ہسٹری فاؤنڈر کی جانب سے آپ سب دوستوں کو اصنین مشتاق کا سلام دوستو آج ہم اس عظیم شخصیت کے بارے میں بات کریں گے جنہوں نے پاکستان بنانے کا خواب دیکھا اور ساتھ ہی شہر مشرق کہلائے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو برطانوی ہندوستان کے شہر سیالکورڈ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا مختلف تریخ دانوں کے مبین علامہ کی تریخ ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں لیکن حکومت پاکستان سرکاری طور پر نو نومبر اٹھارہ سو ستتر کو ہی ان کی طریقے پدائش تسلیم کرتی ہے اقبال کے اباو اجداد قبول اسلام کے بعد اٹھارویں صدی کے آخری یا انیسویں صدی کے اول میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور محلہ کھیتیاں میں عباد ہوئے شیخ نور محمد کشمیر کے سوپرو برہنوں کی نسل سے تھے غازی اور انگزیب عالمگیر کے اہد میں ان کے ایک جدن اسلام قبول کیا ہر پشت میں ایک نہ ایک ایسا ضرور ہوا جس نے فقط دل چھرا رکھی یہ بھی انہی صاحب دلوں میں سے سے تھے بزرگوں نے کشمیر چھوڑا تو سیالکورٹ میں آ بسے ان کے والد شیخ محمد رفیق نے محلہ کیتھیاں میں ایک مکان عباد کیا لگتا ہے کہ یہ اور ان کے چھوٹے بھائی شیخ غلام محمد یہی پیدا ہوئے پہلے بڑے اور گھر والے ہوئے بعد میں شیخ محمد رفیق بزار چوری گرہ میں اٹھائے اور جو اب اقبال بزار کہلاتا ہے ایک چھوٹا سا مکان لے کر اس میں رہنے لگے مرتے دم تک یہی رہے ان کے وفات کے بعد شیخ نور محمد نے اس سے ملحق ایک دو منزلہ مکان اور دو دکانیں خرید کر مکانیت کو برہا لی لیا شیخ نور محمد دندار آدمی تھے بیٹے کے لیے دینی تلیم ہی کافی سمجھتے تھے سیالکوٹ کے اکثر مقام علماء کے ساتھ دوستانہ تھا اقبال بسم اللہ کی عمر کو پہنچے تو انہیں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے مولانا ابو عبداللہ غلام حسن محلہ شوالہ کی مسجد میں درست دیا کرتے تھے شیخ نور محمد کا وہاں آنا جانا تھا یہاں سے اقبال کی تلیم کا آغاز ہوا حسب دستور قرآن شریف سے ابتدا ہوئی تقریباً سال بر تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ شہر کے ایک نامور مولانا سید میر حسن ادھر آ نکلے ایک بچے کو بیٹھے دیکھ کے صورت سے عظمت اور سعادت کی پہلی جود چمکتی نظر آئی پوچھا کہ کس کا بچہ ہے ملوم ہوا تو وہاں سے اٹھ کر شیخ نور محمد کی طرف چل پڑے دونوں آپس میں قریب بھی واقف تھے مولانا نے زور دے کر سمجھایا کہ اپنے بیٹے کو مدرسے تک محدود نہ رکھو اس کے لئے جدید تعلیم بھی بہت ضروری ہے انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ اقبال کو ان کی تربیت میں دے دیا جائے کچھ دن تک تو شیخ نور محمد کو پسو پیش رہا مگر جب دوسرے دوسری طرف سے اسرار بڑھتا چلا گیا تو اقبال کو میر حسن کے سپورت کر دیا ان کا مکتب شیخ نور محمد کے گھر کے قریب ہی کوچہ میر حسام الدین میں تھا یہاں اقبال نے اردو فارسی اور عربی عدب پڑھنا شروع کیا تین سال گزر گئے اس دوران میں سید میر حسن نے اسکات مشن سکول میں بھی پڑھانا شروع کر دیا اقبال بھی وہیں داخل ہو گئے اور اپنی تلیم کو جاری رکھا اور پھر اسکات مشن سکول میں انٹر میریٹ کی کلاسز بھی شروع ہو چکی تھی لہٰذا اقبال کو ایفے کے لیے کہیں اور نہیں نہیں جانا پڑا وہیں رہے اور یہ وہ زمانہ ہے جب ان کی شاعری کا بقائدہ آغاز ہوتا ہے یوں تو شعر و شاعری سے ان کی مناسبت بچپن ہی سے ظاہر تھی کبھی کبھی خود بھی شعر موضوع کر لیا کرتے تھے مگر اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھے نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے لکھتے اور پھا کر پھینک دیتے لیکن اب شعر گوئی ان کے لئے فقط ایک مشکلہ نہ رہی تھی بلکہ روح کا تقاضہ بن چکی تھی اس وقت پورا برسکیر ڈاک کے نام سے گونج رہا تھا خصوصاً اردو زبان پر ان کی موجزانہ گرفت کا ہر کسی کو اطراف تھا اقبال کو یہیں گرفت ترکار تھی شاگردی کی درخواست لکھ کر بیجی جو قبول کر لی گئی مگر اسلاح کا یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا متحدہ ہندوستان میں اردو شہری کی جتنے بھی روپ تھے ان کی تراش خراش میں داگ کا کلم سب سے آگے تھا لیکن یہ رنگ ان کے لئے بھی نیا تھا گو اس وقت تک اقبال کے کلام کی امتیازی خصوصیات ظاہر نہ ہوئی تھی جا سکتا یہ کہہ کر فارق کر دیا کہ اس لا کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے مگر اکبال اس مختصر سی شگردی پر بھی ہمیشہ ناز کرتے رہے پہ مئی اٹھارہ سو تریانوے میں اکبال نے میٹرک کیا اور اٹھارہ سو پچانوے میں اکبال نے ایفے کیا اور مزید تعلیم کے لیے لاہور آگئے یہاں گورمنٹ کالج میں بی اے کی کلاسز میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں رہنے لگے اپنے لیے انگریزی فلسفہ اور عربی کے مضامین منتخب کیے انگریزی اور فلسفہ گورمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے کے لیے اور انڈر اورینٹل کالج جاتے جہاں مولانا فیضل حسن جیسے بےمثال استاد ملے اس وقت تک اورینٹل کالج گورمنٹ کالج ہی کی امارت کا ایک حصہ تھا ان دونوں کالجوں کے درمیان بعض مضمین کے سلسلے میں باہمی تعاون اور اشتراک کا سلسلہ جاری تھا اٹھارہ سو اٹھانوے میں اکبال نے بیئے پاس کیا اور اہم فلسفہ میں داخلہ لے لیا یہاں پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ کا تعلق میسر آیا جنہوں نے آگے چل کر اکبال کے علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رخ تعلن کیا مارٹ اٹھارہ سو مہمے کا امتحان دیا اور پنجاب بر میں اول آئے اس دوران میں شائری کا سلسلہ بھی چلتا رہا نومبر اٹھارہ سو نینیانوے کی ایک شام کچھ بیت کلف ہم جماعت انہیں حکیم امین الدین کے مکان پر ایک میفل مشارہ میں کھینچ لے گئے بڑے بڑے سکہ بند استادزہ شگردوں کی ایک کثیر تدات سمیت شریک تھے سننے والوں کا بھی ایک حجوم تھا اقبال چونکہ بالکل لائے تھے اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے دور میں پکارا گیا غزل پڑھنی شروع کی جب اس شیر پر پہنچے کے موتی سمجھ کے شانے کریمی نے چن لیے کترے جو تھے میرے ارکے نفال کے تو اچھے اچھے استاد اچھل پڑے بے اختیار ہو کر داد دینے لگے یہاں سے اقبال کی بحثیت شاعر شہرت کا آغاز ہوا مشاعروں میں باعثرار بلائے جانے لگے اسی زمانے میں انجمن حمایت اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم رہا اس کے ملی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سناتے اور لوگوں میں ایک ایسا سما بان دیتے اقبال کی مقبولیت نے انجمن کے بہت سارے کاموں کو آسان کر دیا کام از کم پنجاب کے مسلمانوں میں سمادی سطح پر دینی واحدت کا شعور پیدا ہونا شروع ہو گیا