسی طرح بندہ بھی جب اللہ کے ذکر میں مصروف رہتا ہے تو شیطان کے حملوں سے ایک مضبوط کلے میں آ جاتا ہے یعنی اس وقت فوراً اللہ کو یاد کرنا چاہیے اور اسی طرح ہر منفی خیال کے موقع پر جب کسی کے بارے میں کوئی نیگٹیف فیلنگ آنا شروع ہو جائے کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے نا کوئی اچانک بات یاد آ جاتی ہے کسی کا کوئی طرزیہ ملک ایسے بیٹھے بیٹھے اور انسان وہی بیٹھے بیچائن ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ اچھا اس نے مجھے ایسا کہا کیوں اس نے ایسا کیوں کیا تھا کیوں کیا تھا اور انسان تڑپ اٹھتا ہے یہ شیطان ہوتا ہے اس کو اچھا نہیں لگتا ہم سکون سے بیٹھے ہوئے دشمن ہے نا آ کے بیچائن کرتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو رات سے خوف کھائے کہ وہ پریشان کرے گی یا مال خرچ کرنے سے بخل کریں یا دشمن کے مقابلے سے ڈرے تو اسے چاہیے وہ اس قول کی قسرت کر دے سبحان اللہ و بحمدی کیونکہ یہ اللہ کے نزدیک سونے کا پہاڑ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے زیادہ محبوب ہے اے نبی جب آپ ان لوگوں کے سامنے کوئی نشانی یعنی موجزہ پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں تم نے اپنے لئے کوئی نشانی کیوں نے انتخاب کر لی ان سے کہیے میں تو صرف اس وہی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو اسے قبول کر لیں بات تو یہی پہ آ جاتی ہے نا کہ ہم مانتے کتنا اپنی عملی زندگی میں کتنا لاتے ہیں جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو شاید کہ تم پہ بھی رحمت ہو جائے کیونکہ جب ہم سنیں گے نہیں سمجھیں گے نہیں تو رحمت کہاں سے آئے گی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کو صبح و شام یاد کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ تم ان لوگوں میں سنا ہو جاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہمیں رات اور دن کی گڑیوں میں کسرت سے اللہ کا ذکر کرنا چاہیے خاص طور پر دن کے دو کناروں میں اور سکون کے ساتھ اور دل کی غفلت کو دور کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے اور اس میں خوشی اور آجزی بھی ہونی چاہیے حاضر دل سے دعا کرنی چاہیے پورے یقین کے ساتھ کرنی چاہیے تب اللہ سنتا ہے جو فرشتے تمہارے رب کی حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھومنڈ میں آ کر اس کی عبادت سے مو نہیں موڑتے مقرب فرشتے مو نہیں موڑتے عبادت سے ہمیں بھی نہیں موڑنا چاہیے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں یہاں قرآن کا پہلا سجدہ آتا ہے سجدہ تلاوت جو ہے اگر آیت پڑھی جائے تو کرنا ضروری ہوتا ہے اگر صرف ترجمہ پڑھا جائے تو ضرورت نہیں ہوتی اور اس کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ وضوح کیا جائے یا نماز کی طرح یہ سجدہ باقاعدہ کیا جائے جہاں انسان بیٹھاؤ وہیں جھک کے تسبیح کر لے اللہ اکبر کہہ کے اس میں کوئی سلام بھی نہیں اور کچھ شتہیات وغیرہ نہیں تو اتنا بھی کافی ہو جاتا ہے سورة الانفال شروع کرتی ہوں اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان نہایت رحم فرمانے والا ہے تم سے انفال کے بارے میں غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں یاد رکھیں یہ صورت جنگِ بدر کے بعد نازل ہوئی یا اسی کے کانٹیکس میں جنگِ بدر میں مسلمانوں کو غنیمت حاصل ہوئی تو دورِ جاہلیت میں جس کو جو ملتا تھا وہ اس کا ہوتا تھا ابھی چونکہ کوئی ایسا قانون نہیں آیا تھا تو مسلمانوں کے درمیان کچھ اختلاف ہو گیا تو لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ تقسیم کیسے ہوگی کہ یہ انفال تو اللہ اور اس کے رسول کے ہیں مال کی محبت نکالو اپنے سے پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور آپس کے تعلقات درست