6 ستمبر 1965 کی صبح بھارتی فوج پاکستان کے تین بڑے شہروں پہ حملہ کر دیتی ہے جس میں سے پہلا بورڈر جس کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ لاہور کا اور دوسرا سیالکوٹ کا تیسرا راجستان کا بورڈر تھا اس کے رہتے ہوئے پاکستان میں آج تک یہ بتایا جاتا ہے کہ رات کے اندھیرے میں دشمن نے حملہ کر دیا اور ہم نے بہادری سے اس کو ڈیفینڈ کیا لیکن یہ نہیں بتایا جاتا انفوچنیٹلی کہ اس جنگ کو شروع کرنے والا کون تھا اور ساتھ ساتھ یہ کہ اگر شروع ہم نے کی تو ہمارے حصے میں کیا آیا کتنا نقصان ہوا یہ جنگ کون جیتا آیا سٹیل میٹ ہو گئی یا بھارت جیت گیا یا پاکستان جیت گیا اور اس کے ریپرکشنز کیا ہوئے اور پاکستان کی ریاست کیا آج تک اس وار منٹالٹی سے ریکاور کر پائی ہے یا نہیں آج اس پر بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ کہ آپ کو یہ حالات سمجھنا پڑیں گے کہ سکسٹی فائف سے پہلے کا پاکستان اور بھارت تھا کیسا میڈ ففٹیز میں آفٹر پاکستان فارٹ آ وار ان فورٹی ایٹ ویڈ انڈیا اور کشمیر پاکستان الائنسز کا حصہ بننا شروع ہو گیا امریکہ کی بھارت رہا نون الائنڈ یعنی کہ بھارت نے نہ روس کو سپورٹ کیا نہ امریکہ کو کیا پاکستان نے سر جنگ میں جو کہ امریکہ اور روس کے درمیان تھی ویسٹرن الائنس کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا سیٹو اور سینٹو سائن کیا بدلے میں بہت سا پیسہ فلو ان کر رہا تھا بہت سی انڈسٹریز میں بہت بڑا کیپیٹل انویسٹ ہو رہا تھا ڈیمز بن رہے تھے انفرسٹرکچر بن رہا تھا ملٹری کا جو ایکوپمنٹ ہے وہ امریکہ سے فلو ان کر رہا تھا تو پاکستان کو ڈیکیڈ آف ڈیولپمنٹ ایکسپیریئنس کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا اسی کے رہتے ہوئے پاکستان میں ایک ایڈڈ کانفیڈنس تھا that we can compete with our indian counterparts نمبر ٹو ارلی سکسٹیز میں سائنو انڈین وار ہوتی ہے یعنی کہ بھارت اور چین کے درمیان بارڈل ڈسپیوٹ پر جنگ کا آغاز ہوتا ہے جو کہ بھارت یہ جنگ ہار جاتا ہے اس کو دیکھتے ہوئے پاکستان کانفیڈنس فیل کرتا ہے کہ now we can also dominate india like china has done so یہ نہیں سوچتے کہ چائنہ اور پاکستان میں کتنا بڑا فرق ہے اس کے بعد پاکستان یہ بھی فیل کرتا ہے کہ کشمیر کے اندر بھی ریزسٹنس موجود ہے اگینسٹ انڈیا کیونکہ تقریباً بیس ہزار گوریلا فائٹرز وہاں پر تیار ہیں اگر کوئی بھی جنگ ہوتی ہے ہندوستان سے لڑنے کے لیے یہ ریپورٹس بھی پاکستان کو ملتی ہیں ساتھ ساتھ یہ کہ رن آف کچھ کی لڑائی ہوتی ہے یعنی کہ یہ رن آف کچھ کا وہ ایریہ ہے جو کہ سندھ اور کچھ کے علاقے کو سیپریٹ کرتا ہے یہاں پر سوانپس تھے اور اس کے علاوہ ایسا ایریہ تھا جہاں پر کافی ایمفیبیس لینڈ تھی تو یہ دیکھتے ہوئے سپرنگ 1965 میں ایک بورڈر اسکیلیشن ایک ڈسپیوٹ میں کنورٹ ہوتی ہے پاکستان اور بھارت کی فوج کی لڑائی ہوتی ہے یہ 65 کی جنگ سے پہلے کی بات کر رہا ہوں اس لڑائی میں انڈین فورسز وڈڈرا کر جاتی ہیں مارش لینڈ پاکستان کے حصے میں تقریباً 40 میل تک کا علاقہ آ جاتا ہے اس سے پاکستان کی فوج کانفیڈنٹ فیل کرتی ہے کہ اگر ہم ران آف کچھ میں ڈامینیٹ کر سکتے ہیں فور ایسے پیریڈ آف ٹائم تو ہم اوورال بھارت کو ڈومینٹ کیوں نہیں کر سکتے اس کے بعد برٹش پرائم منسٹر ہیرلڈ ویلسن کی طرف سے میڈییشن ہوتی ہے رن اف کچھ کے علاقے کے اوپر اور پاکستان کو نوردن ہاف دے دیا جاتا ہے رن کا علاقہ اور یہ سارا کچھ ایکسپیریئنس کرنے کے بعد پاکستان میں جو ہاکش ایلیمنٹس تھے پاکستان میں گورنمنٹ کی کابینہ کے اندر یا ملٹری کے انسٹیٹیوشن کے اندر پروپوننٹ بن جاتے ہیں بھارت کے خلاف ایک باقاعدہ جنگ کا آغاز کرنے میں اب بہت سے لوگوں کا تاثر یہ ہے کہ عیوب خان نے سنگل ہینڈلیز جنگ کا آغاز کیا جو کہ بالکل غلط ہے عیوب خان ایز ای ملٹری ڈکٹیٹر وز نوٹ ایڈونچرس وین ایٹ کمز ٹو ملٹری ڈیزائنز ان کو کوئی خاص شوق نہیں تھا کہ میں نے ایکسپینشن کرنی ہے یا میں نے بھارت پر اٹیک کرنا ہے ان فیکٹ وہ ایسے جنرل تھے جو کہ ایک limited mindset میں رہ کے operate کرنے کے عادی تھے جن کو expansionism سے کوئی interest نہیں تھا لیکن villains کون ثابت ہوئے وہ ہوئے بھٹو صاحب جن کو ہم بہت بڑا دیموکرات سمجھتے ہیں ان کے war jingoism کا کوئی limit ہی دکھائی نہیں دیتی اس case کے اندر اس کی وجہ یہ ہے کہ troika تھا basically ایک تھے عیوب خان دوسرے تھے بھٹو صاحب اور تیسرے تھے عزیز احمد جو کہ indian affairs کے expert تھے اور advisor تھے عیوب کی کابینہ کے اندر یہ تینوں ان تمام نگوسییشنز کا آغاز کرتے ہیں جو کل کو جا کے آپریشن جبرالٹر میں کنورٹ ہوتی ہے آپریشن جبرا��ٹر پاکستان کی تاریخ کا وہ حصہ ہے جو یہاں بچوں کو بتایا نہیں جاتا ٹیکس بوکس میں پڑھایا نہیں جاتا تاکہ یہ ثابت نہ ہو سکے کہ اس جنگ کا آغاز ہم نے کیا تھا لیکن آپ سب کو اس بارے میں ضرور پڑھنا چاہیے اس کے لیے بہت سی کتابیں ہیں جو آپ پڑھ سکتے ہیں مگنیفیسنٹ ڈیلوزنز ہے حسین اکانی صاحب کی وہ پڑھ سکتے ہیں اس کے علاوہ کشمیر ان کانفلکٹ کتاب ہے انڈیا پاکستان اینڈ دی ان اینڈنگ وارز بائی ویکٹوریا سکوفیلڈ یہ بہت اچھی کتاب ہے یہ پڑھ سکتے