اللہم اغفر للمؤمنین والمؤمنات والمسلمین والمسلمات الاحیاء منہم الانواد تابع بیننا وبینهم بالخیرات انکا مجیب الدعوات انکا علا کل شئی قدیر سلامت اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ الذي لا يحسن عماه العادون ولا يؤدي حقه المجتہدون الذي ليس لصفته حد محدود ولا نعصر موجود ولا اجل ممدود فطر الخلائق بقدرتی ونشر الرياح برحمتی الصلاة والسلام على المهیمن على رسول والخاتمہ لیوصیائی وشافع الیہ والمکینہ لدی والمطاعہ فی ملکوتی لحمد من الاوصاف الاب القاسم محمد صلوات وعلى اہل بیتِ طیبین الطاہرین المعصومین المظلومین سیما بقیت اللہ فی ارضِ روحی وارواح العالمین لتراب مقدمِه فدا اما بعد فقد قال اللہ تبارک و تعالیٰ فی القرآنِ المجید بسم اللہ الرحمن الرحیم اِنَّ شَرَّ الدَّوَّابِ عِندَ اللَّهِ سُمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعَقِلُونَ سَلَوَاتَ اللَّهُمَّ محمد کار محمد واجل فرم بروردگار عالم سورہ انفال آیت نمبر ٢١ ارشاد ہوتا ہے کہ سب سے برے جانور کون سے ہیں کون سی ایسی مخلوق ہے جو خالق کے نزدیک بدترین ہے؟ ارشاد ہوا سب سے بدترین جانور وہ ہیں کہ جو اللہ کے نزدیک کہ وہ بہرے یعنی سن نہیں سکتے گونگے بول نہیں سکتے اور جو عقل نہیں رکھتے پروردگار عالم جو انسان اپنی عقل کا استعمال نہ رکھے اسے انسان ہی نہیں مانتا اور کیا جانور مانتا ہے جانور بھی نہیں مانتا شر الدواب سب سے زیادہ شر برائی رکھنے والا جانور کیوں آنکھیں ہیں دیکھتا نہیں کان ہے تا ہی نہیں زبان ہے حق بولتا ہی نہیں عقل جیسی چیز دے رکھی ہے اسے استعمال میں نہیں لے کر آتا لہٰذا کیا وہ جانوروں میں ہے نہیں جانوروں میں بھی سب سے بدتر تر وہ ہے شر الدواب سورہ انفال آیت نمبر 22 شر الدواب خدا بدترین جانور کہتا ہے جو عقل کو استعمال نہیں کرتے دیکھئے ہمیں امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے راستے اللہ مسلم علیہ وآلہ کیا سکھایا ہے کہ اس کو استعمال کرو کہ سوچو کس لیے یہ سفر ہوا اللہ اکبر اور ہم نے کیا کیا میں شروع میں ہی تھوڑا سا ہم اپنا تذکرہ کرتے ہیں چلیں دیکھئے جب بھی کوئی تحریک کوئی آئیڈیالوجی یا کسی بھی طرح کی ٹیچنگز کو زندگی میں یا جینریشنز میں زندہ رکھنا ہوتا ہے تو اس کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ اس کے جو سلوگنز ہیں انہیں زندہ رکھا جائے جیسے جو کربلا کا سلوگن تھا اسے زندہ رکھا جائے حیہات منت ذلہ مثلی لا يبايع مثلہ میرے جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا حیہات منت ذلہ ذلت و رسوائی ہم سے دور ہے حل من ناصر نینسرنا یہ کربلا کی سلوگنز ہیں نا خداوند کریم نے یہ سلوگنز اس لیے ہمیشہ رکھے مثال کے طور پر کیا صرف کربلا میں تھے اس سے پہلے بھی تھے پہلی جنگ جو اسلام کی ہوئی وہ جنگِ بدر جو مد مقابل مشرک تھے وہ اپنے جو سلوگنز دے رہے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ اعل الحبل حبل ان کا سب سے بڑا خدا تھا ان کے جھنڈے پر ان کے پرچم پر لکھا ہوا تھا کہ حبل سب سے بڑا ہے تو رسول خدا نے فرمایا ہمارا سلوگن ہے اللہ اعلیٰ و اجل اللہ سب سے بڑا اور سب سے زیادہ جلالت والا ہے اس جیسی گلوری کسی اور کی نہیں ہے پھر اس کے بعد جب آپ کی دوسری جنگ ہوئی تو آپ نے اس کا سلوگن جو احد میں تھی اللہ مولانا اسلام کا رسول خدا کا سلوگن تھا پرچم پر آپ نے لکھوایا اللہ مولانا اللہ مولانا پھر آپ نے خندق میں اللہ اکبر لکھوایا رسول خدا نے جناب امام حسین علیہ السلام نے اپنے پرچم اپنے علم کربلا میں کیا لکھوایا محمد محمد رسول اللہ آپ کا سلوگن کیا ہے کہ ہم محمد مصطفیٰ کے دین ان کی شریعت ان کی وحی کو بچانے کے لئے یہاں جمع ہیں اور پھر جب ہم نے اس پیغام امام حسین کو زندہ رکھنا چاہا تو اس کے لیے ہم اب امام کے سلوگنز کو زندہ رکھیں گے ایسا ہی ہے اور ہم نے اس کو الحمدللہ زندہ بھی رکھا ہوا ہے امام کے اقوال ہم تک پہنچ رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ جو ایک کانسپٹ یا آئیڈیالوجی کو زندہ رکھا جاتا ہے اس کے کچھ ریچولز ہوتے ہیں ہاں نا جیسے ازاداری کا ایک طریقہ ہے سیاہ لباس پہنے جاتے ہیں اس کے ریچویلز میں سے یہ ہے کہ ہم صف ماتم بچھاتے ہیں اور پہلے حدیث کسا ہوتی مرسیہ ہوتا ہے ایسا ہی ہے مجلس ہوتی ہے ہے اور پھر آخر میں نظر و نیاز ہوتی ہے تازیہ و تشبیح جو بلند کی اس کا اپنا ایک طریقہ سلیقہ ہے ہر جگہ الگ ہے ایسا ہی ہے جو شعاع اس کو کہتے ہیں شعار یہ جو شعار ہیں نا سارے چاہے وہ سلوگنز کی شکل میں ہوں ریچولز کی شکل میں ہوں ہر جگہ یہ مختلف ہوتے ہیں جیسے ہم کرتے ہیں آپ سریعہ میں یا ایران میں یا لبنان میں ایسی ازاداری نہیں دیکھیں گے ان کی ذرا مختلف ہوگی تو کیا سب بدل گیا نہیں ان کے ہاں ریچولز ایسے ہمارے ہی تو یہ جو شعار ہے امام حسین کا یہ جو شعار ہے بدر احد کا اس کو ہم نے زندہ رکھا ہے ہم پھر اگر اس آئیڈیالوجی کو زندہ رکھنا ہے تو اس کا دوسرا راستہ کیا ہے شعور کو بیدار کرنا جو مقصد عظیم تھا اس کو سب کے درمیان زندہ رکھیں جیسے رسول خدا جب اسلام کا پیغام لے کر آئے تو آپ سے کسی نے آ کر کہا کہ آپ کون سا نیا دین لے کر آئیں جو آپ سے پہلے والے نہیں لے کر آئے حضرت آدم، موسیٰ، عیسیٰ، نو، ابراہیم سب آ کر اچھی اچھی باتیں کر کے چلے گئے اور کسی کا کچھ نہیں بگڑا آپ کیا بتانے آئے ہیں رسول خدا نے کیا فرمایا یاد رکھیں یہ اختصاص ہے یہ ایکسکریوسیویلی امت محمدی کے لیے آپ نے بتایا فرمایا کہ مجھ سے پہلے جو انبیاء آئے تھے وہ کہتے تھے گناہ نہ کرو اپنے آمال کو اپنے آپ کو صدھارو میں اس لیے آیا ہوں کہ میں یہ شعور دوں کہ کے گناہ کے بارے میں سوچو بھی نہیں فکر کو پاک کرنے آیا ہوں عقل کو سہر آپ کرنے آیا ہوں دل کو پاک کرنے آیا ہوں کرنا چھوڑو ارادہ نیت برا نہیں تصور کرو اسلام اور باقی دین میں فرق کیا ہے اسلام شعور ہے اسلام ایک نظریہ ہے اسلام فکر کو مخاطب کرتا ہے عقل کو مخاطب کرتا ہے دل کو مخاطب کرتا ہے یہ نہیں کہتا کرو نہیں بری نیت نہ کرو برا ارادہ نہ کرو کسی کے لیے اپنے لیے خدا کے لیے یا پھر غیر خدا کے لیے کسی کے لیے لہٰذا جب شعور کو اسلام ایڈریس کر رہا ہے تو ہم نے کیا کرنا ہے ہم نے بھی یہی کرنا ہے کہ ہم جو شعور ہے اس کو زندہ رکھیں لہٰذا اسلام میں جزا کی آپ لوگوں نے اکثر بلکہ اُس دن کسی نے مجھ سے question answer session میں سوال بھی کیا تھا آج آج تو question answer session نہیں ہوگا ورنہ روزانہ میں مجلس کے بعد یہی ہوتی ہوں اور ہم سوال جواب کا session کرتے ہیں کہ ہمارے اعمال کس طرح سے judge ہوں گے خدا کہہ کہتا ہے تولا جائے گا کس چیز کو تولے گا خدا کس چیز کو خدا دیکھے گا اور کس کا وزن کم یا زیادہ ہوگا دیکھئے دو روایات ہیں ایک یہ کہ اخلاص خدا نیت میں خلوص خلوص ہوگا اتنا وزن زیادہ ہوگا اور وہ اخلاص کیسے ہے کیسے اس کا وزن پتا چلے گا کہ اس عمل کا خلوص جیسے ہم سب نے پانی پلایا کسی کو کسی نے کسی نے امام حسین کی پیاس کو یاد کر کے پلایا ہاں اور کسی نے امام کی یا پیاس کو یاد نہیں کیا فرق ہے نا اب نیکی ایک ہی ہے عمل ایک ہی ہے تو کیا یہ نام عامال میں برابر ہوگا وہاں پر کیا ہے کسی کی محبت میں اخلاص میں خدا یا تیرا سب سے پیاسا بندہ اس کی یاد کو زندہ رکھتے ہوئے یہ ایک گلاس پانی اس کی پیاس پہ قربان پلا دیا گیا اب یہ ہمارے عمل میں کیسے دیکھتے ہیں نکھے گا نور کی شکل میں ہاں وہ اتنا نورانی ہو جاتا ہے عمل اور جب وہ جتنا زیادہ نورانی ہوگا نور کا ریڈیس جتنا بڑا ہوگا اتنا وہ وزنی ہوگا اور جس چیز میں جتنی زیادہ نیت خراب ہوگی اتنا وہ ڈارک ہوگا سیاہ ہوگا اور وہ نظر ہی نہیں آئے گا جب وہ نظر ہی نہیں آئے گا تو اس کا ویٹ کیسے کریں ہم اس طرح سے اس کا طولہ جائے گا لہذا دوسری چیز جو روایت میں ملتا ہے ایک نیت ہے اور دوسرا کیا خدا جو عامال کی جزا دیتا ہے کہتے ہیں کہ فرشتوں کو خداوند کریم نے ایک عابد کی عبادت کی جزا کے لیے بھیجا کہ اس کی اتنی جزا محفوظ کر لو تو ان فرشتوں نے کہا بیچارے نے اتنی نمازیں پڑھی اور اتھوڑی سی جزا خدا نے کہا میں نہیں سمجھا تھا جاؤ اس عابد کے ساتھ وقت گزارو دو فرشتے آئے اس عابد کے ساتھ انہوں نے تھوڑا وقت گزارا جب وہ عبادت کر کر کے نمازیں پڑھ پڑھ کے دعا مناجات کر کے فارغ ہوا تو فرشتے انسان کی صورت میں آئے اور ان سے کہنے لگے تم سے کہا جائے کہ خدا سے کچھ مانگو تو تم کیا مانگو گے تو وہ عابد کھڑا ہوا اس نے دائیں بائیں دیکھا اور کہا یہ دیکھو کتی گھاس ہے یہاں پہ اور کتی زیادہ پھیلی ہوئی ہے تو میں اللہ سے کہوں گا نعوذ باللہ اپنی خلقت کو امپروف کریں اور اس ساری گھاس کو جو اتنا زیادہ اس نے بے مقصد اگا لیے کچھ گھدے بھیج دیں اور وہ اس گھاس کو کھا لیں تاکہ یہ جگہ صحیح ہو جائے آئندہ یہ گھاس نہیں اگنی چاہیے اوہ فرشتے سمجھ گئے خدا نے اس کی بھی بندگی کو جزا دے دی ہے یہ بڑی بات ہے کیونکہ اس کی عبادت کے اندر کیا نہیں ہے شعور ہی نہیں ہے معرفت ہی نہیں ہے وہ خدا کی خلقت کو دیکھ کر یقیناً اپنے بدن کو تو حرکت میں لے کر آتا ہے لیکن اس نے اس کے بارے میں کبھی غور و فکر نہیں کیا لہٰذا میرے اور آپ کے عامال کو تولے جانے کے لیے خداوند کریم یہ دیکھتا ہے کہ میں نے اسے جو ساری نعمتیں دی ہیں ان میں جو سب سے بڑی نعمت ہے اس کے طفیل اس کے راستے یہ مجھے کتنا یاد کرتا ہے میں نے جو اس کو سب سے کشادہ راستہ دیا ہے اس سب سے بڑے راستے سے یہ میرے پاس کس طرح سے آتا ہے اسی لیے روایت ہے حدیث ہے کہ انسان سات چیزوں کو حاصل ہی نہیں کر سکتا جب تک اس کے پاس عقل نہ ہو عقل لازمی ہے بغیر عقل کے وہاں پہنچتے ہی نہیں راستہ ہی عقل سے ہو کر جاتا ہے فرمایا پہلی چیز ہدایت کس کس کو ہدایت چاہیے؟ سب کو چاہیے عقل استعمال کریں یہ میں قرآن والی بات کر رہی ہوں توبہ ورنہ میں بدتمیز نہیں ہوں ہاں فرمایا کہ ہو ہی نہیں سکتا کہ عقل کے بغیر کوئی اس منزل تک پہنچ جائے پہلی چیز ہدایت دوسری چیز عبادت نہیں کر سکتا کوئی تیسری چیز طہارت کوئی پاک ہی نہیں ہو سکتا عقل کو استعمال کیے بغیر فرمایا علم جس کے بغیر کوئی بھی جس کو حاصل ہی نہیں کیا جا سکتا بغیر عقل کے پھر اس کے بعد فرمایا انسان اپنی سالمیت اپنے لیے ہر چیز چیز صحیح رکھے اپنا ایمان سالم رکھے اپنے بدن کو سالم رکھے اپنی فکر کو سالم رکھے اس کے لیے ایک سیف گارڈ بنائے بغیر عقل کے وہ بھی نہیں ہو سکتا اور پھر فرمایا کہ اتحاد معاشرے میں قائم نہیں ہو سکتا جب تک عقل کا راستہ انتخاب نہ کیا جائے لہٰذا یہ وہ راستہ ہے جو چننا ہی ہے قرآن بھی کہتا ہے حدیث بھی تاریخ بھی چاہے وہ انبیاء کی ہو یا آئمہ کی ہو اور اس کے بعد ایک عجیب حدیث ہے اللہ اکبر یہ ذہن سے نکلتی نہیں امیر کائنات نے فرمایا کسی انسان کے اندر عظیم ترین صفات موجود ہوں مجھے پیارا ہے لیکن اگر اس کے اندر یہ دو برائیاں ہونا دو برائیاں ہوں تو میں اس کی بڑی سی بڑی نیکی کو نظروں میں ہی نہیں لاؤں گا کیونکہ یہ دو برائیاں نظرانداز نہیں ہو سکتی فرمایا عظیم صفت کا انسان اس کی ہر برائیاں برائی نگلیکٹ ہو سکتی ہے سوائے دو چیزوں کے ایک وہ لا مذہب ہو اور دوسرا وہ کم اقل ہو یعنی امیر المؤمنین کے سرکل میں وہی بیٹھ سکتا ہے کہ جس جس کے پاس کوئی مذہب ہو اسلام نہیں اسی لئے آپ یہودیوں کے ساتھ مباحلہ ہوا ہے آپ جانتے ہیں مذاکرے ہوئے ہیں مناظرے ہوئے ہیں ان کو اپنے دربار میں بلائی گیا ہے سلونی کا ممبر ہوا آپ نے جواب دیا مذہب لے کر آؤ جواب دیتے ہیں خالی رہو ہم تم سے کیا لڑیں کیا بات کریں گے دوسری چیز فرمایا جو کم اقل ہے اس سے ہرگز چاہے اس کے اندر کتنی اچھی صفات کیوں نہ ہوں لیکن یہ جو کم اقلی ہے نا یہ کسی صورت گوارہ نہیں اسی لیے میرے مولا امام موسیٰ قادم علیہ السلام آپ جناب حشام ابن حکم سے فرماتے ہیں جناب حشام ابن حکم چھٹے امام کے خاص صحابیوں میں سے ہیں اور آپ کا علم ایسا تھا کہ جس کے بارے میں جب ایک جگہ سے آپ تبلیغات کر کے واپس آئے تو آپ سے مولا نے سوال کیا کہاں تشریف لے کر گئے کیا کیا رعدات تھی آپ نے سب کچھ سنایا تو مولا نے فرمایا کہ یہ جو ساری باتیں آپ نے تبلیغ کی ہیں لوگوں کو بتائی ہیں یہ آپ نے کہاں سے سیکھیں تو آپ نے فرمایا کتاب الہی سے سیکھیں اور اس سے میں نے ان باتوں کو اخص کیا ہے آپ نے فرمایا اللہ نے تمہارے سینے میں صحیفہ موسیٰ کو الہام کیا ہے حشام ابن حکم آپ لوگ اگر حشام ابن حکم کی تھوڑی سی بائیوگرفی یا بائیوگرفی چھوڑیں آپ ان کے مناظرے پڑھیں حشام ابن حکم حشام حے سے حے کونسی ہاتھی والی حکم میں حے حلوے والی ان کے مناظرے اگر آپ پڑھیں تو بہت لطیف آسان طریقے سے آپ نے امامت کو ولایت کو اور توحید کو اور معجزے کو بیان کیا ہے میرے مولا حشام ابن حکم کو مخاطب کرتے ہیں اور آپ فرماتے ہیں کہ عاقل وہ ہے جو دنیا کی فضولیات کو چھوڑ دے دنیا کی فضولیات کو چھوڑ دے اور گناہ کو بھی ترک کر دے پھر اس کے بعد آپ نے فرمایا البتہ گناہ کو ترک کرنا لازم ہے نا واجب ہے نا فرمایا گناہ کو ترک کرنا فرض ہے یہ تو اس نے اپنا فرض ادا کیا ہے البتہ جو اس نے دنیا کی فضولیات کو ترک کیا ہے یہ فضیلت ہے جو آقل ہے وہ دنیا کی فضولیات کو ترک کر پھر اس کے بعد ہم سوال کریں گے دیکھیں کنفیوجن جو ہوتی ہے کہ دنیا کی فضولیات ہیں کیا ہمیں اس بات کا بہت ستھرا ایک فرق چاہیے ایمہ کی تعلیمات میں قرآن کی تعلیمات میں دنیا کو برا نہیں کہا حرس اور تمہ اور طلب دنیا کو برا کہا ہے دنیا تو اللہ کی خلقت ہے جناب مریم نے کیا فرمایا میں اس دنیا میں واپس جانا چاہتی ہوں تاکہ اللہ کی بندگی کروں دنیا کو عزیز سمجھا ہے رسول خدا کیا فرماتے ہیں کہ اس دنیا کے ذریعے سے آخرت کی کھیتی کو آخرت کی آباد کیا جاتا ہے اگر دنیا نہ ہو تو آخرت کیسے آباد ہو تو دنیا بری نہیں ہے دنیا میں پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جس کو ضروریات دنیا کہا گیا ہے مختلف چیزوں کو جمع کر کے پانچ چیزیں ہیں پہلی چیز جو ضروریات میں سے ہے لباس لباس ضروری ہے یہ دنیا تلبی نہیں ہے دوسری چیز کھانا رزق جو انسان کے پاس کھانے کی صورت میں آتا ہے یہ دنیا تلبی نہیں ہے تیسری چیز گھر اگر آپ کے پاس اپنا گھر ہے اور آپ نے اپنا گھر بنائے دنیا طلبی نہیں ہے گھر چاہیے مسکن چاہیے چوتھی چیز فرمایا رشتہ دار چاہے وہ زوجہ کی صورت میں ہو ماں باپ کی صورت میں ہو یا اولاد ان کی محبت یا ان کے لیے کوئی بندوبست کرنا یا وقت دینا یہ دنیا تلبی نہیں ہے اور پانچویں چیز معاش پیشہ کوئی پروفیشن کو اپنانا کام کرنا الکاسب حبیب اللہ جو روزانہ کام کرنے جاتا ہے وہ اللہ کا دوست ہے اللہ اس سے محبت کرتا ہے تو یہ پانچ چیزیں جو ہیں یہ اللہ نے یہ قرآن نے یہ حدیث نے ہمیں کہہ دیا کہ یہ بری چیزیں ہیں نہیں ہیں اس کو دنیا تلبی میں نہ لاؤ یہ ضروریات ہیں اور اس سے اگر ہم ایک قدم آگے جائیں ہم تو پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جو دنیا کی سہولیات میں آتی ہیں فضولیات میں بھی نہیں آتی دنیا طلبی میں بھی نہیں آتی اور ان کے بارے میں اجازت دی گئی ہے ان میں سے پہلی ہے سواری چاہے وہ زمانے میں گھوڑا اور اونٹ ہو یا قچر ہو یا آج کے زمانے میں گاڑی ہو یا جہاز ہو یا ٹرین ہو انسان اپنے لیے سواری اگر استعمال کرے اس کا مالک بنے جائز ہے اور اہلِ بیت نے ہمیشہ اپنے لیے بہترین سواری بہترین سواریاں رکھی ہیں بہترین سواریاں اور مومن کی نشانیوں میں سے دوسری چیز زیور جو زینت کے لیے ہے یہ بھی سہولیات میں ہے لیکن یہ جائز ہے تیسری چیز چیز سبحان اللہ فرمایا اپنا مہمان خانہ اچھا بناو مہمان نوازی کے لیے نا اگر وہ آراستہ ہو وہ سجا ہوا ہو تو اسلام اس کو اپریشییٹ کرتا ہے ہاں یہ فضول خرچی میں ہے یا پھر آپ کہیں فضولیات دنیا میں نہیں ہے چوتھی چیز تفریح اور اپنے بچوں اور اہل و ایال اور رشتہ داروں کو خوش کرنا اس کے لیے اگر خرش کیا جائے تو اس کو فضولیات دنیا نہیں کہا جائے تحفے دینا ہو یا ایک دوسرے کی خوشی کا خیال کرنا ہو تو یہ ایک روایت ملتی ہے کہ ایک دن موسم بہت اچھا تھا اچھی ہوا چل رہی تھی تو امیر کائیں انعات نے جناب فاطمہ سے سوال کیا کہ اگر آپ کا دل چاہتا ہے کہ اچھا موسم ہے ہم اس میں تھوڑا سیر و تفریح کریں تو ہم مدینے سے باہر چلتے ہیں تو وہ جسے ہم پکنک کہتے ہیں روایت ملتا ہے کہ اس طرح سے ایک پکنک باقاعدہ دونوں نے انجام دی یہاں تفریح اسلام میں جائز ہے اور پھر پانچویں چیز ہے جائدات یا ایسٹ بنانا کہ جو انسان اپنے لیے اس لیے رکھے کہ وہ اپنا فیوچر سیکیور کرے یا بچوں کے لیے کچھ اچھا چھوڑ جائے جیسے آپ لوگوں نے سنا ہوگا کہ ہمارے ائمہ کے پاس باغات موجود تھے ان کے پاس بھی ایسٹس تھے رسول خدا کے پاس تھے فدق کیا ہے جائد��ت ہے نا ایک ایسٹ ہے ایک پروپرٹی ہے جو آپ نے اپنی بیٹی کو خود تحفہ دی تھی یہ سہولیات ہیں یہ کچھ وسائل ہیں یہ کچھ اسسٹنس ہے جو زندگی کو بہتر کرنے کے لیے انجام دی جا سکتی ہے لہٰذا پانچ چیزیں ضرورت کی ہیں پانچ چیزیں