جس میں اقبال کی شائری نے بنیادی کردار ادا کیا ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال تیرہ ماہی اٹھارہ سو نینوے کو رینڈل کالج میں میکلورڈ اریبک ریڈر کی ایسیز سے متعین ہو گئے اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر پرنسپل مقرر ہو گئے اکبال تقریباً چار سال تک اورنٹل کالیج میں رہے البتہ بیچ میں چھے ماہ کی رخصت لے کر گورنمنٹ کالیج میں انگریزی پڑھائی اعلیٰ تعلیم کے لیے کنیڈا یا امریکہ جانا چاہتے تھے مگر آرنلڈ کے کہنے پر اس مقصد کے لیے انگلستان اور جنمنی کا انتخاب کیا انیس سو چار کو آرنلڈ جب انگلستان واپس چلے گئے تو اکبال نے ان کی دوری کو بے حد محسوس کیا دل کہتا تھا کہ اڑ کر انگلستان پہنچ جائیں اورنٹل کالیج میں اپنے چار سالہ دورہ تدریز میں اکبال نے واکر کی پولٹیکل اکنامی کا اردو میں تلخیص و ترجمہ کیا اور شیخ عبدالکریم الجیلی کے نظریہ توہید مطلق پر انگریزی میں ایک مقالہ لکھا جو انیس سو چار میں شائع ہوئی اردو میں اپنے موضوع پر یہ اولین کتابوں میں سے ہے رینٹل کالج میں بطور عربی ریڈر ملازمت ختم ہو گئی تو انیس سو تین میں اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی حصیت سے اکبال گورمنٹ کالج میں مقرر ہو گئی بعد میں فلسفے کے شعبے میں چلے گئے وہاں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ یکم اکتوبر انیس سو پانچ کو یورپ جانے کے لیے تین سال کی رخصت لے لی پچیس دسمبر انیس سو پانچ کو علم اقبال آلہ تلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبری یونیورسٹری ٹرینٹری کالیج میں داخلہ لے لیا کیونکہ کالیج میں ریسرچ اسکالر کی احسیت سے لیے گئے تھے اس لیے ان کے لیے عام طلب علموں کی طرح ہوسٹل میں رہنے کی پبندی نہ تھی قیام کا بنوبست کالیج سے باہر کیا ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بریسٹری کے لیے لنکزن میں داخلہ لے لیا پروفیسر براؤن جیسے فاضل استاذہ سے رہنمائی حاصل کی بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونک یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ اور پی ایج ڈی کی ڈگری حاصل کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملتے ہی لندن واپس چلے گئے دسٹری کے فینل امتیانوں کی تیاری شروع کر دی کچھ مہینے بعد سارے امتیان مکمل ہو گئے جولائی انیس سو آٹھ کو نتیجہ نکلا کمیاب قرار دیے گئے اس کے بعد انگلستان میں مزید نہیں رکے وطن واپس آ گئے لندن میں قیام کے دوران میں اکبان نے مختلف موضوعات پر لیکچروں کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا مثلا اسلامی تصور مسلمانوں کا اثر تہذیب یورپ پر اسلامی جمہوریت اسلام اور اقل انسانی وغیرہ بدکسمتی سے ان میں سے ایک کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ملتا اور پھر جولائی انیس سو آٹھ میں وطن کے لیے روانہ ہوئے بمبئی سے ہوتے ہوئے پچیس جولائی انیس سو آٹھ کی رات دیلی میں پہنچے اگست انیس سو آٹھ میں اکبار لاہور آگئے ایک آدھ مہینے بعد چیف کورٹ پنجاب میں وقالت شروع کر دی اس پیشے میں کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایم اے او کالج علیگرد میں فلسفے اور گورمنٹ کالج لاہور میں تاریخ کی پروفیسری پیش مگر اکبال نے اپنے لئے وقالت کو مناسب جانا اور دونوں اداروں