ہیں ساتھ ساتھ یہ کہ اس وقت کے انفرمیشن منسٹر الطاف گوھر کی طرف سے لکھی گئی کتاب ایوب خان دی فرس میلٹری ڈکٹیٹر آف پاکستان اس ویری امپورٹنٹ اس کتاب میں بہت لمبی چوڑی طویل ڈیٹیل ہے جو کہ اس جنگ کے بارے میں بتاتی ہے کمنگ بیک ٹو در ٹرویکا تو سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ بھٹو صاحب کنونس کرنے کی کوشش کا آغاز کر دیتے ہیں ایوب خان صاحب کو ایوب خان سسپیشس تھے کہ کرنا کیا ہے لیکن بھٹو نے انہیں کس طرح کنونس کیا اس طرح کہ انہوں نے کہا کہ ریزنٹمنٹ موجود ہے کشمیریوں کے اندر بھارتی حکومت کے خلاف تو اگر ہم ایلو سی سے کچھ لوگوں کو اس پار بھیج دیں ڈسگائز طریقے سے بغیر ملٹری یونیفارمز کے اور ان کو اون نہ کریں یہ کہیں کہ وہ لوکلز ہیں اور وہاں جا کے ایک ریبیلین کو سرپ کرنے کی کوشش کریں تو ہو سکتا ہے کہ پورا کشمیر اٹھ کھڑا ہو بھارت کے خلاف اور وہاں پر موجود جو لوکل گوریلاز ہیں وہ بھی ہمارا ساتھ دیں اور ساتھ ساتھ یہ کہ ہم کشمیر کو ڈامینٹ کر کے اوور پاور کر کے انڈیا سے اس کو کاٹ کے اپنی یونین کا حصہ بنا لیں تو یہ پلان پش کرنا شروع ہوتے ہیں بھٹو صاحب عزیز احمد صاحب اور ساتھ ساتھ اس پلان کو پش کرنے کے لیے جس نے بھٹو صاحب کا بہت ساتھ دیا وہ تھے مجر جرنل اختر حسین ملک جو کہ کوپریٹ کرتے رہے بھٹو صاحب کے ساتھ اور بھٹو صاحب نے اور اختر حسین ملک صاحب نے بہت سی انٹیلیجنس ریپورٹ کو بھی فیبریکیٹ کر کے پیش کیا کہ وہاں پر ہزاروں لوگ ہمارا انتظار کر رہے ہیں کہ جیسے ہی ہم آئیں گے تو ریبیلین ہو جائے گا اور ساتھ ساتھ یہ کہ بھٹو صاحب نے یہ کہا کہ ہندوستان کے خلاف کنونشنل وارفیر اس نوٹ انف ہمیں ان کنونشنلی لڑنا پڑے گا انہوں نے یہ ب جس سے انسائٹمنٹ ہو جائے لوکلز کی اور وہ ہمارا ساتھ دیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگریسیو اپروچ لینے کی ضرورت ہے حالانکہ ایوب خان was suspicious of this entire design شاید آپ سپرائز ہوں یہ دیکھ کے لیکن ایوب خان صاحب کو اس سب میں ڈاؤٹ کی بو آ رہی تھی وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ یہ اگر سکسیسفل نہ ہوا تو پھر کیا ہوگا کیونکہ ہر ایک critical thinker کو ہر اس طرح کے design کو critically دیکھنا چاہیے لیکن بھٹو صاحب اپنے وار کے جنگوئزم میں مکمل طور پر کنونس تھے کہ نہیں ہم نے یہ ہر صورت کرنا ہے اور ساتھ ساتھ اگریسیوی کرنا ہے اور اس میں الطاف گوھر صاحب اپنی کتاب میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ جہاں پر ایوب کی ججمنٹ بھی ایمپیرڈ ہو گئی وہ اسی لیے