Transcript for:
نفس کی تذکیہ کی راہنمائی

الحمدللہ وقفا وسلام علی عباده الذین استفا اما بعد اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم ونفس وما سراہا فَأَلْحَمَهَا فَجُورَهَا وَتَقْبَاهَا قَدْ أَفْلَحَ مَنْ ذَكَّاهَا وَقَدْ خَوْبَ مَنْ دَسَّاهَا وَقَالِ اللَّهُ تَعَالَى فِي مَقَامٍ آخَرٍ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَذَكَّى فَذَكَى رَسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّاهُ وَقَالِ اللَّهُ تَعَالَى فِي مَقَامٍ آخَرٍ وَمَنْ تَذَكَّى فَإِنَّمَا يَتَذَكَّى لنفسی وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرِ وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى فِي مَقَامٍ آخَرٍ فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَوْا سبحان ربک رب العزت اما يصفون وسلام على المرسلین والحمد للہ رب العالمین اللہم صلی علی سیدنا محمد محمد وعلا آل سیدنا محمد وبارک وصل جو مخلوق سرابہ خیر وہ فرشتے جو سرابہ شر وہ شیطان اور جو خیر اور شر کا مجموعہ وہ حضرت انی ہر انسان کے اندر اللہ نے خیر بھی رکھی ہے شر بھی رکھی ہے فطرتن انسان کے اندر خیر اور شر موجود ہے مگر حکم یہ ہے کہ ہر بندہ اپنے اندر سے خیر خیر کو ظاہر کرے تاکہ اچھا انسان بنے جس کے اندر سے شر ظاہر ہو گیا وہ برا انسان آپ نے خود بھی تجربہ کیا ہوگا اچھے موڈ میں ہوتا ہے محبت کے موڈ میں ہوتا ہے تو اس بندے سے اچھے الفاظ ہی کلتے ہیں اچھی باتیں کہتے ہیں مسکراتا ہے اور یہی بندہ جب غصے میں آ جاتا ہے تو زبان سے گالیاں بکتے ہیں اس کے اندر سے پھر شر نکل رہی ہوتی ہے ہمارے اندر کا شر ختم ہو جائے اور ہمارے اوپر خیر غالب آ جائے یہ ہماری اس زندگی میں ڈیوٹی ہے اس کو کہتے ہیں تذکیہ نفس نفس کا تذکیہ کرنا ایک ہوتا ہے تذکیہ قلب قلب کی صفائی اور تذکیہ نفس کا مطلب ہوتا ہے نفس کی سترائی یہ دو الگ الگ الفاظ ہیں مثال کے طور پر اگر شیشے کے اوپر مٹی آئی ہوئی ہے تو اس کی صفائی کرنی پڑتی ہے آپ کپڑا اس کے اوپر لگا دیں شیشہ بالکل صاف ہو جائے گا لیکن اگر کپڑا میلہ ہو جائے کپڑے کو کوئی اسٹری کرنے سے وہ صاف نہیں ہوتا اس کو دھونا پڑتا ہے فرق کیا ہے فرق یہ ہے کہ شیشے کے اوپر جو مٹی تھی وہ شیشے کی سطح پہ تھی اندر نہیں گئی تھی اس لیے وہ صفا جلدی ہو گیا کفڑے کے اندر جو مٹی ہے وہ اندر چلی گئی ہے اب اس کو نکالنے کے لیے اس کو ستھرہ کرنا پڑے گا پانی میں ڈالنا پڑے گا سابون لگانا پڑے گا پھر وہ مٹی اس کفڑے سے لدا ہوگی اور کفڑا بلکل صاف ہوگی اسی طرح نفس کے اندر خراب بھی ہوتی ہے تو اس کا تذکیہ کرنا پڑے گا اس کو سترہ کرنا پڑتا ہے محنت کرنی پڑتا ہے اور یہ نفس کا تذکیہ حاصل کرنا ہمارے لئے لازم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں قد افلح من تذکہ تحقیق فلاح پا گیا وہ جو سترہ ہوا فلاح کہتے ہیں اس کامیابی کو جس کے بعد ناکامی نہ ہو ایسی عزت جس کے بعد ظلت نہ ہو اللہ کے ہاں ایسا قرب جس کے بعد کو دوری نہ ہو وہ فلاک ہے اور یہ اُس شخص کو ملتی ہے جو اپنے نفس کا تذکیہ کرتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی تھی ربنا وابا سیہم رسولا اے اللہ میں نے بیت اللہ بنا دیا ہے عبادت سکھانے والے کو بھیجیجئے میں نے مدرسہ سب بنا دیا ہے پڑھانے والے کو بھیج دیجئے اور اس وقت انہوں نے چار باتیں کہی تھی کہ مبنی غمر اسلام جو تشریف لائیں گے يَتْلُوْاَلَيْهِمْ آیَاتِهِ وَيُعَلِّمُهُمْ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ وہ ان کے اوپر آیات کی تلاوت کریں گے حلم و حکمت ان کو سکھائیں گے اور ان کے نفوس کا تذکیہ کریں گے تو انہوں نے تذکیہ کو چوتھے نمبر پہ بیان کیا اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما لیا اور پھر قرآن مجید میں تذکرہ کیا اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا کہ اپنے محبوب کو دنیا میں بیجا وہ ان کے اوپر قرآن پاک کی آیات کی تلاوت کریں وَيُزَكِّيهِمْ اور ان کا تذکیہ کریں وَيُعَلِّمُهُمْ الْقِتَابَ الْحِكْمَةِ اور کتاب اور حکمت کی تعلیم نے اب دعا تو وہی قبول ہوئی لیکن اس میں جو تذکیہ کا لفظ ہے وہ پہلے چوتھی جگہ پہ تھا اب اس کو دوسری جگہ پہ بیان کیا گیا تو قرآن مجید نے الفاظ کی ترتیب میں تبدیلی کر دی وجہ کیا کہ تذکیہ کی اہمیت کے پیشن ہے آپ ڈاکٹر لوگ ہیں سائنس کی بات کو آسانی سے سمجھتے ہیں کہ جیسے ڈی این اے کے اندر جو چیز جہاں ہوتی ہے اس کی ایک سگنیفیکنس ہوتی ہے امپورٹنس ہوتی ہے اس کو آگے پیچھے نہیں کر سکتے اگر کر دیں گے تو بہت بڑی تبیلی آ جائے گی اسی طرح قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس کا جو لگ جہاں بھی ہے وہ میننگ فل ہے اس کو آگے پیچھے نہیں کر سکتے تو اللہ نے جو تذکیہ کو سیکنڈ فلیس پہ منشن کیا تو اس کے پیچھے ایک میسج تھا اس کی امپورٹنس کی وجہ سے قرآن مجید میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم نے انسان کو پیدا کیا فَجَالْنَاهُ سَمِعًا بَسِيرًا اور ہم نے اس کو سمیع اور بسیر بنایا تو سماعت کا تذکرہ پہلے اور بسارت کا تذکرہ بعد میں اور یہ بات کب کہی گئی آج سے چودہ سال پہلے جب سائنس یہ بھی بنیاد ہی نہیں پڑی تھی اور آج موسٹ مارڈن سائنٹیفک دور میں سائنس اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ انسان کے کان پہلے بنتے ہیں ماں کے فیٹ میں اس کی آنکھیں بعد میں بنتی ہیں چونکہ سماعت کا تذکرہ پہلے ہے بسارت کا تذکرہ بعد میں میڈیکل سائنس کے طلابہ جانتے ہیں کہ بچے کی جب باڈی بنتی ہے تو سب سے پہلا آرگن جو اس کے باڈی میں ڈیویلپ ہوتا ہے وہ اس کے کان ہوتے ہیں حالانکہ عام فہم یہ کہتی ہے کہ سب سے پہلے دل بننا چاہیے آنکھیں بننی چاہیے سائنس کہتی ہے نہیں کان بنتے ہیں کان کیوں بنتے ہیں اس کی وجہ یہ کہ اس کے اندر روٹ کے نال ہوتی ہے اور اس کے اندر لیکوئیڈ ہوتا ہے فلوئیڈ ہوتا ہے اور اس پر انسان کے پورے بیلنس کا انحصار ہوتا ہے ہم جو سیدھا کھڑے ہوتے ہیں تو کیوں کھڑے ہوتے ہیں ہمارے دونوں کانوں کے اندر فلوئیڈ ہے وہ ایک جگہ کے اوپر بیلنس ہوتا ہے اور دماغ کو سگنل ملتا ہے کہ میں سیدھا کھڑا ہوں اگر وہ سگنل نہ ملے تو ہم تو سیدھا بھی نہیں کھڑے ہو سکتے ہیں چنانچہ ایک موجوان بیمار تھا اور بیماری کیا تھی کہ وہ جیسے ہی زمین پر کھڑا ہوتا تو وہ نیچے گر جاتا تھا تو اس سے ہم نے پوچھا کہ آپ صحت مند ہیں آپ کو مسئلہ کیا ہے وہ کہنے لگا جی کہ جب میں کھڑا ہوتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں ٹیڑا ہوں میں اپنے آپ کو سیدھا کرنے کے چکر میں نیچے گر جاتا ہوں اصل میں اس کا جو فلویڈ کا بیلنس تھا وہ خراب تھا تو دماغ کو غلط سگنل مل رہا ہوتا تھا اس لیے انسان کی پوری باڈی کا جو توازن ہے نا وہ کانوں کے سگنل پر منحصر ہے اس لیے باڈی میں کانوں کا بننا زیادہ اہم تھا اور قرآن مجید نے چودہ سو سال پہلے خبر دے دی کہ انسان کو ہم نے پیدا کیا اس کو ہم نے سمیح بنایا پھر اس کو ہم نے بصیر بنایا پہلے کان دیئے پھر اس کو آنکھیں اطاف فرمائیں جب ہم کوئی عمارت بناتے ہیں تو پہلے اس کی بنیاد پڑتی ہے پھر اس کے بعد چھت بنتی ہے عام دستوریہ یہ ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن نبید میں کائنات کو بنانے کا تذکرہ کیا تو پہلے زمین بنانے کا تذکرہ فرمایا خَلَقَ الْأَرْضَ فِي جَوْمَئِن اللہ نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا سُمَّسْتَوَا عِلَى السَّمَا پھر اللہ تعالیٰ آسمان کی طرف چھت کی طرف متوجہ ہوا تو پہلے زمین بنی بعد میں چھت بنی لیکن جب کسی مکان کو گراتے ہیں تو ترتیب ڈیفرنٹ ہوتی ہے سب سے پہلے اس کے اندر جو بجلی کی لگی ہوتی ہیں نا بجلی کی لائٹیں ان کو اتارا جاتے ہیں جب بجلی کی لائٹیں اتار جاتی ہیں پھر چھت کو گرایا جاتے ہیں پھر چھت گرانے کے بعد اس کی دیواریں گرتی ہیں اور وہ امارت ختم ہوتی ہے اب دیکھیں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے قریب جا کے اس کائنات کو ختم کرنا ہے تو ختم کرنے کے لئے سب سے پہلے کیا اِذَا الشَّمْسُ كُبِّرَتْ وَإِذَا النَّجُومُنْ قَدَرَتْ لائٹیں اتاری جاری ہیں پہلے اور پھر اس کے بعد تذکرہ کیا کہ ہم آسمان کو بھی ختم کر دیں گے اور سب سے آخیر سے زمین کا تذکرہ کیا تو دیکھو عمارت بناتے ہوئے جو ترقیب تھی قرآن نے ڈیفرنٹ بتائی جب گرانے کی ترقیب تھی تو قرآن نے دیفرنٹ بتائی تو جو لفظ قرآن مجید کا جہاں ہے وہ اسی جگہ ہی اہم ہے تو اب تذکیہ کو اللہ تعالی نے دوسرے نمبر پر بیان کیا اس میں یہ میسج اینا تھا کہ انسان کا تذکیہ ہونا انتہائی ضروری ہے ایک اچھا آدمی اگر کوئی بات کہے تو بات کا وزن ہوتا ہے کہ یہ لکھا پڑا ہے شریف انسان ہے اگر وہ بات کر رہا ہے تو بات کی اہمیت ہوگی اگر وہ بندہ قسم کھا کے بات کہے تو اہمیت بڑھ جاتی ہے اور اگر دو قسمیں کھائے اور اہمیت زیادہ تین قسمیں کھائے آپ سوچیں اگر کوئی بندہ سات قسمیں کھا کے بات کرے تو بات کی اہمیت کتنی زیادہ ہوگی اللہ رب العزت جو کائنات کے مالک ہیں اور خالق ہیں انہوں نے قرآن مجید میں ایک جگہ سات قسمیں کھا کر ایک بات کی ہے فرمایا وَنَفْسِمْ وَمَا صَوَّاحَا سات قسمیں لگتار کھانے کے بعد اللہ فرماتے ہیں قَدْ اَفْلَحْ مَنْ ذَكَّاحَا وَقَدْ خَوْبَ مَنْ دَسَّاحَا جو اپنی نقص کو سترہ کرے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو سترہ نہیں کرے گا وہ ناکام ہوگا آپ بتائیے اس سے زیادہ ایمپیسز اور کیا پلیس کیا جا سکتا ہے اللہ رب العزت سات قسمیں کھا رہے ہیں ان ایرو اگ پیچھے اس کی قسم اس کی قسم اس کی قسم اور پھر فرماتے ہیں جو اپنے نفس کو ستھرہ کرے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو ستھرہ نہیں کرے گا وہ ناکام ہوگا ہم اگر اپنے نفس کو ستھرہ کرنے کی محنت نہیں کرے گے تو پھر سوچیں ہمارا معاملہ کیا بنے گا چیز کو صاف کرنے اور ستھرہ کرنے کے طریقے ڈیفرنٹ ہوتے ہیں