بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم دوستو مصر کی تاریخ کا ایک ایسا بدترین انسان جو فیرون سے زیادہ جابر ظالم اور بدبخت انسان تھا اور اسی بدبخت انسان کی وجہ سے فیرون اللہ تبارک و تعالیٰ کی واحدانیت پر ایمان نہ لاسکا اور فیرون کافر و مشرک مرا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی بن گیا دوستو زیادہ تر لوگ یہ جانتے ہیں کہ فیرون مصر کی تاریخ کا سب سے بدترین انسان تھا کہ جس نے خدای کا دعویٰ کیا اور بنی اسرائیل کے مسلمانوں کا قتل عام کیا لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ فیرون کے خدای کا دعویٰ کرنے میں اور مسلمانوں کا قتل عام کرنے اور اللہ تبارک وطالعہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لانے اور فیرون کو کافر و مشرک اور جہنمی بنانے میں سب سے بڑا کردار اس انسان کا تھا کہ جس کا آج ہم ذکر کرنے والے ہیں اسی انسان کا ذکر اللہ تبارک وطالعہ نے قرآن پاک میں بھی حامان کے نام سے کیا ہے دوستو آج کس ویڈیو میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ فیرون کا سب سے خاص دوست اور فیرون کا سب سے خاص وزیر حامان کون تھا اور فیرون اور حامان کی ملاقات کیسے ہوئی اور حامان نے بنی اسرائیل کے مسلمانوں پر کیسے کیسے ظلم و ستم کروائے اور بلاخر حامان فیرون کو کیسے لے ڈوبا اور کیسے فیرون اس کی وجہ سے کافر و مشرک مرا اور ہمیشہ کے لئے جہنمی بن گیا دوستو ان تمام تر سوالات کے جوابات قرآن و حدیث کی روشنی میں آج کس ویڈیو میں آپ کو بتائیں گے لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ ہماری اس ویڈیو کو بغیر سکپ کیے آخر تک لازمی دیکھئے گا دوستو اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک کے چھ مقامات پر فیرون کے وزیر حامان کا ذکر فرمایا ہے حامان کے بارے میں مفسرین لکھتے ہیں کہ حامان مصر کے وزیر کا ایک لکب ہوا کرتا تھا جو کوئی بھی بادشاہ مصر کا وزیر مقدر ہوتا اس کو حامان کہا جاتا تھا جیسا کہ مصر کے تمام تر بادشاہوں کو فیرون کہا جاتا تھا اسی طرح انہی بادشاہوں کے وزیر کو حامان کہا جاتا تھا اور بعض روایات میں آتا ہے کہ حامان اس مخصوص شخص کا نام ہے جو فیرون موسیٰ کا وزیر تھا اور جس کا ذکر اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا ہے دوستو حامان مصر میں رہنے والا ایک عام باشندہ تھا فیرون اور حامان کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب فیرون مزدوری کی تلاش میں مصر کی طرف نکلا تو ایک مقام پر فیرون اور حامان کی ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات دیکھتے ہی دیکھتے دوستی میں بدل گئی اور اس طرح یہ دونوں بدبخت ایک دوسرے کے پکے دوست بن گئے دوستو فیرون وہ شخص تھا جس نے خدای کا دعویٰ کیا اور بنی اسرائیل پر بے انتہا ظلم ڈھائی اللہ تعالی نے اس کی طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا اور اس کام میں آپ کا ساتھ دینے کے لیے آپ کے سگے بھائی حارون علیہ السلام کو بھی منصب نبوت سے سرفراز فرمایا کہتے ہیں کہ فیرون کے باپ کا نام ماسب اور دادا کا نام ملک ریان تھا اور بعض نے کہا کہ فیرون کا نام ماسب بن ولید بن ریان تھا اور چار سو برس اس کی عمر تھی اور اس مدت میں کبھی بیمار نہ ہوا تھا یہاں تک کہ کبھی سردرد بھی نہ ہوا تھا اور نہ ہی کبھی کوئی دشمن اس پر غالب آیا تھا فیرون اسے اس لیے کہتے ہیں کہ وہ مصر کا بادشاہ تھا اور مصر کے تمام فرما رواں کو فیرون ہی کہا جاتا تھا اور دوسری وجہ اس کی یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس ملون نے دعویٰ خدای کیا تھا اور لوگوں کو کہتا تھا کہ مجھے سجدہ کرو میں ہی تمہارا خدا ہوں اور جو سجدہ نہ کرتا یا انکار کرتا اسے وہ ملون قتل کروا دیا کرتا تھا اسی وجہ سے بھی اسے فیرون کہا جاتا یعنی قبر و تکبر سے بھرا ہوا اس نے جب دعوی خدای کیا تو اس کے بعد اللہ تعالی نے اسے مسائب میں مبتلا فرمایا اور جب وہ کسی طور نہ مانا تو بلاخر اسے غرق نیل کیا گیا مذکور ہے کہ فیرون کی پیدائش بلخ میں ہوئی تھی وہاں سے سیاحت کے لیے نکلا اور بےوشخنا ایک شہر ہے وہاں تک آیا یہاں اس کی ملاقات حامان بیمان سے ہوئی جو کہ اس شہر کا ایک باشندہ تھا اس نے فیرون سے اس کے متعلق پوچھا کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو اور آگے کدھر کا ارادہ رکھتے ہو تب فیرون نے اسے اپنا نام اور مقام بتایا اور کہا کہ میں شوق سیاحت میں نکلا ہوں تب حامان بولا کہ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا اور سیر کروں گا چنانچہ دونوں ملون وہاں سے اکٹھے چلے اور مصر پہنچے تب خربوزوں کا موسم تھا چنانچہ بھوک کی وجہ سے دونوں ایک کھیت میں پہنچے اور خربوزے والے سے کھانے کا سوال کیا تب خربوزے والے یعنی کھیت کے مالک نے کہا کہ میں تمہیں ایک شرط پر کھانے کو دوں گا اگر تم میرے خربوزے شہر لے جا کر بیچ آؤ تو بدلے میں میں تمہیں کھانے کو کچھ بطورے اجرت دوں گا چنانچہ فیرون نے حامان کو وہیں چھوڑا اور خود گدوں پر خربوزوں سے بھرے بورے لاد کر شہر کی طرف چل دیا جب وہ شہر کے دروازے پر پہنچا تو دروازے پر کھڑے پہرے داروں نے روک لیا اور پوچھا کہ ان بوروں میں کیا ہے فیرون نے کہا خربوزے ہیں چنانچہ پہرے داروں نے کہا کہ ان میں سے کچھ خربوزے یہاں رکھ دو اور جاؤ فیرون نے کہا کہ یہ میرے مالک کے ہیں اس نے مجھے بیچنے کے واسطے دیئے ہیں اور میں ان کا غلام ہوں سو میں بینہ اس کی اجازت یہ کسی کو مفت نہیں دے سکتا پہرے داروں نے کہا کہ اگر ایسا نہ کرو گے تو ہم ہرگز تمہیں شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں گے لہذا جب فیرون نے کوئی دوسری راہ نہ پائی تو ان میں سے چند خربوزے پہرے داروں کو بطور رشوت ادا کیے اور شہر میں داخل ہو گیا شہر میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی دیکھی شہر کے اندر جانے پر اسے بازار میں گشت پر معمور سپاہیوں نے روکا اور اس کے اور اس کے مال کی بابت دریافت کیا فیرون کے بتانے پر ان لوگوں نے بھی ویسا ہی کیا جیسے دروازے پر معمور پہرے داروں نے کیا پھر جو مال بچا اسے بیچنے کے لیے وہ مناسب جگہ تلاش کرنے لگا لیکن کوئی دکاندار اسے اپنی دکان کے سامنے اپنا مال لگانے کی اجازت نہ دیتا بینہ کچھ دیئے چنانچہ یہاں بھی کچھ خربوزے دیئے اور ایک دکان کے آگے اپنا مال بیچنے کو بیٹھ گیا دکانداروں نے اس سے کہا کہ یہاں لوگ زرباتی سے سبز پھل سبزی اور ترکاری وغیرہ خریدتے ہیں اور کچھ نقد پیچھے نہیں رکھتے یعنی اگر کسی کے پاس ایک چیز یا جنس ہے تو وہ اس میں سے جتنی مقدار تمہیں دے گا بدلے میں تم سے اتنی مقدار میں تمہارا مال یا جنس خرید لے گا اور اس پر کوئی نقدی باقی نہ رہے گی یعنی اگر تمہارا مال قیمت میں زیادہ ہو تب بھی