دنیا کا سب سے بڑا سیریل کلر شاید کبھی بھی پکڑا نہیں جاتا اگر اس کو کمپیوٹر چلانے آتا۔ سوچیں کہ ایک ایسا شخص سیریل کلنگ کر رہا ہو جو اپنے ہی شکار کا دوست بھی ہو، شہر کا جانا مانا نام بھی ہو اور اوپر سے ایک ڈاکٹر بھی۔ یہ حیرت انگیز کہانی ہے ڈاکٹر ہیرولڈ شپمن کی جس نے اپنی کلینک کو جان بچانے کے لیے نہیں بلکہ جان لینے کے لیے استعمال کیا۔ انگلینڈ کے ہائیڈ نامی ایک چھوٹے ٹاؤن میں جہاں صرف تیس ہزار لوگ بستے ہیں وہاں پر تئیس سالوں تک وہ سب کی ناک کے نیچے سیریل کلنگ کرتا رہا دھائی سو سے بھی زیادہ لوگوں کو موت کی نیند سلانے کے بعد بھی کسی کو بھی ڈاکٹر ہیرالڈ شپمین پر شک نہ ہوا اور شاید کبھی ہوتا بھی نہیں اگر وہ ایک چھوٹی سی غلطی نہ کرتا لوگوں کو مارنے کی وجہ کیا تھی کیوں وہ اتنے عرصے تک پکڑا نہیں گیا اور پولیس کو کونسا سراغ ملا جس نے برسوں سے ہونے والی قتل و غارت کو ایک ہی پل میں بے نور نقاب کر کے رکھ دیا زیم ٹی وی کی ویڈیوز میں ایک بار پھر سے خوش آمدید ناظرین ڈاکٹر ہیرالڈ شپمن انگلینڈ میں مینچسٹر کے قریب ہائیڈ نامی ایک چھوٹے ٹاؤن میں اپنی کلینک چلایا کرتا تھا یہاں کی ٹوٹل آبادی تیس ہزار کے قریب تھی اور اس میں سے تین ہزار لوگ ڈاکٹر شپمن کے پیشنٹ تھے ڈاکٹر زیادہ تر ایسے پیشنٹس کو ٹارگٹ کرتا جو اکیلے رہتے تھے اور کافی بھوڑے ہوتے تھے جن کی موت پر کسی کو شک بھی نہ ہو سکے ڈاکٹر شپمین ان پیشنٹس کو زیادہ سے زیادہ ٹائم دیتا وہ بھی ان کے گھر جا کر وہ ان کے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ان کی باتیں سنتا ان کو یہ احساس دلاتا کہ بے شک ہی وہ اکیلے ہیں لیکن ڈاکٹر شپمین ان کی ہر بات سننے کو بیٹھا ہے یہاں تک کہ کچھ پیشنٹس ڈاکٹر شپمن پر اتنا بھروسہ کرتے کہ انہوں نے اپنے گھر کی چابیاں بھی اس کو دے رکھی تھی اپنے اسی رویے کی وجہ سے وہ ہائیڈ میں کافی مشہور ہو چکا تھا کیونکہ لوگوں کو لگتا تھا کہ ڈاکٹر شپمن صرف بھی باتوں کے ذریعے بوڑھوں کا علاج کر دیتا ہے۔ پر اس سب کی آڑ میں ڈاکٹر شپمن باتوں باتوں میں ان کی ساری ڈیٹیلز نکلواتا تھا۔ کہ کون کس وقت اکیلا ہوتا ہے، کس کے پاس کتنی دولت اور کتنی جائیداد ہے، گھر میں کون کون آتا ہے اور رشتے دار کہاں رہتے ہیں۔ جب ڈاکٹر شپمن کو تسلی ہو جاتی تو وہ اپنے پیشنٹ کو میڈیسن کا اوورڈوز دے کر مار دیتا تھا اب کیونکہ وہ پیشنٹ پہلے ہی اسی سال سے زیادہ کے ہوتے تو ان کی موت پر کسی کو شک بھی نہیں ہوتا کئی سالوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا پکڑا جانا تو دھور کی بات ان پر کسی کو شک بھی نہیں ہوا صرف تب تک جب تک وہ خود غلطی نہیں کر بیٹھا ڈاکٹر شپمن نے اپنے کیریئر کی شروعات ہائیڈ سے ستر کلومیٹر دور پانٹی فریکٹ نامی ٹاؤن سے کی تھی جہاں وہ ایک ہسپیٹل میں جاب کرتا پھر نائنٹین سیونٹی فور میں وہ پانٹی فریکٹ چھوڑ کر ٹاڈ مارڈن چلا گیا جہاں وہ ابرہم اور مراد میڈیکل سینٹر میں جرنل پریکٹشنر کی پوزیشن پر لگ گیا یہاں جوب کے دوران وہ کچھ پیشنٹس کو پیتھرڈین نامی ڈرگ کی