مثلا آپ ایک کپڑے کو دھونا چاہتے ہیں تو پانی سابن کی ضرورت ہے پانی سابن کے لیے کپڑ ہتھا ہو جائے گا کپڑے کی میل ختم ہو جائے گی لیکن اگر سونے کے اندر کھوٹ ہے تو وہ پانی سابن سے نہیں نکلے گا اس کے لیے آگ جلانی پڑے گی اور سونے کو پگلانا پڑے گا یہ سنارے لوگ جو ہیں نا یہ سونے کا کھوٹ اسی طرح نکالتے ہیں کہ سونے کو پگلا دیتے ہیں پگلنے کے بعد سونا اور کوئی دوسری چیز جو ملاوت ہوتی ہے یہ الگ الگ ہو جاتی ہے تو کبھی خوٹ دور کرنے کے لیے آگ کی ضرورت پڑتی ہے انسان کے اندر کا خوٹ کیسے نکلے اس کے دو طریقے ہیں ایک طریقہ تو بہت آسان ہے کہ انسان اسی دنیا میں شریعت کے مطابق زندگی گزارے اپنے آپ کو سنت کے مطابق ڈھال لے تو اس کے نیچے اس کا تذکیہ ہو جائے گا اور یہ بندہ سیدھا جنت میں جائے گا اور دوسرا طریقہ ذرا ڈیفیکلٹ ہے کہ انسان نے دنیا میں کلمہ تو پڑھ لیا مگر گناہ کرتا رہا عام زندگی گزارتا رہا تو پھر اللہ تعالیٰ اس کا آخرت میں تذکیہ فرمائیں گے جی آخرت میں بھی تذکیہ ہوگا منافقین کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت پر انہوں سے کلام کریں گے وَلَا يُقَلِّمَهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُذَكِّيهِمْ اور نہیں اللہ ان کا تذکیہ کریں گے اس کا مطلب یہ کہ منافقین کا تذکیہ تو نہیں ہوگا جو بناغار مومن ہوں گے ان کا اللہ تذکیہ کریں گے اب وہ تذکیہ کیسے ہوگا جہنم کے ہسپیٹل میں جہنم کی مثال ایک ہسپیٹل کی معنید ہے کیونکہ آپ میڈیکل لائن کے لوگ ہیں بات کو ذرا آسانی سے سمجھ لیں گے کوئی بھی بیمار آدمی ہوتا ہے اسے ہاسپیٹل میں ایڈمیٹ کرتے ہیں کہاں ایڈمیٹ کرتے ہیں ایمیجنسی وارڈ میں لاتے ہیں ایمیجنسی وارڈ میں تھوڑا سا سٹاف ہوتا ہے وہ ہر آنے والے مریض کے بارے میں ایک دو چھوٹے سو کسٹر پوچھتے ہیں ان کو پتہ چل جاتا ہے اس کو یہ دل کا مریض ہے ہڈی ٹوٹی ہے اس کو بخار ہے یا کسی جگہ درد ہے تو پھر وہ ٹریٹمنٹ اس کے حساب سے دینا شروع کر دیتے ہیں اللہ رب العزت نے بھی معاملہ ایسا ہی کیا جو بندہ فوت ہوتا ہے قبر میں جاتا ہے تو قبر آخرت کا ایمیجنسی وارڈ ہے اور وہاں پر دو فرشتے ہوتے ہیں اور وہ تین چھوٹ چھوٹے کسٹر کرتے ہیں من ربک من نبیک ما دینک کتنے چھوٹے چھوٹے سوال ہیں ان تین چھوٹے سوالوں سے ان کو پتہ چل جاتا ہے یہ کس لیول کا مریض ہے اور اس کے ساتھ ٹریٹمنٹ کیا کرنی ہے پھر ویسے ٹریٹمنٹ شروع کر دی جاتی ہے ایمیجنسی کے ڈاکٹر جو ہیں وہ اس مریض کو کچھ ضروری دوائی دیتے ہیں اور کہتے ہیں جب بڑا ڈاکٹر آئے گا نا کل سرجن صاحب آئیں گے وہ آپ کی فائل بھی پڑھیں گے اور آپ سے ڈیٹیر ہسٹری بھی لیں گے پھر وہ فیصلہ کریں گے کہ آپ نے کس وارڈ میں جا کے ایڈمیٹ ہونا ہے بلکل یہی معاملہ قبر میں تو ٹریٹمنٹ فوری دے دی جاتی ہے قیامت کے دن انسان کھڑا ہوگا تو طبیبِ آزم اللہ رب العزت اس بندے سے چار سوال پوچھیں گے یہ زندگی کی ہسٹری ہوگی اے میرے بندے تُو نے زندگی کیسے گزاری تُو نے جوانی کیسے گزاری تو نے کہاں سے کمائا اور کہاں پہ خرچ کیا اور تو نے اپنے علم کے اوپر کتنا عمل کیا کسی آدمی کے پاؤں اپنے جگہ سے ہل نہیں سکتے جب تک اس کا جواب نہیں دے گا اس سے فردہ چل جائے گا کہ مریض کی بیماری کیسی ہے پھر اللہ تعالیٰ نام عمال کو دیکھیں گے یہ مریض کی فائل ہے جس کو پڑھیں گے اس میں کیا کچھ لکھا ہوا ہے پھر اللہ تعالیٰ قیسلہ کریں گے اس بندے نے جہنم کے کس درجے کے اندر جانا ہے امرجنسی وارڈ جو قبر ہے اس میں کیا ہوگا ایک گناہ دار بندہ جائے گا اور قبر اس کو دبائے گی کئی دفعہ بیماری کا علاج دبانے میں ہوتا ہے مثلا آپ درد محسوس کر رہے ہیں سر میں تو بچے کو بلا کہتے ہیں بچے ذرا میرا سر دبا دو اب وہ سر دباتا ہے آپ کو راحت ملتی ہے اور کئی مرتبہ دبانے سے تکلیف ہوتی ہے یہی فرق ہے قبر کے زغطہ میں قبر ایک مومن کو بھی دوگائے گی مگر اس کو راحت ملے گی اور ایک کافر کو بھی دبائے گی اور کافر کو تکلیف ملے گی حدیث مبارکہ ہے کہ ایک طرف کی فصلیاں دوسری طرف چلی جائیں گی اتنا قبر دبائے گی یہ فیزیو ترہتی اس کی ہو رہی ہوگی ٹریٹمنٹ مل رہی ہے اس کو عام طور پر دیکھا ہے کہ ایمیجنسی وارڈ میں مریض آتا ہے تو اس کو پانی کی ڈرپ لگا دیتے ہیں اسی کے ذریعے سے انجیکشن دوائیاں جاتی ہیں قبر میں اس بندے کو بھی ایک ڈرپ لگائی جاتی یعنی انٹر وینس انفیزن جس کو کہتے ہیں نا وہ دی جائے گی حدیث مبارکہ میں جو بندہ نماز کا ذا کرتا تھا اللہ تعالیٰ قبر میں ایک گنجا ازدہہ پائسن اس کے اوپر مسلط کر دیں گے اب یہ ازدہہ اس کے سر کے قریب کھڑا ہوگا اور اس آدمی کو بائٹ کرے گا اور اپنی پوائزن اس کے اندر انجیکٹ کر دے گا بندے کو تکلیف ہوگی پھر جب تکلیف ٹھیک ہوگی تو پھر دوبارہ بائٹ کرے گا پھر کچھ ڈراؤپ ڈال دے گا جیسے ڈریپ ہوتی ہے نا کترہ کترہ بندے کے جسم میں دوائی جا رہی ہوتی ہے یہ اللہ تعالیٰ کا لگائے ہوا انٹروینس انفیجن ہے یہ پانی کی بوتل اللہ نے اس کو بنا دیا اور یہ زہر کا کترہ کترہ دوائی کا ڈال رہا ہے اور بندے کی ٹریٹمنٹ چل رہی ہے اب اس تکلیف میں یہ بندہ اس وقت تک رہے گا جب تک قیامت قائم نہیں ہو جاتی پھر قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش ہوگا اللہ تعالیٰ اس سے کوئسٹن پوچھیں گے اس کے نام اعمال کو دیکھیں گے پھر حکم دیں گے کہ اس بندے کو جہنم میں لے کے جاؤ اور جہنم کے مختلف درجات ہیں سب سے نیچے کا درجہ ہوگا اس میں منافق ہوں گے قرآن مجید نے بتا دیا اِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْقِ الْأَصْفَلِ مِنَ النَّارِ آج کے سب سے نیچے کے حصے میں منافق لوگ ہوں گے اور سب سے اوپر کے حصے میں گناہگار ایمان والے ہوں گے ایک دستور ہے آپ نے شریکی سٹور میں کوئی چیز رکھنی ہو تو جس چیز کی بار بار حرکت پڑتی ہے اس کو دروازے کے قریب رکھتے ہیں اور جس چیز میں لمبار سا رہن ہے اس کو دور کونے کے اندر جا کے ڈال دیتے ہیں تو منافقین کو بھی نیچے والے درجے میں ڈالیں گے انہوں نے تو نکلنا ہے ہی نہیں اور جو گناہدار مومن ہیں ان کو جلدی نکالنے ہیں ان کو دروازے کے قریب اوپر کے درجے میں رکھیں ہر ہاؤپیٹل میں ایک یونیفارم ہوتی ہے امیروں وزیروں جب ہسپیٹلائز ہوتا ہے تو اس کو اپنے لباس فاخرہ کو اتار کر وہ یونیفارم پہنی پڑتی ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جہنمیوں کو یونیفارم پہنائیں گے سرابیلوہم من قطرانن گندک کا بنوہ لباس ہوگا اس لیے کہ جو سلفر کا لباس ہوتا ہے سلفر آگ کو جلدی پکڑتی ہے اور جو چیز آگ کو جلدی پکڑے وہ جسم کو زیادہ جلاتی ہے عورتوں کے کپڑے عام طور پر آگ جلدی پکڑتے ہیں جب ان کو آگ لگتی ہے تو ان کے جسم پر برننگ سکن کی زیادہ ہوتی ہے اس جہنمی کو بھی یونیفارم پینا دی جائے گی مگر یہ عام کپڑا نہیں ہوگا یہ گندک کا بنا لباس ہوگا فقہاں نے لکھا ہے اگر کسی گلی میں ایک گدہ مارا پڑا ہو تو اتنی بھو ہوتی ہے کہ قریب سے بندہ گزر نہیں سکتا بدبو کی وجہ سے ایک جانور کی اگر لاش گل سڑ جائے تو اتنی بھو ہوتی ہے جہنمی کے کپڑوں میں کتنی بدبو ہوگی ساری دنیا کے انسان شروع سے لے کے آخر تک حیوان چرند پرند خوشکی کے مخلوق تری کی مخلوق ساری مخلوق ایک جگہ جمع ہو جائے اور سب مر جائیں اور سب کی باڈی جو ہے وہ گل سڑ جائے اس جگہ پر اتنی بدبو نہیں ہوگی جتنی بدبو جہنمی کے کپڑوں کے اندر ہوگی اب آپ سوچئے ہم اس کپڑے کو کیسے پہنے گے آج تو ہم کپڑے پہنتے ہیں تو پرفیوم لگاتے ہیں یہ پوائزن کی پرفیوم ہے یہ فلاں پرفیوم ہے یہ وائٹ مسک ہے جی مجھے بہت اچھا لگتا ہے بھئی جب ایسے کپڑے پہنا جائیں گے کہ جن کی بدبو اتنی زیادہ ہوگی کہ ساری دنیا کے انسان ہیوان ان کی لاشیں گل سڑ جائیں تو جتنی بدبو وہاں ہوگی جہنمی کے کپڑوں کی بدبو اس سے بھی زیادہ ہوگی پھر یہ یونیفارم پہنانے کے بعد اس آدمی کو جہنم میں ڈالا جائے گا جو مریض ہوتا ہے نا اس کو جہنم میں اس کو ہسپیٹل میں لے جاتے ہوئے کئی دفعہ ویلچئر پہ لے کے جاتے ہیں جی پیشنٹ ہے ویلچئر پہ جا رہے ہیں اور کئی دفعہ تو اس کو چار پائیر پہ لٹا کے لے جاتے ہیں یہ جہنمی جس کو جہنم میں بھیجا جائے گا یہ کوئی عزت احسرام اور پروٹوکول کے ساتھ نہیں جائے گا اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں یوم یدعون الى نار جہنم فرشتوں کو جب بھکم ہوگا کہ اس بندے کو جہنم لے جاؤ تو فرشتے اس بندے کو دھکے ماریں گے جیسے کسی بندے کو ہیملیئٹ کیا جاتا ہے نا دھکے مار مار کے لے جانا تو فرشتے اس جہنمی کو دھکے ماریں گے اور ہیملیئٹ کر کر کے ظلیل اور رسوہ کر کے اس کو جہنم میں فیخیں گے قرآن مجید کے سوتی اثرات بھی ایسے ہیں پڑھتے ہوئے بھی پتا چلتا ہے جیسے کوئی کسی کو دھکے مار رہا ہو یوم یداعون الى نار جہنم دا پھر جب جہنم میں ڈال دیا جائے گا تو یہ بندہ وہاں آرام سے نہیں ہوگا چھوٹا سا کمرہ ہوگا ہاؤسپیٹل میں جیسے مریض کا کمرہ ہوتا ہے نا قرآن مجید نے کہا مکانن دیقن قرآن مجید کے الفاظ ہیں چھوٹا سا کمرہ آگ کا بنا ہوا ہوگا اس میں اس بندے کو ڈال دیا جائے گا نہ یہ اس میں لیٹ سکے گا نہ کھڑا ہو سکے گا نہ بیٹھ سکے گا دائیں طرف سے بچے گا تو بائیں طرف آگ جلائے گی اور بائیں طرف سے بچے گا تو دائیں دیوار آگ کی اس کو جلائے گی اور ایک چھوٹی سی جگہ میں جیسے بندہ ہوتا ہے تو پریشان ہوتا ہے کہ میں اس میں سے کیسے نکلوں میری تو سفوکیشن ہو رہی ہے اس کا وہاں پر یہ حال ہوگا پھر یہ باہر نکلے گا ایک فرشتے کو کہے گا کہ وی میں بہت تنگ جگہ سے باہر نکلا ہوں مجھے کہیں کھلی جگہ لے جاؤ فرشتہ کہے گا میرے ساتھ آؤ آگ کا بنا ہوا ایک پہاڑ ہوگا وہ فرشتہ اس بندے کو اس انگارے کے پہاڑ کے اوپر چراتا چراتا چوٹی پہ لے کے جائے گا جب یہ بالکل ٹاپ پہ پہنچ جائے گا تو فرشتہ وہاں سے اس کو دھکا دے گا اور یہ بندہ گرے گا اور آگ کے انگاروں پہ گرتا گرتا گرتا نیچے پہاڑ کی جہاں بیٹھ ہوگی وہاں پہ آئے گا جسم جل چکا ہوگا، تکلیف ہو رہی ہوگی، ہڈیاں ٹوٹ رہی ہوگی، پھر یہ اٹھ کے کھڑا ہوگا، پھر اس کے اپ کے سامنے آئے گا What can I do for you? Can I serve you? وہ پوچھے گا اس سے، یہ کہے گا کہ ہاں مجھے بہت بھوک لگی ہے، please کچھ کھانے کو میرے لیے لاؤ وہ جائے گا اور زکوم کا پودا اس کو کھانے کے لیے لاکھ دے گا زکوم کا فودہ آپ نے دیکھا ہوگا جس کے اوپر کانٹے ہوتے ہیں پتے نہیں ہوتے وہ پورے کا پورا کانٹوں سے بنا ہوا ہوتا ہے اور اتنا بٹر ہوتا ہے کہ اگر صبح کے وقت اس کو چکھے نا تو شام تک اس کی کروات مو میں محسوس ہوتی ہے یہ زکوم کا فودہ انہا شجر کا زکوم تآم الاسین یہ وہاں پر کھانے کو دیا جائے گا اس بندے کو اتنی بھوک لگی ہوگی کہ یہ اس کو کھانا شروع کرے گا لیکن جب اس کو بائٹ کرے گا کھائے گا تو وہ ذکر اس کے گلے کے اندر جا کے اٹک جائے گا نہ نگلتے بنے گی نہ اگلتے بنے گی اب اور مشیقیت نے پس گیا پھر کہے گا جی کچھ مجھے پینے کو دو تاکہ میرا لکمہ نیچے جائے اب اس کو پینے کے لیے وہاں پہ کوئی کوک پیسی نہیں دی جائے گی روح افضاء کا شروط نہیں دیا جائے گا وہاں پر اس کو پینے کے لیے ایک عجیب مشروب دیا جائے گا قرآن مجید فرماتے ہیں وَلَا تَعَامُنْ إِلَّا مِنْ غِسْلِينَ لَا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخَوْتِعُونَ جہنمیوں کے زخموں سے جو خون اور پیپ بہے گی وہ گرم گرم ایک پیالے میں ڈال کے اس کو غسلین لکھا ہے وہ اس کو پینے کے لیے دی جائے گی اب آپ سوچئے زخم کے اندر پس ہو تو کتنی بھو ہوتی ہے قریب کھڑا نہیں ہوا جاتا وہ پیپ اور وہ خون گرم اس کو پینے کو دیا جائے گا اور اتنی پیاس ہوگی کہ یہ اس کو پیے گا حدیث مبارکہ میں ہے جب پیے گا تو اس کی جتنی انتریوں ہوگی سب کٹ کے پخانے کے راستے باہر سے لی جائیں اور یہ اتنی تکلیف میں سے گزرے گا پھر اللہ تعالیٰ اس کو دوبارہ پھر ریشٹ کر دیں گے پھر صحیح ہو جائے گی صحت پھر دوبارہ یہ فرشتے کو کہے گا مجھے کسی کھلی جگہ لے جاؤ وہ کہے گا آ جاؤ میں آپ کو پاک کی چھوٹی پہ لے جاتا ہوں یہ سائیکل پھر سٹارٹ ہو جائے گا بار بار ایسا اس کے ساتھ ہوگا اور یہ تکلیف کے بعد تکلیف اٹھائے گا اس کے جسم کی جلد جلے گی اور اللہ تعالیٰ جلد کو پھر ٹھیک کر دیں گے بدلناہم جلودن غیر حال یزوکو لائزاب آپ سوچئے یہ بندہ کتنی تکلیف کے عالم میں ہوگا جیسے بندے کی بیماری ہوتی ہے نا اس کی غزہ بھی ویسی ہوتی ہے ایک ہارٹ پیشنٹ آتا ہے اس کو چروی والا کھانا بالکل نہیں دیتے سب پراتھے بند ہوتے ہیں اس کے لیے شگر کا مریض آتا ہے تو میٹھی چیز اس کے لیے بند ہوتی ہے اسی طرح جہنمی میں جس قسم کا مریض ہوگا اسی قسم کی ٹریٹمنٹ دی جائے گی ایک بندہ زکاة نہیں دیتا تھا قرآن مجید میں کہا گیا اللہ تعالیٰ اس کے مال پیسے کو سونے چاندی کی شکل میں لمبے لمبے سلاخیں بنا دیں گے جیسے سٹیل کے راڈ ہوتے ہیں سریعے ہوتے ہیں ان سریعوں کو جہنم کی آگ کے اندر گرم دیا جائے گا اور جو سرخ گرم ہو جائیں گے فَتُقْوَا بِهَا جِبَاهُهُمْ ان کے ماتھے کو داغا جائے وَجُنُوبُهُمْ وَضُحُورُهُمْ ان کے پہلوں کو اور ان کی پیٹھ کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا حَذَا مَا كَنَلْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوكُمْ مَا كُنْتُمْ تَقْنِزُونَ یہ مال تھا نا جو دنیا میں جمع کر کے رکھتا تھا اب ذرا چکھ مزا اس کا آپ بتائیں جب گرم سرخ راڈ سے انسان کے جسم کو جلائیں تو کتنی تکلیف ہوتی ہے یہ جہنمی زکاة نہ دینے کی وجہ سے کتنی تکلیف میں سے گزرے گا ایک وہ نوجوان ہوگا جو اپنی آنکھوں پر کوئی کنٹرول نہیں رکھتا گھر سے نکلے ادھر بھی نظر پڑ رہی ہے غیر محرم پر ادھر بھی وہ تماشی دیکھتا پھرتا ہے حدیث فاتح میں ہے اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیں گے اور وہ اسی طرح سلائیاں ہوگی لوئے کی ان کو گرم کر کے اس کی آنکھوں میں پھیریں گے جیسے سرمے کی سلائی آنکھ میں پھیرتے ہیں نہ سرمہ ڈالتے ہیں یہ غیر محرم کو دیکھتا تھا آج اس کی آنکھوں میں آگ کی سلائیاں پھیری جائیں گی تو ایک بندہ ہوگا جو دوسروں کے دل جلاتا تھا ان کی غلطیاں کوتائیوں کو دیکھ کے لوگوں میں بیان کرتا تھا تو لوگوں کے دل دکھتے ہیں وہ لوگوں کے دل دکھاتا تھا ان کے لئے اللہ نے ایک الگ سیکشن بنایا ہوگا اس سیکشن کا نام ہوگا ویل اللہ فرماتے ہیں ویل لکل ہمزت اللمذا عیب جو اور عیب گو اس بندے کے لیے ویل کا عذاب ہوگا یہ دو الگ ایگ بیماری ہیں ایسی مایکروسکوپک نگاہ ہونا کہ دوسرے پہ نظر پڑے تو اس کی چھٹ چھٹی غلطیوں کو بھی نوٹ کر لینا یہ ہے عیب جوئی اور اگر کسی کے عیب کا پتہ چل جائے اس کو لوگوں میں بیان کرتے پھٹنا یہ ہے عیب گوئی یہ دو الگ بیماری ہیں کئی دفعہ دونوں بیماریاں ایک ہی بندے میں ہوتی ہیں تو ایسے بندے کو اللہ تعالیٰ اس ویل کی جگہ پر پہنچائیں گے اور وہاں پر ایک آگ کا بناؤ کا کالم ہوگا آگ جل رہی ہوگی اور ستون ہوگا آگ کا اس بندے کو آگ کے ستون کے ساتھ باندھیا جائے گا جیسے ایک سریلنہ ہوتا ہے نا تو مریض کو کہتے ہیں جی آپ جیسے بھی ہیں آپ کو