رفاہ اور سہولت کی ہیں یہ رکھ لو اس میں کوئی اسلام اعتراض نہیں کرتا اس سے آگے اگر بات طلب و حرص و تماء میں آ جائے لالچ میں آ جائے اور زیادہ کی طلب ہونے لگے جس سے ہم اگر اردو میں کوئی اپروپریئٹ ورڈ سوچیں تو جنون ہو جائے دنیا کا طلب تو بہت ڈیسنٹ ہے نا بہت سوفٹ ہے لیکن کیا جنون ایسا چڑ جائے کہ جتنی دنیا مل جائے جتنی اچھی سواری مل جائے اور چاہیے جتنے بہترین زیورات ہوں اور چاہیے ایک معقول مقدار میں انسان اپنے گھر کو آراستہ کرے سجائے بنائے میمان خانہ کرے اچھی بات ہے اس سے آگے چلا جائے کہ جنون ہو کہ نا نا نا جو میرے پاس ہے وہ شہر میں کسی اور کے پاس موسیقی ہاں نا واہ یہاں آپ لوگوں کا جواب فورا آیا تو یہ انسان ہے لہٰذا اگر کوئی اس معقول حد سے نکل کے جنون میں چلا جائے وہ اسلام اس کو جائز یا اس کو اپریشیئٹ نہیں کرتا اس کے بارے میں ابھی میں ایک جنون کی دنیا طلبی کے جنون کی ایک چھوٹی سی مثال دوں جو آسانی سا سمجھ میں آئے گی کیا اسرائیل کے پاس پیسے نہیں ہیں کیا ان کے لوگ اس وقت ایک بہت بری حالت میں جی رہے ہیں کیا ان لوگوں کے پاس اپنے لوگوں کو یا اپنی کمیونٹی کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں لیکن جنون ایسا سوار ہے نا کہ اس طاق دولت کو دولت کو حرس کو تمہا کو اس کا پیٹ بھرنے کے لیے فلسطین کے لوگوں کو ان کے گھر سے نکال کے ٹینٹ میں ڈال کے بھی بھوک نہیں ختم ہو رہی یہ ہے جنون طلب دنیا جس میں اگر انسان چلا جائے نا تو ظالم و ستمگر اور قاتل ہو کر بھی اس کی پیٹ نہیں اس کی بھوک جاتی نہیں ہے اسی لیے اہل بیت نے اس کی مزمت فرمائی ہے ایک اتنی خوبصورت حد عدیث نے جو البلاغہ میرے مولا فرماتے ہیں عقل کی زبہگاہ جہاں عقل زبہ کر دی جاتی ہے وہ لالچ ہے عقل کی زبہگاہ عقل کا مقتل لالچ اور حرس اور گریڈ اور تمہاں ہیں اگر چاہتے ہو کہ تمہارے عقل کو ختم کر دیا جاؤ جاؤ جاؤ جاؤ اپنے آپ کو طلب دنیا میں ڈال دو لہٰذا جو عقل ہے وہ اس حد سے آگے نہیں جاتا ضروریات پوری کرتا ہے آپ اپنے لیے جو سہولیات ہیں ایک اچھی ایک صحت مند اور ایک انٹرٹیننگ زندگی گزارتا ہے اس سے آگے وہ لالچ و حرس میں نہیں جاتا وہ تمام میں نہیں جاتا اس سے آگے پھر وہ کیا کرتا ہے اس کے بعد کیا منزل ہے اگر فضولیات زندگی کو چھوڑ کر اس نے فضیلت کا راستہ ایک عقل مند مؤمن نے اختیار کیا ہے حدیث ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل محمد و عجل فرجان اجمعین یا علی یا علی آپ فرماتے ہیں کہ عاقل انسان کی دس نشانیاں ہیں کل ہم نے چار نشانیاں یاد کی تھی اگر آپ کو یاد ہو کہ ان میں سے پہلی نشانی کیا تھی کہ وہ اچھے سے سنتا ہے دوسری چیز محفوظ کرتا ہے تیسری چیز منتشر کرتا ہے یعنی آگے اسے سپریڈ کرتا ہے اور چوتھی چیز یہ کہ وہ اس پر عمل کرتا ہے سبحان اللہ زندہ رہیں سلامت رہیں جییں اس فرش کی زینت بنیں اور بی بی راضی ہوں ہاں میں بالکل ایکسپیکٹ نہیں کر رہی تھی آگے آگے آج یا علیؑ یا علیؑ یا علیؑ اللہم سلام فرمایا کہ ان چار کے بعد فرمایا دس نشانیاں ہیں ایک اقل مند انسان کی رسول خدا فرمایا کہ جب وہ کسی جاہل کو دیکھتا ہے تو وہ صبر کرتا ہے وہ کسی جاہل کو دیکھ کر صبر کرتا ہے دوسری چیز جب کسی ظالم اور ستمگر کو دیکھے اس سے دور ہو جاتا ہے اس کے ساتھ کوئی ہم نشینی اس سے بادشید تعلق ظالم کے ساتھ نہیں رکھتا تیسری چیز فرمایا جب کوئی نیکی دیکھتا ہے تو اس کے جانب بھاگتا ہے تیزی سے جاتا ہے کسی نیکی کو دیکھے تو جس طرح بھی آپ سے آگے ہو جائیں فوراں ہو گئے نا یہ آقل کی نشانی ہے کہ جیسی نیکی دیکھی فوراں آگے ہو گئے پھر اس کے بعد فرمایا کہ جو ہمبل متوازع ہوتا ہے آقل اس کے ساتھ توازع کرتا ہے اس کے سامنے اپنی کسی بڑائی کا تذکرہ نہیں کرتا اور جو اپنی بڑائی کا تذکرہ کرتا ہے اس کے اندر عقل کی کمی کی علامت ہے جو لوگ سیلف پریز میں سیلف آپسیشن میں ہوتے ہیں اس کا مطلب کیا ہے کہ یہ ہم اپنے بارے میں بات کریں دوسروں کو نہیں جج کرنا تو فرمایا کہ جو عاقل ہے وہ کبھی بھی کسی ہمبل انسان کے سامنے اپنی بڑائی بیان نہیں کرتا متوازع رہتا ہے پانچویں چیز فرمایا بولنے سے پہلے سوچتا ہے بولنے کے بعد نہیں چھٹی چیز شرم اور حیاء کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی چاہے وہ تنہائی میں ہو چاہے وہ لوگوں میں ہو وہ ہمیشہ شرم و حیاء کے ساتھ رہتا ہے پھر اس کے بعد ساتھویں چیز ہمیں یہ تھوڑا سا اس کے اوپر غور کرنے کی ضرورت ہے فرمایا کہ اگر اسے کوئی چیز اچھی لگے تو اس کی تعریف کرتا ہے اچھا بولتا ہے اچھا اس کو پریز کرتا ہے اگر کچھ اچھا لگے تو اچھا بولتا ہے اور اگر کچھ برہ برا لگے تو خاموش ہو جاتا ہے اچھائی کا اظہار کرتا ہے اور اگر کچھ برا لگے تو اس کے سامنے سکوت رکھتا ہے برائی کا اظہار نہیں کرتا آٹھویں چیز فرمایا وہ لالچ اور گریٹ کو اپنے قریب آنے نہیں دیتا ہر وہ راستہ جو انسان کی حرس اور تمہ اور لالچ کو بڑھا دیتا ہے اس سے اپنے آپ کو دور کرتا ہے اور فرمایا جب کبھی کہیں پر فتنہ اور لڑائی دیکھے تو وہ اپنے ہاتھ اپنے پاؤں اور اپنے مو کو اللہ کے حوالے کر دیتا ہے جب کہیں فتنہ یا لڑائی دیکھے تو ہاتھ پاؤں اور زبان اللہ کے حوالے وہاں ہم لوگوں میں کیا ہوتا ہے لڑائی ہوتی ہے تو رکھ کے ہاں نا آقل نہیں دیکھتا اللہ کے حوالے کرتا ہے کہیں لڑائی ہو یا کوئی فتنہ ہو تو ہم وہاں جا کر اپنا اپینین دیتے ہیں نا ہاں نا اور جس کی جتنی اتھارٹی اختیار ہو تو وہاں تو ضرور فرمایا کہ وہ اپنے ہاتھ پاؤں اور زبان کو اللہ کے حوالے کر دیتا ہے اور آخری چیز فرمایا جہاں کوئی فضیلت دیکھے کہ وہ اس کے ایٹریبیوٹس اور