Transcript for:
Details of Zahra Qadeer's murder.

کچھ کہانیاں اتنی دردناک ہوتی ہیں کہ ان کو سننے اور پڑھنے کے کئی روز بعد بھی آپ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے سیالکوٹ کے زلہ ڈسکا میں ایک ڈھائی سالہ بچے کی ماں اور نو مہینے کی حاملہ زہراق بدیر کو جس بہرہمی سے قتل کر کے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے اس نے ہر سننے والے کا دل دہلا دیا ہے کیا زہرہ اور ان کے شوہر کے درمیان محبت قتل کے پیچھے واحد وجہ تھی؟ زہرہ قدیر کا قتل کس نے کیا اور کن حالات میں؟ اور پولیس نے زہرہ کی سگی خالہ جو ان کی ساز بھی ہیں اور زہرہ کی نندوں کو ان کے قتل کی تفتیش میں کن بنیادوں پر شامل کیا؟ زہرہ قدیر کا قتل اور اس سے جڑے تمام سوالات پولیس کی تفتیش اور دل دہلا دینے والے انکشافات یہی ہے آج کا بی بی سی ریڈز میں ہوں خدیجہ عارف آپ سن رہے ہیں بی بی سی ریڈز ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ بچے جب کسی پریشانی میں ہوتے ہیں تو ان کے ماں باپ کو اس کا احساس ہو جاتا ہے وہ بے چین ہو جاتے ہیں سیالکوٹ کے شہر ڈسکا کی زہرہ قدیر کے والد کو ایک ایسا ہی احساس یا بے چینی اپنی بیٹی کے مرڈر کے انکشاف تک لے گئی دس نومبر کی صبح صویرے زہرہ کے والد انہیں بار بار فون کر رہے تھے فون بج رہا تھا لیکن کوئی اٹھا نہیں رہا تھا اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ زہرہ کے ابو انہیں فون کرے اتنی بار فون بجے اور وہ فون نہ اٹھائے زہرہ کچھ دن پہلے ہی سعودی عرب میں اپنے شوہر کے پاس رہ کر واپس پاکستان آئی تھی اور اپنے والد کی گھر سے انہیں سسرال گئے ابھی تین ہی دن ہوئے تھے زہرہ کے والد ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ان کی بیٹی فون کیوں نہیں اٹھا رہی ہے اتنے میں سعودی عرب سے ان کے داماد کا فون آ گیا اور انہوں نے بھی یہی کہا زہرہ فون نہیں اٹھا رہی ہے زہرہ کے والد اور ان کے شوہر کی فکر کا اندازہ لگانا اس لیے آسان ہے کیونکہ وہ دن میں دو تین بار اپنے والد اور شوہر کو فون کیا کرتی تھی خاص طور پر اپنے شوہر کو کیونکہ انہیں اپنے دھائی سال کے بیٹے کی باتیں بھی تو بتانی ہوتی تھی اور ویسے بھی نو مہینے کی پریگننٹ عورت جس کا شوہر اس سے اتنی دور ہو وہ اگر اتنی بار کال کرنے پر فون نہ اٹھائے تو نیچرلی یہ خیال تو آئے گا کہ سب ٹھیک تو ہے نا لیکن کیا زہرہ کے والد اور ان کے شوہر نے کبھی سوچا ہوگا کہ زہرہ کے ساتھ اتنا بڑا ظلم ہو چکا ہے اور اسے کتنی بہرہمی سے قتل کیا گیا ہے ہرگز نہیں لیکن ہاں ایسا ہی ہوا زہرہ کے والد نے جتنی جلدی اپنی بیٹی کے قتل کا پتہ لگایا اس میں شاید ان کے خود کے پولیس افسر ہونے سے زیادہ اپنی بیٹی سے محبت کرنے والے والد کا سکس سینس ہے زہرہ کو کس وجہ سے قتل کیا گیا اس کا ذکر بعد میں لیکن پہلے یہ کہ پولیس نے اتنی جلدی اتنے ہولنا قتل کا پتہ کیسے لگایا اور مبینہ طور پر قتل کرنے والوں نے تفتیش میں کیا بتایا تو سب سے پہلے یہ کہ زہرہ کے قتل کا علم کیسے ہوا زہرہ کے والد شبیر احمد کا دل جب زہرہ کی خیریت نہ ملنے پر پریشان ہوا تو وہ فوراں ڈسکا میں اس کے سسرال گئے لیکن وہاں انہیں زہرہ کی ساس نے بتایا کہ وہ گھر پر نہیں ہے اور وہاں موجود ان کی نن نے کہا کہ زہرہ پیسے اور زیور لے کر بھاگ گئی ہے شبیر احمد کو یہ بات کچھ کھٹ کی انہوں نے زہرہ کو گھر کے ہر کمرے میں تلاش کیا ایک بات جو انہیں عجیب لگی وہ یہ تھی کہ زہرہ کا ڈھائی سال کا بیٹا گھر پر تھا وہ گھر کے فرش کو دھویا گیا تھا شبیر احمد کو یہ احساس ہوا کہ کچھ تو غلط ہے انہوں نے فوراً اپنے بھائی کو فون کیا اور پھر پولیس کو اطلاع دی یہاں یہ بتا دوں کہ شبیر احمد نے اتنی جلدی پولیس کو اس لیے اطلاع دی کیونکہ ان کے بقول ان کی بیٹی کو ماضی میں بھی سسرال میں ایک بار مارنے کی کوشش کی گئی تھی شبیر احمد نے سب سے پہلے ڈسکا کے مقامی تھانے میں زہرہ کے سسرال والوں کے خلاف کیڈناپنگ کی ریپورٹ درج کرائے تو اس پر پولیس کا