بس اس دیوار کے ساتھ لگ کے تھوڑی دیر کھڑا ہونا پڑے گا ایک منٹ کے لیے اممہ جی کھڑی ہو جائیں بس پھر اممہ آپ کو نیچے بٹھا دیں گے اسی طرح اس بندے کو آگ کے بنے ہوئے اس ستون کے ساتھ باندھ کے کھڑا کر دیں گے اور پھر اس کے بعد کیا ہوگا نیچے زمین کے اوپر انگاریں ہوں گے نار اللہ الموقع دا اللہ تی تطلع الالعقیدہ قرآن مجید میں ہے وہ آگ کے انگاریں اٹھیں گے اور سیدھا اس بندے کے دل کو آ کر جا جانا ہٹ کریں گے دل کو آ کر لگیں گے یہ دنیا میں لوگوں کے دل دکھاتا تھا آج اس بندے کے دل کو ٹارگٹ کیا جائے گا جیسی کرنی ویسی بھرنی جیسے لیزر گائیڈڈ راکٹ ہوتے ہیں نا کہ جب چھوڑتے ہیں تو سیدھا ٹارگٹ پہ جا کے لگتے ہیں یہ آگ کے انگارے اللہ کے بنائے ہوئے لیزر گائیڈڈ راکٹ ہیں یہ بندے کے سیدھا دل کے اوپر جا کر ہٹ کریں گے اب آپ سوچئے بندہ آگ کے کالم کے ساتھ بندہ کھڑا ہے اور جو انگارہ اٹھتا ہے وہ دل کو آکر جلاتا ہے انسان کی کیا کیفیت ہوگی کیا حالت ہوگی پھر ایک بندہ ہوگا جس نے دنیا میں جناح کا ارتکاب کیا اور توبہ بھی نہیں کی اگر توبہ کر لی تو اللہ معاف کر دیتے ہیں اس نے توبہ بھی نہیں کی فرشتے آئیں گے اور اس بندے کو ایک غار کے اندر ایک کیم ہوگا اس کے اندر پش کر دیں گے دکیل دیں گے اور درازے کو بند کر دیں گے اس غار کے اندر کیا ہوگا حدیث پاک میں آتا ہے بچھو ہوں گے سکورپین بہت زہریلے قسم کے بچھو ہوں گے جب یہ بندہ غار کے اندر جائے گا وہ بچھو اس کے اوپر اس طرح چڑھ جائیں گے جیسے شہد کے چھتے کے اوپر شہد کی مکھیاں بیٹھی ہوتی ہیں ہزاروں کی تعداد میں وہ اس کی باڈی کو کور کر لیں گے اور اتنے بھی چھو ایک ہی وقت میں اس کو ڈسیں گے اور اس کے جسم کے انگ انگ کے اندر درد ہو رہی ہوگی یہ عذاب کیوں لیا جائے گا میرے بندے تُو نے گناہ ایسا کیا تھا کہ جس گناہ کی وجہ سے تیرے جسم کے ایک ایک ٹشن انجوائیمنٹ پائی تھی آج ہم اس کا عذاب بھی ایسا دیں گے کہ جسم کے ایک ایک ٹشن کو اس کی سزا ملے گی تو گھبرا کہ یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے سوچئے انسان ایک غار کے اندر بند ہے اور اتنے بچھو کات رہے ہیں اس وقت سمجھ میں آئے گی لمحوں نے خطائیں کی صدیوں نے سزا پائی چند لمحوں کی خطاؤں کی خاطر انسان کتنے بڑے عذاب کو اپنے سر پہ لے لیتا ہے تو ہر بندے کو اس کے گناہ کے بقدر عذاب ہوگا اور جب اس کو این اف عذاب ہو جائے گا جب اللہ چاہیں گے پھر اس بندے کو اللہ تعالیٰ جہنم سے باہر نکالیں گے اور جہنم سے باہر نکال کے اس کو جنت بھیجیں گے جب انسان ہسپیٹل سے ڈسچارٹ کیا جاتا ہے وہ کہاں جاتا ہے گھر جاتا ہے بھئی جنت ہمارا گھر کیسے بنا اس لیے کہ جنت آدم اور اسلام کو اللہ نے عطا فرمائی اے آدم علیہ السلام آپ اور اپنی بیوی میری جنت میں رہیں تو اللہ نے جنت آدم علیہ السلام کو الاغ کر دی تھی وہ وہاں رہے پھر اللہ نے احکمت کے تحت ان کو زمین پر اتار دیا اب ہم ان کی اولاد ہیں تو جب ہم واپس جائیں گے تو اپنے آبائی گھر میں بندہ جاتا ہے تو ہم جنت میں جائیں گے کلمہ پڑھنے کی برکت کی وجہ سے اسی لیے مومن کو جنت کا مالک نہیں بنایا جائے گا فرمایا تلک الجنت اللتی نورس من عبادنا من کان تقییہ یہ جنت ہے اور ہم اپنے بندوں میں سے جو متقی فریدگار ہوں گے ان کو اس کا وارث بنائیں گے تو وارث کون ہوتا ہے باپ کی جائداد کا تو جنت ہمارے آدم اے اسلام کی جائداد ہے ہم ان کے بیٹے ہیں ہم اگر کلمے والی زندگی گزاریں گے تو مرنے کے بعد اس باپ کی جداد میں سے ہمیں حصہ ملے گا ہمیں اللہ وہی گھر اطاع فرمائیں گے مگر جنت میں جانے کے لیے ایک شرط ہے کہ بندے کو پاک ہونا چاہیے روحانی بیماریوں سے اگر کوئی بندہ بیمار ہونا تو لوگ اس کو اپنے ملک میں نہیں آنے دیتے چنانچہ آپ کسی ملک میں جانا چاہتے ہیں آپ کے سارے کاغذات ٹھیک ہیں ویزا لگ چکا ہر کام ہو گیا پھر ایک میڈیکل ٹیسٹ ہوتا ہے اگر آپ کا میڈیکل ٹیسٹ ٹھیک نہیں ہے تو وہ ملک میں نہیں آنے دیں گے وہ کہتے ہیں ہمارے ملک میں ایسی بیماری کے ساتھ نہیں آ سکتے جو بیماری دوسروں کے لیے نقصان دے ہوتی ہے ہمارے قریبی عزیز سے انجینئر سے انہوں نے دبائی میں جاوپ کے لیے اپلائی کیا اور تین ہزار کینڈی ڈیٹس میں سے وہ اکیلے سیلیکٹ ہوئے تو بڑے خوش تھے کہ یہ تین ہزار کینڈی ڈیٹس تھے اور صرف میری سیلیکشن ہوئی ہے میرا جی پی اے بھی بہت اچھا تھا اور میں نے کسٹن بھی اچھے ان کے آنسر دیئے اور یہ اور وہ اور بس مجھے تو جاب بڑی اچھی مل گئی اور پی بھی بہت زیادہ تھی اور بینی فٹس بھی بہت زیادہ تھی بہت فرنج بینی فٹس تھے ہم نے ان کو دعا دی چار پانچ دن کے بعد اس نے فون کیا اور بچے کی طرح بلک بلک کے رو رہا تھا میں نے پوچھا کیا ہوا کہنے لگے جی کہ سارے کام ہو گئے تھے میڈیکل ٹیسٹ کروانا تھا جب میں نے میڈیکل ٹیسٹ کروا لیا تو ہیپیٹائٹس سی پلس آ گیا ہے یعنی میں ہیپیٹائٹس سی کا مریض ہوں بلک ٹیسٹ سے ثابت ہو گیا ہے اور انہیں مجھے نوکری سے منع کر دیا کہ آپ ہمارے ملک میں نہیں جا