Transcript for:
Lecture Notes on Marriage and Afterlife

وائف فرنڈ کوئی کلچر نہیں ہے یہ ان لوگوں کا کلچر ہے جن کو آخرت کا نہیں پتا جن کو جنت کا نہیں پتا جو جہنم کو نہیں جانتے یہ ان لوگوں کا کلچر ہے اللہ نے ہمیں پاکیزہ زندگی دی ہے نکاح نکاح پاکیزہ زندگی ہے نکاح اس کے علاوہ کوئی ریلیشنشپ وہ میرے اللہ کو ماں پسند ہے میرے نبی کو ماں پسند ہے آپ چونکہ ایک امتحان میں ہیں کہ بچیاں بھی جوان بچے بھی جوان تو بیٹا جنت کو یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ اصل موج تو جنت میں ہونے والی ہے یہ تو ایسے عارضی زندگی آپ کا قدر پتہ ہے کتنا ہوگا جنت میں ایک سو تیس فٹ ایک سو تیس فٹ اور ان کا بھی قد ہو جائے گا ایک سو تیس اور جنت کی ہوریں جو ہیں وہ اب بھی اس وقت زندہ ہیں ایک سو تیس فٹ کے ساتھ ایسی میں نے بچوں میں بات کی تو ایک بچہ بات میں کہنے لگا مولانا یہ اتنے قد کی ضرورت ہی کیا ہے ہم تو اس پر ہی خوش ہیں میں کہا چلو فرض کرو تم سوہ پانچ ساڑھے پانچ پونے چھے فٹ کے جنت میں چلے گئے آگے جو تمہاری بیگم ہے وہ ہے ہور یا جنت کی عورت یا دنیا کی ایمان والی تو اس کا قد تو ہے ایک سو تیس فٹ وہ تو تمہیں پکڑ کے جیم میں ڈال لے گی اور وہ ایک جوڑا نہیں پہنتی ہیں ان کی طرح وہ سو جوڑے پہنتی ہیں وہ ہر جوڑے کے پیچھے جوڑا نظر آتا ہے ہر جوڑے کے پیچھے جوڑا نظر آتا ہے اب میں نے کرتہ پہنا ہے بنیان آپ کو نظر نہیں آرہی وہ سو جوڑوں میں اس کا ہر جوڑا نظر آئے گا میں کہا وہ اس نے تمہیں مثلاً پچاسی نمبر جوڑے میں ڈال لیا گھون گھون کر رہے ہو میں نے کڑھ دو وہ کہہ گئی تو ہیں کتھے میں ان طبقے نہیں پہلگتا پھر تمہیں پکڑ کے لوریاں دے میرے لال آگیا میرا لال آگیا بے وکوف اللہ نے ہمیں ڈیزائن ہی ایک سو تیس فٹ پہ کیا ہے آدم علیہ السلام ایک سو تیس فٹ کے تھے اما ہوا ایک سو تیس فٹ آپ نے سنا ہے یوسف علیہ السلام دنیا کے حسین انسان تھے سب سے زیادہ اما ہوا دنیا کی ساری عورتوں میں سب سے حسین عورت تھی سب سے خوبصورت عورت زندگی کا مزہ لینا ہے تو یہاں برداشت کرو اور پھر آگے اللہ تمہارے لئے جنت کے دروازے کھول دے گا اور اللہ تعالی اب آپ اتنے سارے آئے ہو میرے محبت میں تو مجھے خوشی ہو رہی مجھے اچھا لگ رہا ہے کیوں نہ شاید اللہ کی دیوئی عزت ہے محبت ہے جب آپ لوگ جنت میں بیٹھو گئے تو اپنے میاں بیوی کے ساتھ سارے بیٹھیں گے تو جنت کے غلام آئیں گے سلام کرنے کے لئے سلاما تو وہ بڑا چھا لے گا سب سے ادنا درجہ کا جنت اس کے اسی ہزار نوکر سب سے ادنا درجہ کا جنت اسی ہزار نوکر وہ بہت دیر سے نکلے گا جہنم سے اس کا نام جوہینہ ہوگا تو جب وہ جنت میں آئے گا تو اس کو welcome کریں گے تو کہیں گے آقا آپ کدھر رہ گئے سارے جنتی تو آگئے آپ کدھر رہ گئے وہ کہے گا شکر کرو میں آئی گیا میں بڑے لٹر کھا کے آ رہے ہوں تو لٹر کھا کے جنت میں نہیں جانا سیدھے جانا ہے یہاں کی شراب کیوں حرام کی ہے فَسَقَاہُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا تَهُورًا اللہ کہہ رہا میں خود تمہیں پلاؤں گا شرابِ تَهُور یہاں شراب کیوں حرام ہے کہ انسان کو باگل کر دیتی ہے بیٹی اور بیوی کی تمیز مٹا دیتی ہے تو اللہ کرے چار دن سبر کر لے تیرا رب تجھے پیش کر گئے یہ لے اپنے رب کے ہاتھوں سے پی شراب اپنے محبوب کے ہاتھوں سے پلوائے گا آہ میرا امتی یہ میرے ہاتھوں سے بھی آہ میری بیٹی یہ میرے ہاتھوں سے لے میرے ہاتھوں سے بھی زندگی تو وہ آ رہی ہے یہاں تو زیادہ کھالو تو مسئیبت کم کھالو دو مسئیبت جاتے ہوئے سفر میری زندگی سفر میں گزری سب سے پہلے میں دیکھتا ہوں یہاں کوئی ٹائلٹ ویک ہے جہاں کدھی پشاب آ جاوے تو بندہ کوئی سڑک تو ایسی ہو جہاں کوئی ٹائلٹ نظر آئے وضو کی جگہ نظر آئے پشاب ایک الگ مسئیبت ہے اور سٹول پاس کرنے ایک الگ مسئیبت ہے اور وہاں جا کے نہ پشاب ہے نہ پکھانا ہے کھا دی جاؤ کھا دی جاؤ کھا دی جاؤ کھا دی جاؤ نہ پشاب ہے نہ پکھانا ہے اور ایک کپڑے بدلنے میں میں عورتوں کو شوق ہوتا ہے ہے ڈیزائن ہو کر تو وہاں نہ درزی ہے نہ پرنٹنگ میل ہے نہ ٹیکسٹائل میل ہے اور نہ کوئی وہاں الفتح کیا اس کو کہتے ہیں مال ہے وہاں ایک درخت اس کا نام ہے توبہ اس کے اوپر اس کے اوپر ایسے پھول یوں کر کے نیچے لٹکے ہوئے ہیں یعنی یوں ایسے نہیں ہیں ایسے ہیں توبہ یہ آپ کا سب کچھ ہے آپ کے جی میں کہ مجھے کپڑے بدلنے ہیں اور اس ڈیزائن کے بدلنے ہیں یہ یوں سیدھا ہوگا اور