زیادہ کونٹیٹی پریسکرائب کرتے ہوئے پکڑا گیا جو اصل میں اس کو خود استعمال کرنی ہوتی تھی پیتھرڈین ہے تو اصل میں ایک پین کلر لیکن یہ کافی نشہ آور میڈیسن ہے ڈاکٹر شپمن کو پیتھرڈین کے نشے کی عادت تھی اور وہ جان بوچ کر اپنے پیشنٹس کو یہ میڈیسن پریسکرائب کرتا تھوڑی ان کو دیتا جبکہ زیادہ مقدار خود استعمال کرتا تھا جبکہ پیشنٹس کو یہ تھوڑی میڈیسن کی ضرورت بھی نہیں ہوتی اس سے ہوتا یہ تھا کہ پیشنٹس یہ میڈیسن لینے کے بعد بہت اچھا محسوس کرتے جبکہ اصل میں ان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ نشا کر رہے ہیں یہی وجہ تھی کہ شپمن کے پیشنٹس نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی طرف اٹریکٹ ہوتے تھے پکڑے جانے کے بعد ہسپٹل ایڈمنسٹریشن نے ڈاکٹر شپمن کو نکال دیا اور بعد اس کے لائسنس کینسل ہونے تک پہنچ گئی موسیقی لیکن شپمن نے چھ سو پاؤنڈز کا فائن دے کر خود کو ایک ریہیبلیٹیشن سینٹر میں داخل کروا دیا جس سے اس کا لائسنس کینسل ہونے سے بچ گیا ریہیب سینٹر میں تھوڑا وقت ہی گزارنے کے بعد جب سارے اس کو بھول گئے تو وہ نائنٹین سال 1977 میں ہائیڈ آ گیا جہاں وہ ڈانی بروک میڈیکل سینٹر میں جرنل پریکٹیشنر لگ گیا 1980 میں وہ جپی کی پوزیشن پر پریکٹیس کرتا رہا اور اس بیچ نہ اس نے نشا چھوڑا اور نہ موقع دھونڈ کر بھوڑے پیشنٹس کا کھانا قتل لیکن ان مرڈرز کی فریکونسی 1993 سے کافی بڑھ گئی جب اس نے ہائیڈ میں ہی اپنی خود کی کلینک کھولی اور شہر میں ایک اچھا نام بنا لیا اگلے کئی سالوں تک معاملہ ایسے ہی چلتا رہا اور کسی کو بھی ڈاکٹر کی ان حرکتوں پر شک نہیں ہوا پہلی بار مارچ 1998 میں ڈاکٹر لنڈا رینالز جو کے شپمن کے کلینک کے اوپوزٹ ہی دوسرے ہسپٹل بروک سرجری میں جاپ کرتی تھی انہوں نے شپمن کے پیشنٹس کے بیچ زیادہ مرنے کے ریلی ریشو پر تشویش کا اظہار کیا ان کا کہنا تھا کہ شپمن جو صرف ایک چھوٹی سی کلینک چلاتا ہے پچھلے تین مہینوں میں اس کے سولہ پیشنٹس مرے ہیں جبکہ اسی پیریٹ کے دوران بروک سرجری جن کے پاس شپمن کی کلینک سے تین گناہ زیادہ پیشنٹس ہیں ان کے پاس صرف چودہ پیشنٹس کی موت ہوئی ہے یہ شک تب مزید بڑھ گیا جب یہ معلوم پڑا کہ ڈاکٹر شپمن کے سولہ کے سولہ پیشنٹس کی موت کے بعد ان کو دفنایا نہیں بلکہ جلا دیا گیا تھا آپ کو یہاں بتاتے چلیں کہ زیادہ تر کرسچن لوگ مرنے کے بعد اپنے پیاروں کو دفناتے ہیں صرف کچھ لوگ جلانے کا فیصلہ کرتے ہیں ڈاکٹر لنڈا نے اپنے شک کا اظہار ایک ریپورٹ کی صورت میں مینچسٹر کے کورونر سے کیا جس میں ان تمام ڈیٹیلز کے ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ ڈاکٹر شپمین کے ان سولہ پیشنٹس میں زیادہ تر بوڑھی خواباتین تھی جو اپنے گھر میں ہی مری ہوئی پائی گئی اور ہر بار یہ اتفاق نہیں ہو سکتا کہ ان میں سے زیادہ تر پیشنٹس کی موت کے وقت ڈاکٹر شپمین وہیں اکیلے ان کے گھر میں موجود تھے ڈاکٹر لنڈا کا کہنا تھا کہ گھر میں بیماری کی وجہ سے ہونے والی موت زیادہ تر بیڈ پر ہوتی ہے لیکن ڈاکٹر شپمن کے پیشنٹس کی موت