کالٹی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے فرمایا اس کو اپنا لیتا ہے اس کو اپنانے میں دیر نہیں لگاتا آپ کو نہیں لگ رہا کہ یہ باب المراد والوں کی بات ہو رہی ہے ساری ہاں نا ساری چیزیں ویسی ہیں بالکل یہاں امپلیمنٹ ہو رہی ہے پوری کی پوری فرمایا یہ دس چیزیں ہیں جو آقل کے اندر ہیں یہ دس باتیں سننے کے بعد کیا ہوتا ہے ہم سوچتے ہیں کچھ ہیں کچھ نہیں ہیں اور ہم کچھ لوگوں کے بارے میں بھی سوچتے ہیں وہ تو بالکل عقل مند نہیں ہے ہم بھی تو جلدی جلدی فتوے دے رہے ہوتے ہیں نا اپنے اندر ہی سہی لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ صفات ہمارے اندر ہوں کچھ نہ ہوں اگر ہم کو حقیقتاً تٹولنا ہے اور چاہتے ہیں کہ اس طرف بڑھیں اس جانب بڑھنے کا دوسرا راستہ ہے دیکھیں یہ بات تو سچ ہے نا کہ ہر کوئی اپنی سٹوری کا ہیرو ہوتا ہے ہاں نا لیکن کسی دوسرے کی سٹوری کا یا اس کی زندگی کا ویلن ہوتا ہے ہاں نا ایسا ہی ہے آپ اپنے لیے ہیرو ہیں لیکن کسی دوسرے کے لیے آپ زیرو ہیں اور ہو سکتا ہے وہ دوسرا جو آپ کے نزدیک ہیچ ہے وہ اپنے لیے ہی رو تو جب ہم لوگ اصلاح کی طرف جاتے ہیں تو صرف یہ نہیں دیکھنا ہوتا کہ آقل کیا ہے کم آقل کون ہے یہ بھی دیکھیں تاکہ پلس پائنس کرنے کے بعد ہم اس میں سے اپنے آپ کو فلٹر کر کے یا ستھرا کر کے یا ایویلویٹ کر کے نکالیں اپنا محاسبہ کریں کہ ہم کہاں کھڑے ہوتے ہیں صحیح ہے لہٰذا نہج البلاغہ کی حکمت نمبر 363 موسیقی جس میں امیر المؤمنین جو کم اقل ہے اس کی صفات بتاتے ہیں کہ جو نادان ہے جو کم اقل ہے وہ کون ہے آپ فرماتے ہیں کم اقل وہ ہے کہ جو کبھی اس کے سامنے کسی چیز کا موقع آئے تو وہ موقع کو آنے سے پہلے حاصل کرنے کی کوشش کرے جلد بازی کرے موسیقی مثال کے طور پر کیسے موقع سے پہلے ایک چیز کو انجام دے دے ابھی ایک پھل ہے جو پکا نہیں ہے کچھا ہے انگور کچھا ہے توڑ دیں گے تو کیا ہوگا پکے گا نہیں نا ہاں ضائع ہو جائے گا نا اس کا مطلب ہے سب نے توڑا ہوا ہے ہاں کھٹے تو ہوں گے لیکن وہ پکے گا ہی نہیں جو اس کا اصل مزا ہے مس کر دیا نا آپ نے اس کو جو آپ اس سے لطف اور جو ٹیس لینا چاہتے تھے وہ نہیں ملا کیوں جلدی توڑ دیا تو مولا اسی لیے فرماتے ہیں کہ کام مکمل ہونے سے پہلے جو جلد بازی کرے کم اقل ہے اور اس کی دوسری نشانی کیا ہے موقع آنے پر دیر کر دے ہاں جو عاقل ہے وہ دونوں سے فائدہ اٹھاتا ہے اور جو کم عقل ہے وہ کیا کرتا ہے کہ جب وقت ہوتا ہے اس سے پہلے کہ اس کو صحیح سے پورا موقع دیا جائے جلد بازی کرتا ہے اور اس میں وہ مصرف یا ہاتھ ڈال دیتا ہے اور جہاں اسے کر لینا چاہیے تھا وہاں دیر کر دیتا ہے مثال کے طور پر جہاں سیل لگتی ہے وہاں ہم فوراں پہنچ جاتے ہیں ہاں نا لیکن نماز قضاء ہو جاتی ہے ایسا ہی ہے جہاں کوئی نئی جگہ بنے نیا ریسٹورانٹ یا کوئی نئی ایسی چیز ہو وہاں فوراں پہنچ جاتے ہیں لیکن جو واجب حج ہے وعدہ نہیں ہوتا بیٹی کا جہیز پہلے تیار ہو جاتا ہے لیکن اپنی اولاد کو میں صرف بیٹی نہیں کہوں گی اپنی اولاد کو واجب کی ادائیگی سکھانے میں دیر ہو جاتی ہے اچھے قاری قرآن بنانے میں دیر ہو جاتی ہے ایک اچھے پروفیشن میں پہنچانے کے لیے اچھی یونیورسٹی میں اچھی جگہ پر ہم وقت سے پہلے اپنا نام لے کر ریجسٹر کروا کے لکھ چھوڑ دیتے ہیں کہ بچے کی تعلیم اچھی ہو میں نہیں کہتی بری بات ہے لیکن بہت جلدی کر لیتے لیکن جب اسی بچے کو قرآن میں ڈالنا ہو تو دیر ہو جاتے ہیں نہیں سیکھ سکتے اچھے قاری نہیں بن سکتے میں مفسر یا حامل قرآن کی بات نہیں کرتی صرف ریڈنگ کی بات کر رہی ہوں جو کم اقل ہے وہ جلدباز ہوتا ہے یا پھر دیر کر دیتا ہے اور جو جلدبازی ہے اس کے بارے میں خدا قرآن میں سورہ اسراغ آیت نمبر گیارہ میں کیا ارشاد فرماتا ہے یدعو الانسان بشر یہ جو جلدباز انسان ہے یہ اپنے لئے اللہ سے شر مانگتا ہے دو دعا اہو بالخیر جبکہ اس کو خدا سے خیر مانگے نا وہ شر مانگتا ہے کیوں یہ عادت کس لیے وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا کیونکہ انسان جلدباز ہے یہ جلدبازی ایسی ہے کیونکہ اسے فوراں فوراں چاہیے ہوتا ہے اس لیے وہ پھر چاہتا ہے کہ اس کو فوری طور پر مل جائے اس کے اندر ایک لہزے کا تحمل نہیں آتا وہ خود شر کا طالب ہو جاتا ہے اپنے لیے خود برائی کو ڈھونڈ لیتا ہے اور اسے اپنے اندر شامل اسی لیے کہتے ہیں تین چیزوں کے اندر جلدی نہ کریں یہ عقل کو کمزور کرتا ہے کم عقلی کا ثبوت ہے یہ آپ کی فضیلت میری فضیلت میں کمی لے کر آئے گا پہلی چیز فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں کسی کو جج کرنے میں فیصلہ کرنے کے ہی زمرے میں کسی کو جج کرنا ایک فیصلہ ہی ہے نا جلدی نہ کریں ہاں ہم لوگ تو فورا جلدی ادھر سے ادھر آئی نہیں ہوتی ہاں فورا کہتے ہیں ایسی لگ رہی ہے ایسا ہی ہے فرمایا کہ کسی کو بھی کسی کے بھی بارے میں رائے دینے کا فیصلہ اچھا نہیں ہے ایسا اس کو جلدی نہ کرو دو لوگوں کے درمیان قضاوت کرنی ہے جلدی نہ کرو وقت دو اس چیز کو جس طرح روایت کہتی ہے سبحان اللہ ایک شخص جو خود اہلِ بیت کے چاہنے والوں میں سے تھا خانہِ خدا میں موجود تھا خود تاریخ نقل کرتا ہے کہ مجھے یہ احساس رہتا تھا کہ میں لوگوں کو ایامِ حج میں نصیحت کیا کروں اور اس کی نظر پڑی ایک ایسے شخص پر جس نے ایسا بوسیدہ لباس پہناوا ہے جو اس کی نظر میں درست نہیں تھا وہ کہتا ہے میں احران ہوا میں نے کہا یہ کوئی لگتا ہے کوئی صوفی ہے میں اس کو ابھی جا کے سمجھاتا ہوں کہ ایسے لباس میں یہ کیوں آیا ہے وہ گیا اٹھ کر اور جب اس نے اس شخص کے چہرے کی طرف نگاہ کی تو ہمارے ساتھویں امام امام موسیٰ قاظم علیہ السلام