اس میں سے ایک ایسے روشنی نکلے گی جیسے وہ کیمرے کا فلیش نکلتا ہے ایسے اس کے بعد جب آپ اپنے آپ کو دیکھیں گے تو پہلے سو کپڑے غائب ہو چکے ہوں گے اور نئے سو جوڑے آپ پہنچ چکے ہیں کیونکہ پوری جنت میں واشنگ مشین کوئی نہیں سرف کوئی نہیں سابون کوئی نہیں ٹائلٹ کوئی نہیں گندی نالی کوئی نہیں گٹر کوئی نہیں یہ ساری دنیا کی مصیبتیں ہیں زیادہ کھالو تو ٹائلٹ بھاگو کم کھالو تو سر میں دادہ شروع ہو جائے وہاں میرا اللہ کہتا کھا میرا بندہ پی میرا بندہ بسقاہم ربہم شراباں قہورا میں تیرا رب تجھے پلاؤں گا کھلاؤں گا جب وہ نوکر چلے جائیں گے تو فرشتیں آئیں گے فرشتے آئیں گے کہیں گے سلام علیکم جناب ہم آپ کو سلام کرتے ہیں وہ کہیں گے یار تم تو نورانی مخلوق ہو ہمیں سلام کیوں کرتے ہو وہ کہیں گے بیما سبرتا نوجوان بڑی غلط زندگی گزارتے تھے تم نے بڑی پاکیزہ زندگی گزاری اور سبر کیا سبر کے بدلے میں آپ کو سلام ہے جب یہ سلام کا نشاہ باقی ہوگا فرشتے سلام کریں ایک ہمارا زمیدار ذلفقار علی بھٹو مرہوم سے ملنے چلا گیا اس سے دو چار باتیں حالوال کی ہو گئیں واپس آیا لوگ چودری صاحب سناؤ کی رہا تو موہنہ کار لوئے بوچوچ صاحب دستو سہی بھٹو نال جو گال ہوئی وہ موہنہ کار لوئے وہ کہا کی ہو گیا یہ وہاں کھن لگا اسے موہنال میں بھٹو نال گال کیتی ہوں تڑی نال بھی گال کروں تو فرشتوں کا سلام ایسے آدمی ہوا میں اڑیں گے ہائے ہائے ہائے ہائے میرے صرف الفاظ ہیں اگر چاہوں ہوں تو نقشہ کھینج کر الفاظ میں رکھ دوں مگر تیرے تخیل سے فضون ترہے وہ نظارہ اب جو حدیث بتانے لگا ہوں اس کو سوچو بھی تو سمجھ میں نہیں آئے گا ایسے میرے رب کا عرش کھلے گا اور اللہ مسکراتا ہوا اپنے خوبصورت چہرے کے ساتھ سامنے آئے گا اور کہے گا سلام قولم رب الرحیم میرے بندے بندیو آج تمہارا رب تمہیں سلام پیش کرتا ہے تمہارا رب تمہیں سلام پیش کرتا ہے پوچھے گا اللہ ہل رضی تم خوش ہو کہیں گے یا اللہ موجہ لگ گئی ہے بڑے خوش ہیں تو اللہ کہے گا کچھ مانگو کہیں گے راضی ہو جاؤ وہ کہے گا راضی ہوں تو یہاں بٹھایا نہیں تو وہ تھے نا تنہوں کھلے مار رہے ہوں دوزہ فچ میں راضی ہوں کچھ مانگو کہیں گے یا اللہ جب ہم ملہور میں تھے نا نمازیں پڑھتے تھے بے دھنگی سی تھیں ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا تُو اتنا خوبصورت ہے تو آج ہم تُمہیں دیکھ کر ایک سجدہ کرنا چاہتے ہیں تمہیں دیکھتے ہوئے ایک سجدہ کرنا چاہتے ہیں ہائی ہائی ہائی تمہارا رب کہے گا میرے بندوں لہور میں تم میرے غلام تھے میں آقا تھا آج میری جنت میں تم میرے مہمان ہو اور میں میز اور مہمان سے کام نہیں لیا جاتا میں مہمان بن کے آئوں مجھے پروٹوکول دیا جا رہا ہے تو اللہ کہے گا تمہارے مہمان ہو کلو و شربو ہنیہ بی ما اسلفتم فیل ایام الخالیہ جاؤ کھاؤ پیو موچ کرو تمہارا کوئی حساب نہیں نہیں ہے ارواح چوہے زندگی آگے آ رہی ہے اس کی تیاری کرو پانچ وقت نماز پڑھو میری طرح بسم اللہ سے کتاب نہ کھولو بلکہ واقعی کتاب کھولو اور اللہ تعالیٰ آپ کٹھے لڑکے لڑکیاں پڑھتے ہیں اپنی نظروں کی حفاظت کرنا سیکھو اور ایک حد اپنے درمیان قائم رکھو اور جو اللہ نے ایک تعلق بنایا ہے شرن نکاح کا اپنے والدین کی مرضی کے ساتھ ان کی دعائیں لے کر یہ قدم اٹھاؤ ایسے دلیر نہ ہو جاؤ کہ بس میری پسند ہے میں نے شادی کرنی ہے میں تو میں کوٹ میریج کرلوں گا بے برکت ہوتی ہیں وہ زندگیاں جن کے ساتھ ماں باپ کی دعائیں نہیں ہوتی ناکام ہوتی ہیں وہ زندگیاں جو ماں باپ کی دعا نہیں لے سکتے اپنے استادوں کا عدب کرو جن سے پڑھتے ہو وہ تمہاری زندگی بھر کے تمہارے آقا ہیں حضرت مولا علی کا فرمان ہے کہ جو مجھے ایک حرف پڑھا دے میں اس کا غلام ہوں جہاں چاہے بیشتے ہیں جہاں چاہے بیشتے ہیں اور یہ تبلیغ کا خوبصورت کام ہے میری بسم اللہ یہاں سے ہوئی تھی آپ کو بھی کہتا ہوں کہ تین دن صرف جایا کرو جماعت زیادہ نہیں لانگ ویکنڈ آجائے تین دن آج کل تو ویسے تین دن پڑھتے ہیں آئیہ تین دن بند ایسی ہے تو آپ لوگ تین دن جماعت میں جائے کرو جو نمازِ خضا ہوگی اس پہ توبہ کرو اور آج کے بعد یا اللہ نہیں چھوڑوں گا اور پڑھنا شروع کرو اللہ تعالی کوئی باریک حساب تو لیتا نہیں اگر وہ باریک حساب لے پھر تو کوئی بھی نہیں بخشا جائے گا ایک بددو آیا یا رسول اللہ کیامت کے دن حساب کون لے گا آپ نے کہا اللہ کہنے لگا موجان بخین بخین موجان ہو گئی ہیں موجان تو آپ بڑے حران ہوئے کہنے لگے کس