رکھو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کے لرس جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے وہ اپنے رب پر اعتماد کرتے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے ہماری رامیں خرچ کرتے ہیں ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے یہ ہیں سچے مومن اس مالِ غنیمت کے معاملے میں بھی ویسی ہی صورت پیش آ رہی ہے جیسی اس وقت پیش آئی تھی جبکہ آپ کا رب آپ کو حق کے ساتھ آپ کے گھر سے نکال لیا تھا اور مومنوں میں سے ایک گروہ کو یہ سخت ناغوار تھا وہ اس حق کے معاملے میں آپ سے جھگڑ رہے تھے حالانکہ حق صاف صاف نمائع ہو چکا تھا ان کا حال یہ تھا کہ گویا وہ آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں یاد کرو وہ موقع جبکہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دو گروہوں میں سے ایک تمہیں مل جائے گا یا تو وہ قافلہ جو ابو سفیان کی زیر قیادت بہت سا مال لے کے جا رہا تھا یا پھر دوسرا یعنی کہ جو جنگ کے لیے آ رہے تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کے جڑ کار دے تاکہ حق حق ہو کر رہے اور باطل باطل ہو کر رہ جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناغوار ہو اور وہ موقع جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے جواب میں اس نے فرمایا میں تمہاری مدد کے لیے پیدر پہ ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں اللہ دعائیں سنتا ہے یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور اس سے تمہارے دل مطمئن ہو جائیں ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے اس حال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انسان کو اپنے رب سے گڑ گڑا گڑ گڑا کے مانگنا چاہیے فریادے کرنے چاہیے جب اس کی زندگی میں کوئی مسئلہ ہو ان اللہ عزیز الحکیم یقیناً اللہ زبردست اور دانا ہے اور وہ وقت جب کہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اتمنان اور بے خوفی کی کیفیت تاری کر رہا تھا اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست کو دور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمہارے قدم جمع دے یعنی اللہ سبحانہ وتعالی نے سارے محول کو تمہارے موافق کر دیا اور تمہارے دلوں کو جمع دیا کیونکہ دلوں کی مضبوطی جو ہے وہ جسم کی اور کام کی مضبوطی کا سبب بنتی ہے بزدل انسان کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتا اسی لئے ربنا افرغ لینا سبرہ پڑھنے کی ضرورت ہے اور وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو یعنی ان کے دلوں کو مضبوط رکھو میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں روب ڈالے دیتا ہوں پس تم ان کی گردنوں پر زرب اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاؤ یہ اس لیے کہ لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت سخت گیر ہے شدید اللقاب ہے یہ ہے تم لوگوں کی سزا اب اس کا مزا چکھو اور تمہیں معلوم ہو کہ حق کا انکار کرنے والوں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے اے ایمان لانے والوں جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دوچار ہو تو ان کے مقابلے میں پیٹ نہ پھیرو کیونکہ مقابلے میں پیٹ پھیرنا کبیرہ گناہ ہے جس نے ایسے موقع پر پیٹ پھیری اللہ یہ کہ جنگی چال کے طور پر وہ ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے ورنہ وہ اللہ کے غزب میں گھر جائے گا اس کا ٹھکانہ جہانم ہوگا اور وہ برا ٹھکانہ ہے آپ دیکھئے نکلے ہیں اللہ کے راستے میں اور اگر جمع نہیں بھاگ نکلے تو کدھر کو جا رہے ہیں رستہ چھوڑ کے وہ جہانم کا بتایا جا رہا ہے وہاں ٹھکانہ ہوگا تو نیک کام کرتے ہوئے طریقہ بھی درست رہے پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا خود کو مت کریڈٹ دو اور آپ نے نہیں پھینکا جو آپ نے ریت کی مٹھی پھینکی تھی ان کی طرف بلکہ اللہ نے پھینکا یہ تو اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے یقیناً اللہ سننے اور جاننے والا ہے یہ معاملہ تو تمہارے ساتھ ہے اور کافروں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ اللہ ان کی چالوں کو کمزور کرنے والا ہے ان سے کہہ دیجئے اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا انہوں نے نکلتے ہوئے مکہ سے دعا کی تھی مشرقین نے کہ جو آج حق پر ہے اس کو پتہ ہو جائے تو فتح مسلمانوں کو ہو گئی اب باز آ جاؤ تمہارے لئے بہتر ہے ورنہ پھر پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اسی سزا کا اعادہ کریں گے اور تمہاری جمعیت خواہو کتنی ہی زیادہ ہو تمہارے کچھ کام نہ آ سکے گی اللہ مومنوں کے ساتھ ہے اے ایمان لانے والو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد اس سے سرطابی نہ کرو ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سنا حالانکہ وہ نہیں سنتے یعنی دل کے کانوں سے سننا اصل میں سننا ہوتا ہے کہ جس چیز کا اثر انسان دل پہ لے اور پھر اس پر عمل بھی کرے یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گمگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے اگر اللہ کو معلوم ہوتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے تو وہ ضرور انہیں سننے کی توفیق دیتا اللہ اکبر سننے کی توفیق بھی اللہ ہی دیتا ہے اگر وہ ان کو سنواتا تو وہ بے رخی کے ساتھ مو پھیر جاتے کتنے لوگ ہیں جو قرآن اللہ کا کلام سننے کے بعد اسی قسم کا رویہ اختیار کرتے ہیں وہ دلی سے سنتے ہیں اور پھر مو پھیر کے چلے جاتے ہیں اور کچھ بھی ساتھ نہیں لے کے جاتے ایسا شخص اپنے علم پر کچھ بھی عمل نہیں کرتا اے ایمان لانے والو اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیت کہو جبکہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اللہ کو سب پتا ہے تم کیا سوچتے ہو اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے یاد کرو وہ وقت جب تم تھوڑے تھے زمین میں تمہیں بے زور سمجھا جاتا تھا تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں اچھا رزق بہم پنچایا شاید کہ تم شکر گزار بنو ایمان لانے والو جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اپنی امانتوں میں غداری کے مرتقب نہ ہو جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد حقیقت میں تمہارے لئے آزمائش کی چیز ہیں فتنہ ہیں کیونکہ انسان اولاد کی وجہ سے ہی اور مال میں اضافے کے لیے ہی خیانتیں کرتا ہے جبکہ یہ دونوں چیزیں انسان کو غافل کرنے کا باعث ہوتی ہیں تو انسان کو غافل کرنے والی چیزوں سے بچتے رہنا چاہیے اور اللہ کے پاس عجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے اے ایمان لانے والو اگر تم تقوی اختیار کرو گے تو اللہ تمہیں فرقان عطا کرے گا اور تمہاری برائیوں کو تم سے دور کر دے گا یاد رکھئے تقوی کی وجہ سے انسان حق کو باطل میں فرق کر سکتا ہے صلاحیت پیدا ہو جاتی اچھے برے کی پہچان ہو جاتی ہے امام مالک نے اپنے شاگرد امام شافی سے پہلی ملاقات میں کہا میں دیکھتا ہوں کہ اللہ نے تمہارے دل پر نور دالا ہے نافرمانی کے اندھیرے سے اسے بجھا نہ دینا یعنی یہ علم اللہ نے دیا ہے تو نافرمانی نہ کرنا اے ایمان لانے والو اگر تم تقوی اختیار کرو گے تو اللہ تمہیں فرقان دے گا تمہاری برائیاں تم سے دور کر دے گا تمہارے قصور ماف کر دے گا اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکریین حق آپ کے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلاوطن کر دیں ہجرت سے پہلے کی بات ہے مکہ میں وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے جب ان کو ہماری آیات سنائی جاتی