کہ ایوب نیچرلی یہ فیل کرتے تھے کوٹ ان کوٹ انہوں نے لکھا ہے کہ ہندوز ہیو نو سٹامک فور ای فائٹ کہ ہندوستان کے جو شہری ہیں جو فوجی ہیں وہ لڑ نہیں سکتے تو جب بھٹو صاحب نے بڑا کنونس کرنے کی کوشش کی کہ نہیں ہندوستان تو ریاکٹ کر ہی نہیں سکتا آگے سے تو آگے سے ایوب صاحب کنونس اسی لیے ہو گئے کہ وہ اس میکسیم پہ یقین کرتے تھے جو کہ ابسیلوٹلی فالٹی نکلا اور ساتھ ساتھ یہ کہ جو کیرفل اپروچ تھی ایوب خان کی وہ وڈڈرا ہو گئی کیونکہ ان کے اوپر پریشر ڈالا گیا اور ان کو منوبر منپلیٹ کر لیا گیا جب اختر حسین ملک صاحب بھی ساتھ مل گئے تو ان کو ریپورٹس یہ دی گئی کہ ہندوستان اس پوزیشن میں ہی نہیں ہوگا اگر جبرالٹر سکسیسفل ہوتا ہے کہ وہ کشمیر کو ایک دن بھی ہولڈ کر سکے اس طرح سے آپریشن جبرالٹر کا آپریشنلائز ہونے کا آغاز ہو جاتا ہے مری میں اس کا ہیڈکوارٹر بنتا ہے ٹاسک فورس کا آغاز ہوتا ہے ملٹیپل ٹاسک فورس بنائی جاتی ہیں اچھا ان کے نام رکھے جاتے ہیں تارک ٹاسک فورس قاسم یا پھر خالد غزنوی یہ تمام ناموں کے اوپر انتخاب کیا جاتا ہے ٹاسک فورس کا نام رکھنے کا اس کا مطلب یہ ہے کہ پیورلی ایڈیولوجکلی موٹیویٹڈ ایک جنگ تھی جس میں ہم یہ سوچ رہے تھے کہ جو انویڈرز ایک دور میں آکے ہندوستان میں پلنڈر اور لوٹ پھیلایا کرتے تھے ہم بھی اب وہی بن گئے ہیں اور ہم نے اپنے ان ساری ٹاسک فورسز کا نام بھی انہی کے ناموں پر رکھنا شروع کر دیا جس میں غزنوی تھا غوری تھا اور باقی سب نام تھے تو ان کی ٹریننگ کا آغاز ہوتا ہے اور کشمیر میں نوردن سائیڈ سے ہاتھوں میں ہتھیار اٹھا کے اور راشن اٹھا کے پیدل چل کے مہینوں تک برفوں کے اوپر یہ لوگ داخل ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اس میں بہت سے لوگ SSG کے بھی تھے شاید آپ کو یہ معلوم نہ ہو لیکن SSG وہ فورس ہے جو کہ Special Services Group کہلاتی ہے جو کہ بنایا ہی US Aid سے تھا to fight against the threat of communism لیکن امریکہ کو اس وقت تک معلوم نہیں ہے کہ ہم کیا کرنا چاہ رہے ہیں کیونکہ انہوں نے وہ ساری military aid روس کے خلاف دی تھی ہمیں اور ہم ماشاءاللہ اپنے ہمسائے کے خلاف چڑھ گئے تو یہ سارا کچھ دیکھتے ہوئے یہ مجاہدین کہہ لیجئے آپ یا پھر گوریلا فائٹرز کہہ لیجئے یا پھر ڈسگائز سولجرز کہہ لیجئے یہ سب کشمیر میں انٹر ہونا شروع ہو گئے لیکن گراؤنڈ ریالٹی مختلف نکلی اور آئیڈیا یہ ہوا ان تمام فائٹرز کو کہ وہاں پر گراؤنڈ ریالٹی اتنی مختلف ہے کہ لوکلز تو تیار ہی نہیں ہیں لڑنے کے لیے ان فیکٹ وہ سسپیشس ہونا شروع ہو گئے کہ یہ سب کہاں سے