بات کی موجان کہنے لکریم ایزا قدر عفا سخی بادشاہ پکڑ بھی لے تو پھر سخاوت کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھئی تم کہو کہ ہوں نماز ہی نہیں پڑھنی اللہ آپ ہی چھوڑ دے گا حسینی فلسفہ سامنے رکھو کہ کربلا کے میدان میں نماز نہیں چھوڑی اگر چودہ سو سال کی تاریخ میں کسی کو گنجائش ملتی نماز چھوڑنے کی تو کربلای کافلے کو ملتی جن پر ظلم و ستم کی تاریخ لکھی جاری تھی ان کی گردنیں کٹ کے نیزوں پہ چھوڑ رہی تھی اور اوپر تبتا ہوا سورج تھا اور نیچے جلتی ہوئی ریت تھی اور یہ سارا جنت ہی ٹولا تھا سارا جنگ سے پہلے امام علی کی آنکھ لگ گئی اتنا قلبی اتمنان کے آنکھ لگ گئی کسی کو کوئی بیماری سنا دو بیڑھ سی تو اس کا سونا ہی حرام ہو جاتا ہے اور آپ سامنے موت نظر آ رہے ہوئے آنکھ لگ گئے آنکھ کھلی تو ہنسنے لگے بہن زینب نے پوچھا یہ کوئی ہنسنے کا موقع ہے کیوں ہنسے ہو کہا بھی اللہ کے نبی خواب میں آئے کہہ رہے ہیں بیٹا تجھے لینے کے لیے آ گیا ہوں یہ جنت کی کافلہ ہے نماز کا وقت ہوا تو آپ نے اشارہ کیا آپ کے رائٹ سائٹ پر زہر تھے زہر بن قین کہ شمر سے کہو نماز پڑھنے دے اللہ اکبر اللہ اکبر تو انہوں نے آگے بڑھ کر شمر سے کہا تھوڑے دیر رکھ جو ہمیں نماز پڑھنے دے تو اس کے ساتھ ایک دوسرا سردار کھڑا تھا عمران بن حسین کوفی وہ کہنے گا تمہاری تو ہوتی نہیں اللہ خلانت اے ہی آل رسول کی نہیں ہوتی تو تمہاری ہوتی ہے تو انہوں نے واپس آ کر کہا جی نماز کے لیے جنگ نہیں روک رہے تو آپ نے یہ نہیں کہا چلو جامع شہادت نوش کرو آپ نے کہا آدھے نماز پڑھو آدھے جنگ کرو آدھوں کو نماز پڑھائی آدھوں کو جنگ کروائی پھر ان آدھوں کو نماز پڑھوائی پہلوں کو جا کے جنگ پر کھڑا کیا اور اثر سے پہلے سب کے سر کٹ کے نیزوں پر چڑھ گئے نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے تھے ہمیں ایک تیرے مارکہ آراؤں میں خوشکیوں میں کبھی لڑتے کبھی دریاؤں میں دی ازانے کبھی یورپ کے کلیساؤں میں کبھی افریقہ کے تفتے ہوئے سہراؤں میں شاناکوں میں نججتی تھی جہانداروں کی کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی کربلا کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی تلواروں کی چھاؤں میں نماز نماز نہیں چھوڑی میری نسل بیٹھے بیٹھے نماز چھوڑ دیتے تُس سے سرکشوہ کوئی تو بگڑ جاتے تھے دیکھ کیا چیز ہے ہم توب سے لڑ جاتے تھے آئے تو میرے بچے ہمارا ایک مستقبل ہے ہمارا ایک فیوچر ہے اللہ مجھے بھی توفیق دے آپ کو بھی توفیق دے آپ اتنے زیادہ کٹھے ہو مجھے اتنی خوشی ہو رہی ہے جب مالی اپنے باگ میں گنچے کھلے دیکھتا ہے تو اس کا دل بھی کھل اٹھتا ہے میرے والے جب چکر لگا کے آتے تھے زمینوں سے تو ان کے چہرے سے پتا چال جاتا تھا فصل کیسی ہے فصل اچھے ہوتی تھے تو وہ ہنسے ہوئے داخل ہوتے کوئی بیماری لگی ہوتی تھے تو موہ نمہ کر کے اندر سانگھا آج میں میں بھی اسی میرے پاس الفاظ ختم ہو گئے جذبات نے مجھے گنگا کر دیا ہے کیا ایسا کبھی ہوگا کہ کومنٹ میں تو کالیج ہی کہوں گا آپ تو یونیورسٹی ہے کالیج کہنا شاید چھوٹا آپ کو تھوڑا تکلیف نہ ہو کومنٹ کالیج میں یہ منظر گراؤنڈ ختم ہو گیا ہے یہاں ہمارے فیسٹیول ہوتے تھے گانے بجانے کے نا تو اوہ زمانے میں ہمارے جو دوست ہیں جماعت اسلامی کے وہ پھڑے پھڑے ہوتا رہے ہو جوید حاشمی ہمارا پریزنٹ ہوتا تھا جوید حاشمی جو اب وہ ملتان والے تو ادھر وہ ہمارے تبلے چل رہے تھے ہارمونیم چل رہے تھے تو جماعت اسلامی والے آگئے لڑکے انہوں نے ہمارے تبلے توڑ دیئے ہارمونیم توڑ دیئے بعد میں پھر ہماری باری تھی وہ پھر ہم نے بعد میں اپنا بدا لیا تو لیکن آج یہاں یہ بندیک رہا ہوں میرے لئے جی میں خواب دیکھ رہا ہوں اتنی بچیاں بیٹھی ہوئی ہیں سب کے سروں پہ دوبٹہ ہے یہ اتنے نوجوان اتنی محبت سے اچھی خاصی دھوپ تمازت ہے عدت ہے گرمی ہے میں آپ سب بچوں کا شکر گزار بیٹا اور میری آخری بات ہے اگر آپ کسی سے لڑے ہوئے ہو تو صلح کر آپ ان چودہ ہزار بچے چودہ ہزار بچوں میں کوئی دو آپس میں لڑائی نہ ہو کسی استاد کی بیعت بھی نہ ہو نماز نہ چھوٹے اور سچ بولو اور اس ملک کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بناو اس ملک کے لیے انگلنڈ میں میں ایک آدمی سے ملا تو کہنے لگا پاکستان والے سب ہدایت پہ آگئے تو یہاں آگئے ہمیں تنگ کرنے میں نے کہا نہیں آپ کو لینے آیا ہوں تاکہ وہاں کٹھے چل کے محنت کریں آپ روٹی کے پیچھے بھاگ کے