سکتے تو دیکھو جو HIV پوزیٹیو ہوتا ہے، ہیپیٹائٹر سی پوزیٹیو ہوتا ہے، یہ ٹی بی ہوتا ہے اس کو دنیا اپنے ملک میں نہیں آنے دیتی اسی طرح اللہ کا بھی قانون ہے کہ میری جنت میرے پاکیزہ اندیا کے لیے ہے جو وہاں جانا چاہے گا اس کو روحانی بیماریوں سے پاک ہونا پڑے گا تو اگر تو دنیا میں اس نے شرعی زندگی گداری اور روحانی طور پر پاک ہو گیا پھر تو یہ سیدھا جنت میں داریک روح شورٹس روح جنت چلا جائے گا اور اگر دنیا میں غفلت کی زنگی گزاری تو یہ بندہ جنت میں جائے گا ویہ جہنم جہنم کے راستے سے جائے گا اور جہنم سے جانا کوئی آسان کام نہیں ہے ہم لوگ تو دھوک کی گرمی برداشت نہیں کر سکتے بلہ جہنم کی گرمی کو کیا برداشت کریں گے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم دنیا میں اپنے تذکیہ نفت کی محنت کریں تاکہ جب موت آئے تو اللہ تعالیٰ قبر کو بھی جنت کا باغ بنا دیں اور ہمیں سیدھا قیامت کے دن جنت ادا فرما دیں آپ نے فرض کرو ایک اوٹھی بلڈنگ ہے اور پچاس فی فلور پہ جانا ہے تو جانے کے دو طریقے ہیں ایک تو ایلیویٹر لگا ہوا ہے آپ وہاں سے وہاں اندر جا کے کھڑے ہو جائیں یہ سب سے آسان طریقہ ہے ایک بٹن دبائیں گے اور ایلیویٹر آپ کو پچاس فی ملزل پہ پہنچا دے گا اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ سیڑھیاں چڑھ کے جائیں وہ ایک مصیبت ہوتی ہے بھئی دو چار فلوروں تک کوئی چڑھ بھی جائے پچاس فلور چڑھنا پوری آسان کام نہیں ہوتا اچھے اچھے صحت مند لوگ جو ہوتے ہیں پسینہ بیرہ ہوتے ہیں اور تھکے ہوتے ہیں اور ایک تیسرا طریقہ ہے کہ ایک رسی لکھتا دی جائے پچاس فلور سے اور بندے کو کہیں جی رسی کے ذریعے اپنے اوپر گھر جاؤ تو تو بڑی مصیبت ہے تو نیک بن کے جنت میں سیدھا جانا یہ تو ہے ایلیویٹر سے اپنے گھر پہنچ جانا اور جو جہنم کے ذریعے سے جنت میں جانا ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے رسی سے لٹک کے پچاپھے مندل پہ جانا بلکہ اس سے بھی زیادہ مشکل ہے اللہ نے ہمیں اقل سمجھ دی ہے ہم سوچیں کہ ہم دنیا میں دو بندوں کے سامنے کی زیادت برداشت نہیں کر سکتے قیامت کے دن ساری مخلوق کے سامنے کی زلط کو بھلا ہم کیسے مرداش کر سکیں گے حالت تو یہ ہے کہ چند کلو کا وزن سر پہ نہیں کھایا جاتا قیامت کے دن گناہوں کا یہ جو پہاڑوں برابر بوجھ ہوگا یہ ہم اپنے سر پہ کیسے اٹھائیں گے آج سوچنے کا وقت ہے آج اپنی لائن متعین کرنے کا وقت ہے کہ ہم نے کس رخ سے زندگی گزارنی ہے جیسے کرنی ویسے پھرنی گناہوں کی زندگی گزاریں گے تو آخرت میں اس کی سزا پائیں گے نیکی کی زندگی گزاریں گے آخرت میں اس کی جزا پائیں گے عزتیں ملیں گی نعمتیں ملیں گی تو اس لئے آج ہمیں اپنے بارے میں سوچنا ہے کہ ہم اپنا تذکیہ کیسے کر سکتے ہیں ہم اپنی روحانی بیماریوں کو کیسے دور کر سکتے ہیں بیمار بندے کو پتہ چل جاتا ہے کہ میں بیمار ہوں ایسے ہی تذکیہ ہے یا نہیں پتہ چل جاتا ہے آپ گھر سے نکلتے ہیں تو غور کریں کیا آنکھیں کابو میں رہتی ہیں اگر بے کابو ہوتی ہیں ہر گزرنے والی غیر محرم لڑکی کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے شکاری کتہ اپنے شکار کو دیکھ رہا ہوتا ہے آپ نے کبھی شکاری کتے کو دیکھا وہ جب نکلتا ہے نا گلی میں تو وہ اس جھاڑی کو بھی سونگتا ہے اس کو بھی اس کو بھی ہر طرف سونگتا جا رہا ہوتا ہے ایسے ہی نوجوان بچہ گھر سے نکلتے ہیں ہر چہرے کو دیکھ رہا ہوتے ہیں ہر غیر عورت کو دیکھ رہا ہوتے ہیں تو اگر نظر کنٹرول میں نہیں ہے اس کے مطلب کہ اندر بیماری موجود ہے پھر زبان قابو میں نہیں ہوتی کبھی غیبت کر رہے ہیں کبھی کسی کے لیے الٹے سیدھے لفظ استعمال کر رہے ہیں یہ سمٹم ہے کہ اس کے اندر کوئی بڑی ساری بیماری ہے تو اگر ہم بیمار ہیں تو ہمیں اس بیماری کا علاج دنیا میں کروا لینا چاہیے آخرت میں جو اس کا علاج ہوگا وہ بہت دردناک ہوگا قیامت کے دن کی ذلت بہت بڑی اور بہت بری ہے اور اکھل مند آدمی کبھی اس کو اپنے لیے چوز نہیں کر سکتا بلکہ اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کسی بندے کو چوائس دیں میرے بندے دو آفشن ہے تیرے پاس ایک یہ کہ تو خود ہی جہنم میں چلا جا والنٹیئر یا ہم تیرا جو نام اعمال ہیں نا وہ تیرے سارے رشتہ داروں کے سامنے کھول دیتے ہیں جب باپ کو کہیں گے نا کہ تیرا نام اعمال تیرے بچوں کے سامنے کھولیں گے وہ کہے گا یا اللہ میں ہی جہنم میں چلا جاتا ہوں میرے نام اعمال کو دوسروں کے سامنے نہ کھولنا اگر اللہ بیوی کو چواہش دیں گے جہنم میں چلی جا ورنہ تیرے نام اعمال کو تیرے خامن کے سامنے کھولتے ہیں ماں کو چواہش دیا جائے گا جا جہنم میں ورنہ تیرے نام اعمال کو تیری اولاد کے سامنے کھولتے ہیں ماں کہے گی اللہ میں جہنم میں جا کے جل جاتی ہوں میری زندگی کے کرتوٹ میرے بچوں کے سامنے مت کھولنا تو حالت تو ہماری یہ ہے کہ ہم اس کو ایفورڈ ہی نہیں کر سکتے کہ ہمارا نام اعمال کسی دوسرے کے سامنے کھولا جائے ساری مخلوق کے سامنے نام اعمال کھولا گیا تو پھر