آگئے ہیں تو اس پر الطاف گوھر صاحب بھی لکھتے ہیں کہ رات کے اندھیرے میں اکثر یہ مجاہدین جب لوکل کشمیریوں کے پاس جایا کرتے تھے کہ ہم تمہیں آزاد کروانے آئے ہیں تو وہ آگے سے خوف زدہ ہو کے انڈین آثورٹیز کو ریپورٹ کر دیا کرتے تھے کہ یہ پتہ نہیں کون لوگ ہیں کیونکہ وہ لوگ سوچتے تھے کہ یار اگر ہم پکڑے گئے تو ہمیں بھی مار پڑے گی تو ان کو تو پکڑواو ان کے ہاتھوں تو لوکلز نے ہی ان تمام فائٹرز کو انڈین آثورٹیز کو ریپورٹ کرنا شروع کر دیا انٹیلیجنس پروائیڈ کرنا شروع کر دی کوئی بکریان چرانے والا ہے جس نے پہاڑ پر کچھ لوگوں کو آتے ہوئے دیکھ لیا ہے یا پھر کوئی دکاندار ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اتنا ایزیلی آئیڈنٹیفائی ہونا شروع ہو گئے کیونکہ نہ ان کو کشمیری زبان بولنی آتی تھی نہ وہ ویزیبلی کشمیری لگتے تھے اور نہ ان کا لہجہ اور ڈائلیکٹ ویسا تھا تو انٹیلیجنس آپریشن اتنا پور تھا کہ بغیر وہاں کے لوگوں کی طرح کا بیس بدلے ان کی زبان سیکھے آپ نے اتنے بڑے نمبر کو وہاں بھیج دیا جو کہ ان میں مکس نہیں ہو پائے اور ریپورٹ آنا شروع ہو گئے بدلے میں کیا ہوا کہ انڈیا الیٹ ہو گیا اور لوکل آثورٹیز کی طرف سے الیٹ کر دیا گیا انڈین فورسز کو انڈیا نے ریاکٹ کرنے کے بعد روٹس کو بلوک کرنا شروع کر دیا تھا کہ مزید مجاہدین انٹر نہ ہوں یہاں تک کہ مزفر آباد بھی تھریٹن ہونا شروع ہو گیا کہ کہیں انڈیا کیپچر نہ کر لے اس کو اور پاکستان کا پانٹری پلان کیا تھا؟ پاکستان کا پلان یہ تھا کہ یہ تمام فورسز وہاں پر جائیں گی سلاہ الدین فورس کے نام سے جو بٹیلین تھی وہ یہ کرے گی کہ تقریباً آٹھ اگست کے دن یعنی کہ یہ چھ ستمبر سے ایک مہینے سے پہلے سے ہو رہا تھا اب ہم نے دیفنس ڈے تو 6 ستمبر کو منایا ہے لیکن اگست کے آغاز میں ہی ہم اپنی فورسز کو وہاں پر بھیج چکے تھے تو 8 اگست کو سرینگر میں ان کا پلان یہ تھا کہ جس دن وہاں پر کچھ اعتجاج کی کال تھی اور کیونکہ عبداللہ کے ارسٹ پر اعتجاج ہونے تھے تو اسی دن کا انتخاب کرنا تھا کہ سلاودین فورس نے ریڈیو کو سیز کر لینا تھا سرینگر ائرپورٹ پر قبضہ کر لینا تھا اور اس کے بعد میں لیبریشن کا اعلان کرنا تھا اور پھر کشمیر کے لوکلز نے سپورٹ کر دینا تھا ان کو یہ خوابوں میں بھٹو صاحب نے اور عزیز صاحب نے پلان بنا رکھا تھا سپورٹڈ بائی اختر حسین ملک اور یہ سارا کچھ کرنے کے انہوں نے خواب دیکھ رکھے تھے لیکن ہوا کیا وہ یہ کہ انڈین اتھارٹیز الیٹ ہو گئی ہیں اور اس کے بعد میں جو ریسپانس آیا وہ بالکل انٹیسپیٹڈ نہیں تھا آپریشن جبرالٹر کے علاوہ ایک