السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہو نحمده ونسلی لرسوله الكریم اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم رب شرح لی صدری ویسر لی امری وحلو الاقدتم اللسانی يبقه قولی ساتمہ پارہ شروع کرتی ہو اللہ کے نام سے جو بے انتہام حربان نهایت رحم فرمان والا ہے جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوں سے تر ہو جاتی ہیں وہ بول اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لیں یہاں ذکر ہو رہا ہے ان نسارہ کا جن کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پہنچا انہوں نے آپ کی تعلیم کو سنا اور پھر اس کو قبول کر لیا آپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں نے دو بار حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی وہاں کا نجاشی بادشاہ بہت عادل بادشاہ تھا اس نے مسلمانوں کو ویلکم کیا اور ہر طرح کی پروٹیکشن دی جب کفارِ قریش کو یہ پتا چلا کہ مسلمان تو جا کر بہت آمن میں آرام میں آگئے ہیں تو پیچھے سے انہوں نے جا کر ان کو بہکانے کی کوشش کی دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط عمر بن عمیہ کے ہاتھ نجاشی بادشاہ کے لیے بھیجا جب وہ خط ان کے سامنے پڑھا گیا اور پھر جعفر رضی اللہ عنہ نے سورة مریم کی آیات کی تلاوت کی تو اس کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور نجاشی مسلمان ہو گیا اور ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ نجاشی نے اپنے کچھ علماء نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجے تھے اور انہوں نے جب آپ کو دیکھا اور آپ سے کلام سنا تو ان کی بھی یہی کیفیت ہوئی کیا کیفیت وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ أَرْجَبْ أُنہُنِ السُّنَا وہ جو رسول کی طرف نازل کیا گیا کیا تھا وہ؟ قرآن تو قرآن سن کر ان کی کیفیت کیا ہوئی؟ تَرَاْ أَعْيُنَهُمْ تَفِیدُ مِنَ الدَّمَ تم دیکھتے کہ ان کی آنکھیں آنسوں سے چھلک رہی ہیں کیوں؟ مِمَّا عَارَفُ مِنَ الْحَقِّ اس لیے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا تھا پھر جو شخص حق کی تلاش میں ہو حق کو پہچان لے پھر حق کو قبول کر لے اس کے دل پر قرآن مجید کا گہرا اثر ہوتا ہے کیونکہ ہر انسان کے اندر حق کو جاننے صحیح رستے پر چلنے کی جتنی طلب اور تڑب ہوتی ہے اسی کے مطابق یہ قرآن اس کے دل پر اثر کرتا ہے تو ان کا پھر قول کیا تھا ان کی زبان سے کیا نکلا يَقُولُونَا وہ کہہ رہے تھے رَبَّنَا آمَنَّا اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ تو تو ہمیں گواہوں کے ساتھ لکھ لے وہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سن کر اس پر ایمان لے آئے اور پھر ان کی تمنا کیا تھی کہ انہیں شاہدین کے ساتھ لکھ لیا جائے یہ شاہدین کون ہے شاہدین شاہد کی جمع ہے شاہد کہتے ہیں گواہی دینے والے کو اور گواہی دینے والوں سے مراد یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سورة البقرہ 143 میں بھی آتا ہے وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَہِدًا اور اسی طرح ہم نے تمہیں سب سے بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو گواہی دینے والے کس بات کی؟ حق کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کی اللہ سبحانہ وتعالی کی توحید کی اور رسول تم پر شہادت دینے والا بنے پھر اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے بحث بن حکیم اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ تم نے ستر امتوں کو پورا کیا ہے یعنی دنیا میں اللہ سبحانہ وتعالی نے جو بڑی بڑی امتیں بھیجیں ان میں سے سب سے آخری امت کونسی ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت جنہوں نے ستر کی تعداد پوری کر دی یا تو لٹرلی سیونٹی ہے یا پھر ستر کا لفظ کسرت کے لئے بولا گیا ہے یعنی تم امتوں کی کسرت میں سب سے آخر میں آئے ہو لیکن تم ان میں سب سے بہتر ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعظت ہو کیونکہ صحابہ کرام نے جس قدر قربانیوں کے ساتھ اور اطاعت شاعری اور وفاداری کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اس کی مثال پچھلی کسی امت میں نہیں ملتی کہ جس کسرت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اور آپ کے صحابی جو تھے اور پھر اس کے بعد بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس امت کے اندر اس دین سے محبت کرنے والے اپنے نبی سے محبت کرنے والے کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں آج کے بھی اس گئے گزرے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کی دین کی محبت امت کا ایک خاص شیعار ہے یہ امت اس اعتبار سے اس لحاظ سے پہچانی جاتی ہے تو بہرحال امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لکھے جانے کی انہوں نے دعا کی کہ ہم بھی انہی کے ساتھ ہوں فَقْتُ بْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ یاد رکھئے نیک لوگوں کی صحبت اچھے لوگوں کی صحبت اور ان سے دوستی اور ان سے تعلق یہ انسان کے لئے ایک بہت بڑا سرمایہ ہے کیونکہ انسان جس طرح کی کمپنی میں ہوتا ہے جن لوگوں کے بیچ میں اٹھتا بیٹھتا ہے وہ انہی جیسا ہو جاتا ہے انہی کا رنگ اس پر چڑھتا ہے اس لئے ہم سب کی بھی یہ تمنا ہونی چاہیے کہ اللہ ہمیں اچھے لوگوں کے ساتھ ایسے لوگوں کے ساتھ جو تیری توحید کی گواہی دیتے ہوں اور جو تیرے رسول کی نبوت کی صداقت کی گواہی دیتے ہوں اور اس بات کی کہ انہوں نے پیغام پہنچا دیا اور پھر وہ اس مشن کو آگے لے کر چلنے والے ہوں ہمیں بھی یارب انہی کا ساتھ نصیب فرما پھر کہنے لگے وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ اور ہمیں کیا ہے کہ ہم اللہ پر ایمان نہ لائیں وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ اور جو بھی حق میں سے ہمارے پاس آیا وَنَتْمَعُ اَنْ يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَا الْقَوْمِ السَّالِحِينَ اور ہم اس بات کی تمہ رکھتے ہیں امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر دے گا یہ تھی ان کی دعا اور یہ تھی ان کی تمنا اور یہ تھی ان کی تڑپ تو پھر کیا ہوا؟ فَأَثَابَهُمُ اللَّهُ بِمَا قَالُوا ان کے اس قول کی وجہ سے اللہ نے ان کو ایسی جنتیں عطا کی جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں کیونکہ دنیا کے علاوہ آخرت میں بھی نیک لوگوں کا ساتھ اور اچھے لوگوں کی کمپنی انسان کے لیے خوشی کا باعث ہوگی جنت کتنی بھی حسین ہو لیکن اس کے حسن میں اضافہ دو چیزوں سے ہوگا ایک تو نیک لوگوں کی موجودگی سے یہ اچھے اچھے کام کرنے والے جو بڑے بڑے درجوں پر فائز ہوں گے اور دوسرے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی دیدار سے یہ انسان کی خوشیوں میں بہترین اضافہ کرنے والی چیزیں ہیں تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کو ایسی جنتیں عطا کی جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ جزا ہے نیک رویہ اختیار کرنے والوں کے لیے وَذَلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ تو یاد رکھئے کہ انسان کبھی اچھی بات کرتا ہے تو وہ اچھی بات اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیتی ہے وہ اچھی بات کی وجہ سے جنتوں کا مستحق ہو جاتا ہے یاد رکھیے اچھی بات جنت کو واجب کرنے والی بات ہے ایسا عمل ہے کہ جس سے انسان جنت کا مستحق ہوتا ہے حانی بن یزید کہتے ہیں میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کونسی چیز جنت کو واجب کرتی ہے آپ نے فرمایا بس تم امدہ کلام اور کھانا کھلانے کو لازم پکڑ لو امدہ کلام اچھی بات جس سے بھی بات کریں اچھے سے کریں قولو لناس حسنا اب دیکھئے کہ بات تو ہمیں کرنی ہوتی ہے اگر ہم ایسی بات کریں جس سے دوسرے کا دل خوش ہو جائے اس کو کوئی راستہ مل جائے اس کے لئے کوئی رہنمائی ہو جائے اس کا کچھ غم دور ہو جائے اس کی کچھ مدد ہو جائے قولن معروفن اچھی بات یہ انسان کے لئے صدقہ ہے اور جنت واجب کرنے والی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انسان کھانا کھلانے والوں میں شامل ہو جائیں چاہے آپ اپنے ہاتھ سے پکا کے کھلائیں یا پھر آپ راشن کا بندوبست کریں تو اس لئے میں سب کو انکریج کروں گی کہ جیسے رمضان راشن کا پروجیپ چل رہا ہے تو ہر ایک کچھ نہ کچھ اس میں ضرور ڈالے تاکہ ایسے لوگوں تک ہمارا وہ صدقہ پہنچے جن کو ہم نہیں جانتے کیونکہ جس کو ہم جانتے ہوتے ہیں وہ تو جواب میں مسکرائے گا بھی ہمارا شکریہ ادا کرے گا ہمارا احسان مند ہوگا لیکن وہ جو ہمیں جانتے ہی نہیں ان کو جب ہم کھلائیں گے تو انشاءاللہ صرف اللہ ہی کی خاطر کھلائیں گے تو ایسے لوگ کے جن کو رمضان میں نہ گوشت نصیب ہوتا ہے اور نہ دال نصیب ہوتی ہے ان کی سہریان اور افطاریاں ایسے ہی گزر جاتی ہیں جیسے عام دن گزرتے ہیں اس لئے اس موقع پر ان سب کو یاد رکھنا اور ان کے لئے احتمام کرنا بھی بہت ضروری ہے ہر کوئی اپنے آس پاس بھی دیکھے لیکن ایسے پروجیکٹس میں بھی ضرور حصہ ڈالیں پھر اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سلام پھیلاؤ اچھی گفتگو کرو صلی رحمی کرو رشتہ داروں کا بھی خیال رکھو اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو تم قیام کرو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے کوئی خوف غم تم پر نہیں ہوگا پھر اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص اللہ کو رازی کرنے والی ایک بات کرتا ہے اور وہ نہیں سمجھتا کہ اس کا اثر وہاں تک ہوگا اس کی وجہ سے اللہ اس کے لیے اپنے ملاقات کے دن تک اپنی رضا مندی لکھ دیتا ہے اس اچھی بات کی وجہ سے اسی طرح انسان کوئی ایسی بات کرتا ہے جس کو وہ بہت امپارٹس نہیں دیتا مگر اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بہت بلند کر دیتا ہے لہٰذا زبان کے ذریعے اپنے درجات بلند کروائیے اور جنتوں تک پہنچیے اچھی بات وسہ بھی آ رہا ہو کسی سے ناراضگی بھی ہو تو کوشش کریں کہ گفتگو اچھی ہی ہو رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کر دیا اور انہیں جھٹلا دیا تو وہ جہنم کے مستحق ہیں اے لوگو جو ایمان لائے ہو جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کر لو اللہ تم پر مہربان ہے نا تو اس نے تمہارے کھانے کے لیے تمہاری ضروریاتی زندگی کے لیے کچھ چیزیں تم پر حرام نہیں حلال کر رکھی ہیں لہٰذا خود سے ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کیونکہ انسان حلال کو بھی ایک حد کے اندر رہ کر ہی استعمال کرے مس یوز نہ کرے ضائع نہ کرے اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں جو کچھ حلال اور طیب رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اسے کھاؤ پیو اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہو وَتَّقُوا اللَّهُ اللہ کا تقوی اختیار کرو جس پر تم ایمان لائے ہو ایمان کا تقاضہ کیا ہے اللہ کا تقوی تم لوگ جو محمل قسمیں کھا لیتے ہو ان پر اللہ نہیں پکڑتا دنیا ایسے ہی بے سوچے سمجھے مو سے قسم نکال دینا بغیر ارادے کے اس پر پکڑ نہیں مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو ان پر وہ ضرور تمہیں پکڑے گا یعنی مو سے نکلی ہوئی بات بڑی اہم ہوتی ہے تو بعض اوقات انسان جھوٹی قسم کھا لیتا ہے اور وہ اس کو ڈبو دینے والی ہوتی ہے پھر اسی طرح انسان قسم کھا کے توڑ دیتا ہے تو یہ بھی ایک بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے اس پر قرآن مجید میں کفارہ بتایا گیا ہے کفارہ کیا ہے؟ کہ دس مسکینوں کو عوصت درجے کا کھانا کھلاو جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو آسان سے شروع کیا یا انہیں کپڑے پہناو یعنی ہر ایک کو ایک ایک جوڑا لے کر دو مسکینوں کو یا ایک غلام آزاد کرو اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو یعنی نہ کھانا کھلا سکتا ہو نہ کپڑا پہنا سکتا ہو نہ غلام آزاد کر سکتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھے اور اکثریت علماء کی یہ کہتی کہ تین کنزیکیٹیو ڈیز کے روزے رکھے چھوڑ چھوڑ کے نہیں یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم کھا کر توڑ ڈالو اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو وعدے کی بھی حفاظت لیکن جو وعدہ قسم کھا کے کسی کے ساتھ کیا جائے اس کی تو اور بھی زیادہ حفاظت کی ضرورت ہے کیونکہ اس پر آپ نے اللہ کو گواہ بنایا ہے اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لئے واضح کرتا ہے شاید کہ تم شکر ادا کرو یا ایوہ الذین آمنو ایلو گو جو ایمان لائے ہو یہ شراب اور جوہ اور یہ آستانیں یعنی بت وغیرہ اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں دیکھئے کہ یہاں شراب کا ذکر جوہ بتوں اور تیروں کے ساتھ قسمت کا حال معلوم کرنے کے کاموں کے ساتھ کیا گیا ہے جو کہ سب کبیرہ گناہوں میں شاول ہیں سورة البقرہ میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ خمر اس کے اگرچہ کچھ فائدے ہیں لیکن اس میں نقصان بھی ہیں اور یہ گناہ ہے جس کو اللہ سبحانو تعالی گناہ کا کام کہے اور پھر شیطانی کام کہے اور پھر اس کا ذکر جوے اور بتوں اور قسمت معلوم کرنے کے کام کے ساتھ کرے کیا وہ حلال ہوگی ہمارے لیے کیا وہ جائز ہے بھی نا کیا کہیں سے بھی کوئی جواز ملتا ہے اس کا ہرگز نہیں اس لئے یہ اعتراض کرنا کہ کہیں حرام کا لفظ نہیں لکھا قرآن میں تو آپ دیکھئے کہ اس کو رج سم منامل شیطان کہا گیا ہے کہ یہ سیطانی کام ہے فجتنی بوہو اس سے اجتناب کرو یعنی اس کے قریب