سے معذرت کر لی البتہ بعد میں حکومت پنجاب کی درخواست اور اسرار پر 10 مئی 1910 سے گورمنٹ کالج لہور میں آرزی طور پر فلسفہ پرہانا شروع کر دیا لیکن ساتھ ساتھ وقالت بھی جائی رکھی مصروفیات بڑھتی چلی گئیں کئی اداروں اور انجمنوں سے تعلق پیدا ہو گیا 18 مارچ 1910 کو حیدر آباد دکھن کا سفر پیش آیا وہاں اکبال کی قدیمی دوست مولانا اگرامی پہلے سے مجود تھے اس دورے میں سر آگے اکبر حیدری اور مہاراجہ سرکشن پرشاد کے ساتھ دوستانہ مراسم کی بنیاد پڑی مارچ کی تیسویں کو حیدر آباد سے واپس آئے اورنگزیب آلمگیر کے مقبرے کی زیارت کے لیے راستے میں اورنگ آباد اتر گئے دو دن وہاں ٹھہرے اٹھائیس مارچ انیس سو دس کو لاہور پہنچے اور پھر سے اپنے معاملات میں مشکول ہو گئے اب معلمی اور وقالت کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوتا جا رہا تھا آخر کار اکتیس دسمبر انیس سو دس کو گورنمنٹ کالیج سے مصطفیٰ ہو گئے مگر کسی نہ کسی ایسا سیت سے کالیج کے ساتھ تعلق برقرار رکھا ایک گورمنٹ کالیج ہی نہیں بلکہ پنجاب اور برسگیر کی کئی دوسری جامعات کے ساتھ بھی اقبال کا تعلق پیدا ہو گیا تھا پنجاب علیگر علاباد ناکپور اور دیلی یونیورسٹی کے ممتحن رہے ان کے علاوہ بیت اللہم حیدراباد دکھن کے لیے بھی طریقہ اسلام کے پرچے مرتب کرتے رہے بعض اوقات زبان امتحان لینے کے لیے علیگر، علاباد اور ناکبور وغیرہ بھی جانا ہوتا ممتحن کی حصیت سے ایک اٹل اصول اپنا رکھا تھا عزیز سے عزیز دوست پر بھی سفارش کا دروازہ بند تھا دو مارچ انیس سو دس کو پنجاب یونیورسٹی کے فیلو نمزد کیے لالا رام پرشاد پروفیسر تریخ گورمنٹ کارج لاہور کے ساتھ مل کر نصاب کے ایک خطاب تریخ ہند مرتب کی جو 1913 کو چھپ کر آئی آگے چل کر مختلف اوقات میں اورنٹل اینڈ آرٹس فیکٹلی سینٹ اینڈ سینڈیکیٹ کے ارکان بھی رہے انیس سو انیس میں رینٹل فیکٹلی کے ڈینڈ بن گئے انیس سو تئیس میں یونیورسٹی کی تلیمی کونسل کی رکنیت ملی اسی سال پروفیسر شپٹ میٹی میں بھی لیے گئے اپنی بے پناہ مصروفیات سے مجبور ہو کر تلیمی کونسل سے اسطیفہ دے دیا تھا مگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر سرجان منارڈ نے انہیں جانے نہیں دیا اس طرف سے اتنا اسرار ہوا کہ مروتن اسطیفہ واپس لے لیا اس دوران میں پنجاب ٹیکس بک میٹی کے بھی رکن رہے میٹرک کے طلبہ کے لیے فارسی کی ایک نصابی کتاب آئین آئینہ انجم مرتب کی جو 1927 میں شائع ہوئی غرض پنجاب یونیورسٹی سے اقبال عملن 1932 تک متلک رہے پھر انہوں نے اپنا قدم سیاست میں رکھا 13 اپریل 1919 کو عملی سر شہر کے جلیانوالا باغ میں ایک احتجاجی جلسک کیا گیا رسوائے زمانہ جنرل ڈائر نے لوگوں کو گیرے میں لے کر اندہ دون فائرنگ کروائی اور سینکرو کو موت کی کار اتار دیا گو کہ اقبال نے اس زمانے میں خانہ نشینی اختیار کر رکھی تھی لیکن اس حادثے کی دمک ان کے دل تک بھی پہنچی انہوں نے مرنے والوں کے یاد میں یہ اشار کہے اور پھر علم اقبال مسلمانوں کی حمایت کے لئے کھڑے ہوئے اور پھر اس طرح 21 اپریل 1938 کو اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے تو دوستو یہ تھی علم اقبال کیسٹری اگر آپ کو ہماری ویڈیو پسند آئے تو پلیس ہماری ویڈیو اگر آپ نے یہ ویڈیو کو لائک شیئر اور کمیٹ کرنا مجھے ملتے ہیں تب تک کے لئے دیجئے مجھے اجازت اللہ حافظ