اور آپریشن کا بھی پلان کیا گیا تھا جس کا نام تھا آپریشن گرانڈ سلام اور گرانڈ سلام کا ڈیزائن کیا تھا اس کا ڈیزائن یہ تھا کہ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ ہم اٹیک کریں گے کمیونکیشن لائنز کو جو کہ پونچ میں اور نوشیرہ میں موجود ہیں ہندوستان میں ساتھ ساتھ یہ کہ اکنور بریج جو موجود ہے چناب ریور کے کنارے اس کو ہم کیپچر کر لیں گے پوزیس کر لیں گے اور اس کے بعد جمہور کشمیر کا تمام راستہ تمام جوگرافیکل کنیکشن ہندوستان سے کاٹ کے انڈین آرمی کو ایک طرف لداخ اور دوسری طرف اس سائیڈ پر دھرمیان میں فسا کے ماریں گے ٹھیک ہے یہ پلان تھا اس کی ابھی اپروول نہیں ہوئی تھی ابھی جبرالٹر فل سکیل پر چاری تھا اور ساتھ ساتھ یہ کہ دوسری طرف جب ہندوستان میں آئیڈیا ہوا کہ مجاہدین گھسائیں ہیں کیونکہ لوگلز نے ریپورٹ کر دیا تو لال بہادر شاستری جو اس وقت کے وزیراعظم تھے ان پر ایک میسیو پریشر اور کرٹیسزم ہوا کہ آپ نے اتنا تھنڈا ریسپانس دیا اگریسیولی ریاکٹ ہی نہیں کیا یا آپ نے یہ ٹولیریٹ کیسے کر لیا آپ کیا ایکشن لے رہے ہیں ان لوگوں کو ڈرائیو آؤٹ کرنے میں تو اس سارے ایشو کے اوپر سولہ اگست کو وی بیفور سکس سپٹمبر سولہ اگست کو دلی کے اندر ایک لاکھ لوگوں نے لال بہادر شاصری کے خلاف پروٹیسٹ کیا ہے تجاز کیا کہ آپ نے جو ریاکشن دیا ہے وہ بہت ہی بنائن ریاکشن ہے ہاملیس ریاکشن ہے ایک سرکار کے ناتے ہمارا کیا جواب ہو سکتا ہے سوائز کے ہم ہٹیاروں کا جواب ہٹیاروں سے دیتے ہیں سو گریجولی بیلڈنگ اپ اٹھائیس اگست کو ہندوستان نے ہاجی پیر پاس پہ آپریشن شروع کر دیا اور اس کو کیپچر کر لیا بہت سی امپورٹنٹ ہیلز کو کیپچر کرنا شروع کر دیا کشمیر ریجن کے اندر جس سے پاکستان کے سیٹ بیک شروع ہو گئے اور جبرالٹر جو ہے وہ فیلیر میں ریزلٹ کرنا شروع ہو گیا کیونکہ لوکلز نے ایک تو پکڑنا شروع کر دیا لوگوں کو انٹل آپریشن فیل ہو گیا اور سارے مجاہدین جو بھیجے گئے تھے آئیڈنٹیفائی ہونا شروع ہو گئے اور ہندوستان نے سپلائی لائنز بھی کٹنا شروع کر دیں اور آگے سے کاؤنٹر اٹیک لانچ کرنا شروع کر دیا جب رالٹر کے اس فیلئر کے باوجود اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ کی طرف سے کہا گیا بھٹو صاحب کو کہ آپ پلیز مجھے عیوب خان صاحب سے آپریشن گرانڈ سلام کیلئے اپروول لے کے دیجئے تاکہ میں اوورال کشمیر پہ ایک قبضہ کرنے کا جو ہمارا پلان ہے اس کو ایکزیکیوٹ کر سکوں اور بھٹو صاحب اس وقت اس لابنگ میں مصروف تھے بجائے اس کے کہ اس سٹیج پہ بھی 6 ستمبر سے پہلے کچھ نہ کچھ ایکٹ کر کے ڈیمیج کنٹرول