بھی نہ پھٹکو ایک دو گھونٹ بھی پی لیے تو خطرہ ہے کہ پھر آگے بڑھ جاؤ گے کیونکہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں ہم پیتے ہیں لیکن اتنی نہیں کہ نشا ہو یاد رکھے کہ بہت سے لوگ اسی طرح شروع کرتے ہیں سگریٹ کی عادت بھی کہاں سے پڑتی اور شراب کا نشہ بھی کہاں سے لگتا ہے ایک دو گھونٹ سے پھر انسان اپنے اوپر کابو نہیں رکھ سکتا اور پھر تو حال یہ ہو جاتا ہے کہ ہر چیز کو بلا دیتا ہے یعنی سارے رشتوں کو تعلقات کو ذمہ داریوں کو اور اس نشہ کا شکار ہو کر مزید کئی بڑے بڑے جرائم کرتا ہے کیونکہ شراب جو ہے وہ اقل کو ڈھانپ دینے والی ہے اور اقل ہی سے انسان کی عزت ہے انسان کو جو باقی مخلوقات پر عزت دی گئے وہ اس کے عقل کی بنا پر ہے اور جو چیز انسان کی عقل کو خراب کر دے وہ انسان کے لئے سرسر نقصان دے ہے اور اسی طرح جوابی کے جسم انسان بعض وقت جیتنے کے شوق میں جو کچھ ہوتا ہے جمع پونجی وہ سب کو سب ہار دیتا ہے اور بتوں اور آستانوں اور قبروں پر جانا اور پھر قسمت کے ذریعے حال معلوم کرنا یہ لوٹری یہ قرآن اندازی کی ناجائز قسمیں یہ سب شیطانی کام ہیں ان سے بچنے کے لیے کہا گیا ہے لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تاکہ تم کامیاب ہو سکو اور اگر اس میں پڑے رہے تو ناکام ہو سکتے ہو شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے کیونکہ جب انسان کی اقل ماری جا وہ نشے میں ہوتا ہے ہوش میں نہیں ہوتا تو اس کے موہ سے کچھ بھی نکل جاتا ہے اور وہ دوسروں کے ساتھ بد اخلاقی اور بدتمیزی کر سکتا ہے تو پھر اس سے کیا ہوتا ہے دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں اور تمہیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے جب انسان کو پتہ ہی نہیں کہ نماز میں کیا پڑھا جس سے پیشی کار گیا کہ اس وقت نماز نہ پڑھو جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جو کام نماز سے روک دے انسان کو اللہ کی عبادت سے روک دے پھر اس میں کوئی خیر نہیں پھر اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں پھر کیا تم ہی چیزوں سے باز رہو گے فَحَلْ أَنْتُمْ مُنْتَحُونَ رُکتے ہو یا نہیں تو ہم کیا کہیں گے ہم نہیں رکتے نہیں عبادت نام ہی اس چیز کا ہے کہ جس کام کا اللہ حکم دے وہ کر لیا جائے اور جس چیز سے وہ روکے اس سے رک جایا جائے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور بازا جاؤ وحضرو لیکن اگر تم نے حکم عدولی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول پر صاف صاف حکم پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی یعنی شراب جو ہے صرف قرآن مجید سے ہی نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے ذریعے بھی حرام قرار دی گئی ہے جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرنے لگے انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا تھا اس پر کوئی گرفت نہ ہوگی انہی جو پیچھے ہو چکا سو ہو چکا اللہ تعالی ماف کر دے گا آئندہ کیلئے توبہ کرو اور توبہ کی شرائط میں سے یہ شرط ہوتی ہے کہ انسان وہ کام چھوڑ دے جس پر وہ اللہ کو ناراض کر چکا ہے پر شرط ہے کہ وہ آئندہ ان چیزوں سے بچے رہیں جو حرام کی گئی ہیں اور ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اچھے کام کریں پھر جس جس چیز سے روکا جائے اس سے رک جائیں اور جو فرمانِ الٰہی ہو اسے مانیں اور پھر ثمت تقو و احسنو تقوی اختیار کریں اور احسان کا رویہ واللہ یحب المحسنین اللہ محسنین سے محبت رکھتا ہے یاد رکھئے ایک شخص ہوتا ہے صرف متقی یعنی ایک مومن متقی ہے اور ایک مومن متقی بھی ہے اور محسن بھی ہے تو جو متقی محسن ہے اس کا درجہ بڑا ہے متقی تو وہ ہوتا ہے جو بس گناہوں سے بچتا ہے اور جو اس کے فرائض ہیں وہ ادا کر دیتا ہے لیکن محسن کون ہوتا ہے جو نیکی میں آگے بڑھ جاتا ہے جو فرض کے ساتھ ساتھ نفل کی بھی فکر کرتا ہے نوافل بھی ادا کرتا ہے دوسرے اچھا نہ اس سے کرے تو بھی وہ ان سے اچھا کرتا ہے جیسے وہ بالوالدین احسانہ اور پھر سورة لقمان میں آتا ہے کہ ہدم ورحمتا للمحسنین کہ یہ کتاب نیکی کرنے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے محسنین کے لیے ہدایت اور رحمت ہے اور متقین کے لیے ہدایت ہے تو اس سے کیا پتہ چلتا ہے کہ احسان کا درجہ تقوی سے بھی آگے ہے تو ہمیں اپنا تارگیٹ رکھنا چاہیے کہ ہم نے محسن بننا ہے یاد رکھیں اگر ہم محسن بننے کا ارادہ کریں گے تو شاید تقوی تک آ جائیں لیکن اگر محسن بننے کا ارادہ ہی نہیں دل میں ہر وقت شکوے شکایات ناراضگیاں اور دوسروں کے ساتھ عداوتیں کو دورتیں اور احسان کرنے کی ہمت ہی نہیں طاقت ہی نہیں اندر کوئی جذبہ ہی نہیں تو پھر اپنے ہی آپ کو لقصان دے رہے ہیں کیونکہ ان احسنتم احسنتم لی انفسکم اگر تم نے احسان کیا تو اپنے ہی اوپر کرو گے اور آپ دیکھئے کہ آخرت میں بھی احسان کرنے والوں کے لیے کیا ہے فرمایا للذین احسن الحسنہ وزیادہ احسان کرنے والوں کے لیے ان کی نیکی کا بدلہ بھی ہے اور زیادہ بھی ہے کیونکہ وہ بھی زیادہ کرتے تھے تو ان کا بدلہ بھی زیادہ ہے ان کا عجر بھی زیادہ ہے یا ایوہ اللہ وینا آمنو اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ تمہیں اس شکار کے ذریعے سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا یعنی وہ چیز جو تمہاری ریچ میں ہے پہنچ میں ہے تم اسے استعمال کر سکتے ہو لیکن اسی وقت منع کر دیا جاکر اس کو نہیں ہاتھ لگانا حالانکہ وہ حلال بھی ہے مگر حرام کی حالت میں شکار حرام ہے لہٰذا آزمایا گیا جب صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر مسلمان مکہ جا رہے تھے تو راستے میں پرندے ان کے ہاتھوں کی پہنچ تک آ گئے قریب قریب اڑ رہے تھے اور ان کو اجازت نہیں تھی کہ کسی کو پکڑے دیکھیں کتنی temptation ہوتی ہے اگر کوئی چڑی آندھر آجے دل چاہتا ہے کہ اس کو پکڑ لیں تو وہ تو ان کے سروں کے آس پاس منڈلا رہی تھی ہاتھوں کی پہنچ میں تھی لیکن کہا گیا کہ ان کو ہاتھ نہیں لگانا ہو کیا discipline ہے کیا سبر ہے کیا ضبط نفس ہے کیا self control ہے self control اسی سے تو آتا ہے انسان کو کہ جو چیز وہ کر سکتا ہے پھر وہ اس کو نہ کرے اور اپنے آپ کو روک لے روزے میں یہی training تو دی جائے گی اور جو شخص اپنے نفس پر قابو پالے وہ دنیا کا طاقتور ترین انسان ہے کیونکہ نفس کی خواہش پر قابو پانا سب سے مشکل کام ہے فرمایا یہ دیکھنے کے لیے کہ تم میں سے کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے یعنی کون اللہ سے ڈرتا ہے بن دیکھے پھر جس نے اس تنبیح کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اس کے لیے دردناک سزا ہے اے لوگو جو ایمان لائے ہو احرام کی حالت میں شکار نہ مارو اور اگر تم میں سے کوئی جان بوچ کر ایسا کر