اور یہی ہمارے شہر کا دستور ہے الغرز فیرون نے سارے خربوزے مختلف اجزاء اور اجناس کے بدلے میں بیچے اور شہر سے واپس چلا اور کھیتوں کے مالک کو جو کچھ کمایا تھا دیا اور اس کے گدھے اس کے حوالے کیے اور کہا کہ مجھے یہ کام پسند نہیں آیا اور واپس شہر کی طرف چل پڑا اور شاہ مصر کے سامنے ایک عرضی پیش کی اور کہا کہ میں غریب الوطن ہوں لہٰذا مجھے اپنے شہر میں رہنے کی اجازت دی جائے باز نے کہا کہ جب اس نے شہر میں یہ صورتحال دیکھی تو واپس جانے کی بجائے شہر میں ہی رک گیا اور ایک قبرستان میں قیام کیا اسے وہاں رہتے ابھی چند ہی دن ہوئے تھے کہ کچھ لوگ قبر نکالنے آ گئے فیرون نے ان سے کہا کہ میں اس گورستان کا داروغا ہوں لہذا اگر تم یہاں قبر نکالنا چاہتے ہو تو اس کے لیے ایک سونے کا سکہ مجھے دینا ہوگا تب ہی قبر نکالنے کی اجازت دوں گا فیرون کے اس بات پر لوگ حیران ہوئے اور کہا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ابھی چند دن پہلے تک تو ایسا کچھ نہیں تھا فیرون نے کہا کہ اب سے ایسا ہی ہوگا میں اس قبرستان کا داروہ ہوں پس اب بینہ میری اجازت نہ تو تم یہاں قبر نکال سکتے ہو اور نہ ہی مردہ دفن کر سکتے ہو جب تک کہ مجھے ایک سونے کا سکہ بطور خراج ادا نہ کرو گے تب چاروں ناچار ان لوگوں نے ایک سکہ سونے کا فیرون کو ادا کیا اور اس کے بعد قبر نکالی بعد اس کے یہ سب چل نکلا فیرون اسی قبرستان میں رہتا اور ہر آنے والی میت کو دفنانے اور قبر نکالنے کے لیے ایک سکہ سونے کا وصول کرتا اور باز نے کہا کہ وہ مرنے والے کی حیثیت کے مطابق رقم وصول کیا کرتا مذکور ہے ایک بار شہر میں کوئی وبا پھیلی جس سے بہت زیادہ لوگوں کی موت ہوئی اور اس طرح فیرون کے پاس بہت سارا مال اکٹھا ہو گیا روایت ہے کہ ایک بار شہر کا وزیر مر گیا جب درباری اسے دفنانے کے واسطے لے کر گئے تو فیرون نے پوچھا کہ کون مرا ہے تب ان لوگوں نے بتایا کہ شہر کا وزیر فیرون نے جب ان سے رقم کا مطالبہ کیا تو وہ لوگ بڑے حیران ہوئے اور کہا کہ یہ کیسا قانون ہے فیرون نے کہا کہ میں اس قبرستان کا داروگا ہوں اور ایک عرصے سے یہی پر ہوں اور یہ خراج میں سب سے وصول کرتا ہوں چنانچہ شہر کے لوگوں نے اس بات کی تائید کی اور کہا کہ ایسا ہے یہ تو کافی عرصے سے یہی پر رہتا ہے اور ہر آنے والی میت کو دفنانے اور قبر نکالنے کے لیے خراج وصولتا ہے الغرص جب درباریوں نے یہ معاملہ دیکھا تو فیرون کو پکڑ کر شاہ مصر کے پاس لے گئے اور ساری تفصیل سے اسے آگاہ کیا تب شاہ مصر نے فیرون سے پوچھا کہ یہ سب کیا معاملہ ہے تمہیں اس کام پر کس نے رکھا تب فیرون نے اول تآخر اپنی شہر میں آنے اور شہر کے حالات کے بارے میں تفصیل بیان کی اور بعد اس کے نہائیت عدب سے کہا کہ جب میں نے شہر کے یہ حالات دیکھے تو مجھے لگا کہ اس شہر میں کوئی قانون نہیں جس کے پاس جس قدر اختیار اور طاقت ہے وہ اتنا ہی لوگوں کو لوٹ رہا ہے میں ایک غریب الوطن اور نہائیت غریب آدمی تھا میری قوت بازار میں بیٹھنے کی نہ تھی اس لیے میں قبرستان میں بیٹھ گیا اور لوگوں سے خراج وصول نے لگا نہ کسی نے میرے اس کام پر کوئی احتجاج کیا اور نہ ہی کوئی شکایت کی اور جو حالات شہر کے تھے اس میں لوگ شکایت لے کر کہا جاتے کہ شکایت درج کرنے والوں کو بھی انہی کچھ نہ کچھ دینا پڑتا اس لیے لوگوں نے کم دے کر لینا مناسب خیال کیا چنانچہ شاہ مصر نے فیرون کی گفتگو سے اسے ایک دانا اور دور اندیش فرد خیال کیا اور اس سے پوچھا کہ کیا تم اس شہر کے حالات کو بہتر بنا سکتے ہو اگر تمہیں اس کا اختیار دیا جائے فیرون نے اس بات کی حامی بھر لی اور کہا کہ اگر ایسا ہو جائے کہ مجھے صاحب اختیار بنایا جائے تو میں شہر مصر کو ان سارے وطنوں سے صاف کر دوں گا الغرض شاہ مصر نے فیرون کو مرنے والے وزیر کی جگہ پر معمور کیا اور تمام اختیار شہر کے فیرون کو دیئے چنانچہ فیرون نے مصر کا وزیر مقرر ہوتے ہی حامان کو اپنے پاس شہر میں بلوا لیا اور اسے اپنا ساتھی مقرر کیا اس کے بعد جو خراج شاہی سپاہی اور دربان وغیرہ دکانداروں تاجروں اور عام ریایہ سے وصولتے تھے سب بند کیے اس کے بعد اعلان کیا کہ کسی بھی شخص کو کوئی بھی شکایت ہو تو وہ میرے دربار میں حاضر ہو سکتا ہے ہر شخص کی فریاد بلا تفریق سنی جائے گی اور اسے انصاف دلایا جائے گا فیرون کے اس فیصلے سے شہر کے دکاندار تاجر اور عام ریایہ سب بہت خوش ہوئے کہ ایک اضافی خراج اور رشوت دینے سے ان کی جان چھوٹ گئی اب انہیں اپنے مال پر فائدہ ہوتا نظر آنے لگا اس لئے لوگوں کے دلوں میں فیرون کے لئے عزت و احترام اور محبت پیدا ہو گئی تب فیرون نے حامان سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اہل مصر مجھ سے اور بھی زیادہ محبت کریں اور میری عزت لوگوں کی نظر میں اور بھی زیادہ بڑھے اور شہر کے لوگ مجھے نعوذ باللہ درجے میں خدا کے برابر سمجھیں اور میں دعویٰ خدای کروں اور سب لوگ مجھے پوچھیں تب حمان ملون نے کہا کہ ابھی ایسا ممکن نہیں اگر تو ایسا چاہتا ہے تو پہلے احسطہ احسطہ خلقت شہر کو اپنے ہاتھ میں لا تاکہ جب تو خدای کا دعویٰ کرے تو زیادہ لوگ تیری طرفداری کرنے والے ہوں تب فیرون ملون نے کہا کہ اس کی کیا تدبیر ہو سکتی ہے کیونکہ شہر کے سب لوگ ابھی تک یوسف بن یعقوب علیہ السلام کے دین پر مستحقم ہیں میں کس طرح انہیں اس طرف لا سکتا ہوں چنانچہ اس بارے میں مل کر کوئی تدبیر کرنے لگے اور بہت سوچ بچار کے بعد آخر یہ تدبیر ٹھہرائی پس فیرون شاہ مصر کے پاس گیا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ریایہ پر ایک سال کا ٹیکس جو ان سے ان کے مال پر وصول کیا جاتا ہے ماف کر دیا جائے اور وہ سارا جتنا ایک سال کا بنے گا وہ میں اپنی طرف سے شاہی خزانے میں جمع کروانے کو تیار ہوں بادشاہ فیرون کی حکمت و دانائی سے اور امور وزارت سے بڑا خوش تھا اس نے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ تمہارا نقصان ہو اور میرا نفع ہو چنانچہ ایک سال کا ٹیکس تمہاری طرف سے میں ریایہ پر ماف کرتا ہوں فیرون نے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ شاہی خزانے میں کوئی کم ہی ہو لہذا اس ایک سال کا ٹیکس ریایہ کی طرف سے میں شاہی خزانے میں جمع کروا دوں گا پس بادشاہ کم اکل اور نافہم تھا فیرون کے خاطر ایک سال کا خزانہ ریایہ سے نہ لیا اور کہا کہ جو تمہارا دل چاہے ویسا کرو تب فیرون نے دیوان اور خزانچیوں کو بلوا کر پوچھا کہ مصر کا خزانہ ایک سال میں ریایہ سے کتنا وصول ہوتا ہے انہوں نے بتایا کہ اتنا ہوتا ہے پس فیرون نے اتنا روپیہ ہمان کے ہاتھ شاہی خزانے میں اپنی طرف سے جمع کروا دیا اس کے بعد سارے شہر میں منادی کرا دی کہ اس سال کا ٹیکس ریایہ پر ہماری طرف سے ماف کیا گیا اور ہم نے اپنی طرف سے اتنا خزانہ بادشاہ کی سرکار میں شاہی خزانے میں جمع کروا دیا ہے