کیا کہنا ہے اور پولیس زہرہ کی لاش تک کیسے پہنچی پولیس نے اپنے ابتدائی انویسٹگیشن میں دعویٰ کیا ہے کہ زہرہ قدیر کو مبینہ طور پر ان کی ساس اور نندوں نے رشتہ داروں کی مدد سے قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کے ٹکڑے کیے اور بوریوں میں بن کر کے انہیں ایک نالے میں بہا دیا سیالکورٹ پولیس کے درجمان وقاس علی کا کہنا ہے کہ شبیر احمد کے درخواست پر پولیس نے کاروائی کی اور مقدمہ درج ہونے کے بعد زہرہ کے سسرال والوں سے تفتیش کی زہرہ کی ساس اور نن نے پولیس کے سامنے یہ انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اپنے رشتہاروں کی مدد سے زہرہ کا قتل کیا اور اس کی لاش کے ٹکڑے کر کے نالے میں پھیک دیئے بقاس علی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ملزمان قواتین نے اعتراف جرم کرتے ہوئے اس حولناک واردات کی ساری تفصیلات بتا دی اور قتل میں استعمال ہونے والا ٹوکا اور چھوڑی بھی برامت کروا دی پولیس کا کہنا ہے کہ زہرہ کا قتل پوری پلاننگ کے ساتھ کیا گیا ہے یہاں میں یہ بتا دوں کہ زہرہ کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اس کی تفصیلات اتنی بھیانک ہیں کہ انہیں ہم نہ ہی دہرائیں تو بہتر ہے لیکن پوسٹ مارٹم کے مطابق زہرہ کو پہلے دم گھوٹ کے مارا گیا اور بعد میں اس کے جسم کے ٹکڑے کی گئے پولیس کا کہنا ہے کہ زہرہ کی ساس اور دو نندوں کے علاوہ اس قتل میں ان کی ایک نند کے بیٹے اور دوسری نند کے قریبی عزیز بھی شامل ہیں جن کو لاہور سے بلایا گیا تھا پولیس کہتی ہے کہ زہرہ کی لاش کو اس لیے گھر سے دور پھیکا گیا تاکہ قتل ایک ماما بنا رہے پولیس کے مطابق ملزمان نے زہرہ کے گھر چھوڑ کر جانے کی ایک جھوٹی کہانی بنانے کی کوشش کی تھی اب بتاتے ہیں کہ زہرہ کی لاش کو کیسے تلاش کیا گیا جیسے ہی اس بھیانک جرم کا پردہ چاک ہوا تو پولیس ریسکیو آفیسرز اور مقامی لوگوں نے فوراں زہرہ کی لاش کو تلاش کرنا شروع کر دیا پولیس نے صبح سے لے کر رات تک تلاش جاری رکھی اور انہیں وہ شاپنگ بیگز اور پلاسٹک بیگز ملے جن میں زہرہ کی لاش کے ٹکڑے کر کے پھیکے گئے تھے زہرہ کی شادی اپنی سگی خالہ کے گھر ہوئی تھی تب بھی ان کو اتنی بے دردی سے کیوں قتل کیا گیا وہ کیا وجوہات تھیں جن کا نتیجہ اتنا خولناک نکلا زہرہ کے والد نے بتایا ہے کہ ان کی بیٹی کی چند سال پہلے ہی اپنی خالہ کے بیٹے قدیر سے شادی ہوئی تھی جو چھے بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے اور سعودی عرب میں رہتا ہے وہ زہرہ سے پیار کرتا تھا اور شادی کے بعد وہ زہرہ کو اپنے ساتھ سعودی عرب لے گیا اور اکثر وہ پاکستان آتی رہتی تھی زہرہ کی والدہ نے اپنی زندگی میں ہی زہرہ کا رشتہ اپنے بھانجے سے تیہ کر دیا تھا زہرہ اور قدیر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور ایک دوسرے کا بہت قیال رکھتے تھے پولیس کی ابتدائی انویسٹگیشن میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ قدیر کی ماں زہرہ کو اکثر یہ کہہ کر تنگ کرتی تھی کہ انہوں نے ان کے بیٹے پر جادو کر دیا ہے پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی ساس کو اپنے بیٹے اور بہو کے درمیان محبت بلکل برداشت نہیں تھی اور زہرہ کے دوسری بار حاملہ ہونے پر انہیں لگا کہ ان کا بیٹا مکمل طور پر بہو کی گرفت میں آ جائے گا زہرہ کی سجرال والوں نے مبینہ طور پر جس طرح سے زہرہ کا قتل کیا ہے اس سے نہ صرف پولیس زہرہ کی میت کو غسل دینے والی قاتون بلکہ علاقے کا ہر انسان صدمے میں ہے اور سب سے زیادہ زہرہ کے والد جن کی اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد بیٹی ہی سکھ دکھ کا ساتھی تھی بی بی سی ریڈز بی بی سی ریڈز کے ذریعے ہماری یہی کوشش ہے کہ بی بی سی اردو کی ویب سائیٹ کی وہ سٹوری جن میں آڈینس کی دلچسپی زیادہ نظر آتی ہے انہیں اور بھی زیادہ لوگوں تک کیوں نہ پہنچایا جائے تو ہم پڑھیں اور آپ سنیے اور اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو بھی سنائیے