گزرے تو جو جانور اس نے مارا ہو اسی کے ہم پلہ ایک جانور اسے مویشیوں میں سے نظر دینا ہوگا جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے یعنی جس کو مار گیا اس کو دیکھ کے ڈیسائیڈ کریں گے کہ کیا ورث تھی اس کی اور کتنا جانور اس کے بدلے میں دیا جانا چاہیے اور یہ نظرانہ کعبہ تک پہنچایا جائے گا یا نہیں تو اس گناہ کے کفارے میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا یا اس کے بقدر روزے رکھنے ہوں گے تاکہ وہ اپنے کیے کا مزا چکھے یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کچھ احکامات کی خلاف ورزی وہ گناہ توبہ کے ذریعے معاف نہیں ہو سکتا اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان پھر کفارہ بھی دے جرمانہ بھی پی کرے پہلے جو کچھ ہو چکا اللہ نے اسے معاف کر دیا لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اللہ اس سے بدلہ لے گا اور اللہ زبردست ہے انتقام لینے والا ہے تمہارے لئے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا جہاں تم ٹھہرو وہاں بھی اس کو کھا سکتے ہو یعنی احرام کی حالت میں سمندری شکار مچھلیاں وغیرہ پکڑی جا سکتی ہیں اور قافلے کے لئے زادہ راہ بھی بنا سکتے ہو یعنی ساتھ بھی لے جا سکتے ہو البتہ خشکی کا شکار جب تک تم احرام کی حالت میں ہو تم پر حرام کیا گیا پس تقوی اختیار کرو اللہ سے ڈرو جس کی طرف تم سب اکٹھے کیے جاؤ گے اللہ نے مکہ نے محترم کعبہ کو لوگوں کے لیے قیام کا ذریعہ بنایا ہے یعنی مکہ والوں کے لیے خاص طور پر کعبہ ان کی معاش کا ذریعہ بھی ہے اسی کی وجہ سے انہیں امن نصیب ہے اور حاجیوں کی آمد کی وجہ سے انہیں بے شمار فائدے حاصل ہوتے ہیں جس سے ان کی زندگیاں قائم ہیں ورنہ مکہ میں تو نہ کچھ اکتا ہے اور نہ ہی مزید کچھ کمانے کے اور بسائل ہیں مکہ والوں کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ کس کے ذریعہ ہے حاجیوں کے آمد کے ساتھ جو خرید و فروخت ہوتی ہے اور ماہ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قلادوں کو بھی اس کام میں معاون بنا دیا یعنی کتنے جانور وہاں لے جا کے زبا کیے جاتے تو کہیں گوشت کی کمی ہو سکتی ہے وہاں یعنی اللہ نے خوراک کا زبردست بندوبست کر دیا تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے اعلمو خوب جان لو ان اللہ شدید الاقاب کہ اللہ سبحانہ وتعالی سزا دینے میں بھی سخت ہے وَأَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ اور بے شک اللہ غفور الرحیم بھی ہے رحمت اللہ کی صفت ہے اور عذاب اس کا فعل ہے اللہ سبحانہ وتعالی نے ان دونوں کا ذکر یہاں اکٹھے کیا ہے لیکن یاد رکھو رحمت اس کے غزب پر حاوی ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی بندے سے محبت رکھتا ہے ہم سب اس کی مخلوق ہیں نا وہ ہمیں سزا نہیں دینا چاہتا لیکن وہ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم محذب انسان بن جائیں اچھے انسان بن جائیں کیونکہ اس نے اچھے انسانوں کے لیے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے جو ایک بہترین جگہ ہے وہاں ہر ایک کا داخلہ ممکن نہیں صرف محذب لوگ اندر جا سکتے ہیں جو اس جنت کے اہل ہوں کیونکہ اگر ہر ایک کو وہاں جانے کی اجازت مل جائے چور کو بھی ڈاکو کو بھی زنا کرنے والے کو بھی بغاوت کرنے والے سرکشی کرنے والے اللہ کی نافرمانی کرنے والے کو وہ جا کے جنت کا نقشہ کیا بنا دیں گے پھر جنت کیسی ہو جائے گی پھر تو جنت میں بھی امن نہیں رہے گا اب دیکھیں اللہ نے ہمیں ایک ملک دیا تھا جس کو ہم نے اسلام کے نام پر لیا اور پھر ہر ہر خلاف ورزی اور ہر ہر نافرمانی اور ہر ہر وہ کام کیا جو اللہ کے حکم کے موافق نہ تھا ہم نے کہا کہ ہم یہاں بہت اچھے مسلمان بن کر رہیں گے لیکن ہم نے اس کی لاج نہ رکھی دنیا میں تلہ تالہ مولد دے دیتا نعمتیں دے دیتا ہے ٹھیک ہے دیکھا جا رہے کرتے کیا ہو لیکن اس کے بعد دوسرا کوئی چانس نہیں وہاں نہیں اندر جا سکتے جب تک توبہ نہ کر لو جب تک گناہ چھوڑ نہ دو جب تک اپنے رب کو راضی نہ کر لو اچھے انسان نہ جب تک بن جاؤ پھر فرمایا رسول پر تو صرف پیغام پہنچا دینی کی ذمہ داری ہے آگے تمہارے کھلے اور چھپے سب حالات کا جاننے والا اللہ ہے اے پیغمبر ان سے کہہ دیجئے کہ پاک اور ناپاک برابر نہیں خواہ ناپاک کی بہتات تمہیں کتنی ہی فریفتہ کرنے والی ہو اب دیکھیں کہ پاک اور ناپاک ایک جیسے نہیں تو پاک اور ناپاک دونوں تو پھر جنت میں نہیں جا سکتے نا سب کو پتا ہے کہ پاکی اور ناپاکی دو الگ کیفیات ہیں اللہ سبحانہ وتعالی پاک ہے صرف پاک چیز کو قبول کرتا ہے پاک عمل ہی اوپر اٹھتا ہے پاکیزہ کلمات اس کی طرف چڑھتے ہیں صالح عمل انہیں اوپر اٹھاتا ہے لہٰذا اپنے کھانے پینے میں پاکیزگی اپنے سنفی تعلقات میں پاکیزگی پھر جسمانی تحارت عبادت کے وقت پاکیزگی جسم کا پاک ہونا لباس کا پاک ہونا جگہ کا پاک ہونا تو ایک مومن کی ساری زندگی پاکیزگی کے ساتھ گزرتی ہے پاکیزگی کو ایمان کا حصہ بتایا گیا ہے اب تہور شطر الیمان لہٰذا ہم سب کو اس کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا کہ ان کو عذاب ہو رہا ہے اور بڑی بات پہ نہیں معمولی چیزوں پہ ہو رہا ہے ان میں سے ایک وہ تھا جو پشاب کے چینٹوں سے نہیں بچتا تھا تو اگر ہم پاکیزگی کا اعتمام نہیں کرتے تو پھر بڑی مشکل ہو جائے گی تو پاکیزگی اور ناپاکی برائبر نہیں ہیں خواہ تمہیں ناپاک چیز کتنی اچھی لگے پس اے لوگو جو عقل رکھتے ہو اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو امید ہے کہ تمہیں فلاں نصیب ہوگی جو تم پہ ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں قسرت سوال چاہے دین کے معاملے میں ہو یا دنیا کے معاملے میں ناپسندیدہ ہے کیونکہ آپ دیکھئے کہ جب ہم لوگوں سے زیادہ سوال کرتے ہیں تو ان کو زچ کر دیتے ہیں اگر ہم کسی کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت سوال جواب شروع کر دیں تو وہ بھی اس کو ناگوار گزرتا ہے اسی طرح دین کے معاملے میں بھی جب ہم بہت بال کی خال اتارنے لگتے ہیں تو وہ بھی کیا ہے ناپسندیدہ ہے تو ہمیں اس چیز سے روک دیا گیا اور خاص طور پر صحابہ اکرام کو فرمایا ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پہ ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناغوار ہوں لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو کہ جبکہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی اب تک جو کچھ تم نے کیا اسے اللہ نے معاف کر دیا وہ درگزر کرنے والا اور بردبار ہے تم سے پہلے ایک گروہ نے اسی قسم کے سوالات کیے تھے پھر وہ انہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مبتلا ہو گئے جب انسان بہت سوال کرتا ہے تو پھر جو حکم آتا ہے اس کے جواب میں وہ ضروری نہیں