ادھر آگئے اور ہمیں تانے دیتے ہو کہ پاکستان والے ٹھیک ہو گئے میدان میں ڈٹو روٹی کے پیچھے بھاگ وہاں جا کے تم نمبر دو مخلوق ہو چاہے تم ساری دنیا کے دگریاں لے لو تم کالے ہو تمہیں عزت نہیں دیتا معاشرہ جو اپنے دیس میں عزت ہے وہ کہیں نہیں ہے اس کی تنگیوں کو برداشت کرو یہ میرے نبی کی امت پر محنت کرو تو اللہ کا نبی اپنے ہاتھ سے پہلائے گا آجا میرا امت تو نیت کرتے ہو سارے بہت خوشی ہوئی بہت شکر گزاروں نے فرمایا اللہ نے آدم کی نصف کسی نبی کی پیڑی آدم تک نہیں ہے میرے نبی کی پیڑی آدم تک ہے محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن حاشم بن عبد المناف بن قسی بن قلاب بن مرہ بن قعب بن لوئی بن غالب بن فہر بن مالک بین نظر بین کنانا بین خزیمہ بین مدرکہ بین علیؑاس بین مدر بین نظار بین معد بین ادنان بین اود بین ہمیسہ بین سلامان بین عوض بین بوز بین قنوال بین عبی بین عوام بین ناشد بین حزا بین بلداس بین یدلاف بین طابخ بین جاہم بین ناحش بین ماخی بین عیفی بین عبخر بین عبید بین الدعا بین حمدان بین سنبر بین یسربی بین یہزن بین یلہن بین ارعوہ بین عیدی بین زیشان بین عیسر بین اخنات بین ایہام بین مقصر بین ناحظ بین زارے بین سمی بین مزی بین عوض بین عرام بین قیدار بین اسماعیل بین ابراہیم بین آذر بین ناحور بین سروج بین رعو بین فائد بین عبر بین الفشاد بین سام بین نوح بین لام اتنا عالی شان ہمیں نبی ملا ہے دیکھو نکل مار کے پاس ہوتے ہو کی نہیں ہوتے ہو ہمارے زمانے میں تو نکل لگتی تھی اب پتہ نہیں وہ لگتی کی نہیں لگتی لگتی اچھا ایک ہمارا دوست تھا سیدھا سا تھا ہم تو بوٹی بنا کے جاتے تھے بوٹی کہتے تھے پتہ نہیں ہم کیا کہتے تو لکھ کرنا وہ ناک ساف کرنے والے رمال میں ڈال کرنا پھر وہ چکر لگا گئے چلے گئے نگران وہ ایک سیدھا زیادہ دیاتی تھا بڑے زمیدار تھے وہ پوری کتاب ہی جیب میں ڈال کے چلے گیا اور کھلا چولا پہن لیا امتحان دیتے ہوئے یونیفارم کی فابندی نہیں تھی تو وہ کھلا چولا پہن کے گیا تو اس میں نے اس نے پوری کتاب ڈال دی تو ہم ایسے بیٹھے تھے وہ مجھے نظر آرہا تھا میں اس کو یہاں سے یوں دیکھ رہا تھا تو جب وہ نگران چکر لگا کے جاتے تو وہ کتاب کو نکالنا شروع کرتا وہ یہاں آ کے پھنس جاتی یہاں یہاں اس جگہ جتنے میں وہ کتاب نکلتی اتنے میں وہ نگران دوبارہ چکن تو پھر نیوں کر کے پھر نیوں کر کے بیٹھ جاتا ہے وہ بالکل بودھو تھا اسے کچھ نہیں آتا ہم تو پھر بھی حافظہ اچھا تھا کو یاد بسم اللہ کر کے پانچ شیس تم اندازہ لگو سنڈر مارڈل سکور آٹھویں جماعت میں میں سیکنڈ آیا کلاس انچار تھے محمد علی صاحب وہ بجائے خوش ہونے کے حیران ہو رہے تھے اوہ تو سیکنڈ کیوں میں آیا تو پڑھ دا تھا ہے نہیں ان کو کیا پتا کہ میں بسم اللہ کی برکت ہے ساری اچھا پھر یا وہ واپس ہو کے ادھر سے آ کے واپس یا پھر وہ کتاب نکالنا شروع کر وہ کتاب پھر ادھر آ کے پھنس جاتی تو اسی طرح بیچارہ وہ کتاب نکالتے نکالتے تین گھنٹے گزار دیئے اور وہ پھر فیل بھی ہو گئے یہ نومی جماعت کا بقیہ تو نکل مار کے پاس ہوتے ہو کی نہیں ہوتے ہو اپنے نبی کی نکل اتار لیں اللہ پاس کر دے اپنے نبی کے اشاباش بیٹا واہ بڑا نعرہ لگایا کہو انشاءاللہ سارے آپ لوگ اکٹھے پڑھتے ہو ایک دوسرے کے عزت اور احترام کو سامنے رکھو ہماری لائف میں گرل فرینڈ اور پڑھتا میں تھا کوئی نہیں تو جو جس لڑکے کی میں نے سب سے زیادہ بیستی کی تھی چند دن پہلے تبلیغی جماعت کی تو ہماری کشم کشم دیر ہو گئی پہنچنے میں تو زہر کی سنتیں لوگ پڑھ رہے تھے تو وہ لڑکا بھی پڑھ رہا تھا میرے جب اس پہ نظر پڑی تو میرے ٹانگوں سے جان نکل گئی حیبت کی وجہ سے کہ وہ نماز میں اس قدر اللہ سے جڑا ہوا تھا کہ اس کا پورا فکر بتا رہا تھا ایک ایک کہ اس وقت اس کے دل میں اللہ کے سوا کچھ نہیں تو میں نے عزیز اللہ کو پکا اوے عزیز اللہ اوے عزیز اللہ اوے اوے ایک ہے نماز کی میں پردہ پہ ہے اتنا میرے روح پر اثر ہوا موسیقی پھر وہی مجھے لے گیا میں سویا ہوا تھا ایسے کلتا اس ہاتھ پہنک رہا یہ سوئیتے تھے تو آیا دوڑا دوڑا اور مجھے یہاں سے پکڑ کرتا اٹھے اٹھے جمعہ کا دن تھا میں کہا کی گا لے کم ہے بڑا ضروری تو میں سمجھا جمعہ کوئی فلم میں ریلیز ہوتی تھی تو میں سمجھا کوئی فلم اس نے بک کرائی ہے کبھی میں کرا لیتا تھا کبھی وہ کرا لیتا تھا ایسے تو میں کہہ کپڑے وٹالمہ کہتا نہیں کپڑے نہیں وٹالنا پھر مجھے خیال آیا اگر فلم پہ جانا