اور علاوہ اس کے دو سال مزید کا خزانہ ٹیکس ماف کرنے کی اپیل بھی سرکار اعلیٰ میں پیش کی سو وہ بھی قبول ہوئی یعنی اب تین سال تک ریایہ سے کسی بھی طرح کا کوئی ٹیکس وصول نہ کیا جائے گا پس جب یہ منادی سنی تو تمام ریایہ مصر بہت خوش ہوئی اور غریب غربہ جتنے بھی تھے سب ہی نے فیرون کی ترقی اور خوشحالی کے واسطے دعا مانگی اور خدا کا شکر بجالائے اس طرح ریایہ نے فیرون کی نیکی اور فراخدلی کے چرچے ہونے لگے اور ریایہ کی نظر میں اس کی عزت اور قدر و منجلت بڑھی پس تین سال کا ٹیکس ماف ہونے کی وجہ سے مصر کی ریایہ کو فراغت ہوئی بعد کچھ عرصے کے شاہ مصر مر گیا اور کوئی والی وارث تو اس کا تھا نہیں جو تخت پر بیٹھتا اور اموری سلطنت کو سنبھالتا پس بادشاہ کو دفنانے کے بعد تین دن تک تازیت کی اور چوتھے روز تمام شہر کے لوگ کازی مفتی عالم فازل غریب غوربہ چھوٹے بڑے سب بادشاہی دربار میں حاضر ہوئے اور اس بات پر غور و فکر کیا کہ اب تخت شاہی پر کس کو بٹھایا جائے کیونکہ بنا بادشاہ کے ملک ایسے ہی تھا جیسے کہ بنا سر کے دھڑ چونکہ ان لوگوں نے فیرون سے نیکی دیکھی تھی کہ تین سال کا خزانہ ریایہ پر ماف کیا تھا اور وہ سارا تین سال کا خزانہ اپنی طرف سے شاہی خزانے میں داخل کیا تھا علاوہ اس کے وہ سارے ٹیکس بھی ماف کیے تھے جو شاہی سفاہی عوام سے بے وجہ لوٹتے تھے اس لیے سب اس سے خوش تھے اور اسے اپنا خیرخواہ جانتے تھے پس یہ خیرخواہی دیکھ کر سب انہیں اس بات پر اتفاق کیا کہ فیرون ہی ہمارے لیے بہتر بادشاہ ہے اور اس مردود کو تخت پر جا بیٹھایا جب یہ ملون مصر کا بادشاہ ہوا تو اس نے حمان ملون کو اپنا وزیر منتخب کیا چونکہ اسی کی تدبیر اور مشورے سے فیرون تخت شاہی تک پہنچا تھا تب کہنے لگا کہ اب ملک مصر مسلم ہمارے ہاتھ آیا اور ہم یہاں کے بادشاہ ہوئے ہمان سے کہا کہ پس اب کوئی ایسی تدبیر کرنی چاہیے کہ مخلوق اب مجھے خدا کہے اور معبود جانے اور میری پرستش کرے مجھے سردہ کرے لانت ہو اس بدبخت پر تب حامان ملون نے یہ سلا دی کہ سب سے پہلے پورے ملک مصر میں یہ حکم جاری کرنا چاہیے کہ علماء فوزالات جتنے ہیں ہماری حکومت میں کوئی تعلیم نہ دینے پائے سب درس و تدریس موقوف کر دیے جائیں تب آہستہ آہستہ لوگ اپنے دین سے دور اور بے خبر ہوتے جائیں گے اور جو آئندہ پیدا ہوں گے لڑکے بالے سب کے سب بے علم اور جاہل ہوں گے اس طرح آہستہ آہستہ سب اپنے دین سے برگشتہ ہوں گے اور کوئی علم ان کو دین کا نہ ہوگا پس حمان کے کہنے پر فیرون نے سارے ملک میں حکم جاری کروا دیا کہ اب سے ہمارے ملک میں کوئی عالم فازل دین کی تعلیم نہ دے اور نہ ہی کوئی اور تعلیم اور تمام درس و تدریس بند کروائے اور حکم جاری کیا کہ جو کوئی تعلیم سیکھتا سکھاتا دیکھا گیا اسے قتل کر دیا جائے گا اس طرح سارے ملک میں تعلیم و تعلیم کا باب موقوف کروا دیا جناتے اس خواف سے سب نے لکھنا پڑنا چھوڑ دیا اور علماء میں سے جنہوں نے اس کی بات سے انکار کیا انہیں ملون نے قتل کروا دیا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی ہی مدت میں تمام لوگ جاہل بن گئے اور دین سے مذہب سے کوسوں دور اپنے خدا واحد کو بھلا کر مثل جانروں کے ہو گئے مصر میں تب دو قومیں آباد تھیں ایک قوم قبطی اور دوسری قوم بنی اسرائیل قبطی قوم وہ قدیم مصری تھے جو حضرت یوسف علیہ السلام سے پہلے سے ہی مصر میں آباد تھے اور بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے چونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا ایک لقب اسرائیل بھی تھا اسی نسبت سے آپ کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے لہٰذا جب لوگ مکمل طور پر جاہل ہو گئے تو حامان نے فیرون کو مشورہ دیا کہ اب لوگوں کو بد پرستی کی طرف بولاؤ چنانچہ فیرون ملون نے لوگوں کو بد پرستی پر لگا دیا تب قبطی قوم تو بد پرستی پر مائل ہو گئی اور فیرون کی باتوں پر عمل کرنے لگی لیکن بنی اسرائیل کی قوم چونکہ اندر سے ابھی بھی حضرت یوسف علیہ السلام کے دین پر قائم تھی سو انہوں نے بد پرستی سے صاف انکار کر دیا پس فیرون ملون ان پر زیادتی کرتا اور قبطی قوم کو خوب نوازتا اور قوم بنی اسرائیل کو ان کے خادموں میں رکھتا اور تمام نیچ کام بنی اسرائیل کے ذمہ کیے اور ان پر ظلم ڈھاتا اور اسی طرح عرصہ بیس سال کا گزر گیا بعد اس کے لائن نے لوگوں کو پکار کر کہا کہ میں ہوں تمہارا رب سب سے یعنی ان بتوں سے بھی بڑا خدا میں ہوں سو مجھے سردہ کرو اور معبود جانو اور میری ہی عبادت کرو اور جو کوئی ایسا کرے گا اسے نوازا جائے گا اور جو انکار کرے گا اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے گا پس قوم قبطی نے فیرون کو پوجنا اختیار کیا اور اسی طرح چالیس سال کا عرصہ گزرا اور بعد اس کے تمام بتوں کو توڑ ڈالا اور کہا اب سے میں تنہا تمہارا رب ہوں میری پرستش کرو قومِ قبطی جو فیرون کو پوجنے اور سردہ کرنے والے تھے انہی پر خوب نوازش کرتا اور بنی اسرائیل کو تکلیف دیتا کہ وہ یوسف بن یعقوب علیہ السلام کے دین پر تھے اور باؤز جزیہ کے فیرون ان سے قبطیوں کی خدمت کرواتا اور تحکیر کرتا اور جن کاموں کو حکیر سمجھتا مثلاً محنت اور بھار اٹھانا لکڑی چیرنا چنا دلنا گھاس کاٹنا جھاڑو کشی کرنا اور گوبر پھینکنا ان سب کاموں میں مقرر کیا تھا اور علاوہ اس کے انہیں شہر اور دہاتوں میں اپنے تابعین کے خدمت میں بھیج دیتا اور ان کی عورتوں سے اپنی عورتوں کی خدمت کرواتا غرض ہر طرح سے ان کی تجلیل کرتا اور ان کی عزت و وقار نہ کرتا ایک عورت جن کا نام آسیہ تھا بنی اسرائیل سے تھی اور اپنے اباؤ اجداد کے دین پر مضبوطی سے قائم تھی اور وہ اپنے حسن و خوبی اور عادات و خسائل اور آلہ اخلاق کی وجہ سے شہرت رکھتی تھی انہیں فیرون نے اپنے نکاح میں رکھا تھا اور بعضوں نے کہا کہ فیرون نے انہیں اپنی عقیدت مند سمجھ کر عزت کے ساتھ اپنے محل میں رکھا ہوا تھا مگر وہ اپنے دین میں مضبوط تھی اور کوئی کام خلاف شرعہ نہ کرتی دوستو یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانچ عورتوں کی پاکی اور بزرگی بیان کی ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں دوسرا مریم بنت امران اور حضرت خدیجہ تل قبرہ بنت خویلد حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ ایک اپنی بیٹی حضرت فاطمہ تزہرہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت بی بی آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ کہ یہ سب صالح تھیں الغرض قوم بنی اسرائیل ایک مدد تک فیرون کے عذاب میں اور اس کی قوم کے خدمت گزاری میں گرفتار رہے زن و مرد اس قوم کے خدمت گزاری اور بار برداری میں رہتے اور سبر کرتے پھر بھی اپنے دین کے خلاف نہ چلتے اور شب و روز اللہ کی یاد اور استغفار میں مصروف رہتے اور خدا کی عبارت کرتے دوستو فیرون کے ہر ظلم و ستم اور گناہ کے پیچھے سب سے بڑا کردار حامان کا تھا مصر کی تاریخ میں جتنے بھی ظلم ہوئے اور جتنے لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور جتنے لوگوں کو بد پرستی کے اندر مبتلا کیا گیا اور جتنے لوگوں کو فیرون کا خدا نہ ماننے کی وجہ سے قتل کیا گیا یہ تمام تر مظالم حامان کے مشاورت اور حامان کے حکم پر کیے گئے بظاہر تو مصر کا بادشاہ فیرون تھا لیکن فیرون جو کوئی بھی کام کرتا وہ اپنے دوست حامان کی مشاورت کے بغیر نہیں کرتا تھا بلکہ مصر میں ہونے والی ہر برائی کے پیچھے حامان کی شیطانیت تو چھوپی ہوئی تھی حامان فیرون کو جو کوئی بھی مشورہ دیتا فیرون وہی کام کرتا اسی وجہ سے تاریخ کے اندر حامان کو فیرون سے بھی بڑا جابر و ظالم اور بدترین انسان قرار دیا گیا ہے دوستو فیرون جب مصر کا بادشاہ بنا تو فیرون نے حامان سے کہا کہ میں مصر کے اندر خدای کا دعویٰ کرنا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ مصر کے تمام لوگ مجھے اپنا خدا مانے اور میری پوجا کریں اور میرے سامنے سردہ کیا کریں فیرون حامان سے کہنے لگا خدای کا دعویٰ کرنے کے لیے ایسا کیا کرنا چاہیے کہ مصر کے تمام طور لوگ مجھے خدا مانے تو اس وقت حامان کے مشورے کو سنتے ہوئے مصر کے اندر دین اسلام کی تبلیغ پر پابندی لگائی گئی اور درسگاہوں کو بند کیا گیا چنانچہ اس طرح حامان کے کہنے پر مصر کے اندر دینی درسگاہوں کو بند کیا گیا اور دین اسلام کی تبلیغ پر پابندی لگی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ لوگ حضرت یوسف علیہ السلام کے دین سے دور ہونے لگے اس کے بعد مصر کے لوگوں کو کفر و شرک میں مبتلا کرنے کے لیے حامان نے ایک چال چلی کہ مصر کے ہر گھر میں بتوں کی پوجہ شروع کروائی اور اسی طرح مصر کے ہر گھر میں لوگ کفر و شرک میں مبتلا ہو گئے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کو چھوڑ کر بتوں کی پوجہ کرنے لگے اس کے بعد جب فیرون اور حامان نے دیکھا کہ مصر کے تمام تر لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کو بھول چکے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کو چھوڑ کر بت پرستی میں مبتلا ہو چکے ہیں تو اس وقت حامان نے فیرون کو یہ مشورہ دیا کہ اب مصر کے تمام لوگوں کو ایک جگہ پر اکٹھا کیا جائے اور ان کے سامنے خدای کا دعویٰ کیا جائے اور ان کو زردہ کرنے کا حکم دیا جائے چنانچہ فیرون نے ایسا ہی کیا مصر کے تمام تر لوگوں کو ایک مقام پر اکٹھا کیا گیا فیرون نے ان تمام تر لوگوں کے سامنے خدای کا دعویٰ کر دیا اس وقت مصر کا سب سے بڑا قبیلہ قبطیہ تھا اور وہ فیرون کو اپنا خدا ماننے لگا اور اس کے سامنے سردہ کرنے لگا چنانچہ اسی طرح فیرون نے مصر کے تمام تر لوگوں کے سامنے خدای کا جھوٹا دعویٰ کیا اور اس طرح فیرون مصر کا جھوٹا خدا بنا دو سو روایات میں آتا ہے کہ جب فیرون نے خدای کا جھوٹا دعویٰ کیا تو اس وقت کچھ لوگ ایسے بھی موجود تھے کہ جن کے سینے ابھی بھی ایمان کے نور سے منور تھے اور جو ابھی بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان رکھتے تھے فیرون کو جب ان لوگوں کا پتا چلا تو بہت زیادہ غزبناک ہوا چنانچہ اس وقت فیرون نے ان چند مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنا شروع کیے اور ان کو اپنا غلام بنا لیا اور مصر کا سب سے مشکل ترین کام اور بھاری بھرکم کام بنی اسرائیل کے ان چند مسلمانوں سے لیا جاتا اور ان پر بدترین تشدد کیا جاتا اس طرح جب فیرون اور حمان کا ظلم و ستم حج سے زیادہ بڑھنے لگا تو اللہ تبارک و تعالی نے بنی اسرائیل کے ہدایت کے لیے اپنے پیارے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فیرون کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف بورایا اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے سے منع فرمایا لیکن فیرون اپنی سرکشی سے باز نہ آیا اور اسی طرح بنی اسرائیل کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کرتا رہا اور اپنے کفر و شرک پر ڈٹا رہا روایات میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فیرون کے پاس تشریف لائے فیرون سے کہنے لگے کہ اے فیرون اگر تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لے آئے تو اس کی وجہ سے تیری آخرت تو بہتر ہو ہی جائے گی لیکن اللہ تعالیٰ دنیا کے اندر تجھے چار طرح کے انعامات عطا فرمائے گا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بات سن کر فیرون حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھنے لگا وہ چار نعمتیں کون سی ہیں جو تیرا رب مجھے عطا فرمائے گا فیرون حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگا کہ مجھے ان نعمتوں کے بارے میں بتائیں کہ شاید میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہدانیت پر ایمان لے آؤں چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے فیرون کو یہ بتایا کہ اگر تو اللہ تبارک وطالعہ کی وحدانیت پر ایمان لے آئے تو اللہ تبارک وطالعہ پہلی نعمت تجھے یہ عطا فرمائے گا کہ تو ہمیشہ تندرست رہے گا اور تُو کبھی بیمار نہ ہوگا اور دوسری نعمت اللہ تبارک وطالعہ تجھے یہ عطا فرمائے گا کہ ابھی تُو ایک ملک کا بادشاہ ہے اگر تو اللہ تبارک وطالعہ کی وحدانیت پر ایمان لے آئے تو اللہ تبارک وطالعہ تجھے دو اور ممالک کی بادشاہت عطا اس ملک کی بادشاہ تجھے اللہ تبارک وطالعہ کی نافرمانی کرنے کے باوجود ملی ہے تو سوچ اگر تُو اللہ تبارک وطالعہ کی فرما برداری کرے گا تو اللہ تجھے کیا کچھ عطا فرمائے گا اور اگر تُو اللہ کی وحدانیت پر ایمان لے آئے تو اللہ تبارک وطالعہ تجھے دنیاوی نعمتوں کے ساتھ ساتھ جنت کے اندر بھی جگہ عطا فرمائے گا فیرون نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات سنی تو فیرون حضرت موسیٰ علیہ السلام کی باتوں سے بہت زیادہ متاثر ہوا فیرون نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی باتیں سنی تو فیرون حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگا کہ میں اپنی بیوی سے مشورہ کروں گا اس کے بعد فیرون گھر گیا اور اپنی بیوی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگا حضرت آسیہ سے جا کر کہنے لگا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لے آؤں تو اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے فلاں فلاں نعمتوں سے نوازے گا یہ بات سن کر حضرت آسیہ بہت خوش ہوئی اور فیرون سے کہنے لگی کہ اے فیرون اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں پر تو اپنی جان قربان کر دے اور اللہ کی وحدانیت پر ایمان لے آؤں یہ کہتے ہوئے حضرت آسیہ زارو کتار رونے لگی اور کہنے لگی کہ آفتاب تیرا تاج ہوگا حضرت آسیہ فیرون سے کہنے لگی کہ آپ کو کسی سے مشورہ کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں بلکہ آپ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہی مجلس میں اللہ کی وحدانیت پر ایمان لے آنا چاہیے تھا اور دعوت حق کو قبول کرنا چاہیے تھا چنانچہ حضرت آسیہ علیہ السلام کی بات سن کر فیرون حضرت آسیہ سے کہنے لگا کہ میں ایک بار اپنے وزیر حامان سے بھی مشورہ کرنا چاہوں گا تو حضرت آسیہ فیرون سے کہنے لگی کہ حمان سے مشورہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اس بات کا اہل نہیں لیکن جونکہ حمان فیرون کا سب سے قریبی دوست تھا اور سب سے خاص وزیر لہٰذا فیرون مشورہ کرنے کی غرض سے حمان کے پاس گیا اور سارا ماجرہ بتایا فیرون حمان سے پوچھنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے حمان نے جیسے ہی فیرون کی بات سنی تو غصے سے لال پیلا ہوا اور زاروک کے تار رونے لگا اور گریبان کو بھڑنے لگا اور حمان نے اپنی دستار کو اٹھا کر زمین پر مارا اور شروع گل کیا اور روتے ہوئے فیرون سے کہنے لگا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ کی شان میں مازاللہ یہ گستاخی کیسے کی آپ کی شان تو یہ ہے کہ تمام کائنات آپ کی وجہ سے چلتی ہے اور مشرق سے لے کر مغرب تک ہر چیز آپ کے تابع ہے اور دنیا کے تمام بڑے بادشاہ آپ کے دربار میں سردہ ریز ہوتے ہیں فیرون کا ہامان فیرون سے کہنے لگا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ کی توہین کی آپ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لائیں جبکہ پوری دنیا کائنات آپ کو سجدہ کرتی ہے اور آپ پوری دنیا کے رب ہیں اس طرح حامان فیرون کو بھڑکانے لگا کہ آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات مان کر ایک ادنہ غلام بننا چاہتے ہیں خدا سے انسان بننا چاہتے ہیں جبکہ یہ آپ کی بہت بڑی توہین ہے اگر آپ نے اسلام قبول ہی کرنا ہے تو اس سے پہلے مجھے مار ڈالیے تاکہ میں اپنی زندگی میں آپ کی یہ توہین اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکوں چنانچہ اس طرح حامان فیرون کو غرور و تکبر کا جھوٹا لالچ دے کر بہکانے لگا اور دعوت حق کو قبول کرنے سے منع کرنے لگا چنانچہ فیرون نے جب حامان کی یہ بات سنی تو فیرون غرور و تکبر میں آ گیا اور غرور و تکبر کے اندر آ کر خود کو خدا سمجھنے لگا اور دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس طرح فیرون نے حامان کی باتوں میں آ کر دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کیا اور اللہ تبارک وطالعہ کی واحدانیت کا انکار کر دیا اور اس طرح فیرون حمان کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے اللہ تبارک وطالعہ کی بارگاہ سے مردود ہوا اور جہنمی قرار پایا دوستو جب فیرون کا ظلم و ستم حج سے بڑھا اور فیرون بارہا سمجھانے کے باوجود اللہ تبارک وطالعہ کی واحدانیت پر ایمان نہ لائیا اور کئی بار اللہ تعالیٰ کے عذابات کو دیکھنے کے باوجود بھی دعوت حق کو قبول نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فیرون پر اپنا عذاب نازل کرنے کا ارادہ فرمایا اور فیرون کو غرق کرنے کا ارادہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمائی کہ وہ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے روانہ ہو جائیں اللہ تعالیٰ فیرون پر اپنا عذاب نازل فرمانے والا ہے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے روانہ ہو گئے فیرون کو اس بات کا پتا چلا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تمام تر مسلمانوں کو لے کر مصر چھوڑ کر جا رہے ہیں تو فیرون نے ایک بہت بڑا لشکر تیار کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پیچھا کرنے لگا اور فیرون نے اپنے لشکر کو یہ حکم دیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جتنے بھی مسلمان ہیں ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچے اور ماذاللہ سب کو قتل کر دینا ہے۔ چنانچہ ادھر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام دریائے نیل کے کنارے پہنچے تو پیچھے سے فیرون بھی اپنا لشکر لے کر پہنچ گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگی کیا آج ہمیں فیرون سے کوئی نہیں بچا سکتا؟ اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو تسلی دی اور فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالی ہمارے ساتھ ہے اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے عصا مبارک کو دریائے نیل کے کنارے مارنے کا حکم دیا چنانچہ جیسے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالی کے حکم کے مطابق اپنا عصا دریائے نیل کے کنارے مارا تو دریائے نیل سے راستہ بن گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم نے دریائے نیل کو آسانی کے ساتھ عبور کر لیا ادھر جب فیرون دریائے نیل کے کنارے پر پہنچا تو فیرون بھی اپنے اپنے لشکر کو لے کر دریائے نیل کے اندر داخل ہوا جب فیرون کا لشکر دریائے نیل کے بلکل درمیان پہنچا تو اللہ تبارک و تعالی نے دریائے نیل کو مل جانے کا حکم دیا چنانچہ دریائے نیل اللہ تبارک و تعالی کے حکم کے مطابق فیرون کے لشکر کی طرف بڑھنے لگا فیرون نے جب یہ منظر دیکھا اور اپنی آنکھوں کے سامنے موت آتے دیکھی تو فیرون بلند آواز سے چلائی اور کہنے لگا کہ میں حضرت موسیٰ کے خدا پر ایمان لائی اور میں اس خدا پر ایمان لائی جس خدا پر قوم بنی اسرائیل ایمان لائی اس طرح جب فیرون غرق ہونے لگا تو دعا مانگنے لگا اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مٹی کو اٹھایا اور فیرون کے موں میں ڈال دیا تاکہ یہ اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں دعا کو نہ مانگ سکے اور فیرون اس وقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی واحدانیت پر ایمان لانا چاہتا تھا لیکن اس وقت اس کا ایمان لانا قابل قبول نہ تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب اس پر نازل ہو چکا تھا اور توبہ کا دروازہ بند ہو چکا تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریائے نیل آپس میں مل گیا اور فیرون اور اس کا پورا لشکر دریائے نیل میں غرق ہو گیا آج بھی فیرون کی ہنوت شدہ لاش عبرت کا نشان بنی مصر کے عجائب خانے میں محفوظ ہے اس سارے واقعے کو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بیان کیا ہے جب فیرون غرق ہو گیا تو اس کی موت کا بہت سے لوگوں کو یقین نہیں آتا تھا تو اللہ تعالی کے حکم سے پانی نے اس کی لاش کو باہر خشکی پر پھینک دیا جس کا سب نے مشاہدہ کیا جیسا کہ قرآن پاک کی سورہ یونس میں اللہ تعالی نے فرمایا آج ہم تیری لاش کو پانی سے نکالیں گے تاکہ تو ان کے لیے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں دوستو آج بھی فیرون منفتح ثانی کی ہنود شدہ لاش عبرت کا نشان بنی مصر کے عجائب خانے میں محفوظ ہے روایات میں آتا ہے کہ فیرون اور اس کے لشکر کی حلاکت یومِ آشور کو ہوئی امام بخاری رحمت اللہ علیہ نے فرمایا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہود آشورہ یعنی دس محرم کا روزہ رکھے ہوئے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کیا یہ کون سا روزہ ہے جو تم رکھتے ہو انہوں نے کہا یہ وہ دن ہے جب موسیٰ علیہ السلام کو فیرون پر غلبہ حاصل ہوا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا تم موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حق دار ہو لہٰذا تم بھی روزہ رکھو دوسرے روایات میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فیرون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل کے ساتھ بحیر احمر پار کر کے وادی سینہ کی طرف چلے راستے میں ایک ایسی قوم کے باس سے گزرے جو بتوں کو پوچھتی تھی بنی اسرائیل نے جب یہ دیکھا تو کہنے لگے اے موسیٰ جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں ہمارے لیے بھی ایسا ہی ایک معبود بنا دو موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم بڑے ہی جاہل ہو یہ لوگ جس کام میں لگے ہوئے ہیں یہ تباہ کیا جائے گا اور ان کا یہ کام محض بے بنیاد ہے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارے لیے کوئی اور معبود تلاش کروں حالانکہ اس نے تم کو تمام جہان والوں پر فوقیت دی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر آگے بڑھے اللہ نے بنی اسرائیل کی ہدایت اور اہنمائی کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آسمانی کتاب دینے کا فیصلہ کیا چنانچہ اللہ عز و جل نے آپ علیہ السلام کو تیس راتوں کے لیے کوہے تور پر بلایا جس میں مزید دس راتوں کا اضافہ کر کے اسے چالیس راتیں کر دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ تور پر جانے سے قبل اپنے بھائی حضرت حارون علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کیا حضرت حارون علیہ السلام بھائی بھی تھے اور نبی بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام وقتِ مقررہ پر کوہِ تور پہنچے اور پروردگار سے ہم کلام ہوئے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھا دیجئے میں آپ کو ایک نظر دیکھ لوں ارشاد ہوا تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو وہ اگر اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے اور جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس کے پر خچے اڑا دیئے اور موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو کر گر پڑے پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا بے شک آپ کی ذات پاک ہے میں آپ کے حضور میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والا ہوں ارشاد ہوا کہ اے موسیٰ میں نے تم کو اپنے پیغام اور اپنے کلام سے لوگوں میں ممتاز کیا ہے تو جو میں نے تم کو عطا کیا ہے اسے پکڑ رکھو اور میرا شکر بجالاؤ اور ہم نے تورات کی تختیوں میں ان کے لیے ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی دوستو روایات کے مطابق یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اللہ عزوجل سے ہم کلامی کا دوسرا واقعہ تھا دو سو روایات میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب چالیس راتوں کے لیے کوہے تور گئے تو پیچھے سامری نامی ایک قبطی نے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پڑوسی تھا اور بظاہر آپ علیہ السلام پر ایمان لاکر ساتھ ہو گیا تھا بنی اسرائیل سے سونے کے زیورات اکٹھے کر کے ایک بچھڑا تیار کیا جس میں اس نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کے سموں کے نیچے کی مٹی بھی شامل کر دی یہ مٹی اس نے چپکے سے اس وقت لے لی تھی جب حضرت جبرائیل علیہ السلام ان لوگوں کو دریا پار کروا رہے تھے یہ بچڑا جب تیار ہو گیا تو یہ کچھ کچھ بیل کی آواز نکالتا تھا یعنی جب اس میں ہوا داخل ہو جاتی تو اس میں سے گائے یا بیل کی آواز نکلتی اس آواز سے سامری نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا اور بولا یہی تمہارا اصل معبود ہے اور قرآن پاک میں سورہ توحہ میں اللہ تعالی نے اس کا ذکر یوں کیا پھر اس نے ان کے لیے ایک بچڑا بنا دیا یعنی بچڑے کا بدھ جس کی گائے کسی آواز بھی تھی پھر کہنے لگا کہ یہی تمہارا معبود ہے اور موسیٰ علیہ السلام کا بھی لیکن موسیٰ بھول گیا ہے دوستو کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب دورات لے کر واپس آئے تو دیکھا کہ بنی اسرائیل سامری کے بچڑے کی پرستش کر رہے ہیں آپ علیہ السلام کو سخت ناغوار گزرا غزبناک ہو کر اپنے بھائی حضرت حارون علیہ السلام کے سر کے بال اور داڑھی پکڑ کر انہیں سخت سست کہا حضرت حارون علیہ السلام نے عرض کیا اے میرے بھائی میری داڑھی اور سر کے بال مت کھینچو دراصل قوم نے مجھے کمزور خیال کیا اور میرے قتل کے درپیہ ہو گئی پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سامری کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تو نے یہ حرکت کیوں کی؟ اس نے کہا میں نے فرشتے کے نقشے پاس سے مٹی ایک مٹھی میں بھر لی تھی پھر اس کو بچڑے کے کلب میں ڈال دیا اور مجھے یہ کام بھلا لگا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا اچھا جا دنیا کی زندگی میں تیری سزا یہی ہے کہ تُو کہتا پھرے گا کہ مجھے نہ چھونا اور تیرے لیے ایک اور وعدہ ہے یعنی عذاب کا جو تجھ سے ٹل نہ سکے گا اور پھر ایسا ہی ہوا سامری عمر بھر یہی کہتا رہا کہ مجھے نہ چھونا کیونکہ اسے چھوتے ہی چھونے والا اور سامری دونوں شدید بخار میں مبترہ ہو جاتے پھر وہ انسانوں کی بستی سے نکل کر جنگل میں چلا گیا جہاں جانووں کے ساتھ زندگی گزاری اور عبرت کا نمونہ بن گیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے بچڑے کو جلا کر دریا میں پھینک دیا دوستو روایات میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب دورات سے درس و تدریس شروع کی تو بنی اسرائیل ایک مرتبہ پھر ہیلے بہانے کرنے لگے اور بولے اے موسیٰ ہم یہ کیسے یقین کر لیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے ہو سکتا ہے کہ تم نے خود ہی بنا لیا ہو اس صورتحال پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار پھر اللہ سے رجوع کیا اللہ نے فرمایا اے موسیٰ اس قوم کے منتخب افراد کو لے کر کوہے تور پر آ جاؤ تاکہ ہم ان کو اپنا کلام سنا دیں اور انہیں یقین آ جائے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان میں سے ستر سرکردہ افراد چنے اور انہیں کوہے تور پر لے گئے اور جب اپنے کانوں سے اللہ کا کلام سن لیا تو بولے جب تک ہم اللہ کو خود سے نہ دیکھ لیں کیسے یقین کر لیں ان کی اس ہٹ دھرمی اور سرکشی پر کوہے تور لرز اٹھا اور اوپر سے شدید بجلی کڑکی جس کی دہشت سے یہ سب بظاہر مردہ ہو کر گر پڑے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ جللہ شانہو سے دعا کی جس پر اللہ نے ان سب کو دوبارہ کھڑا کر دیا پھر یہ سب گڑ گڑا کر توبہ استغفار کرنے لگے اللہ نے ان کی دعا قبول کر لی یہ لوگ قوم کے پاس واپس آئے اور توحید اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کی گواہی دی مگر کچھ دینی گزرے تھے کہ حسب عادت پھر شرک میں مبتلا ہو گئے اس مرتبہ اللہ تعالیٰ نے ان کے سروں پر کوہِ تور کو معلق فرما دیا جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 63 میں اللہ نے فرمایا اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر تور پہاڑ لا کھڑا کر دیا اور حکم دیا کہ جو قداب ہم نے تم کو دی ہے اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو تاکہ عذاب سے محفوظ رہو بنی اسرائیل اپنے سروں پر کوہے تور کو دیکھ کر بہت زیادہ خوف زدہ ہو گئے کہ کہیں اس بڑے پہاڑ کے نیچے دب کر ختم نہ ہو جائیں چنانچہ وہ سردے میں گر کر توبہ و استغفار کرنے لگے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست پر اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر انہیں ماف کر دیا دوستو اب بات کرتے ہیں وادی تیہ میں قید کے دوران اللہ تعالیٰ کے انعامات کی جو بنی اسرائیل پر ہوئے روایات میں آتا ہے کہ اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عرض مقدسہ یعنی ملک شام جانے اور اپنے باپ دادا کی سرزمین کافروں سے چھڑانے کا حکم دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر وہاں پہنچ گئے اس وقت وہاں پر قوم جبارین کا قبضہ تھا یہ لوگ عجیب خوفناک شکل و صورت اور حیبتناک قد و قامت کے مالک تھے ان کے ظلم و ستم اور کہر و جبر کی داستانیں عام تھیں بنی اسرائیل نے جب شہر سے باہر ان کے حالات سنے تو شہر میں داخل ہونے اور ان سے جہاد کرنے سے انکار کر دیا وہ بولے کہ موسیٰ جب تک وہ لوگ وہاں ہیں ہم ہرگز وہاں نہیں جائیں گے اگر لڑنا ہی ضروری ہے تو آپ علیہ السلام اور آپ کا پروردگار جا کر ان سے لڑائی کر لیں ہم تو یہیں بیٹھے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کی تمام تر نافرمانیوں اور بےہودگیوں کو اب تک بڑے سبر و تحمل سے برداشت کرتے چلے آئے تھے اور ان کے لیے دعا گو رہتے اور اللہ سے انہیں معافی دلوا دیتے لیکن ان کے اس جواب پر بے حد غمگین اور رنجیدہ ہو گئے اور ان کے لیے بددعا فرماتے ہوئے انہیں فاسقین کے نام سے بکارا اللہ جللہ شانہو نے اپنے رسول کی دعا قبول فرمائی اور انہیں مصر اور شام کے درمیان میدان تیہ میں قید کر دیا اور وہ چالیس سال اس میدان میں بھٹکتے رہے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت حارون علیہ السلام بھی ان کے ساتھ تھے جو ان کی غلطیوں اور نافرمانیوں پر اللہ سے معافی طلب کرتے رہتے جس کی برکت سے سزا کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں برستی رہیں انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دھوپ کی شکایت کی تو آپ علیہ السلام کی دعا سے ان کے سروں پر عبر کا سایہ کر دیا گیا پھر بھوک کی شکایت کی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے منو سلوہ نازل فرما دیا من ایک قسم کے دانے تھے جو زمین میں پھیلے ہوتے تھے بنی اسرائیل انہیں پیس کر روٹی بنا لیتے جبکہ سلوہ ایک قسم کے پرندے تھے جو دریا کی طرف سے آتے تھے مدتوں یہ لوگ منو سلوہ کھاتے رہے ان کے کپڑے میلے ہوتے اور نہ ہی پھٹتے جب ان کو پانی کی حاجت ہوئی تو وہ بھی عطا کر دیا گیا جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی لاتھی پتھر پر مارو انہوں نے لاتھی ماری تو اس میں سے بارہ چشمیں پھوٹ نکلے اور تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر کے پانی پی لیا ہم نے حکم دیا کہ اللہ کی عطا فرمائی ہوئی روزی کھاؤ اور پیو مگر زمین پر فساد نہ کرتے پھرو لیکن دوستو بنی اسرائیل نے حسبی عادت نعمت خداوندی کی ناشکری کرتے ہوئے ادنا چیزوں کی فرمائش کر دی جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے اور جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ہم سے ایک قسم کے کھانے پر ہرگز سبر نہ ہو سکے گا اس لیے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں زمین کی پیداوار، ساگ، ککڑی، گیہوں، مزور اور پیاز دے آپ علیہ السلام نے فرمایا بہتر چیز کے بدلے ادنا چیز کیوں طلب کرتے ہو؟ وادی تیہ میں بنی اسرائیل کے ساتھ اللہ کے دو پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت حارون علیہ السلام اور دو نیک بندے حضرت یوشہ بن نون اور حضرت کالب بن یوقنا بھی تھے اور اللہ تعالیٰ ان کے تفیل بنی اسرائیل کو چالیس سالہ قید اور سزا کے دوران بھی اپنی نعمتوں اور انعامات سے نواز دارہا لیکن بنی اسرائیل اپنے مقروف ریب سے باز نہ آئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور کا ایک اور واقعہ بھی قابل ذکر ہے جو بیل زباہ کرنے کے حوالے سے ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہو اور دیگر کئی بزرگ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک بہت مالدار بوڑھا تھا جس کے بھتیجے اس کی موت کے مطمئنی تھے تاکہ وہ وارث بن جائیں لہٰذا ایک نے اسے قتل کر ڈالا اور اس کی لاش پھینک دی لوگوں کو صبح پتا چلا تو قاتل کی تلاش شروع ہو گئی مگر کچھ علم نہ ہو سکا لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جس پر اللہ نے حکم فرمایا کہ ایک گائی زباہ کریں قرآن مجید میں اس واقعے کو یوں بیان کیا گیا ہے اور جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل زباہ کرو تو وہ بولے کیا تم ہم سے مزاک کرتے ہو موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں انہوں نے کہا اپنے پروردگار سے پوچھ کر بتائیں کہ وہ بیل کس طرح کا ہو کہا پروردگار فرماتا ہے وہ بیل بوڑھا ہو اور نہ بچڑا بلکہ ان کے درمیان یعنی جوان ہو سو جیسا تم کو حکم دیا گیا ہے ویسا کرو انہوں نے کہا اپنے پروردگار سے پوچھ کر بتائیے کہ اس کا رنگ کیسا ہو موسیٰ علیہ السلام نے کہا پروردگار فرماتا ہے کہ اس کا رنگ گہرہ زرد ہو کہ دیکھنے والوں کے دل کو خوش کر دیتا ہو انہوں نے کہا پروردگار سے پھر درخواست کیجئے کہ ہم کو بتا دے کہ وہ اور کس کس طرح کا ہو کیونکہ بہت سے بیل ہمیں ایک دوسرے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں پھر اللہ نے چاہا تو ہمیں ٹھیک بات معلوم ہو جائے گی موسیٰ علیہ السلام نے کہا اللہ فرماتا ہے کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ہو زمین جوتا ہو اور نہ ہی کھیتی کو پانی دیتا ہو اس میں کسی طرح کے داغ نہ ہو غرض بڑی مشکل سے انہوں نے اس بیل کو زباہ کیا تو ہم نے کہا اس بیل کا کوئی سا ٹکڑا مقتول کو مارو اس طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تم کو اپنی قدرت کی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو اللہ کے حکم کے مطابق گائے کے گوشت کا حصہ مقتول مقتول کے جسم سے ملایا گیا تو وہ زندہ ہو کر کھڑا ہو گیا اس کی رگوں سے خون بہ رہا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سے سوال کیا کہ تجھے کس نے قتل کیا اس نے جواب دیا مجھے فلان بھتیجے نے قتل کیا یہ کہہ کر وہ مر گیا اور جیسا تھا ویسا ہی ہو گیا یوں اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے کہنے پر قاتل کا پتہ انہیں بتا دیا دوستو روایات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خجر علیہ السلام کا ایک تفصیلی واقعہ بھی ملتا ہے ویڈیو کے لمبا ہونے کے ڈر سے یہ واقعہ بیان نہیں کیا جا رہا یہ واقعہ ہم کسی اور ویڈیو میں آپ کے لیے بیان کریں گے انشاءاللہ البتہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور قارون کے واقعے کا تذکرہ کرتے ہیں یاد رہے کہ قرآن کریم کی اٹھائیسویں صورت صورہ قصص کی آیات چھہتر تا تیراسی میں اللہ تبارک وطالعہ نے قارون کا تذکرہ فرمایا ہے قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل کا ایک بہت امیر و کبیر لیکن نہایت متکبر مغرور ظالم اور حاصل شخص تھا قرآن مجید کے مطابق اس کے خزانوں کی کنجیاں کئی طاقتور لوگ مل کر بمشکل اٹھا باتے حضرت عطا رحمت اللہ علیہ سے روایت ہے کہ اسی حضرت یوسف علیہ السلام کا ایک مدفون خزانہ مل گیا تھا یایہ بن سلام اور سعید بن مسیب رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ قارون سرمایہ دار تھا اور فیرون کی طرف سے بنی اسرائیل کی نگرانی پر معمور تھا اس عودے پر رہ کر اس نے بنی اسرائیل کو بہت ستایا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا ذات تھا بعض روایات میں ہے کہ کارون تورات کا حافظ اور عالم تھا اور ان ستر اصحاب میں سے تھا جن کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مقات کے لیے منتخب فرمایا تھا مگر اسی اپنے علم پر نازو غروب پیدا ہو گیا تھا اور اسی اپنا ذاتی کمال سمجھ بیٹھا تھا روح المعنی میں محمد بن اسحاق رحمت اللہ علیہ کی روایت سے نقل کیا گیا ہے کہ قارون تورات کا حافظ تھا اور دوسرے بنی اسرائیل سے زیادہ اسے تورات یاد تھی مگر سامری کی طرح منافق ثابت ہوا اس کی منافقت کا سبب دنیا کی جاہو عزت کی بے جاہ حرس تھی اور چونکہ پورے بنی اسرائیل کی قیادت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حاصل تھی اور ان کے بھائی حضرت حارون علیہ السلام ان کے وزیر اور شریک نبوت تھے اس کو یہ حسد ہوا کہ میں بھی تو ان کی برادری کا بھائی اور قریبی رشتہ دار ہوں میرا اس سیاست و قیادت میں کوئی حصہ کیوں نہیں چنانچہ موسیٰ علیہ السلام سے اس کی شکایت کی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے مجھے اس میں کچھ دخل نہیں مگر وہ اس پر مطمئن نہ ہوا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حسد کرنے لگا میرے دوستو فرمانِ الٰہی ہے کہ ایک روز قارون بڑی آرائش تھاٹھ اور شان و شوقت کے ساتھ اپنی کون کے سامنے نکلا جو لوگ دنیا کے طالب تھے کہنے لگے جیسا مالو مطا قارون کو ملا ہے کاش ایسا ہی ہمیں بھی ملے یہ تو بڑا ہی صاحب نصیب ہے لیکن جن لوگوں کو اللہ کا علم دیا گیا تھا اور جو صاحب ایمان تھے وہ کہنے لگے تم پر افسوس ہے مومنوں اور نیکوکاروں کے لیے جو ثواب اور عجر اللہ کے ہاں تیار ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے اور وہ صرف صبر کرنے والوں کو ملے گا دوستو معلوم ہوا کہ کارون ایک بخیل شخص تھا جسے مال و دولت سے بے حد محبت تھی وہ زکاة دیتا اور نہ اپنا مال غریبوں پر خرج کرتا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بار بار تنبیح کے باوجود اس کا غرور و تقبر، بغض، حسد، بخیلی اور غریبوں سے نفرت روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔ بلاخر اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے مال و دولت سمیت زمین میں دفن کر دیا۔ سورہ قصص میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا پس ہم نے کارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا۔ یوں اللہ نے ایک امیر، کبیر، مغرور اور بخیل شخص کو رہتی دنیا تک عبرت کا نشان بنا دیا چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان سچ ثابت ہوا اور اس کا ممی شدہ جسم اٹھارہ سو اٹھانوے میں دریائے نیل کے قریب ایک وادی سے اوریت نے دریافت کیا تھا جہاں سے اس کو قاہرہ منتقل کر دیا گیا ایلیٹ سمیت نے آٹھ جولائی انیس سو ساتھ کو اس کے جسم سے غلافوں کو اتارا تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جو کھارے پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی اس نے اس عمل کا تفصیلی تذکرہ اور جسم کے جائزے کا حال اپنی کتاب شاہی ممیاں نائنٹین ٹویلو میں درج کیا ہے اس وقت یہ ممی محفوظ رکھنے کے لیے تسلی بخش حالت میں تھی حالانکہ اس کے کئی حصے شکستہ ہو گئے تھے اس وقت سے ممی کائرہ کے عجائب گھر میں سیاہوں کے لیے سجی ہوئی ہے اس کا سر اور گردن کھلے ہوئے ہیں اور باقی جسم کو ایک کپڑے میں چھپا کر رکھا ہوا ہے قوم فیرون پر نازل کیے گئے عذابات دوستو امت مسلمہ کے لیے نہ صرف باعث عبرت بلکہ غور و فکر کی دعوت بھی دیتے ہیں اٹھاون مسلم مالک اور اڑھائی عرب مسلمان جس بدھالی اور تنظلی کا شکار ہیں وہ اللہ کی ناراضگی اور اللہ سے بے رہ روی کی وجہ سے ہیں نماز پڑھتے ہیں ہم حج عمرہ ادا کرتے ہیں زکاة دیتے ہیں اور قرآن پاک پڑھتے ہیں لیکن سود کو برا نہیں سمجھتے رشوت لینا اور دینا مجبوری گردانہ جاتا ہے جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ ناب طول میں کمی، ملاوت، بے ایمانی، ہیر پھیر کاروبار کا حصہ ہے۔ عمر بالمعروف اور نہیں ان المنکر ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں۔ اگر یہ سب عامال ہی ہماری کامیابی و کامرانی کا پیمانہ ہے تو پھر غلازت کے اس ڈھیر پر بیٹھ کر ہمیں اللہ کی مزید ناراضگی کا انتظار کرنا ہوگا۔ جو انفرادی عذاب بھی ہو سکتا ہے اور اجتماعی بھی اللہ پاک ہم سب کو ایسے کاموں سے بچائے جو اس کے غزب کو دعوت دینے والے ہوں آمین تو دوستو یہ تھی ہماری آج کی ویڈیو امید کرتے ہیں کہ ہماری آج کی یہ ویڈیو آپ سب کو پسند آئی ہوگی آج کی اس ویڈیو کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کمنٹ باکس میں لازمی کیجئے گا مجھے اگلی ویڈیو تک اجازت دیں فی امان اللہ