غمص اللہ علیہ وآلہ وآلہ محمد وعجب آپ اس سادہ اور بوسیدہ لباس میں بیٹھے ہوئے تھے کہتا ہے جیسے ہی میں نے امام کو دیکھا تو امام نے مجھے دیکھ کر فرمایا اجتنبو کثیر الظان انا بعض الظنی اثمان ظن یعنی خیالات اجتناب کرو باز آجاؤ تم مجھے کپڑوں سے جج کر رہے تھے تم نے یہ سوچا کہ میں جا کے اس کو سکھاتا ہوں ابھی کہتا ہے میں نے امام کو امام کا چہرہ دیکھا نہیں تھا امام سے بات نہیں کی تھی لیکن امام سمجھ گئے کہ میں کس ارادے کے ساتھ آیا ہوں اور میری وہیں پر تنبیح کی مجھے وہیں سمیع گیا تھا نصیحت کرنے امام نے مجھے نصیحت فرمائی لہٰذا اسی طرح سلحِ ہدیبیہ مشہور ہے آپ جانتے ہیں سلحِ ہدیبیہ رسولِ خدا حج کرنے جا رہے تھے لیکن آپ کو حج کی اجازت نہیں ملی اور عمرے کی اجازت نہیں ملی اور آپ لوگ سلح کر کے ہدیبیہ کے مقام پر واپس آئے جو مشرقینِ مکہ کی جانب سے شخص آیا تھا رسولِ خدا سے بات کرنے کے لیے اس کا نام تھا سحیل ابن عمر عمر عین سے عین میم رے سحیل ابن عمر جب آیا آپ نے اگریمنٹ کیا تو فرمایا اس پہ بسم اللہ لکھو اس نے کہا بسم اللہ تو مسلمان لکھتے ہیں ہم کیوں لکھیں سحیل ابن عمر ایک اچھا ڈیسنٹ انسان تھا خوشبیان تھا خطیب تھا رسولِ خدا نے فرمایا ٹھیک ہے اگر نہیں لکھنا چاہتے پھر آپ نے فرمایا لکھو من رسولِ اللہ محمد کہنے لگا یہ ہم کیوں لکھیں رسولِ اللہ آپ رسولِ خدا ہیں نا اپنے آپ کو کہتے ہیں ہم تو آپ کو اللہ کا رسول نہیں مانتے تو اس نے جو اگریمنٹ ہے اس کو لکھتے ہوئے بار بار رسول خدا کے ساتھ بحث کی کہتے ہیں کہ دوسرے خلیفہ وہاں موجود تھے انہوں نے تلوار کھینچی انہیں غیرت آئی انہوں نے تلوار کھینچی اور کہا میں اسے قتل کر دوں گا نہ گستاخ ہے رسول خدا نے فرمایا ایسا نہ کرو جلدی نہیں کرو فرمایا ہو سکتا ہے اس کی خطابت اس کا کلام کہنا ہمیں فائدہ دے اور رسولِ خدا نے جلدباز کو پیچھے کر دیا اور اسے اجازت نہیں دی یہاں تک کہ جب فتحِ مکہ ہوئی تو فتحِ مکہ میں جو دو ہزار لوگ اسلام میں داخل ہوئے تھے ان میں سے ایک سحیل ابن عمر تھا اور آپ جانتے ہیں فتحِ مکہ کے بعد زیادہ عرصہ رسولِ خدا حیات نہیں رہے جب رسولِ خدا کی رہلت کی خبر مکہ میں آئی ہے تو تو کہتے ہیں مکہ کے وہ دو ہزار لوگ جو بس مجبوراً اسلام لائے تھے نا فتح مکہ کے وقت ان کے پاس چارہ نہیں تھا وہ مرتد ہونے لگے اور کہنے لگے ناظراللہ محمد گئے تو اسلام گیا اور اب اسلام کے اندر کچھ باقی نہیں بچا ہم تو بیابو گیا ہو گئے جیسے ہمارے پاس نہ زمین رہی نہ آسمان تو اس سے پہلے جیسے چل رہا تھا وہ بہتر ہے کہ ہم اپنے پچھلے حالات پر واپس آ جائیں کہتے ہیں کہ سحیل ابن عمر نے جب یہ دیکھا کہ لوگ مرتد ہو رہے ہیں اسلام سے پھر رہے ہیں آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے ایسا خطبہ ارشاد فرمایا کہ مکہ والے مرتد ہونے سے بچ گئے ہاں لگا لہٰذا رسولِ خدا اگر جلد بازی کرتے کے ایک اگریمنٹ کرنے سلح پر بیٹھے تم بار بار تنگ کرتے ہو نہیں فرمایا ٹھہر جاؤ ٹھہر جاؤ اسی طرح دوسری چیز جس میں جلدی نہیں کرنی چاہیے ہے وہ ہے رزق کے سلسلے میں خدا کا وعدہ ہے وہ رزق فراہم کرے گا اگر رزق نہیں پہنچ رہا تو اس رزق کے حصول کے لیے گناہ کا راستہ نہ لو معصیت کا راستہ نہ لو اپنے آپ کو پردہ آک رکھو جس طرح ایک روایت ہے جلدی سے سناو وقت میں کے دامن میں کبھی کہتے ہیں کہ ایک شخص کو امیر المؤمنین نے اپنا گھوڑا دیا اور فرمایا اس کو تھوڑی دیر غلام کو تھوڑی دیر یہاں سنبھال کے رکھو میں مسجد سے ہو کر آتا ہوں آپ اور جناب قمر جب واپس آئے تو دیکھا نہ گھوڑا نہ غلام حیران ہوئے آپ نے جناب قمبر سے فرمایا تلاش کرو جب تلاش کیا آگے پیچھے دیکھا گھوڑا مل گیا لیکن اس پر جو رکاب تھی وہ نہ ملی آپ نے فرمایا کہ یہ دو درہم ہیں جناب قمبر سے اس سے کوئی رکاب نہیں ہے لے کر آؤ جناب قمبر جب رکاب کی تلاش میں بازار گئے تو آپ نے دیکھا وہی غلام ہاتھ میں وہی رکاب لے کر کھڑا ہے آپ نے جناب قمبر نے اسے کچھ نہیں کہا کہا اس رکاب کی قیمت کتنی ہے اس نے کہا دو درہم جب دو درہم سے دو درہم دیئے آگئے جناب قمبر نے ماجرہ سنایا تو فرمایا امیر کائنات یہ دو درہم میں نے اس غلام کو اجرت کے لیے رکھے تھے اس نے جلدی کی حلال طریقے سے پہنچ جاتا اس نے اس کو حرام کر دیا ایک صحیح طریق اللہ نے اس کے لئے رکھا تھا لیکن وَاللَّهُ يَرْزُقُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ خدا کہتا ہے میں تمہیں وہاں سے دوں گا جہاں سے دوں گا تم نے سوچا بھی نہیں ہے ہاں نا تمہارے تصور میں بھی نہیں ہوگا وہ دے گا وہ عطا کرے گا لہٰذا جب رزق کی بات آئے تو مومن جلدباز نہیں ہوتا اور مومن اپنے رزق کو تیز کیسے کرتا ہے آپ کہیں گے بہت عرصہ ہو گیا محنت کر لی سب کچھ کر لیا لیکن نہیں ہو رہا مومن اپنے رزق کو جلدی اپنے پاس اٹریکٹ کیسے رزق کیسے پاس آتا ہے دو راستے ہیں موسیقی پہلا راستہ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ خدا قرآن میں کہتا ہے جو ہے اس پر شکر کرو گے نا تو جو ہے اس میں اضافہ کر دیں گے آپ کے پاس جو تھوڑا ہے نا اس پر دل و جہان سے شکر کریں اس کا ذکر شکر کیا ہے اس پر اس کا ذکر کریں اس کو اپریشیئٹ کریں اس کا استعمال کرتے ہوئے دل سے شکرن لیلہ کی تسبیح نہیں کہہ رہی میں آپ کہیں شکرن لیلہ کی تسبیح اب دیکھتی ہو کیا ہوتا ہے یہ والا شکر نہیں آپ کے پاس جو تھوڑا سا رزق ہے اس پر اگر انسان شکر گزار رہے خدا کا وعدہ اِلَا عَزِيدَنَّكُمْ زَادَا کر دوں گا جلدباز انسان کبھی بھی رزق تک نہیں پہنچتا ہاں وہ حلال کو حرام کر دیتا ہے دوسرا رزق کو جلدی پہنچانے کا یا ایک مقناطیس آپ کہیں ماغنٹ کی طرح اپنے پاس کھیچنے کا راستہ کیا صدقا و انفراد انفاق آپ کے پاس جو تھوڑا ہے امیر کائنات کیا کرتے تھے جو تھوڑا تھا اسے بھی راہ خدا میں دے دیتے ہیں اور جب آپ سے کہا گیا اب تو آپ کے پاس کچھ بھی نہیں بچا فرمایا خدا وند کریم مجھے اب میرے لیے بھی دے گا اور مزید انفاق کرنے کیلئے بھی دے گا ہاں پہ ایسا نہیں کہ جو میں نے دیا ہے وہ ہی چلا گیا اور وہ آ جائے گا نہیں پروردگار عالم مجھے اس سے زیادہ صدقہ کرنے کی اس سے زیادہ انفاق کرنے کی توفیق دے گا لہٰذا رزق کی فراوانی چاہیے ہیں جلدی چاہیے جلد بازی کس چیز میں کی جائے پہلی چیز یہ کہ انسان جو نعمت ہے اس پر شکر کرے دل سے اور دوسرا انفاق کرے یہ جلد بازی خدا کا طریقہ ہے جلدی سے رزق پہنچانا تیسری چیز جس میں جلد باز مؤمن نہیں ہوتا فرمایا کسی سے مانگنے میں وہ جلدی نہیں کرتا خالق سے مانگنے میں جلدی کرتا ہے وہ بندوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا وہ خدا کے سامنے زد کرتا ہے اتنی پیاری حدیث ہے صدیقہ کونین کی آپ فرماتی ہیں جب خدا سے دعا کرو تو زدی بچے کی طرح کرو وہ زدی بچہ جو اپنی ماں کے سامنے اس لیے بلگتا ہے کہ اس کا پورا اختیار ہے اور اس کی تنہا امید وہ ماں ہے وہ گلی میں جا کے نہیں کہتا بھوک لگ رہی ہے وہ کسی اور کو جا کے نہیں کہتا کہ بھوک لگ رہی ہے وہ ماں سے نہ صرف یہ کہتا ہے کہ بھوک لگ رہی ہے اپنی پسند کا کھانا بھی بتاتا ہے سیکنڈوں میں حاضر نہ ہو تو دادو فریاد بھی کرتا ہے کس لیے کس لیے کہ اس کی امید وہی ماں ہے فرمایا جب خدا سے مانگو تو زدی بچے کی طرح مانگو ہاں اللہ سے زد کرو اس سے کہو تو ہی دے گا اور بار بار اس سے جتنا بلک کے تڑپ کے تنہائی میں آنسوں سے باتیں کرتے ہوئے برتند ہوتے ہوئے باتیں کرتے ہوئے سوتے ہوئے باتیں کرتے ہوئے باتیں کرتے ہو واؤ کرتے ہو باتیں کرتے ہوئے ہر لمحہ اس خدا کے ساتھ انسان دعا گزار رہے لیکن مخلوق کے سامنے ہاتھ نہ پھیلے اس میں جلدی نہ کرے جلدی نہ کرے جس طرح ایک قرآن میں ہی پروردگار عالم حضرت یوسف علیہ السلام کا تذکرہ لکھتا ہے حضرت یوسف علیہ السلام زندان میں تھے اور جب آپ کا ایک ساتھی زندان سے باہر جانے لگا تو آپ نے اس سے کہا اذکرونی عند ربک فرمایا کہ قرآن کی آیت ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے زندانی دوست سے کہا کہ جب تم جاؤ گے عزیز مصر کے پاس تو اس کو میری یاد دلانا کہ وہ یوسف بھی ایک پڑھا ہے زندان میں اس کا کیا پروردگار عالم فرماتا ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام نے ہم سے نہیں کہا اپنے اس ساتھی سے کہا تو خداوند کریم نے حضرت یوسف سے سوال کیا اللہ اکبر دیکھیئے سمجھیں آپ یوسف ہیں سوال کیا تمہاری نیند میں خواب کون ڈالتا تھا آپ جانتے ہیں نا حضرت یوسف کو خواب آتے تھے کہ ستارے آپ کو سجدہ کر رہے ہیں جو نبوت کی اطلاع تھی سوال کیا خدا نے تمہاری نیند میں خواب کون ڈالتا تھا جواب آیا ہے پروردگار تو تمہارے باپ کی دل میں محبت کس نے ڈالی جواب آیا اے پروردگار تو جب تم اس کوئے کے اندر گر گئے تھے جو تمہاری قبر بننے والی تھی وہاں سے تمہیں نجات کس نے دی جواب آیا پروردگار تو تمہیں ایسا حسن و زیبائی کس نے دیا کہ لوگ تمہارے حسن کے شفتہ ہو گئے جواب آیا پروردگار تو کس نے لوگوں کے دلوں میں یہ فیصلہ الہام کیا کہ تمہیں اپنے قافلے میں ڈال کر ایک بہترین مسکن میں لے کر جائیں فرمایا پروردگار تو تو نے پھر سوال کیا کہ کس نے تجھے عزیز مصر کی خاتون کے سامنے معصوم ثابت کیا جواب آیا پروردگار تو نے سوال کیا وہ نوزائدہ بچہ جو اپنی ماں کی آغوش میں تھا اس کو کس نے الہام کیا کہ تیرے دفاع میں وہ کلام کرے جواب آیا پروردگار تو نے پھر خدا نے سوال کیا اے یوسف اب تجھے اس زندان سے نکالے گا کون حضرت یوسف سمجھ گئے کہ جب خدا کی جانب سے اذن ہوگا ہاں مجھے اگر جلدی نکلنا تھا تو میں اس کے آگے تڑپتا نا وہ نکالنے والا تھا ہم جب مانگنا ہوتا ہے تو خدا کے سامنے بلک کے تڑپ کے مانگے اور روایات میں ملتا ہے اللہ نے حضرت یوسف کی اس قید کو چھ سال اور طول دے دیا تاکہ انہیں سمجھ میں آئے کہ مانگنا کس سے ہے اور پھر اس کے بعد رہائی وہ اللہ سے مانگتے رہے لہذا یہ تیسرا عمر ہے دعا کرتے ہوئے انسان اللہ کی جانب متوجہ رہے مانگے تو اللہ سے مانگے جلدی نہ کریں غیر خدا سے مانگنے میں یہ تین چیزیں ہیں جس میں انسان جلدی نہ کرے پھر عقل مند کبھی بھی جلدی نہ کرے تو سست نہیں ہو جائے گا ہاں اگر ہم کہیں کہ جو کم عقل ہے وہ جلد باز ہے تو پھر جو عقل مند ہے وہ کیا تھوڑا لیزی ہے حدیث ہے کچھ کام ایسے ہیں جس میں جلدی کرنی چاہیے ہاں توازن ہونا چاہیے نا نصیحت میں بھی فرمایا کچھ کام ایسے ہیں جس میں انسان جلدی کرے پہلی چیز تشیح جنازہ اس میں جلدی شامل ہو جاؤ اپنے وارث کی جو آپ کا مرہوم ہے اس کی تجہیز و تکفین جلدی کرو اس کی تدفین جلدی کرو اس میں دیر نہ لگاؤ دوسری چیز فرمایا جسم مؤمن عقل مند سرعت سے تیزی سے انجام دیتا ہے وہ ہے اپنی اولاد کی شادی اس میں جلدی کرو تیسری چیز فرمایا نماز اس کے لئے جلدی کرتا ہے چوتھی چیز توبہ و استغفار اس میں دیر نہیں لگاتا فوراں کرتا ہے پانچویں چیز انفاق اور صدقہ جس میں جلدی کرتا ہے دیر نہیں لگاتا چھٹی چیز اللہ سے مانگنا دعا مناجات سوال سجدہ راز و نیاز دعا کرنے میں دیر نہیں کرتا ساتھویں چیز حق الناس کی ادائیگی فوراں انجام دیتا ہے حق الناس اس کی عدائیگی میں جلدی کرتا ہے اور آٹھویں چیز مریض کی آیادت جب مریض کی آیادت کرنی ہے اس میں فوراں پہنچ جاتا ہے یہ وہ کام ہے ایسا نہیں ہے کہ جو عقل مند ہے وہ سست ہے کچھ کام بس وہ زرہ جلدی