عجیب طریقے سے کرسی پہ بیٹھے بیٹھے اچھے پہنے ہوئے کپڑوں میں ہوئی اور دوسرا اس وقت یا تو ڈاکٹر شپمن ان کے گھر پہ ہی تھا یا پھر پہلی بار وہی گھر میں گیا اور پیشنٹ کو مردہ حالت میں پایا جو کہ کسی بھی طرح سے نارمل نہیں ہو سکتا موسیقا اس رپورٹ کی بیسس پر ایک انویسٹیکیشن بھی ہوئی لیکن پولیس کو ڈاکٹر شپمن کے خلاف کوئی ٹھوس ایویڈنس نہیں ملا اور ایک مہینے کے بعد یہ انویسٹیکیشن بند کر دی گئی جب ڈاکٹر ہیرالڈ شپمن کے پیشنٹس مر جایا کرتے تھے تو وہ خود ہی فارم بی سائن کرتا تھا فارم بی وہ فارم ہے جو مریض کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کو سائن کرنا ہوتا ہے جس میں وہ مریض کی ڈیتھ کا کاؤز لکھتا ہے کہ فارم سی جو دوسرے ڈاکٹر کو سائن کرنا ہوتا ہے وہ بھی زیادہ تر کیسز میں شپمن کے دوست ڈاکٹرز یا ان لوگوں سے سائن کروایا جاتا جو اس پر شک نہیں کرتے تھے اس طرح شپمن اپنے پیشنٹس کے ڈیتھ سیٹیفیکیٹس میں فرضی انفورمیشن لکھ کر انہیں آرام سے کریمیشن کے لیے بھیج دیتا تھا اور کسی کو کچھ شک نہیں ہوتا تھا اس پروسس کی وجہ سے کئی ڈیتھز ان انویسٹیگیٹڈ رہ گئیں اور یہی وجہ تھی کہ شپمن اپنی قتل و غارت کو آسانی سے چھپا پایا۔ انویسٹیگیشن بند ہونے کے بعد شپمن نے تین اور لوگوں کو بھی موت کی نیند سلا دیا لیکن پکڑے جانے کا وقت دور نہیں تھا۔ شپمن کا آخری شکار ہائیڈ کی فارمر میئر 81 ایرز کی کیتھلین گرنڈی تھی جو 24 جون 1998 کو اپنے گھر میں ہی مر گئی۔ اور یہاں پر بھی ڈاکٹر شپمن ہی وہ آخری شخص تھا جس نے کیتھلین کو آخری بار زندہ دیکھا تھا اس نے بعد میں ڈیتھ سیٹیفیکیٹ پر سائن کیا اور اس میں موت کی وجہ اول ایج لکھی کیتھلین کی بیٹی انجیلا وڈرف خود ایک وقت جن کو اپنی ماں کی پر اسرار موت پر تب شک ہوا جب ان کو اپنی ماں کی ایک وسیحت ملی جس میں انہوں نے اپنا گھر ڈاکٹر شپمین کے نام لکھا تھا ڈاکٹر شپمین اس فیملی کے کافی کلوز تھے اور وسیحت میں ان کو گھر مل جانا شک کی بنیاد نہیں بنا بلکہ انجیلا کو شک تو اس بات پر تھا کہ ان کی ماں کے دو گھر تھے جبکہ وسیحت میں صرف ایک گھر کا ذکر ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وسیحت کسی ایسے شخص نے لکھی ہے جس کو دوسرے گھر کے بارے میں علم نہیں تھا اور وہ ڈاکٹر شپمین ہی تھا انجیلا وڈرف پولیس کے پاس گئیں جنہوں نے دوبارہ سے انویسٹگیشن شروع کر دی کیتھلین گرنڈی کی باڈی کو قبر کھود کر نکالا گیا اور اٹاپسی کے لیے بھیجا گیا معلوم پڑا کہ ان کی باڈی میں ڈائیا مورفین یعنی کہ ہیروین کے کافی زیادہ ٹریسز پائے گئے ہیں پولیس نے جب ڈاکٹر شپمنٹ سے پوچھا تو اس کا کہنا تھا کہ گرنڈی ہیروین کا نشا کرتی تھی اور یہ بات اس نے ان کا علاج کرنے سے پہلے اپنے کمپیوٹر میں بھی لکھی تھی ڈاکٹر شپمن نے حال ہی میں کمپیوٹرائزڈ میڈیکل جرنل میں انٹریز کرنا شروع کی تھی لیکن ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس انٹری میں انہوں نے موت سے پہلے کی ڈیٹ تو دال دی ہے لیکن کمپیوٹر میں اس فائل کی لاسٹ ایڈٹ ڈیٹ آٹومیٹکلی