ہوتا تو کہتا تو کپڑے وطل کب یہ کہہ رہمی چلنا میں کہہ جامنا کی تھی کہ جمعہ پڑھنا یہ نیلا گمبت میں مسجد ہے پرانی ایک وہ مجھے یہاں لے گیا یہاں ہم نے جمعہ کی نماز پڑھی جمعہ کے بعد واپس آکے کمرے میں بیٹھے کہ نہیں دینوں پتہ پا کتھے جاؤنا میں کہ نہیں اپن تبلیغی جماعت نال جاؤنا میں کہا اللہ دباندہ خدا دنام تو جا میں نہیں جانتا کہا یہ دونہ ہور نہیں سکتا بیٹا وہ تین دن میرے رب نے میری زندگی بدلی اور مجھے نہیں پتا مجھے کیا ہوا بس میں نے ایک حدیث سنی وہاں جب میں تین دن کے لیے گیا کہ جب غافل آدمی مرتا ہے مرد یا عورت جو غفلت میں زندگی گزار کے مرتا ہے تو جہنم سے پانچ دنوں میں مرد یا عورت سو فرشتے آتے ہیں اور اسرائیل اس کے ہاتھ میں کوڑا ہوتا ہے پھر یہ حدیث بعد میں میں نے خود پڑھ لی وہ اکر کہتا ہے ایتوہن نفس الخبیثہ اے بد وقت روح کانت فی الجسد الخبیث جو بدبخت جسم میں تھی اخرو جی آجا ہن تیری واری لگ گئی ہے واب شریف فی حمیم و غصاق و آخر من شکل ہی ازواج اور تجھے جہنم نبارک ہو جہنم کے شولے انگارے تجھے مبارک ہو اچھا کبھی زندگی میں سننے ہی نہیں تھا بیٹا میں سولہ سال کے عمر میں گورنمنٹ کالوی میں داخل ہوں سولہ سال تک کبھی کوئی دین کی بات سنی نہیں تو ہمیں کیا پتا کہ نماز کیا ہے ماں باپ کون ہیں جب پیسے ختم ہوتے تو میں گھر خط لکھتا ہوں ایک دن میرے اببہ کا خط آیا اس وقت یہ فون بھی نہیں تھے تو میرے اببہ کا خط آیا کہ بیٹا جب پیسے ختم ہوتے ہیں اسی وقت ہی خط لکھتے ہو کبھی آگے پیچھے بھی خیریت بتا دیا کرو ہمیں کوئی بتاتا ماں باپ کیا ہیں تو پتا چلتا تو تو قرآن بتاتا ہے وَقَضَا رَبُّكَ أَن لَا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبْرَ أَحْضُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَقْفِذْ لَهُمَا جَنَاحَ الظُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ اِرْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّ يَانِي سَغِيرًا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ اِن تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا یہ دکھ قرآن بتاتا کی ماں بابکون کچھ خبر نہیں پھر اس حدیث کا دوسرا حصہ کہ جب کوئی نیک آدمی مرد عورت مرتا ہے تو ازرائیل آتا ہے جنت کے فرشتوں کے ساتھ کہتا ہے ایتو نفس الحمیدہ اے مبارک روح کانت فی الجسد الحمید جو بڑے مبارک جسم میں تھی جس پر گناہ کا بدن و ماتاق کوئی نہیں لگا ہوا کبیرہ گناہوں کی سیاہیاں اس کے چہرے پر نہیں بکھری ہوئیں اخرجی آجا اب شیری آجا باہر تو جو بشارت ہو بے روح و ریحان رب راد عن کی غیر غضبان اور تو جو خوشخبری ہو کہ تیرا رب جنت کو تیار کر کے بیٹھا ہوا ہے اور تیری ملاقات کے لیے تیرے رب نے تجھے بلائی ہے تو میں نے اپنا انیلیسز کیا کہ اگر ابھی آ جائے جہنم یا اگر ابھی مجھے موت آ جائے تو میرے پاس دوزخ والا ازرائیل آئے گا یا جنت والا ازرائیل تو مجھے لگا کہ میرے پاس تو ازرائیل دوزخ والا ہی آئے گا نہ کبھی نماز نہ جمعہ نہ تلاوت تو بیٹا وہاں سے نا مجھے خوف چھائے میں کہا زندگی تو یہ تھوڑے ہے کہ جوانی میں ہم نہیں مریں گے کتنے بچے ہمارے ساتھ کے جوانی میں مر گئے میرے ساتھ کالج کے پڑھتے ہوئے سکول سنٹر مارٹر سکول کے پڑھتے ہوئے سکول کالج کے لائف میں اللہ کے پاس چلے گئے میرے قریبی دوست سے اللہ کے پاس چلے گئے خالی ہو گئے میں نشانی پھر رہا ہوں تو مجھے خیال آیا کہ میں اگر ابھی مرتا ہوں تو میرے ساتھ کیا ہوگا تو مجھے لگا جیسے میری قبر میں آگ ہی آگ ہوگی تو اس سے نا میں نے ایک دم خوف زدہ ہو کے فیصلہ کیا کہ میں چار مہینے ان کے ساتھ لگاؤں گا تو میں نے وہیں سے ہائی جمپ لانگ جمپ لگایا اور چار مہینے کے لیے ان کے ساتھ چلا گیا چار مہینے کے انڈ میں تھا تو ایک لڑکا تھا کوسر پشاور کا وہ کہنے لگا کیا کرتے ہو میں نے کہا میں کالج پڑھتا ہوں کہا تم عالم بن جاؤ میں نے کہا کیوں کہا تیری آخرت بن جائے میں نے کہا وہ بڑا مشکل رستہ ہے آٹھ سال لگتے ہیں تو ادھر ایف ایسی تو کر رہا ہوں پھر پانچ سال ہیں میڈیکل کے کہنے نے کہا تیرا باپ کیا کرتا ہے میں نے کہا زمیدار ہے کہنے نے کہا پھر ڈاکٹر بننے کا مطلب یہ ہے کہ پہلے بھی پیسے ہیں اور بھی آ جائیں گے تمہاری موت پر تمہاری آخری انتہا یہ ہے کہ تم لاکھوں سے کروڑوں میں چلے جاؤ گے اس سے زیادہ تو کوئی نہیں لیکن اگر تم عالم بنتے ہو تو تمہاری آخرت بن جائے گی دنیا اللہ نے پہلے دے رکھی ہے تو اس نے میری وکٹرن اڑا لی کیونکہ ہم دہاتی محل کے لوگ اور دریاء کے کنارے جتنے زمیدار آباد ہیں سب چوروں کے پشت بنا ہے اب تھوڑی تعذیب بدلی ہے ورنہ یہ کلچر تھا تو ادھر پولیس نہیں آتی تھی تو پھر وہاں کے جو بڑے زمیندار ہوتے تھے ان کے ڈیروں پہ جا کے بیٹھ جاتے تھے چوریاں کر پھر زمیندار اپنا حصہ وصول کرتے تھے اس محول کے میرا گاؤں تھا تو میرے والد کہتے ہیں پتر تینوں ڈاکٹر بناؤنا ہے بڑے پیسے بڑی عزت یہ دو لفظ مجھے یاد نہیں میری یاد داشت اب بھی اچھی اللہ کا فضل ہے کہ میں نے کبھی یہ سنا ہو اپنی ماں اور باپ سے سے کہ تو ڈاکٹر بن جا غریبوں کی خدمت کرے گا علاج کرے گا دعائیں لے گا کبھی نہیں دو لفظ تھے بڑا پیسہ بڑی عزت اس نے میری وکٹرن اڑا دیں کہ اللہ نے پہلی کشاد کی اللہ نے دی ہوئی ہے اور موت پہ ہر شاید زیرو ہو جائے گی تو مجھے عالم بننا چاہیے اب ہمارے کلچر میں تہاتی جانگلی ہم جانگلی لوگ ہیں جنہوں نے ہجرت نہیں کی شروع سے آباد ہیں ہمارے کلچر میں مولوی کمی ہوتا تھا جیسے لوہار موچی ترخان تو میرا والد کہتا ہے تو مولوی بڑھنا تو میری نکوڑا چھڑی چھج پیسے آنے تیرے اوٹے خرچ کی تا تیرے اوٹے خرچ کی تا تیرے اوٹے خرچ کی تا تیرے اوٹے خرچ کی تا تیرے اوٹے خرچ کی تا تیرے اوٹے خرچ کی تا تیرے اوٹے خرچ کی تا تیرے اوٹے خرچ کی تا تیرے اوٹے خرچ کی تا تیرے اوٹے خرچ کی تا تیرے اوٹے خرچ کی تا تیرے اوٹے خرچ کی تا تیرے اوٹے خرچ کی تا تیرے اوٹے خرچ کی تا تیرے اوٹے خرچ کی تا تیر چار مہینے لگا کے میں فروری انیس سو بہتر میں آیا تھا تو تیس نومبر انیس سو بہتر میں صبح ناشتہ کر رہا تھا تو ہماری روز یہ جنگ چلتی تھی جنگ کا مطلب ہے کہ وہ بپھرتے تھے میں چھوک کر کے سن لیتا تھا کہ تبلیغ میں لگنے کے بعد مجھے پتا چلا کہ ماں باپ کا کیا مکان ہے تو میں ناشتہ کر رہا تھا تو میرے والد انٹر ہوئے سفید کرتہ سفید چادر باندھی ہوئی اور پگڑی کھول کے کندے پر رکھی ہوئی وہ کہتے ہیں جی تو مولوی بننا ہے تو میرے گھروں نکل جا پھر اس کو دوبارہ دور آیا جی تو مولوی بننا ہے تو میرے گھروں نکل جا میرے آس نوالہ ایسے گر گیا ہے کہ ہن میں کھڑے جاما تو میں نے رونا شروع کر دیا ایسے چھپکے چھپکے لیکن میرے باپ پر ذرا اثر نہیں یہ کہہ کر وہ کمرے میں چلے گئے تو میری ماں نے مجھے بلائیا اور کہا میں راضی ہوں جب انہوں نے دیکھا نا باپ کی شدت انہوں نے کہا میں راضی ہوں جا مجھے تین سو روپے او سو دیا جب ایک روپے کا ڈالر ہوتا تھا مجھے تین سو روپے دی کہ جا تو پردیس سے جاندہ پہ پتہ نہیں ترقی بننا ہے جا تو میں نے وہاں سے اپنا بستر گول کیا اور میں رائیونڈ آ گیا یہاں بچو میری زندگی کا سفر علمی سفر شروع ہوا 26 نومبر 1972 بدھ کا دن تھا اور میں رہن میں بقاعدہ عربی تعلیم کے لیے میں نے اپنی زندگی کا سفر شروع ہوا جو چلتے چلتے چلتے اللہ کی قسم میرے ذہن میں وہی تصور تھا جو مولوی کہتا ہے کوئی پوچھے گا نہیں کوئی سلام نہیں کرے گا کوئی بٹھائے گا نہیں پر آخرت تو بن جائے گی یہ میں ابھی راستے میں کہہ رہا ہوں کہہ رہا تھا بچوں کو کہ اگر میں ڈاکٹر بنتا تو مجھے زیدی صاحب بولا تھے کتنے ڈاکٹر جتیاں چٹکھاتے پھر رہے ہیں تو آج اللہ نے مجھے دین کی ایک نسبت دی تو مجھے یہاں مہمان خصوصی بولا ہے میں نے آپ کو اپنے ماضی کی جھلک بھی دکھائی اور میں نے آپ کو آج جو اللہ میرے ساتھ معاملہ کرو اتنے بچے تو کبھی تھے ہی نہیں ایک دفعہ اینویل فنکشن تھا دکہ خان مرہوم بھی یہیں پڑھے پڑے ہوئے تھے تو وہ بھی آئے ہوئے تھے اور امیر محمد خان بھی تھا اور شفاق علی خان صاحب یہاں چھوٹا سا وہ لگا ہوا تھا شامیانہ اور یہاں کچھ تھوڑے پروگرام ہو رہے ہیں لیکن یہ تو وہ آخر تک بچے بچے نظر آ رہے ہیں تو دیکھو بچوں تم سے باتیں کرتے ہوئے نا میں پیچھے چلا جاتا ہوں سولہ سال کے عمر میں اس لئے مجھ سے بیان ہو نہیں رہا میں تمہیں دیکھ کے خوش ہو رہا ہوں میں نے یہ پہنے ہوئے یہ دکھا رہا ہوں کہ میں بھی رابیان ہوں اور موڈلیاں ہوں سنٹر موڈل سکول سے میں نے پڑھا ہے تو جو تم پڑھائی پڑھ رہے ہو اس میں بھی کمال پہ جانا ہے جب تک ہم خود تراشتے ہیں منازل کے سنگ میڈ ہم وہ نہیں ہیں جن کو زمانہ بنا گیا ہمیں یورپ امریکہ جانے کی ضرورت نہ پڑے اتنا علم یہاں کریٹ ہو جائے کیونکہ علم کسی کی وراست نہیں علم اللہ کی صفت ہے جو قوم کوشش کرے گی چاہے وہ مسلم ہیں چاہے وہ نون مسلم ہیں جو محنت کرے