کیا بنے گا اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم دنیا میں ہی توبہ کر کے اپنے پچھے گناہوں کی معافی مانگیں اور ایک نیکی کی زندگی گزار کے سیدھا دارک جنت جانے والا جو شورٹ روٹ ہے وہ اختیار کریں ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم آج کے بعد نیک بننا چاہتے ہیں اس کا صحیح کائکار کیا ہے کہ پچھلے گناہوں سے سچی توبہ اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا دل میں مسمم ارادہ کرنا یہ پہلی شرط ہے اور سے دوسرا خدم کہ نیک لوگوں کو دوست بنانا اور نیک کام کر کے اپنی زندگی کو نیکی فر گزارنا حقوق اللہ کو بھی پورا کرنا حقوق العباد کو بھی پورا کرنا کسی بندے کا دل نہیں دکھانا چاہیے جس بندے نے دوسروں کا دل دکھایا یہ بندہ قیامت کے دن کی سزا پائے گا اپنی نیت کو ٹھیک رکھنا کئی مرتبہ بندے کی نیت ٹھیک نہیں ہوتی جس کی نیت ٹھیک نہ ہو اس بندے کو رب نہیں ملا کرتا حق کی بات ہے بدنیت انسان کو کبھی رب نہیں ملتا ہمارے علاقے میں ایک بذر بذرے ہیں انہوں نے پنجابی زبان میں اشار لکھے اگر آپ نہیں سوچ سکتے تو میں اس کا اردو تجمع بھی کر دوں گا فرماتے ہیں جی ناتیں دھوتیں رب ملدہ تے ملدہ کمبیاں مچھیاں اگر نہانے دھونے سے رب ملتا تو پھر کچھے اور مچھلیوں کو اللہ مل جاتا وہ تو ہر وقت ہی نہاتے رہتے ہیں جی ناتیں دھوتیں رب ملدہ تے ملدہ کمبیاں مچھیاں جی ذکر کھیتیں رب ملدہ تے ملدہ کال کڑچھیاں ایک چھوٹا سا فرندہ ہوتا ہے کالے رنگ کا وہ آکے کئی مرتبہ دیوار کے ساتھ چپک جاتا ہے اور پوری رات سیٹی بجاتا رہتا ہے تو وہ فرماتے ہیں کہ وہ جو کال کڑچی ہے وہ ساری ہاتھ اللہ کا ذکر کرتی ہے اگر ذکر کرنے سے رب ملتا تو اس کو رب مل چکا ہوتا جس سر منائیاں رب ملدہ تے ملدہ بیڑاں سسیئے نوں سر منانے سے رب ملتا تو ایک شیپ کی قسم ہے اس کے سر پہ بال بہت چھوٹے ہوتے ہیں باقی جسم سے لمبے بال ہوتے ہیں اس کو رب مل جاتا اس کے تو سر کے بال ہی کٹے ہوتے ہیں یہ جتیاں ستیاں رب ملدہ پہ ملدہ داندہ خسیہ نوں اگر پاک دامن رہنے سے رب ملا کرتا تو یہ جو بیل ہوتے ہیں جن کو خسی کروا دیتے ہیں ان کو خدا مل جاتا وہ تو گائے کے قریب بھی نہیں جا سکتے تو فرماتے ہیں جی ناتیں دھوتیں رب ملدہ تے ملدہ کمبیاں مچھیاں نوں جی ذکر کیتیں رب ملدہ تے ملدہ کال کڑیچیاں نوں جی سر منائیاں رب ملدہ تے ملدہ بیڑاں ستھیاں نوں جی جتیاں ستھیاں رب ملدہ تے ملدہ داندہ کھسیاں نوں آخری پہ فرماتے ہیں رب ملدہ تے ملدہ نیتاں اچھیاں نوں اگر رب ملتا ہے ان لوگوں کو ملتا ہے جن کی نیتیں اچھی ہوتی ہیں جو نیک نیت لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کے خیرخواہ ہوتے ہیں جو معاشرے کا اچھا فرد بن کے زندگی گزارتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو پانا مشکل نہیں ہے مگر اس کے لیے راستے کو متعین کرنا پڑتا ہے ہم نیکی کے راستے کو چنیں اور تلقیہ نفس حاصل کرنے کی محنت کریں اور اللہ سے دعا مانگیں یہ نہیں ہے کہ یہ ہمارے اختیار میں ہے کوشش ہم کر سکتے ہیں بندے کا تذکیہ اللہ کرتے ہیں جب اللہ تعالیٰ بندے سے خوش ہوتے ہیں رحمت کی نظر ڈال دیتے ہیں اور اس رحمت کی نظر سے دل صاف ہو جاتے ہیں یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے اس لئے فرمایا فَلَا تُزَكُوا أَنفُسَكُمْ اپنے آپ کو یہ نہ کہو کہ جی میں تو بڑا سُتھرا ہو گیا وَآلَمُ بِمِنِ التَّقَو اللہ جانتا ہے کہ تم میں سے متقی کون ہے کوشش کر کے بھی ہم اس کو آتل نہیں کر سکتے جب تک مالک کی رحمت کی نظر نہیں ہوگی اور اس کے لیے پھر بندے کو اللہ کے سامنے رونت ہونا پڑتا ہے مانگنا پڑتا ہے اللہ فرماتے ہیں وَلَوْ لَا فَضُلْ لَهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے اوپر نہ ہوتی مَا ذَكَا مِنْكُمْ مِنْ اَحَدٍ اَبَدًا تم میں سے کوئی بندہ جب ہی سترہ نہ ہوتا وَلَاكِنَّ اللَّهَ يُزَقِّ مَنْ يَشَاءُ اللہ جس کو چاہتے ہیں اس کو سترہ کر دیتے ہیں تو جب معاملہ اللہ کے اختیار میں ہے تو ہم اپنی طرف سے کوشش بھی کریں اور پھر نماز کے بعد تحجت کے بعد اللہ کے سامنے فریاد بھی کریں میرے مولا کوشش میں نے کی ہے اب آگے نتیجہ تو آپ نے نکالنا ہے مالی داکم پانی دینا تو بھر بھر مشکا فاوے مالی کا کام ہوتا ہے کہ وہ درخت اور پودے کو بھر بھر کے پانی ڈالے مشکے پانی کی ڈالے مالک دا کم پھل پھل لانا لاوے یا نہ لاوے اور مالک کا اختیار ہوتا ہے اس کے اوپر پھل پھول لگانا وہ چاہے تو لگائے اور چاہے تو نہ لگائے تو ہم تو مشکے ہی ڈال سکتے ہیں نا اپنی طرف سے کوشش کریں نمازیں پڑھیں ذکر کریں علم حاصل کریں دعوت و تبلیغ کے راستے میں نکلیں اور کوشش کریں کہ اللہ ہم نیک بننے کے لیے یہ سارے اسباب اختیار کر رہے ہیں اب تو رحمت کی ایک نظر ڈال کے ہمارے سینوں کو صاف کر دے اکے ہمارا تذکیہ ہو جائے اور ہم قیامت کے دن آپ کے سامنے پیش ہونے کے قابل بن جائیں وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمين