Transcript for:
فضل الرحمن اور پاکستان کی موجودہ صورتحال

حکومت کو لگ رہا تھا کہ وہ فضل الرحمن صاحب کو منائیں گے اور اس کے لیے دعوے بھی کیا جا رہے تھے تھوڑے دن پہلے حنیفہ باسی نے کچھ دعوے کیے کچھ صحافیوں نے دعوے کیے فیصل وڈا نے دعوے کیے بہت سارے لوگوں نے کہا کہ فضل الرحمن کو منائی جا چکا ہے فضل الرحمن کو جو آفرز دی گئی ان کے بارے میں میں نے آپ کو بتایا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ میں آپ کو بتا رہا تھا کہ فضل الرحمن صاحب پر ان کی پارٹی کا دباؤ ہے اور پارٹی ان کو بارہا یہی کہہ رہی ہے کہ اگر ہم نے اس وقت عوام کو دھوکا دیا یا اس حکومت کا ہاتھ تھاما تو اس حکومت نے جتنی زیادتی عوام کے ساتھ کی ہے وہ ساری ہمارے گلے پڑ جائے گی اور جو رہی صحیح سیاست ہے وہ بھی تباہ ہو جائے گی تو فضل الرحمن صاحب کا جو سٹیٹمنٹ ہے پہلے آپ وہ دیکھ لیجئے وہاں سے آپ کو آئیڈیا ہو جائے گا کہ کیسے انہوں نے حکومت کی امیدوں پر پانی پھیرا ہے معاملہ تو ایکسٹینشن کا ہے یہ پورا پاکستان کہہ رہا ہے فضل الرحمن صاحب کہہ رہے ہیں کہ ایکسٹینشن فوج سمیت ہر ادارے میں غلط ہے اگر حق ہے تو پارلیمنٹ کو بھی دیا جائے کہ یہاں پہ بھی ایکسٹینشن ہو جائے آپ کو یاد ہوگا کہ عمران خان صاحب کے دورے حکومت کے بعد جب ریجیم چینج آپریشن ہوا اور اس کے بعد پی ڈی ایم کی سرکار بنی تو اس دور میں یہ کہا گیا کہ جناب اس سے حکومت کو ایکسٹینشن دے دی جائے یہ پارلیمنٹ لمبی کر دی جائے یہ وہی بات فضل الرحمن صاحب نے اس وقت بھی کی تھی یہی بات فضل الرحمن صاحب اب بھی کر رہے ہیں فضل الرحمن نے کہا کہ ایکسٹینشن کا عمل فوج سمیت ہر ادارے میں غلط ہے اگر یہ حق ہے تو پارلیمنٹ کو بھی ایکسٹینشن کا حق ہے ہمیں یاد ہے کس طرح ہاتھ مرود کر ایک آرمی چیف کی مدت ملازبت میں توسیع کروائی گئی انہوں نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی مضمت کرتا ہوں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تین دن تک اس ایوان کو بند کر دیا جاتا ہے اتجاجن تاکہ آئندہ ایسا واقعہ نہ ہو ساتھیوں کے پروڈیکشن آرڈر جاری کرنے پر سپیکر کو ارخ راجت احسین پیش کرتا ہوں مگر حق تو یہ تھا کہ اس واقعے کے بعد ایوان کو تین دن کے لیے بند کر دیا جاتا اچھا سپیکر کو کیونکہ دباؤ بہت زیادہ ہے دیکھیں یہ انسیڈنٹ جب کیا گیا تو اس وقت لگا کہ شاید کوئی بڑی بات ہی نہیں ہے لائٹیں بند کرو اندر جاؤ بندے پکڑو بندے باہر نکالو فوری طور پر ڈیسیجن لے لیا گیا لیکن یہ بہت بڑا واقعہ پاکستان کی تاریخ کا ہو گیا ہے پارلیمنٹ کے اوپر اس کو ایک حملے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے پارلیمنٹیرینز اس پر بڑے حساس ہیں چاہے وہ پی ایم ایل این کے ہیں چاہے وہ پی ٹی آئی کے ہیں چاہے وہ طریقہ انصاف کے ہیں پیپلز پارٹی کے ہیں اے این پی کے ہیں فضل رمان صاحب کی پارٹی کے ہیں سب کے سب بہت غصے ہیں میں اور انہیں لگتا ہے کہ یہ زیادتی ہو گئی ہے لیکن چند وہ لوگ جو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہیں وہ لوگ ذرا مختلف بیانیاں اس پہ بنا رہے ہیں جیسے کہ آہ انفرمیشن منسٹر جیسے کہ ڈیفنس منسٹر جیسا کہ فیصل وارڈا یا دو چار اور لوگ اب فضل الرمان صاحب نے یہ کہا کہ آج خیبر پکتون خواہ میں پولیس نے دھرنا دیا ہوا ہے لکی مروت بنو لیڑا اسمیل خان میں پولیس اعتجاج پر ہے اگر پولیس نے فرائض ادا کرنا چھوڑ دیئے تو کیا ہوگا ملک کا باجوڑ میں بھی پولیس نے میری اطلاع کے مطابق کچھ مبیعی نطور پر لوگ بتا رہے ہیں کہ وہاں پہ بھی کوئی وارننگ دی ہے اور ایک ڈیڈ لائن دی ہے شاید پانچ دن کی کہا جا رہا ہے کہ اس کے بعد وہاں سے بھی وہ لوگ اعتجاج میں چلے جائیں گے فضل امان نے کہا کہ ادارے اور اداروں کے بڑے اپنی ایکسٹینشن کے لیے فکر مند ہیں ملک کے لیے نہیں ایکسٹینشن کا عمل فوج سمیت ہر ادارے میں غلط ہے اگر یہ حق ہے تو پارلیمنٹ کو بھی ایکسٹینشن کا حق ہے یہ روایات ٹھیک نہیں ہیں ہم اپوزیشن میں اور غلط روایت کی بنیاد نہیں ڈالیں گے آج پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ہم کسی کی ایکسٹینشن کی تائید کیوں کریں یعنی قادی فائدی صاحب نے فضل الرحمن صاحب کو سپیشل پروٹوکول دیا تھا جب وہ سپریم کورٹا پاکستان میں پہنچے تھے اور جو سیکٹری مستحق صاحب ہیں وہ خود آئے تھے فضل الرحمن صاحب کو دروازے سے ریسیب کرنے حالانکہ ایسا پہلے نہیں ہوا تو اس معاملے میں پھر فضل الرحمن صاحب جو ہیں ان سے امید تو یہ کی جارہی تھی کہ شاید وہ اس ایکسٹینشن کے معاملے میں تھوڑی کوئی لچک دکھائیں گے لیکن انہوں نے بلکل نہیں دکھائی حکومت کے جو امیدیں تھی ان کے پر تھنڈا پانی فضل الرمان صاحب نے کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارا عدالتی نظام فرصودہ ہو چکا ہے جتھوں کو ختم کریں اور پارلیمنٹ کو مضبوط بنائیں۔ عدالتیں سیاسی گروہ بن چکی ہیں کوئی عدالتیں کسی کو سپورٹ کرتی ہیں کوئی کسی کو حکومت کو کہوں گا عدالتی نظام میں اصلاحات لائی جائیں اپوزیشن کے ساتھ مل کر اصلاحات لائی جائیں۔ انہوں نے وعدے کیا کہ فوج اور عدلیہ میں میار ایک لائی جائے ہمیں یاد ہے کس طرح ہاتھ مروڑ کے ایک آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی۔ جے جو آئی کے سربراہ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ساٹھ ہزار اعتماد سے زائد مقدمات زیرل طوا پڑے ہوئے ہیں کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ آئینی معاملات کے لیے الگ عدالت میں بنائی جائیں؟ آج ملک میں انگریز دور کا نظام عدالت چل رہا ہے اعتماد کو بحال کرنا پڑے گا اور پارلیمنٹ کو سپریم بنانا ہوگا انہوں نے کہا کہ آج کوئی بات کریں تو توہینی عدالت ہو جاتی ہے ملوچستان پر بات کریں تو ایجنسیاں آ جاتی ہیں سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا ہمارے آئین میں لکھا کہ فوج کے متعلق اور عدلیہ کے خلاف آپ نہیں بول سکتے لیکن میرے پارلیمنٹ ایڈینز کو پارلیمنٹ سے گرفتار کرنے کی اجادت نہیں ہونی چاہیے ایاز صادق صاحب بڑی مشکل میں پڑ گئے ہیں اور ایک خبر بھی چھپی ہے سوالے سے بلکہ میں وہ دیکھ بھی رہا تھا کہ ایاز صادق صاحب اب ہوا یہ ہے فضل رمان صاحب نے کہا چیف جسٹس کے لیے پارلیمان اور جوڈیشنل کانسل کا اجلاس ہونا چاہیے عدالتی اصلاحات ہونی چاہیے اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر اصلاحات ہونی چاہیے اور انہوں نے کہا جی انیسویں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کو بلیک میل کیا گیا انیسویں آئینی ترمیم کے لیے ایک جج نے پارلیمان کو بلیک میل کیا انیسویں آئینی ترمیم کو ختم ہونا چاہیے اچھا جی اس کے بعد انہوں نے کہا جی کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے لیے ایک ہی چیف بننے کے لیے ایک ہی میار ہونا چاہیے چیف بننے کے لیے ایک ہی میار ہونا چاہیے اور فضل الرمان صاحب نے پھر بہت ساری باتیں کی جو عدلیہ کے حوالے سے وہ چاہ رہے تھے پھر انہوں نے کہا پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کے لوگوں کو گرفتار کرنا غلط تھا اور ایک آرمی چیف باجوہ نے ہمارا بازو مرود کر اپنی مرضی کے فیصلے کروائے ہیں فضل الرمان صاحب نے ایک دوہ پھر سابق آرمی چیف جرنل کمر جوید باجوہ کے اوپر الزامات لگائے انہوں نے کہا بلوچستان میں علیتگی کے نعرے لگ رہے ہیں آج سکولوں میں پاکستان کا ترانہ نہیں بجایا جا سکتا وہاں پہ ہمیں ان سے بات کرنی چاہیے پاکستان کا جھنڈا نہیں لگایا جا سکتا معاشرتی علوم نہیں پڑھایا جاتا علیتگی پسند تحریک میں مسلح لوگ بھی ہیں اور غیر مسلح بھی میری رائے کی مستقل ضرورت اس کمیٹی کو ہے تو میں حاضر ہوں پھر اس کے بعد انہیں اپنے علاقے کا بتایا کہ وہاں پہ سورتحال کیا ہے خواجہ عاصف صاحب نے کہا جی معاملہ یہ ہے کہ ہماری دفعہ بھی تو ظلم ہو رہا تھا تو اب ہو رہا ہے تو خیر ہے اس کو جسٹیفائی کر لیتے ہیں میں کمیٹی کا حصہ نہیں بنتا سپیکر نے پھر ایک کمیٹی بنائی تھی نا وہ کہہ رہے جی میں اس کا حصہ نہیں بنتا باردو فضل رحمان صاحب ہیں باقی جماعت کے لوگ ہیں پاکستان تحریک انصاف کے لوگ بھی ہیں اور وہ بھی اس کمیٹی کا حصہ بنے ہیں عمر عیوب کی اہلیہ سے بات نہیں کرنے دی گئی دیکھیں وہ اس وقت وہاں پہ جو سپریٹینڈنٹ آف جیل تھا وہ کہاں آج انہی کی حکومت ہے نا پکڑے اس کو اس وقت جو پنجاب کا ہوم سیکٹری تھا وہ کہاں آج انہی کی حکومت ہے نا پکڑے اس کو اور وہ انہی کا آدمی ہے یعنی عمران خان کو تو جس بات کا پتہ بھی نہیں ہے جب عمران خان کو پتہ چلا کہ نوازشلیب بیمار ہے انہوں نے پاکستان سے باہر علاج کے لیے بھی بھیج دیا حالانکہ وہ ایک ڈیل ہو رہی تھی اور وہ پلیٹلیس کا سارا ڈراما کر کے عمران خان صاحب کے سامنے رکھا گیا تھا لیکن عمران خان صاحب نے نواز شریف کو ترس کھا کے پاکستان سے باہر بھیج دیا ہاؤ ایز ایٹ پیسیبل کہ وہ ان کی وائف سے ان کی بات نہ ہونے دیتے تو یہ عمران خان نے نہیں کیا تھا یہ جنہوں نے کیا تھا خواجہ آتا حاصل صاحب ان کا نام لینے سے بھی کتراتے ہیں اور جو لوگ اس ساری چیزوں کو ایکزیکیوٹ کر رہے تھے آج وہ خواجہ حاصل صاحب کی حکومتوں کے ساتھ کام بھی کر رہے ہیں عمران خان نے تو نواز شریف صاحب کو باہر نکالنے کی غلطی کی کیونکہ انہیں گمراہ کیا گیا تھا انہیں غلط رپورٹیں دی گئی تھی جو اب پاکستان تحریک انصاف کے لوگ کہتے ہیں کہ اس وقت ایجنسٹیوں کی مداخلت کی وجہ سے نواز شریف کی جو پلٹلس کی رپورٹیں ہیں ان کو ٹیمپر کیا گیا تھا اور وہ رپورٹیں ٹھیک نہیں تھی جن کی بنیاد پر میاں نواز شریف کو پاکستان سے باہر بھیجا گیا اب سپیکر کے لیے مشکل یہ پیدا ہو گئی ہے کہ دو طرح کے محقف آ رہے ہیں دیکھیں جو تاثر بن رہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ امید کی جا رہی تھی کہ موجودہ حکومت اور حکومتی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کے جو عراقین قومی اسمبلی کے اندر سے گرفتار کیے گئے ہیں ان کی گرفتاری کے اوپر جواد فرام کریں گی اور گرفتاریوں کے ساتھ کڑی ہو جائیں گی لیکن اس کا اولٹ ہو گیا وہ سارے کے سارے جو ہیں وہ دیفرنٹ طرف جا کے کھڑے ہو گئے اب جب یہ لوگ سارے ابھی آئے ہیں پروڈکشن آرڈرز کے اوپر کیونکہ یہ بھی بہت دباؤ تھا کہ پروڈکشن آرڈر نہ دیے جائیں شہباز شریف صاحب کچھ اور سوچ رہے ہیں خواجہ حاصل کچھ اور سوچ رہے ہیں ایک گینگ کچھ اور سوچ رہے ہیں پی ایمیلن کی قیادت کچھ اور سوچ رہی ہے اور دوسری طرف جو پارلیمنٹیرینز ہیں جو عوام کے ووٹوں کے لیے عوام میں جاتے ہیں ان کو اپنے خطرات پیدا ہو گئے ہیں کہ یہ کونسا کھیل شروع ہو گیا پاکستان میں مقدس ایوان ہے اس کے اندر جو ہے وہ حملہ کر دیا گیا ہے اب ہوا یہ کہ آئی جی اسلام آباد کا جو موقف ہے وہ یہ کہتے ہیں جی ہم نے پرسیجر کے تحت کیا اور وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ جو کچھ بھی کیا وہ ہم نے آیاز صادق صاحب کی اجادت سے ان کی مرضی سے اور ان کو بتا کر کیا آیاز صادق صاحب یہ کہتے ہیں جی میں تو اس کے اندر شامل ہی نہیں ہوں مجھے تو مزہ ہی نہیں ان باتوں کا اب آیاز صادق صاحب کا جو سٹیٹمنٹ ہے اس حوالے سے وہ بڑا امپارٹنٹ ہے سردار آیاز صادق نے کہا کہ آپ کی باتوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ اس سب کا ذمہ دار میں ہوں ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ سب مجھے معلوم تھا یا میری مرضی سے ہوا اب مجھے بھی ادھر جا کر سوچنا پڑے گا کہ مجھے یہاں رہنا ہے یا نہیں یعنی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی سپیکر کی سیٹ چھوڑنے کے لیے بھی فیصلہ کریں کہ ان کی موجودگی میں اتنا خوفناک کام ہو گیا پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے اندر گھس کر تشدد کر کے لائٹے بند کر کے ٹارچوں کی روشنی میں آپریشن کر کے ناملوم افراد جو ہیں وہ گسیٹتے ہوئے ایمین ایز کو باہر لے گئے اور نے جا کر پولیس کے حوالے کر دیا اب جو ایمین ایز ہیں جو باہر آئے انہوں نے بھی سٹیٹمنٹ دی اور ان تمام کے سٹیٹمنٹ سننے کے بعد کوئی عجیب و غریبی صورتحال پیدا ہو گئی یعنی شیر افضل مروت صاحب نے بتایا کہ ان کو تو بقایدہ انکاؤنٹر کی دھمکی ایک ڈی آئی جی آپریشن نے دی اور ان کے ساتھ ان کی لڑائی بھی ہو گئی پھر انہوں نے بتایا کہ کیسے ان کو سٹور میں بند کر دی گیا کس طرح زیادتی کی گئی اور پھر کس طرح جو ہے وہ یہاں تک معاملہ پہنچا ہے پھر اس کے بعد بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم مضامت کریں گے لیکن پھر آمد ڈوگر صاحب کی مربانی سے انہوں نے کہا جی پھر مزامت کا فیصلہ جو ہے وہ کینسل کر دیا گیا آمد ڈوگر صاحب نے بھی جو سٹیٹمنٹ دیا بیرسٹر گوھر صاحب نے بھی عمر ایوب صاحب نے بھی وہ سب نے اپنے اپنے سٹیٹمنٹس دی ہیں قومی اسمبلی میں اب اس میں بیرسٹر گوھر نے عمر ایوب نے اور حامد رضا نے سپیکر کی چائے پینے سے انکار کر دیا ان کو یہ نہیں بلایا تھا اور ان نے کہا جی اس کے اوپر بات چیت کرتے ہیں تو انہوں نے کہا جی ہم آپ کے پاس چائے نہیں پی رہے کیونکہ جو کچھ ہوا اس کے لیے ہم آپ کو رسپونسیبل سمجھتے ہیں آمد ڈوگر صاحب نے کہا جی جیہاں جی پارلیمنٹ کو فستائیت زدہ حکومت نے مزاق بنا دیا ہے اور تمام ایمین ایز نے اپنی گرفتاری کا پورا واقعہ بتایا سب نے بتایا کہ کیسے وہ پارلیمنٹ کے اندر موجود تھے کس کس کمرے کے اندر موجود تھے کس طریقے سے چابیاں عملے نے فرام کی آنے والوں کو کس طرح سے وہ لوگ آئے ٹورچے لے کر انہوں نے کھولا اور ٹورچر کرتے ہوئے گسیٹے ہوئے لے کر چلے گئے ایمین ایز کو یہ سارے مناظر جو انہوں نے دیکھے یا جو ان کے ساتھ ہوا وہ انہوں نے پارلیمنٹ کے فلور کے اوپر آ کر کھڑے ہو کر بتا دیا لگتا ایسے ہے کہ گرفتار کرنے والوں کو یہ لگتا تھا کہ شاید یہ لوگ بڑے لمبے عرصے تک جیل میں رہیں گے یا انہیں پروڈکشن آرڈرز جاری نہیں ہوں گے جیسا کہ ایجاز چودری سینیٹر ہے پاکستان تحریک انصاف کے ان کے آج تک پروڈکشن آرڈرز جاری نہیں ہوئے اچھی بات یہ ہے کہ ایجاز صادق صاحب نے چلو دباؤ میں آ کر بہت زیادہ دباؤ تھا ان کی اپنی پارٹی کا بھی یہ پروڈکشن آرڈرز تو انہیں جاری کر دیئے لیکن پاکستان پیپس پارٹی کے سید یوسف عدی گلانی صاحب نے ابھی تک ایجاز چودری صاحب کے پروڈکشن آرڈرز جاری نہیں کیے یعنی پیپس پارٹی اتنی ہی جمہوری ہے جتنا یعنی آپ میرا یہ وی لاؤگ سن رہے ہیں و میرا نام عمران ریاض ہے اگر میں یہ کہوں کہ میرا نام کوئی اور ہے تو وہ اتنے ہی ہیں پیپس پارٹی جیسی جمہوری ہے یعنی اگر آپ دن کو رات کہیں تو پیپس پارٹی اتنی جمہوری ہے یعنی پیپس پارٹی نے جمہوریت کا جنازہ اس ملک میں نکالا ہے اور اپنے گلے میں سب سے بڑا ٹیگ ڈالا ہوا ہے کہ ہم سے بڑی جمہوری پارٹی پاکستان میں کوئی نہیں ہے کبروں کی سیاست یہ کرتے ہیں لیکن انہوں نے جتنی تباہی پھیری ہے سندھ کے اندر پاکستان تحریک انصاف کی اپنے مخالفین کو کچلنے میں انہوں نے جو قصر ایک قصر انہوں نے نہیں چھوڑی پاکستان پیپس پارٹی نے سب سے زیادہ تباہی پھیری ہے جمہوریت کی اور وہ پھر جمہوریت کے چیمپئن بھی بن جاتے ہیں حالانکہ پیپل پارٹی میں اچھے لوگ ہیں وہ بیچارے کہتے ہیں بار بار لیکن جو میں قیادت ہے اس کی بات کر رہا ہوں کہ قیادت بالکل بھی پاکستان پیپل پارٹی کی جمہوری نہیں ہے یوسف ردہ گلانی کو ابھی تک اجاز چودری صاحب کے جو پروڈکشن آرڈرز ہیں وہ جاری کرنے کی توفیق نہیں ہوئی دوسری جانب اچھی خبر یہ ہے کہ اجاز چودری صاحب اور یاسمین راشد صاحبہ اور عمر چیمہ صاحب ان کی زمانتیں منظور ہو گئیں گے جی نون لیگ کا دفتر بھی کوئی انہوں نے جلایا تھا حالانکہ ان کا اس کیس سے تعلق بھی کوئی نہیں وہاں پہ بھی ان کی زمانتیں منظور ہو گئی ہیں کچھ کیسز رہ گئے ہیں وہاں پہ اگر زمانتیں منظور ہوتی ہیں تو یہ لوگ بھی آزاد ہو سکتے ہیں شاہ محمود قریشی صاحب کا اور میہم مدرشید صاحب کا انیس تاریخ کو یہی والا کیس لگا ہوا ہے عمران خان صاحب کا ایک بڑا عام مقدمہ ہے اس کے اوپر ہم بات کرتے ہیں وہ میاں گل حسن اورنگزیب صاحب کی عدالت میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں لگا اس کے اوپر کچھ اعتراضات تھے جو دور ہو گئے عمران خان صاحب نے کہا تھا کہ مجھے ملٹری کورٹس کے حوالے نہ کیا جائے ملٹری کسٹیڈی میں نہ دیا جائے یہ ان کا کیس ہے اس کے اوپر جو ہے وہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب صاحب نے بقاعدہ جواب منگا وفاقی حکومت سے اور وفاقی حکومت سے جو جواب مانگا اس میں کیا کہا گیا ملٹری تحویل میں نہ دینے کے لیے درخواست عمران خان صاحب نے دائر کی اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب صاحب نے سماد کی اور عمران خان کی جانب سے عزیز بنداری صاحب جو ایڈوکیٹ ہیں وہ عدالت میں پیش ہوئے عمران خان کے وکیل نے بتایا کہ آلہ حکومتی عدداروں کی جانب سے بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کو ملٹری تحویل میں دیا جائے گا جسٹیس میاں گلسن اورنگزیب صاحب نے اس پر ریمارکس دیئے کہ وہ تمام سیاسی بیانات ہیں اور کچھ نہیں وکیل نے کہا کہ اگر سیاسی بیانات ہیں تو میرے لیے اور آسانی ہوگی اس پر عدالت نے اسسٹنٹ اٹورنی جنرل عظمت بشیر تارڑ کو حکومت سے معلومات لینے کی ہدایت کی اور یہ کہا کہ حکومت اس کے اوپر اپنا اوفیشل مواقف دے عمران خان کے وکیل نے کہا کہ آلہ اسکری حکام ڈی جی صاحب نے بھی ڈی جی آئی ایس پی آر کی بات کر رہے ہیں یہی بیان دیا ہے اس پر جج صاحب نے کہا کہ وہ بھی سیاسی بیان ہے اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ اگر یہ سیاسی بیانات ہیں تو سر آپ ان کو اوڈر میں لکھیں بعد ادالت نے کیس کی سمات میں وقفہ کر دیا اور دوبارہ جب آغاز ہوا تو جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ وزراء کی طرف سے عمران خان کے ملٹری ٹرائل کی دھمکی دی گئی عمران خان ایک سیویلین ہے سیویلین کا ملٹری ٹرائل درخواست گزار اور ادالت کے لیے باعث فکر ہے درخواست گزار کے وکیل کہتے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے بیان آیا ہے اگر ایسا ہے تو فیڈریشن کی ط کہ عمران اب افیشلی بات کرنی پڑے گی نا اب یہ میڈیا میڈیا نہیں کھیل سکتے اب بتانا پڑے گا کہ کیا واقعی عمران خان صاحب کو لے کر جا رہے ہیں ملٹری کوٹ میں یا ملٹری کسٹیڈی میں وہ جا رہے ہیں یا نہیں جا رہے ہیں دوسری جانی جو ایمینیس کا ایک ریمانڈ دیا گیا تھا آٹھ دن کا جو پاکستان تحریک انصاف کے ایمینیس پارلیمنٹ میں گرفتار ہوئے تھے وہ جو ریمانڈ ہے اس کو غلط قرار دے دیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں دو روپنی بینچ تھا اور یہ ریمان بھی فارغ ہو گیا ہے ابھی وہ بھی جلدی باہر آ جائیں گے ان کی زمانتیں ہو جائیں گی جب وہ بیلز ہو جائیں گی تو دوبارہ اسی اسمبلی میں آ کر بیٹھیں گے اور بتائیں گے کہ ان کے ساتھ گرفتاری کے دوران کیا کچھ ہوا ہے ایک بڑی عجیب چیز میں آپ کو بتاتا ہوں اسد کیسر صاحب نے کبھی ڈرائیونگ نہیں کی انہیں گاڑی چلانی بھی نہیں آتی اور ان کے اوپر مقدمہ یہ ڈالا ہوا ہے کہ انہوں نے پولیس والوں میں گاڑی چلا دی اندازہ کریں آپ ان کی اور ایک اور چیز کیونکہ ایک کیس اور بھی چل رہا تھا کہ میڈیا کے اندر عدلیہ کی توہین کے حوالے سے وہ فیصل وڈا کی اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرسز کے اوپر چیف جسٹس نے نوٹس لیا ہوا تھا اور وہ معاملہ جناب چلا گیا سپریم کورٹ میں وہاں پہ قاضی فائدی صاحب نے سوشل میڈیا اور میڈیا کے خلاف جو ہے وہ خاصا لمبا جو ہے وہ ایک چار شیٹ انہوں نے بیان کر دی سوشل میڈیا کے اوپر دیکھیں سب کو غصہ آتا ہے اب کیونکہ قاضی صاحب نے بات کی ہے تو میں چند چیزیں سامنے رکھ دیتا ہوں دیکھیں یہ کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا پہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں یا ڈالرز کمانے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں تو پیسہ کمانے کے لیے سب سے آسان طریقہ تو یہ ہے کہ آپ حکومت وقت کے ساتھ مل جائیں اور آپ بے شمار پیسہ کما سکتے ہیں جتنا مرضی آپ چاہیں کما سکتے ہیں لیکن حکومت کے خلاف بولنا وہ کتنا مشکل ہے اس کے لیے تو اپنا گھر چلانا بھی انسان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے اور جتنے بھی لوگ یہ کام کر رہے ہیں وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ کام کر رہے ہیں عمران خان صاحب نے عدالت کے اندر آج ایک سٹیٹمنٹ دیا ہے وہ میں آپ کو اگلی ویلوگ میں بتاؤں گا وہاں انہوں نے کہا جی میڈیا تو جہاد کر رہا ہے علی امین گندہ پور صاحب کے جو سٹیٹمنٹ میڈیا کے بارے میں تھا اس پر انہیں خفقی کا اظہار بھی کیا جب انہیں تفصیلات پتا چلیں تو اب سوشل میڈیا ایکچنی وہ کون سی ایسی چیزیں کرتا ہے جس سے اعتراض ہوتا ہے دیکھیں تیرہ جنوری کو بلے کا نشان لے لیا سوشل میڈیا اس پر بات کرتا ہے تو کیا غلط کرتا ہے جانبداری جو ہے عدالت کی اس پہ بات کرتا ہے تو کیا غلط کرتا ہے فیصلے جن میں جانبداری نظر آتی ہے اس پہ بات کرتا ہے تو کیا غلط کرتا ہے ایکسٹینشنز جو ہونے جاری ہیں یا جن کا امکان ہے اس پہ بات کرتا ہے تو کیا غلط کرتا ہے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل درامت نہیں ہو رہا اس پہ بات کرتے ہیں تو کیا غلط بات کرتے ہیں انسانی حقوق پر بات کرتے ہیں تو کیا غلط بات کرتے ہیں خواتین کی بے حرمتی پر بات کرتے ہیں تو کیا غلط بات کرتے ہیں چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی پر بات کرتے ہیں تو کیا غلط بات کرتے ہیں ایک ایک آدمی پر چھے چھے شہروں میں ایک ہی وقت میں درجنوں مقدمات پر بات کرتے ہیں تو کیا غلط بات کرتے ہیں دھاندلی کے الزامات پر بات کرتے ہیں تو کیا غلط بات کرتے ہیں لیول پلائنگ فیلڈ پر بات کرتے ہیں تو کیا غلط بات کرتے ہیں چھے ججز نے جو خط لکھ کر بتایا ان خط کے بارے میں بات کرتے ہیں تو کیا غلط بات کرتے ہیں کمیشنر راول پنڈی نے چیف جسٹیس پر سنگین الزامات لگائے جب اس پر بات کرتے ہیں تو کیا غلط بات کرتے ہیں انصاف کے دورے میار پر بات کرتے ہیں تو کیا غلط بات کرتے ہیں این آر او جو دوبارہ دیا گیا اس پر بات کرتے ہیں تو کیا غلط بات کرتے ہیں پارلیمنٹ میں چھاپے اور تشدد اور گردی گنفتاریوں کی بات کریں تو کیا یہ غلط بات ہے فضل الرحمن صاحب کو جو خصوصی پروٹوکول دیا گیا ہے سپریم کورٹ میں جب اس کی نشاندہی کرے تو کیا غلط بات ہے یعنی جو بات بھی سوشل میڈیا کرے اور طاقتوروں کو سوٹ نہ کرے تو کیا وہ غلط بات ہے بات کرتے ہیں اگلے ویلوگ میں اب تک لیتنی اپنا خیال رکھیں گے اپنے چینل کا بھی اللہ حافظ