گی قوم اللہ ان کو علم نصیب فرمائے گا جب تک آپ یہ منصوبے بنا رہے ہو یہ کروں گا پھر میں انگلینڈ میں چلا جاؤں گا آسویلیا چلا جاؤں گا امریکہ چلا جاؤں گا وہاں میں اپنی تعلیم مکمل کروں گا وہیں جاب مل گئی تو پھر میں وہیں جاب بھی کر لوں گا تو یہ بڑی بیٹا چھوٹی سوچ بڑی چھوٹی سوچ زندگی کا اصل پہلو جس پر آپ کی دنیا بھی بنے گی آخرت بھی بنے گی وہ اللہ کی کتاب ہے وہ اللہ کا قرآن ہے اللہ کے نبی کا فرمان ہے اس کو زندگی میں داخل کرو گے تو آپ ایک مکمل زندگی گزارنے والے بنیں گے ورنہ ناکامیوں کے انتہیروں میں ڈوب جائیں گے چند لڑکے کشتی کی سیر کرنے گئے تو ایک لڑکے نے ملہ اس وقت یہ بانسوں سے کھینچ دیتے تھے نا تو اس نے پوچھا چاچا تجھے کیمسٹری آتی ہے تو نے کہا پتر میں تاں نائیں آج سنے ہیں تو نے کہا تیری آدھی عمر گئی دوسرے نے پوچھا تجھے فیزکس آتی ہے کہا نہیں میں تاں نائیں نہیں آمدھا تو نے کہا تیری آدھی عمر گئی تیسرے نے پوچھا تم میں بیالوجی آتی ہے تو نے کہا نہیں کہا تیری آدھی عمر گئی اتنے میں موج اٹھے پانی کی کہتا پترو ترنا آمدھا جے کہنے لگے نہیں تو چاچے نے آکیا میری ادھے گئی توڑی ساری گئی دیکھو بیٹا ایسی موت نہ مرو کہ موت کے وقت تمہارا دامن غلامی موت مصطفیٰ سے خالی ہو اللہ کی توحید سے خالی ہو پہلا سبق ہے لا الہ الا اللہ لا اس کائنات میں کوئی نہیں ہے سب وجود نظر کا فریب ہے صرف اللہ ہے آگے پیچھے دائیں بائیں سب سے پہلا علم ہے لا الہ الا اللہ سب سے پہلا علم ہے لا الہ الا اللہ کہ اس کائنات للہ ما فی السماوات و ما فی الارض اس نوجوانی میں کتنے خیالات آتے ہیں پتہ نہیں خدا ہے بھی صحیح کے نہیں ہے اور عجیب عجیب رہوں گے چونکہ قرآن نہیں پڑھا قرآن واحد کتاب ہے جو اعلان کرتا ہے لَذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے باقی علم تو بدلتے رہتے ہیں مجھے پہلا سٹینٹ پڑا دوہزار دس میں تو میرا چھوٹا بھائی ہے کارڈیالوجس انہوں نے کہا انڈا نہیں کھاؤنا زردی نہیں کھاؤنا زفیدی کھاؤنا انہیں دیسے کہ وہ نہیں کھاؤنا اے نہیں کھاؤنا او نہیں کھاؤنا اب چار سال پہلے کہہ رہا ہے زردی بھی کھا سکتے ہو اسی کیوں بھی کھا سکتے ہو میں خوش شابش ہائی اتنا سال تو میرے اتنے مصیبت بھائی بیاسی زردی نمبر حسرت نال ویک کے پرہ کر دین دیس تو یہ انسانی علم ہے آج کچھ اور ہے کل کچھ اور ہے آج یہ ہے کل ادھر ہے کل ادھر ہے لیکن لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ وہ علم ہے جو اٹل ہے جس کو نہ بدلا جا سکتا ہے نہ بڑھایا جا سکتا ہے نہ گھٹایا جا سکتا ہے نہ تبدیل کیا جا سکتا ہے وَتَمَّتْ قَلْمَةُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلِ قَلْمَاتِهِ میرے بچوں میرے عزیزوں میری بچیوں مجھے اتنی روحانی مسررت کسی جگہ نہیں ہوئی جتنی آج گورنمنٹ کالج میں آکر ہو رہی ہے کہ میں نے دنیا کو دو دفعہ ایسے چکر در گئے کہ اے یوں اس طرح پوری دنیا اللہ نے مجھے پھیرائی ہے سو کے قریب ملکوں میں میرے سفر ہو گئے ہیں جو آج مجھے راحت اور بحبت مل رہی ہے وہ مجھے بولے نہیں دے رہی میں اٹک جاتا ہوں آپ کو دیکھتا ہوں پھر مجھے کبھی اقبال حسن یاد آتا ہے کبھی وہ سامنے کمیسٹری کا ہوتا تھا فیکلٹی پتنی اب ہے کی نہیں ہے تو کبھی وہ یاد آ رہی ہے کبھی ادھر اوپر حال پہ منور صاحب ہمیں اردو پڑھائے کرتے تھے لیکن میری میتھ سن لو کہ اللہ کو ناراض کر کے نہ مرنا اللہ کو ناراض کر کے نہ مرنا اللہ کو ناراض کر کے نہ مرنا ہماری کامیابی یہ نہیں ہے کہ ہم مشہور ہو جائیں اور ہم مالدار ہو جائیں ہمیں باہر کی امیگریشن مل جائے ہماری کامیابی یہ ہے کہ ہم اللہ اس کے رسول کو راضی کرنے والے بن جائیں اور اپنے قوم کی خدمت کیونکہ آپ ہمارا فیوچر ہو موسیقی کسی بھی قوم کا فیوچر یہ بچے ہیں جب نوجوان نسل اخلاقی طور پر پست ہو جاتے ہیں گمراہی کا شکار ہوتے ہیں اور نافارمانیوں کے طرف چل پڑتے ہیں تو اس قوم کو کوئی چیز اونچا نہیں کر سکتے اور جس قوم کی نوجوان نسل تقوی والی ہو اللہ سے ڈرنے والی ہو اللہ کے رسول سے اٹیجمنٹ ہونے کی بل تو اس قوم پہ زوال نہیں آتا ہے آپ ہمارا فیوچر ہو آپ ہمارا مستقبل ہو نیوکل پاور ہمارا مستقبل نہیں ہے ڈیم ہمارا مستقبل نہیں ہے اللہ کے پاس بارشوں کے خزانے ہیں جہاں چاہے برسا دے اس کے ساتھ متبادل موجود ہیں دین کا متبادل کوئی نہیں دین کا متبادل کوئی نہیں تو اپنی اس جوانی کو قیمتی بناو اپنی اس جوانی کو اللہ رسول کی غلامی میں لے کر آو کہ تمہیں ہر وقت اللہ میرے سامنے ہے اللہ میرے سامنے ہے اللہ کہو اللہ پھر کہو اللہ پھر کہو آخر تک اللہ عرش تک روشنی پھیل گئی ہے اس لفظ میں اتنا نور ہے جو لا کہا وہ لا ہوا وہ لا بھی اس میں لا ہوا جز لا ہوا کل لا ہوا پھر کیا ہوا اللہ ہوا اللہ لا الہ الا ہو پہچانو اللہ کو کون ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ کیسا ہے الحی ہمیشہ زندہ روح کا محتاج نہیں وہ کیسا ہے القیوم ہمیشہ قائم روٹی پانی کا محتاج نہیں وہ کیسا ہے لا تاخده سنہ اونگتا نہیں ولا نوم سوتا نہیں اس کی بادشاہی کیسی ہے لہو ما فی السماوات پڑھ رہا ہے تو موپر بیٹھ کے پڑھو نہ پڑھو یہ گھاس کا ایک ایک پتہ اللہ کہتا ہے میری تصویر پڑھتا ہے لہو ملک السماوات والارض زمین آسمان کا بادشاہ ہے یوحی و یومیت زندار کرتا ہے مردہ کرتا ہے وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ہر چیز پر قدرت ایک اللہ کو ہے هو الاول وہ پہلا اس سے پہلے کوئی نہیں والآخر وہ آخر اس کے بعد کچھ نہیں هو الظاہر بلند اسے اوپر کچھ نہیں وہ چھپا ہوا اسے چھپا ہوا کچھ نہیں ہے اس کی حیبت کیسی ہے کوئی ہے اس کے سامنے دم مار سکے اس کا علم کیسا ہے ملتا کہاں سے ہے علم ہاں کیمیٹری بھی اللہ کا دیا ہوا علم ہے فیزیکس بھی اللہ کا دیا ہوا علم ہے یہ وہ ونڈی غلط ہے ہم دنیا کے علم والا دین کا علم والا دنیا کے علم والا یہ ونڈ غلط ہو گئی انگریزوں کے بعد ورنہ ہماری یونیورسیز تھی اس میں ابن خلدون مراکش میں پڑھے وہاں سائنس پڑھائی جاتی تھی وہاں عدب پڑھایا جاتا تھا ہسٹری پڑھائی جاتی تھی اس زمانے کی فیزکس کیمسٹری پڑھائی جاتی تھی ایک بہت پرانی بات ہے کہ کیمسٹری کے پی ایش ڈی مجھے ملے وہ کہنے گئے یہ ہے میں آپ کو کوئی سیمیٹیز ایٹیز کی بات بتا رہا ہوں کہ بیٹا ہم لوگوں نے عربی پڑھی چونکہ پرانی کتابیں کیمسٹری کی عربی میں تھی تو ان کو انگلیش میں ترجمہ کیا گیا اور انہوں نے اپنی مراس بنا لیا اللہ کو پہچانو بچوں کہ وہ شہرق سے زیادہ قریب ہے ادھر دیکھو تو یہ نہیں نظر آتا اور میرا اللہ کہتا ہے میں ادھر دیکھوں پیچھے نظر آتا ادھر دیکھوں ادھر نظر آتا یہ دیکھوں یہ نظر آتا ہے اوپر دیکھو نیچے نظر آتا ہے فرشتوں کو دیکھے جانوروں کو دیکھے پرندوں کو دیکھے ایک مادہ کے پیٹ میں کیا بن رہا ہے دنیا میں کتنی مادہ ہیں صرف عورت نہیں کتنی مادہ ہیں جانوروں میں انسانوں میں پرندوں میں شرندوں میں درندوں میں سب کے اندر جو کچھ ہے اللہ کی نظر ہے یہ خیال رکھنا اللہ دیکھ رہا ہے لا الہ الا اللہ اللہ سے تعلق جڑو اپنا پھر خطا ہو جائے تو معافی مانگو اللہ معاف کر دیتا ہے محمد الرسول اللہ اللہ سے جڑنے کا راستہ کیا ہے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز چیز ہے کہ اللہ قلم تیرے ہیں ابھی سے اپنی زندگی کا پتھر صحیح کرو اپنا قبلہ درست کرو اچھے افسر بنو آلہ ڈاکٹر بنو سائنس دان بنو سب کچھ بنو لیکن اس سے پہلے ہے اچھے مسلمان بنو اچھے انسان بنو اور کائنات میں سب سے آلہ برثر میرا نبی آیا انسانیت کی میراج ہے میرے نبی اخلاق کی میراج ہے میرے نبی حسن و جمال کی میراج ہے میرے نبی اور ہر ہر صفت کی میراج ہے میرے نبی ان بچیوں سے بھی کہتا ہوں آپ سے بھی کہتا ہوں میرے نبی نے گیارہ شادیاں کی وہ شوق تھا شادیاں کا پچاس سال کی عمر تک تو ایک بیوی کے ساتھ زندگی گزاری وہ جو پہلے دو دفعہ ان کا نکاح ہو چکا تھا اور ہر ایک سے اولاد تھی اور ایک ان کی منگنی ٹوٹی تھی ورکہ بن نوفل سے ان کی منگنی تھی وہ ٹوٹی اس کے بعد آپ کا موسیقی ابو ہند سے آپ کا نکاح ہوا اسے ایک بیٹا ہوا ہند پھر اس کے بعد وہ فوت ہو گئے پھر دوسری شادی کی وہ فوت ہو گئے پھر تیسری جگہ جا کر حضرت خدیجہ سے اب پچیس برس کے ہو کر چالیس ورث کی عورت سے شادی کر رہے ہیں اگر عورتوں کا شوق ہوتا تو وہ کہتے ہیں میں پچیس سال گاہوں مجھے بیس سال کی لڑکی چاہیے اور آپ کیسے تھے آپ کا حسن کیسا تھا رائے اتور ایک بددو عورت آپ کا حلیہ آپ کو الفاظ سمجھو نہیں ہے لیکن اس میں میوزک سمجھ مائے کہ نہیں ظاہر الوضاء ابلج الوجح حسن الخلق لم تعبه ثجلہ لم تجربه سعلہ وسیم قصیم فی عینیہ دعی فی صوتہی صحل فی لحیتہی کثاثہ فی عنقہ سطح ازج اقرن اقہل احور اہدب اشکل انور کیا خوبصورت الفاظ ہیں تو آپ حسین کیسے ہوں گے وہ کہتی ہے میں نے ایک نوجوان دیکھا مجھے لگا جیسے چودہی کا چاندی کپڑے پہن کے زمین پہ آ گیا