تھی تو کہتے تھے کہ سن لیا ہم نے ہم چاہے تو ایسی باتیں ہم بھی بنا سکتے یہ تو وہی پرانی کہانیاں ہیں جو پہلے سے لوگ کہتے چلے آ رہے ہیں اور وہ بات بھی یاد رہے جو انہوں نے کہی تھی کہ اللہ اگر یہ واقعی حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لیا اس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا جبکہ تو ان کے درمیان موجود تھا اور نہ اللہ کا یہ قائدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے دے سبحان اللہ استغفار اللہ کے عذاب سے نحفوظ رکھتا ہے یہ ایک چھوٹا سا کارڈ ہے جس پہ استغفار لکھا ہوا ہے اگر آپ اس کو بک مارک بھی بنا لیں تو جب دیکھیں گے استغفار یاد آ جائے گا کیونکہ استغفار کے سبب انسان کو امن ملتا ہے اور استغفار کی وجہ سے انسان کے گناہ دلتے بھی رہتے ہیں اور لکھے جانے سے بھی بچتے ہیں اور وہ ان کو عذاب دے دے یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ استغفار کرے اور وہ انہیں عذاب دے لیکن اب کیوں نہ وہ ان پہ عذاب نازل کرے جبکہ وہ مستد حرام کا راستہ روک رہے ہیں عمرے کے لئے بھی کسی کو نہیں جانے دے رہے حالانکہ وہ اس مسجد کے جائز متولی نہیں اس کے جائز متولی تو صرف اہلِ تقوی ہی ہو سکتے ہیں مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے بیت اللہ کے پاس ان لوگوں کی نماز کیا ہوتی ہے بس سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے دورِ جاہلیت میں انہوں نے حج اور عمرے کے ریچولز میں اپنی منمانیاں کر کے ایسی تبدیلیاں کر لی اس کو بھی کھیل تماشا بنا لیا پس اب لو اس عذاب کا مزہ کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو جن لوگوں نے حق کو ماننے سے انکار کیا وہ اپنے مال اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے صرف کر رہے ہیں اور ابھی اور بھی خرچ کرتے رہیں گے اللہ اکبر مگر آخر کار یہی کوشش ان کے لئے پچتاوے کا سبب ہوں گی پھر وہ مغلوب ہوں گے پھر یہ کافر جہنم کی طرف گھیر کر لائے جائیں گے تاکہ اللہ گندگی کو پاکیزگی سے چھانٹ کر الگ کر دے اور ہر قسم کی گندگی کو ملا کے اکٹھا اٹھا کر کے پھر اس پلندے کو جہنم میں جھونک دے یہی لوگ اصل دیوالیے ہیں بڑی اہم بات یہاں پتا چل رہی ہے کہ مال کا غلط استعمال انسان کے لیے حسرت کا باعث ہوگا یاد رکھئے انسان اپنے مال کو جہاں جہاں خرچ کرتا ہے اس کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا لہٰذا سوچ سمجھ کے خرچ کریں کس چیز پر خرچ کر رہے ہیں کہاں لٹا رہے ہیں کہاں ضائع کر رہے ہیں اور یہی مال ہے جو انسان کے لیے صدقہ جاریہ بھی بنتا ہے اور بلندیوں کا ذریعہ بنتا ہے اے نبی ان کافروں سے کہہ دیجئے اگر اب بھی باز آ جائے تو جو کچھ پہلے ہو چکا اس سے درگزر کر لیا جائے گا سبحان اللہ اللہ کی رحمت اب بھی توبہ کا موقع ہے لیکن اگر یہ اسی پچھلی روش کا عادہ کریں گے تو پچھلی قوموں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا وہ سب کو معلوم ہے یعنی ان پر پھر عذاب بھی آ سکتا ہے اے ایمان لانے والو ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اصل مقصد یہ ہے اور دین پورے کا پورا اللہ کے لئے ہو جائے پھر اگر وہ فتنے سے رک جائیں تو ان کے عامال کا دیکھنے والا اللہ ہے وَإِن تَوَلَّوْا فَعَلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَوْلَاكُمْ نِعْمَ الْمَوْلَا وَنِعْمَ النَّصِيرِ اگر وہ مو پھیر جائیں تو جان لو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے اور وہ بہترین حامی و مددگار ہے مومنوں کا مددگار اللہ ہوتا ہے اللہ سبحان و تعالی ہم سب کو اپنی رحمت اور مدد سے نوازے وآخر دعوانا عن الحمد للہ رب العالمین سبحانك اللہم وبحمدك اشہد اللہ الہ الا انت استغفرک واتوب الیک السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