زیادہ جو جلدی کرنے والے کام ہیں وہ یہ ہیں اور جن میں جلدی نہیں کرنی چاہیے وہ میں نے آپ کے سامنے بیان کیے جس کے پاس جس قدر عقل کے استعمال میں اور اپنے کردار میں توازن ہے وہ اتنا کربلائی ہے کربلا میں وہ پہنچے جو جانتے تھے کہ امام کے سوال کا امام کی نسرت کی پکار پر لبیق کہنی ہے فوراں حاضر ہو گئے جلدی کی دیر نہیں لگائی اور آج کا دن بالخصوص منصوب ہے ان دو شہزادوں سے جن پر ان کی ماں نے گریہ نہیں کیا اللہ اکبر مجھے یقین ہے یہاں میری جیسی بہت ساری ماں بیٹھی ہیں جن کو اللہ نے اولاد دی ہے اور وہ جان سمتی ہیں کہ اولاد کی خوشی کیا ہوتی ہے اور اولاد کا غم کیا ہوتا ہے ہم جناب زینب کے غم کا حق تو نہیں ادا کر سکیں گے البتہ میں بطور خاص سفارش کروں گی کہ اونو محمد پر گریہ کرتے ہوئے یہ بات آپ کے ذہن میں رہے کہ کربلا کی یہ وہ واحد شہید ہیں جن پر ان کی باں روئی نہیں ہے اور یہ خدمت ہے جو آپ جنابِ زینبِ کبرا کے لیے انجام دیں گے بالخصوص تاریخ کہتی ہے شبِ آشور تمام ماں اپنے بچوں کو اپنی آغوش میں لیے بیٹھے وقت کے امام کی نسرت سے سکھا رہی تھی وقت کے امام کی نسرت سکھا رہی تھی جناب زینبِ قبرہ آپ بھی اون و محمد کو اپنے آغوش میں لیے اپنے سینے سے لگائے کیا لوریاں دے رہی تھی اللہ اکبر فرما رہی تھی تم جعفرِ تیار کے پوتے ہو تم حیدرِ کررار کے نواسے ہو تمہارے دادا جعفرِ تیار بہترین مجاہد تھے راہِ خدا میں جہاد کرتے ہوتے ہوئے انہوں نے اپنے دونوں شانے کٹھوا دیئے اور رسول خدا نے بشارت دی کہ جعفر تیار جنت میں دو پروں سے پرواز کرتے ہیں رسول خدا نے تمہارے دادا کے لیے یہ بشارت دی ہے پھر فرمایا کہ تمہارے نانا علی مرتضی ہیں جن کے لیے اللہ نے تلوار آسمان سے زمین پر بھیجی تھی جس کو لے کر سید الملائکہ آئے تھے اور رسول خدا نے فرمایا تھا کہ علی اللہ کے شیر ہیں فرمایا تم نے خون جعفر تیار اور خون حیدر کررار شامل ہے لہٰذا کل جب تم میدان میں جاؤ تو اپنی پیٹھ نہ دکھانا میدان میں ڈٹے رہنا اور اس جان کا بہترین حاصل یہ ہے کہ اسے فدائے حسین کر دیا جائے اللہ اکبر دنیا میں کوئی ماں اپنے بچے کو مرنے مرنا نہیں سکھاتی ہے یہ حوصلہ ہے کربلا والی ماں کا کہ وہ شب اشور اپنے بچوں کو مرنا سکھا رہی ہیں ہر ماں لپک کر اپنے بچے کی جان بچاتی ہے یہ حب حسین کا ایسا کمال ہے کہ وہ انہیں سجا سجا کر مقتل میں بھیجتی ہے روایت ہے کہ جب خانوادہ جناب جعفر تیار کی باری آئی ہے تو جناب اونو محمد کو آمادہ و تیار کر کے میدان کی جانب بھیجا گیا روایت کہتی ہے حمید بن مسلم لکھتا ہے کہ جب آنو محمد میدان کی جانب آ رہے تھے تو وہ دونوں ساتھ تھے تن پر کرتہ پہنا ہوا تھا بدن اتنے چھوٹے تھے عمر اتنی چھوٹی تھی کہ ان کے سائز کی زراہ کم عمر بچوں کے لیے زراہ نہیں بنتی کیونکہ وہ میدان میں نہیں جاتے ان کے تن پر زراہ نہیں تھی اور وہ میدان کی جانب دونوں ساتھ چلتے ہوئے آ رہے تھے اور وہ اپنے حوصلے کا بیان کر رہے تھے یہاں تک کہ عمر ابن سعد نے اپنے لشکر میں اعلان کیا اور کہا کہ انہیں کم سن بچہ نہ سمجھنا یہ بنی حاشم کا خون ہے اگر ان پر تم قابض ہونا چاہتے ہو غالب ہونا چاہتے ہو تو ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دو اور پھر جنگ کرنا لہٰذا چار جانب سے اونو محمد پر حملے کیے گئے اور دونوں بچوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا گیا اور پھر جب حملے ہوئے تاریخ ایک جملہ لکھتی ہے ماں کے لیے یہ ایک جملہ بہت ہے تاریخ کہتی ہے اونو محمد اتنے کم سن تھے کہ جب انہیں ضربت لگتی تو وہ ماں کو پکارتے تھے سلام زینبِ کبرہ تیری سماعت پر سلام زینبِ کبرہ تیرے اس سننے پر کہ مقتل سے اماما کی آواز آئی اور تیرا سر سجدے میں رہا تو نے رب کے سامنے ان کی صداوں کو اپنا حقیر سا تحفہ کہہ کر پیش کیا اللہ اکبر جب انہوں محمد نے سلام آخر دے دیا روایت کہتی ہے یہ پہلا مقام تھا جب امام حسین علیہ السلام نے جناب اب الفضل کو علمدار کو بلائے اور فرمایا اے عباس میرے ساتھ چلو یہ قتلگاہ سے جو لینے میں جا رہا ہوں اس کے لیے مجھے تیری ہمراہی چاہیے ہے اللہ اکبر شان دیکھئے مقتل کی عباس آ رہے ہیں حسین آ رہے ہیں تاکہ زینب کے اجڑے ہوئے چمن کو سینے سے لگائے دو مرجھائے ہوئے پھول مولانے سینے سے لگائے خیموں کی جانب جب پلٹے دیکھا سب بی بیاں مجازہ دارو یہاں زینب کا فرض ادا کرنا ہے دیکھا سب بی بیاں موجود ہیں وہ جو استقبال میں سب سے آگے ہوتی تھی وہ موجود نہیں آپ نے پوچھا زینب کیوں نہیں ہے تو بتایا گیا زینب سجدے میں ہے حمد خدا وجہ لاتی ہے اور کہتی ہے میں اس لیے استقبال کو نہ آئی کہ کہیں میرے آنسو دے حسین یہ نہ سوچے کہ میری بہن کی آنکھوں میں آنسو اولاد کی غم کی وجہ سے آئے اللہ اکبر زینب نہ روئی جب انہوں محمد کے جنازے آئے زینب نہ روئی جب گنجے شہیدہ میں ان کے بدن کو رکھا گیا زینب نہ روئی جب گیارہ مہر محرم کو کربلا سے نکلی زینب نے آنو محمد کے سر نو کے نیزہ پر دیکھے حسین کو روتی رہی آنو محمد کو نہ روئی بیس محرم پلٹ کر زینب آئی ایک ایک پر روئی آنو محمد پر نہ روئی کربلا سے جب پہنچی مدینہ زینب اپنے گھر میں آئی زینب آنو محمد کے بستر دیکھے آنو محمد کا ہجرا دیکھا آنو محمد کے ساتھی دیکھے میں ماں ہوں میرا دل کہتا ہے تڑپ گئی ہوگی زینب سوئے کربلا رخ کر کے کام ہوگا اے میرے لال اے میرے مجاہد اے میرے شہ سوار ماں کا تجھ کو سلام ماں کا تجھ کو سلام وَسَعْلَمَ الَّذِينَ ظَلَمُوا اَيَّامٌ قَلِبِيًا قَلِبُونَ اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُ اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُ ماتمِ حُسَن