کہ اس پر عمل بھی کر سکے مشکل ہو جاتی ہے پھر انسان اس حکم کا انکار بھی کر دیتا ہے اللہ نے نہ کوئی بحیرہ مقرر کیا نہ صاحبہ اور نہ وسیلہ اور نہ حام مگر یہ کافر اللہ پر جھوٹی تحمت لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر بے اقل ہے کہ اس قسم کے تواہمات رکھو مانتے ہیں اور جب اسے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی اور آؤ پیغمبر کی طرف تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا کیا یہ باپ دادا ہی کی تقلید کیا جائیں گے خواہ وہ کچھ بھی نہ جانتے ہو اور صحیح راستے کی انہیں خبر بھی نہ ہو تو اس سے کیا پتہ چلتا ہے کہ انسان کو حق کی پیروی کرنی چاہیے باپ دادا کی نہیں اب دیکھیں کہ دنیا کے معاملے میں تو ہم باپ دادا کے بہت سے طریقوں سے بلکل ہی منحرف ہو چکے ہیں لیکن دین کے معاملے میں ہم نے دین کس کو بنا رکھا ہے دین وہی ہے جو ہمارے آباؤ اجداد کرتے تھے تو ہمیں دین کے معاملے میں دو چیزوں کو مدد نظر رکھنا ہے جس کا پیچھے ذکر آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے اتاری یعنی قرآن مجید اور آؤ پیغمبر کی طرف کہ اس قرآن کی جو وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے ہیں اس کو لو یا ایوہ الذین آمنوا علیکم انفسکم اے لوگو جو ایمان اللہ ہے اپنی فکر کرو کسی دوسرے کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہ راست پر ہو اللہ کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو بہت سے لوگ اس آیت کا مفہوم کیا سمجھ لیتے ہیں لوگ جو مرضی کرتے رہے ہیں ہمیں پرواہ نہیں ہمیں بس اپنی فکر کرنی چاہیے اور اس سے وہ کیا دلیل لیتے ہیں کہ عمر بالمعروف اور نین و نونکر کی ضرورت نہیں لیکن اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک انسان جب اپنی پوری کوشش کر چکے اور لوگ پھر بھی سیدھے نہ ہوں پھر بھی وہ غلط رستوں پر ہی چلنا چاہے تو اس کے بعد پیغام پہنچانے والی کی ذمہ داری نہیں پھر تم اپنی فکر کرو کوئی اور اگر گمراہ ہوتا ہے تو وہ تمہیں نقصان نہیں دے گا تو ہر شخص پر سب سے بڑی ذمہ داری جو کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتی وہ کس کی ہے اپنی ذات کی جہاں تک دوسروں کی ذمہ داری ہے تو ان کو صرف بتانا ہی کافی ہے ان کے عمل کی ذمہ داری آپ پر نہیں ان کے بحاف پر آپ کو نہیں پوچھا جائے گا کہ انہوں نے یہ غلط کام کیوں کیا ایز لانگ ایز آپ ان کو سمجھا چکے ہاں اگر ان کو منع نہیں کرتے سمجھاتے نہیں تو پھر آپ کی پوچھ ہو سکتی ہے انہیے جو میں نے کہا نا کہ پھر پوچھ ہو ستی ہے تو یہ بھی بڑی اہم بات ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ جب لوگ کسی کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں اور پھر اس کو پکڑے نہیں تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو عذاب میں لپیٹ لے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا جس قوم میں اللہ کی نافرمانی کے کام ہوں اور وہ انہیں روک سکتے ہوں پھر نہ منع کریں تو ہو سکتا ہے کہ اللہ اس سبب سے ان سب کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لیں یعنی جب مصیبت آئے گی تو صرف ان پر نہیں آئے گی جو منع نہ کرے وہ بھی اس کا شکار ہو سکتے ہیں تو اس لیے جب انسان کو غلط چیز دیکھے تو بتا ضرور دے بعض اوقات لوگ ناراض بھی ہو جاتے ہیں لیکن اچھے طریقے سے پیار محبت اور خیرخواہی کے ساتھ بتائیں گے تو وقتی طور پر ہو سکتا ہے ان کو تھوڑا محسوس ہو لیکن جب انہیں ہوش آئے گی جب سمجھ آئے گی تو وہ آپ ہی کے قدردان ہوں گے آپ دیکھیں جب ساسیں فوت ہو جاتی ہیں تو بڑی اچھی لگنے لگتی ہے خصوصا جب خود ساس بن جاتے ہی پھر ان کی مثالیں دیتے ہیں اللہ بخشے ہماری ساس بہت اچھی تھی وہ یہ کہا کرتی تھی وہ یہ سمجھاتی تھی وہ یہ کہتی تھی تو اس لئے اگر آپ ساس بھی ہیں اور بہو کو کوئی اچھی بات کہنی ہے تو پیار سے کہہ دے کوئی بات نہیں ہو سکتا ہے آج اس کو نہ سمجھائے لیکن کل جب آپ دنیا میں نہ ہو تو وہ آپ کو یاد کرے اور آپ کا یہ بتانا آپ کے لئے صدقہ جاریہ بن جائے پھر فرمایا اے لوگو جیمان لائے ہو جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے موت کا وقت موت کو ہر وقت یاد رکھنا چاہیے موت ایک بہت بڑی مصیبت ہے لیکن اس سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ انسان اس کو بھولا رہے اس کا ذکر نہ کرے اس کو یاد نہ کرے اس میں غور و فکر نہ کرے اور اس کی تیاری نہ کرے تو یہ مصیبت الموت سے بھی بڑی مصیبت ہے کیونکہ موت کا کسرت سے تذکرہ کرنا انسان کی لذتوں کو توڑ دیتا ہے اور انسان کو سیدھا کر دیتا ہے اور خاص طور پر نماز میں موت کو یاد کرنا چاہیے حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی نماز میں موت کو یاد کرو کیونکہ جب آدمی اپنی نماز میں موت کو یاد کرتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ اپنی نماز کو اچھے انداز میں ادا کرے اور اس آدمی کی طرح نماز پڑھو یعنی ایسے انسان کی طرح نماز پڑھو جسے اس موقع کے بعد نماز پڑھنے کا گمان نہیں ہوتا یعنی اس کی وہ آخری نماز اور ہر ایسے کام سے بچو جس سے معذرت کرنا پڑے یعنی جس کے بعد شروعندگی ہو ان کاموں کو کرو ہی نہ یہاں پر ایک خاص حکم دیا جا رہا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ وسیعت کر رہا ہو تو اس کی شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنائے جائیں یا اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کے مسئیبت پیش آ جائے تو غیر مسلموں میں سے ہی دو گواہ لے لیے جائیں پھر اگر کوئی شک شک پڑ جائے تو نماز کے بعد دونوں گواہوں کو مسجد میں روک لیا جائے یعنی شک اس بات کا کہ انہوں نے کچھ خیانت کر دی ہے وسیعت میں تبدیلی کر دی ہے تو پھر نماز کے بعد وہ مسجد میں رکیں اور اللہ کی قسم کھا کے کہیں کہ ہم کسی ذاتی فائدے کے وز گواہی بیچنے والے نہیں خواہ ہمارا کوئی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اس کی بھی ریائت نہیں کریں گے اور نہ اللہ واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں اگر ہم نے ایسا کیا تو گناہ ویاروں میں شمار ہوں گے لیکن اگر پتہ چل جائے کہ ان دونوں نے اپنے آنکھ کو گناہ میں مبتلا کیا ہے تو پھر ان کی جگہ دو اور شخص جو ان کی بنسبت گواہی دینے کے زیادہ اہل ہوں ان لوگوں میں سے کھڑے ہوں جن کی حق تلفی ہوئی ہو اور وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ سچی ہے اور ہم نے اپنے گواہی میں کوئی زیادتی نہیں کی اگر ہم ایسا کریں تو ظالموں میں سے ہوں گے اس طریقے سے توقع کی جا سکتی ہے کہ لوگ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں گے یا کم از کم اس بات کا ہی خوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد دوسری قسموں سے کہیں ان کی تردید نہ ہو جائے اللہ سے ڈرو اور سنو اللہ نافرمانی کرنے والوں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے فسط قساط پھر ہدایت نہیں ملا کرتی جس روز اللہ سب رسولوں کو جمع کر کے پوچھے گا تمہیں کیا جواب دیا گیا تو وہ عرص کریں گے ہمیں کچھ حلم نہیں آپ ہی ساری پوشیدہ حقیقتوں کو جانتے ہیں علم کی نسبت اللہ کی طرف کرنا یہ وہ عدب کو اختیار کرتے ہوئے کہیں گے یہ نہیں کہ اللہ سبحانو تعالیٰ کے سامنے خود اپنے علم کا اظہار کرنے لگے یاد رکھئے علم کا ایک عدب بھی ہوتا ہے اور علم عدب کے ساتھ آتا ہے اللہ سبحانہ وتعالی جب سوال کریں گے پیغمبروں سے آپ دیکھئے پیغمبروں کا بھی ایک مقام ہے تو انہیں پتہ بھی ہوگا تو وہ کہیں گے لائلم لنا انکا انت اللام الغیو آپ سب سے زیادہ غیب جانتے ہیں ہم تو کچھ بھی نہیں جانتے ہمارا علم تو کچھ نہیں جیسے فرشتوں نے کہا تھا نا سبحانکہ لائلم لنا اللام علم تنا یہ بھی عدب ہے اسی طرح پیغمبر علیہ السلام کے سامنے صحابہ کا طریقہ کیا ہوتا تھا وہ آگے سے فوراں جواب نہیں دینے لگتے تھے پتہ بھی ہوتا تھا تو نہیں بولتے تھے کیا کرتے تھے کہ آپ زیادہ جانتے ہیں اللہ و رسول و عالم یہی عدب بعد میں بھی ہماری مسلمانوں کے اندر رہا کہ اگر کسی مجلس کے اندر کوئی بڑا عالم موجود ہے تو جو باقی لوگ ہیں جن کا علم اس کے مقابلے میں کم ہے تو وہ بڑھ بڑھ کر نہ بولیں وہ اس کو جواب دینے دیں کسی مجلس میں چلے جائیں اگر مجلس میں سے کوئی شخص سوال کر بیٹھے سپیکر سے یا وہ جس کو آج آپ نے کچھ سکھانے کا موقع دیا ہے سوال اس سے کیا جا رہا ہے اور جواب کون دے رہا ہوتا ہے سب ہی دینے لگتے ہیں جس کو تھوڑا سا بھی پتا ہے یا نہیں پتا کچھ جانتا ہے نہیں جانتا ہر کوئی اظہار خیال کرنے لگتا ہے یہ علم کی مجلس کے عدب کے خلاف ہے جب عالم سے سوال کیا جائے تو اسی کو جواب دینے دیں اللہ یہ کہ وہ آپ سے کہے آپ جواب دیجئے اس بات کا جیسے بعض وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کو کہا یا دوسروں کا کہ آپ جواب دیجئے لیکن ادر وائس علم کی مجلس کا احترام کیا ہے کہ خاموشی سے سنا جائے اور پھر سوال کے موقع پر خالی ذہن ہو کر جواب سنا جائے کیونکہ بعض وقت ہماری اپنے ایک رائے بن چکی ہوتی ہے کچھ گزشتہ معلومات کی وجہ سے تو ہم ایک بیریر قائم کر لیتے ہیں اپنے اور سکھانے والے کے بیچ میں اور ہم کیا چاہتے ہیں کہ اس سوال کا جواب ہماری سوچ ہماری مرضی اور ہمارے علم کے مطابق آئے اور اگر اس سے وہ زیادہ کچھ بتا دے کیونکہ ہر علم والے کے اوپر ایک اور علم والا ہوتا ہے ہو سکتا ہے کہ اس علم والے کو وہ بات پتا ہو جو دوسرے کو نہیں پتا تو پھر اس کو ایکسپٹ کرنے کا بھی آرہ ہونا چاہیے کہ انسان سن تو لے ایک ہنگامہ نہ کھڑا کر دے یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ہم نے تو کبھی سنے ہی نہیں بھئی آپ نے سب کچھ سن لیا ذرا حوصلہ رکھیں سنیں سمجھیں غور کریں اور بعض اوقات کسی حکمت کے تحت ایک علم والا شخص پوری بات نہیں بتاتا آدھی بات بتاتا تو لقوہ نہ دیں کہ آپ نے آدھی بات بتائی ہے یہ بھی ہے اس کے آگے یہ بھی عدب کے خلاف ہے پھر اسی طرح اگر آپ کو کچھ کہنا ہے تو سوال کے انداز میں کریں اسی طرح عدب کا تقاضی یہ بھی ہوتا ہے کہ جب آپ کسی کے سامنے بیٹھے ہیں تو آپ دوسروں کی تعریفیں نہ شروع کر دیں مثلا آپ اپنی والدہ کے سامنے جا کر بیٹھے ہیں ان کا حال احوال پوچھیں ان سے بات کریں وہاں بیٹھ کے اپنی ساس کی تعریف نہ شروع کر دیں ویسے بھی آپ شادی کے بعد ان کو بھی امی کہنا شروع کر دیتے ہیں تو امی کے دل پر ایک چھوٹ لگتی ہے کہ اچھا اب میری بیٹی کی ایک اور بھی امی ہو گئی یا میرے بیٹے کی کوئی اور بھی امی ہو گئی قدرتی سی بات ہے کھلے دل والے تو اس کو ایکسپٹ کرتے ہیں اور بچوں کو انکریج کرتے ہیں میں تو اپنے بچوں کہتا ہوں کہ امی کہو کیونکہ جب تک کہو گے نہیں وہ فیلنگ نہیں آئے گی وہ مقام عزت اور مرتبہ نہیں دے سکو گے تو پھر جب وہ عدب اور احترام نہیں ہو گا تو تعلقات اچھے نہیں ہو سکتے تو اسی طرح جب ایک عالم کے سامنے بیٹھے ہوں تو دوسرے عالم کی تعریفیں نہ شروع کر دیں یہ بھی عدب کے خلاف ہوتا ہے جب ایک دوست کے پاس بیٹھے ہیں تو دوسرے دوست کی تعریفیں نہ شروع کر دیں جب اپنے شوہر کے سامنے بیٹھے ہیں تو اپنے بھائی یا باپ کی تعریفیں نہ کریں یہ ہوتی معمولی باتیں ہیں لیکن اس سے سامنے والا غمگین ہوتا ہے کہ اچھا مجھ سے بڑھ کر کسی اور کی اہمیت حالانکہ ہر ایک کا اپنا مقام ہوتا ہے شوہر کا اپنا مقام ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ جو ان کا مقام ہے ہماری زندگی میں وہ کسی اور کا نہیں ہے لیکن بعض اوقات ہم اپنی ہماکتوں کی وجہ سے بے موقع محل باتیں کرتے ہیں غیر حکیمانہ باتیں جو اس وقت کرنے کی نہیں ہوتی یا اس کے سامنے کرنے کی نہیں ہوتی اس کی وجہ سے پھر ہم اپنی قدر کھو دیتے ہیں پھر رونے لگتے ہیں کہ یہ تو ہمیں کوئی امپورٹس نہیں دیتے بھئی پہلے تو ہم نے پہل شروع کی کہ ان کے سامنے کسی اور کوئی امپورٹس دے کر دین کے سکھائے ہوئے جو عدب ہیں ہمارے ان کو اگر ہم فالو کریں تو ہماری زندگیاں زیادہ خوشگوار ہو جائیں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کسی کی تعریفی نہ کریں اور کسی کو اچھا ہی نہ کہیں آپ کہہ سکتے ہیں لیکن موقع محل کے ساتھ گفتگو کے درست انداز کے ساتھ تو اس وقت پیغمبر کیا کہیں گے کہ انک انت علام الغیوب پھر تصور کرو اس موقع کا جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے مریم کے بیٹے عیسیٰ یاد کر میری اس نعمت کو جو میں نے تجھے اور تیری ماں کو عطا کی تھی میں نے روح پاک سے تیری مدد کی تو گہوارے میں بھی لوگوں سے بات کرتا تھا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی میں نے تجھے کتاب اور حکمت تورات اور انجیل کی تعلیم دی تو میرے حکم سے مٹی کا پتلا پرندے کی شکل کا بناتا اور اس میں پھونکتا تھا اور وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا تو مادرزاد اندھے اور کوڑی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا تو مردوں کو میرے حکم سے نکالتا تھا پھر جب تو بنی اسرائیل کے پاس سری نشانیاں لے کر پہنچا اور جو لوگ ان میں سے منکر حق تھے انہوں نے کہا کہ یہ نشانیاں جادوگری کے سوا اور کچھ نہیں تو میں نے ہی تجھے ان سے بچایا اور جب میں نے ہواریاں کو اشارہ کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تب انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور گواہ رہو کہ ہم مسلم ہیں سبحان اللہ یہ اللہ سبحان و تعالی عام لوگوں کے دل میں بھی بات ڈالتا ہے کہ اس وقت کیا کرو اللہ نے ہواریوں کے دل میں ڈالا کہ وہ ایمان لائیں اسلام قبول کریں یہ اللہ کی توفیق سے ہوتا ہے جب ہمیں کسی خیر کے کام اچھائی کی کوئی توفیق ہوتی ہے تو وہ دراصل اللہ ہی دے رہا ہوتا ہے وہ ہمارے دل میں خیال ڈالتا ہے کہ اب ہم کیا کریں اس لیے یُعْتِ الْحِكْمَةَ مَحِيَشَاءَ جس کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے وَمَن يُعْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوتِيَ خَيْرًا کَثِيرًا ہواریوں کے سلسلے میں یہ واقعہ بھی یاد رہے کہ جب ہواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰ ابن مریم کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خان اتار سکتا ہے تو عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو انہوں نے کہا ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ اس خان سے خود کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہو اور ہمیں معلوم ہو جائے کہ آپ نے جو کچھ ہم سے کہا وہ سچ ہے ہن ایک نشانی کے طور پر آسمان سے کچھ خانے اتاریے اور ہم اس پر گواہ ہوں اس پر عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی کیا دعا کی کہ اے ہمارے رب ہم پر آسمان سے ایک خان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلے پچھلوں کے لیے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو ہمیں رزق دے اور تو بہترین رازق ہے اللہ نے جواب میں فرمایا میں اس کو تم پر نازل کرنے والا ہوں مگر اس کے بعد جو تم میں سے انکار کرے گا اسے میں ایسی سزا دوں گا جو دنیا میں کسی کو نہ دی گئی ہوگی یاد رکھئے جتنے ہدایت کے مواقع زیادہ ہوتے پھر ان کی ناقدری اور ناشکری اور پھر ان سے فائدہ نہ اٹھانا انسان کے لئے اتنی بڑی تکلیف کا باعث بھی بن جاتا ہے غرض جب یہ احسانات یاد دلا کر اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم کیا تُو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی الہ بنا لو وہ جواب میں عرص کریں گے سبحانک تو پاک ہے یہاں پھر آپ دیکھئے عدب جواب دینے سے پہلے اللہ کی تعریف اللہ کی تسبیح اور پھر آجزی کا اظہار یاد رکھئے کہ یہ جو تسبیح کرنا ہے سبحان اللہ کہنا ہے کسی ایسی بات کے موقع پر جو درست نہ ہو کوئی اللہ سے غلط بات منصوب کرنا ہو یا اور اسی قسم کی کوئی چیز تو اس موقع پر سبحان اللہ یا سبحانک کہنا بہت فائدے کی چیز ہے سبحان اللہ صرف اچھی چیز کو دیکھ کر ہی نہیں کہا جاتا بلکہ ایسے موقع پر بھی کہا جاتا ہے جب کوئی غلط بات کی جا رہی ہو خصوصاً دین کی نسبت سے اور پھر آپ نے وہ تصویر تو روز پڑھنے کی کوشش کی ہوگی سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہم مغفر لی اللہم مرحمنی اللہم مرزقنی اسی طرح ایک اور روایت میں الحمدللہ پہلے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے پاس سے گزرے جس کے پتے سوکھے ہوئے تھے آپ نے ایک لاتھیں ماری تو سب پتے گر گئے تو آپ نے فرمایا کہ یہ کلمہ پڑھنے سے الحمدللہ و سبحان اللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر گناہ اسی طرح جھڑتے ہیں جس طرح اس درخت سے پتھے جھڑ رہے ہیں ہم یہ تصویر پڑھ رہے ہوتے ہیں اور گناہ جھڑتے چلے جا رہے ہوتے ہیں جھڑتے صفائی ہوتی چلی جاتی اور آپ دیکھیں گے کہ اس کے اختتام پر دل بھی ہلکا ہو چکا ہوتا ہے حدیث میں آتے ہیں جو آدمی دن میں سو مرتبہ سبحان اللہ پڑھتا ہے اس کے لئے ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں یا ہزار گناہ ماف کر دیے جاتے ہیں خطائیں اس کی گرا دی جاتی ہیں سبحانک مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقِّ میرا یہ کام نہ تھا کہ میں وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کو ضرور علم ہوتا آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں میں نے ان سے اس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی یہ تھا ان کا پیغام عیسیٰ علیہ السلام کا میں اسی وقت تک ان کا نگران تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا جب آپ نے مجھے واپس بلا لیا تو آپ ان پر نگران تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں پر نگران ہیں اب اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر ماف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں تب اللہ فرمائے گا یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے هذا يوم قیامت کے دن کیا چیز فائدہ دے گی سچائی سب سے بڑی سچائی کیا ہے اللہ کو ایک ماننا پھر اس کے احکامات کو ماننا اس کے کتاب کو ماننا اور جس جس چیز کو اس نے ماننے کا حکم دیا اور پھر لوگوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے بھی خرام معاملہ کرنا سچ پر معاملات کی بنیاد رکھنا ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہر رہی ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے یہی بڑی کامیابی ہے اب دیکھیں گے اچھے تعلقات میں دو طرفہ رضاوندی بڑی خوبصورت چیز ہوتی وہ ان تعلقات کے اندر بہترین حسن اور خوبصورتی اور ایک سویٹنیس پیدا کر دیتی کہ جس میں دو فریق وہ دو کوئی بھی ہوں شوہر بیوی ہوں بہن بائی ہوں دوست ہوں ماں باپ اور بچے ہوں اگر بچے والدین سے سیٹسفائیڈ ہیں مطمئن ہیں خوش ہیں اور والدین اپنے بچوں سے تاب دیکھئے وہ گھر جنت کا نمونہ ہوتا ہے اور جس گھر میں کنٹنٹمنٹ نہیں ایک دوسرے سے شکوے شکایتیں ہیں اعتماد نہیں وہاں کبھی خوشی نہیں ہو سکتی چاہے اس گھر کا سارا فرنیچر سونے کا ہی کیوں نہ ہو پھر بھی نہیں ہو سکتی اور آخرت میں بھی سچائی ہی فائدہ دے گی ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہرے ہی ہیں کیونکہ سچائی جو ہے وہ اعتماد بحال کرنے میں سب سے بہترین چیز ہوتی ہے ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہرے ہی ہیں یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے یہی بڑی کامیابی ہے زمین و آسمان اور تمام موجودات کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے سورة الانعام شروع کرتی ہوں اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان نہایت رحم فرمانے والا ہے الحمدللہ الذي خلق السماوات والارض و جعل الظلمات والنور تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو ماننے سے انکار کر دیا دوسروں کو اپنے رب کا ہم سر ٹھہرا رہے ہیں یعنی سب کچھ تو اللہ نے بنایا اللہ نے پیدا کیا اور اللہ کی عبادت میں انہوں نے دوسروں کو شریک کر لیا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو کس قدر غصہ آتا ہوگا کہ دینے والا میں ہوں سب احسانات میرے ہیں اور سر کسی اور کے آگے جھکایا جا رہے ہیں یاد رکھئے حمد کا حقدار صرف اللہ ہی ہے الحمدللہ کیونکہ اللہ ہی نے آسمان و زمین پیدا کیے اور اللہ ہی نے رات دن بنائے روشنی اور اندھیرہ اور ہمارے اوپر