سیو ہو جاتی ہے پولیس نے جب اس کمپیوٹر میں انٹریز کی جانچ کی تو معلوم پڑا کہ شپمن نے یہ انٹری کی کیتھلین کی موت کے بعد کی تھی صرف یہی ایک ثبوت شپمن کو ارنسٹ کرنے کے لیے کافی نہیں تھا بلکہ پولیس کو وہ ٹائپ رائٹر بھی ملا جس کو استعمال کر کے جھوٹی وسیحت لکھی گئی تھی اس کا معلوم ایسے پڑا کہ شپمن کے ٹائپ رائٹر میں کچھ کریکٹرز خراب تھے اور ٹھیک وہی کریکٹرز گرنڈی کی وسیحت میں بھی مزنگ تھے سیونتھ سپٹیمبر نائنٹین نائنٹی ایٹ کو پولیس نے ہائٹ کے جانے مانے ڈاکٹر ہیرالڈ شپمن کو ارنسٹ کرنے کے لیے جب یہ بات کھلی تو وہ لوگ بھی سامنے آگئے جن کے پیاروں کو شپمن نے پہلے مارا تھا ان کو شک تو تھا لیکن وہ شہر کے جانے مانے ڈاکٹر کے سامنے آواز نہیں اٹھا سکے پولیس نے پندرہ دوسرے پیشنٹس کو بھی انویسٹیکیٹ کیا جو کچھ عرصہ پہلے ہی شپمن کے ہاتھوں مرے تھے ان ساتھ سارے کیسز میں ایک خاص پیٹرن دیکھا گیا جس میں پیشنٹ کو ڈائیامورفین کا جان لیوہ ڈوس دیا جاتا ان کے ڈیتھ سیٹیفیکیٹ میں وہ خود سائن کرتا اور موت کی وجہ میں اولڈ ایج لکھتا تھا کریمیشن کی سلا بھی شپمن خود ہی دیتا تھا تاکہ جلنے کے بعد سارے ثبوت مٹ جائیں شپمن انکوئری کے دوران ان سب پیشنٹ کے کیسز کو دوبارہ دیکھا گیا جو شپمن کے کیر میں مر گئے تھے انکوائری ٹیم نے ان سب ڈاکیمنٹس، ڈیتھ سیٹیفیکیٹس اور میڈیکل ریکارڈز کو انویسٹیگیٹ کیا جو شپمن نے ہینڈل کیے تھے اس کے علاوہ ان لوگوں کی فیملی سے بھی انٹرویو کیا گیا جن کے ریلیٹیوز شپمن کے پیشنٹ تھے اور کچھ باڈیز کو واپس نکال کر ان کا فورنسک پوسٹ موٹم بھی کیا گیا یہ پروسیس بہت ڈیٹیل تھا اور اس دوران یہ معلوم ہوا کہ شپمن نے نائنٹین سیونٹی فائیو سے لے کر پکڑے جانے تک ٹوٹل دو سو اٹھارہ پیشنٹس کو قتل کیا ہے یہ تو کنفرمڈ نمبر ہے لیکن کئی کیسز میں ثبوت کی کمی کی وجہ سے ان کو کنفرم نہیں کیا گیا ایک اندازہ ہے کہ یہ نمبر دو سو ساٹھ تک بھی ہو سکتا ہے کوٹ نے پندرہ موت کے جروب میں شپمن کو پندرہ بار سزائے موت سنائی یعنی وہ جب تک زندہ ہے جیل سے باہر نہیں آئے گا پر 2004 میں اس نے اپنے سیل کی سلاکھوں سے بیڈ شیٹ باندھ کر خود کو فانسی دے دی اس کی موت کے بعد اس کے جیل کے ایک ساتھی نے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ شپمن نے اصل میں دو سو اٹھارہ یا دو سو ساٹھ نہیں بلکہ پانچ سو آٹھ لوگوں کا قتل کیا تھا اور یہ بات شپمن نے خود اس کو بتائی تھی پر شپمن کے اتنے زیادہ قتل کرنے کی اصل وجہ آج تک سامنے نہیں آسکی کچھ لوگ اس کو سائیکو کہتے ہیں کچھ پیسہ کمانے کا طریقہ اور کچھ لوگ شپمن کی ماں کی موت کا اثر بھی سمجھ رہے ہیں کیونکہ اس کی ماں جو کہ کینسر پیشنٹ تھی ان کو پین کلر کے طور پر مورفین دیا جاتا تھا ایکسپرٹس کا ماننا ہے کہ شاید شپمین اپنے پیشنٹس کو بھی ایسے ہی مورفین دے کر مرتا ہوا دیکھنا چاہتا تھا امید ہے زیم ٹی وی کی یہ ویڈیو بھی آپ لوگ بھرپور لائک اور شیئر کریں گے آپ لوگوں کے پیار بھرے کومنٹس کا بے حد شکریہ ملتے ہیں اگلی شاندار ویڈیو میں