جتنے بھی احسانات ہیں وہ سب ہمارے رب کے ہیں لہٰذا اسی کی عبادت کرنی چاہیے اسی کو اپنا معبود سمجھنا چاہیے وہی منم حقیقی ہے وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے بنایا سبحان اللہ پھر تمہارے لئے زندگی کے ایک مدت مقرر کر دی ہر ایک کی الگ الگ ہے اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جو اس کے ہاں تیشدہ ہے یعنی قیامت کی گھڑی جب اگلے پچھلے سب انسان دوبارہ پیدا ہوں گے ایک زندگی تو تمہاری اس دنیا کی زندگی ہے اور اسی سے سمجھ لو سبق لے لو کہ ایک زندگی اور بھی ہے جیسے اب پیدا ہوئے ہونا ایسے ہی دوبارہ بھی پیدا ہوگے آخرت پر ایمان کی دلیل دی جا رہی ہے مگر تم لوگوں کے شک میں ہی پڑے ہوئے ہو تمہیں یقین ہی نہیں آتا کہ دوبارہ پیدا ہوگے وہی ایک اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی تمہارے کھلے اور چھپے سب حال جانتا ہے اور جو برائی یا بھلائی تم کماتے ہو اس سے بھی خوب واقف ہے لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں جو ان کے سامنے آئی ہو اور انہوں نے اس سے مو نہ مڑ لیا ہو چنانچہ اب جو حق ان کے پاس آیا ہے تو اسے بھی انہوں نے جھٹلا دیا اچھا جس چیز کا وہ اب تک مزاک اڑاتے رہے ہیں ان قریب اس کے متعلق کچھ خبریں انہیں پہنچیں گی کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کا اپنے اپنے زمانے میں دور دورہ رہا بڑی بڑی ترقیان کی انہوں نے لیکن آج ان کا نام و نشان تک نہیں تو آج تم اس دنیا میں ملنے والی نعمتوں اور ان ترقیوں پہ زیادہ نازا نہ ہو یہ اللہ کے سامنی کچھ بھی نہیں تو میں نے سامناتا سر لطف ہو اللہ سبحانہ وتعالی نہیں کیونکہ وہ سب سے بڑا خالق ہے ان کو ہم نے زمین میں وہ اتدار بخشا تھا جو تمہیں نہیں بخشا ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بنا دی مگر جب انہوں نے کفران نعمت کیا تو آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کر دیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اگر ہم آپ کے اوپر کوئی کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی اسے دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا وہ یہی کہتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے کہتے ہیں اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کب فیصلہ ہو چکا ہوتا پھر انہیں کوئی محلت نہ دی جاتی اور اگر ہم فرشتے کو اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل میں ہی اتارتے اور اس طرح انہیں اسی شبہ میں مبتلا کر دیتے جس میں اب یہ مبتلا ہیں اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مزاک اڑا جا چکا ہے جس کا وہ مزاک اڑاتے تھے ان سے کہیے ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹ لانے والوں کا انجام کیا ہوا ان سے پوچھو آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے کہو سب کچھ اللہ کا کیونکہ اس نے بنایا وہی مالک ہے اس نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا اسی وجہ سے وہ تمہیں فوراں نہیں پکڑتا قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا یہ بالکل ایک غیر مشتبہ حقیقت ہے مگر جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود تباہی کے خطرے میں مبتلا کر لیا وہ اسے نہیں مانتے رات کے اندھیرے اور دن کے اجالے میں جو کچھ کھہرا ہوا ہے سب اللہ کا ہے سب اللہ کا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے کہو اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سر پرس بنانوں اس اللہ کو چھوڑ کر جو زمین اور آسمان کا خالق ہے جو روزی دیتا ہے اور روزی لیتا نہیں ہے کہو مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں اس کے آگے سر تسلیم خم کر دوں اور تعقید کی گئی کہ کوئی شرک کرتا ہے تو کرے تم بہرحال مشرقین میں شامل نہ ہونا کہیے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے خوفناک دن مجھے سزا بگتنی پڑے گی یہ کس سے کہا جا رہا ہے اور کون کہہ رہا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہ مجھے اللہ کی نافرمانی سے ڈر لگتا ہے کہ اگر میں کہیں نافرمانی کروں تو پکڑا نہ جاؤں اس دن جو سزا سے بش گیا اس پر اللہ نے بڑا ہی رحم کیا اور یہی نمائع کامیابی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے قیامت کے دن کوئی بھی شخص صرف اپنے عمل کی بنا پر نہیں چھوٹ سکے گا یہ اللہ کی رحمت ہی ہے جس کی وجہ سے لوگ جنت میں جائیں گے اور جنت کو اللہ سبحانہ وتعالی اپنی رحمت قرار دیتے ہیں انتی رحمتی اور اللہ کی رحمت وسیع ہے اللہ کی رحمت زمین پر بھی اتاری گئی ہے اور اللہ کی رحمت آخرت کے لیے بھی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے اپنی رحمت کو سو حصوں میں تقسیم کر دیا جس میں سے نائنٹی نائن اس کے پاس ہیں اور ایک حصہ اس نے زمین پر نازل کیا اسی ایک حصے کی وجہ سے مخلوق ایک دوسرے سے اچھائی کے ساتھ پیش آتی ہے یہاں تک کہ گھوڑا اپنے بچے پر پاؤں نہیں مارتا اس در سے کہ کہیں بچے کو نقصان نہ ہو اور یہ نائنٹی نائن رحمت کہاں کے لیے ہیں آخرت کے لیے ہیں آخرت کے لیے تو ہم سب کو اللہ سے اس کی رحمت مانگنی چاہیے تو آج کے لیے ایک دعا لازم کر لیں اللہم انی اسالک من فضلک و رحمتک فانہو لا يملکها الا انتا اے اللہ میں تجھ سے تیرے فضل اور رحمت کا سوال کرتا ہوں بے شک اس کا کوئی مالک نہیں سوائے تیرے یعنی اللہ کی رحمت اور فضل صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اس سے مانگیں گے تو وہ دے گا اگرچہ ابھی تو وہ بین مانگے بھی ہم پر اپنی رحمتیں لشاور کرنا لیکن ہمیں مانگتے رہنا چاہیے جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس کی تمنا نہ کریں اس کی تمنا کریں جو اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور اس سے مانگیں اللہم انی اسالک من فضلک ورحمتک فانہو لا يملکها الا انتا اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرمند کرے تو وہ ہر چیز پر خادر ہے وہ اپنے بندوں پر کامل اختیارات رکھتا ہے اور داناؤ باخبر ہے پھر دوبارہ خطاب ہے اے ونی اسرائیل یاد کرو میری اس نعمت کو جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی اور ڈرو اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہوگی نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا اور نہ مجرموں کو کہیں سے کوئی مدد مل سکے گی یاد کرو وہ وقت جب ہم نے تمہیں فیرونیوں کی غلامی سے نجات بخشی اب بن اسرائیل کو کچھ انعامات یاد کرائے جا رہے ہیں انہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا تمہارے رڈکوں کو زبا کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی بظاہر تو فیرون سب کچھ کر رہا تھا لیکن آزمائش