کر لیتے نہیں کیا اپروول مل گئی 31 اگس کو گرانڈ سلام آپریشن کا بھی آغاز ہو گیا اور اس آپریشن کے آغاز کے بعد پاکستان کا جو فوج کا ایک چھوٹا سیکشن تھا انہوں نے انٹرنیشنل بارڈر بھی کروس کر دیا تقریباً سیالکوٹر جمعو کے درمیان اور کلیر میسج دے دیا کہ دوار ہیس بین ویجڈ اندازہ لگائیے کہ اس وقت تک جب سب کچھ ہو چکا ہے تو پاکستان کی انفنٹری کو کچھ نہیں پتا overall پاکستان کی ائر فورس کو کچھ نہیں پتا پاکستان کی نیوی کو کچھ نہیں پتا یہ میں نہیں کہہ رہا یہ ائر مارشل نور خان کا انٹرویو ہے جو کہ ڈان نیوز نے پبلش کیا ہے بی بی سی پر بھی پبلش کیا گیا ہے آپ پڑھ سکتے ہیں کوٹ ان کوٹ نور خان صاحب کیا کہتے ہیں آپ نے آپ کو ہیرو ثابت کرنے کے لیے ایوب بھٹو اور عزیز نے یہ آپریشن لانچ کر دیا نیشنل انٹرس میں نہیں کیا کہ انہوں نے عوام کو بے وکوف بنایا کہ یہ جنگ ہندوستان نے شروع کی ہے ہم نے نہیں کی بہت بڑا جھوٹ بولا نور خان صاحب کی سٹیٹمنٹ یہ بھی کہتی ہے کہ آرمی نے فورسز کے ساتھ کوئی پلان شیئر نہیں کیا پریزیڈنٹ ڈیویجنل کمانڈر اور کمانڈر انچیف انکیزی تین انٹیٹیز کے علاوہ کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ جنگ شروع ہو چکی ہے اندازہ لگائیے آپ ٹھیک ہے ساتھ ساتھ یہ کہ آرمی پریپیڈ نہیں تھی نیوی کو معلوم نہیں تھا تو پھر کس طرح سے ڈیمیش کنٹرول ہوتا اگر ہندوستان ریاکٹ کرتا لیکن ان تمام افسران نے جو کہ سارے ایڈوینچر میں انوالڈ تھے انہوں نے یہ ایکسپیکٹ ہی نہیں کیا کہ ہندوستان انٹرنیشنل بورڈر پہ ریسپانڈ کر دے گا بیکس دے انڈیان آرمی کے فکر کرنے کے لئے بہت کمیار ایٹیٹی تھا اس پیچھے جو کامیونی کی طرف پیش قدمی شروع کر دیتے ہیں ساتھ ساتھ یہ کہ ایک کالم سیالکوٹ کی طرف جاتا ہے اور پاکستان ائر فورس کی بیسز پر حملے شروع ہو جاتے ہیں جو بلٹس کریگ کہا کرتے تھا جرمن آرمی والے کہ اچانک س�� ایک چیز پلان کر کے آپریشن لانچ کر دینا وہی ہو گیا کیونکہ ٹاپ براس نے یہ ایکسپیکٹی نہیں کیا تھا کہ ایک ایسی جنگ جو کہ کشمیر کی ڈسپیوٹڈ ٹیرٹری میں لگائی جا رہی ہے وہ انٹرنیشنل بورڈرز تک پہنچ جائے گی جو کہ پہنچ گئی لاہور پر تھری پرانگڈ اٹیک ہوا تین جگہوں سے واگا سے بیدیاں سے اور جسڑ پنڈ سے اور اس کے ساتھ ساتھ آگے سے اگر پاکستان کے ریاکشن کی بات کی جائے وہ بھی بہت سولڈ تھا آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان کی جو فوج تھی وہ بریولی لڑی نہیں بلکل بریولی لڑی لیکن جن لوگوں نے یہ آپریشن پلان کیا جو کمیونیکیشن کا ڈیبیکل تھا جو ایڈونچرس سوچ تھی اس نے بہت بڑا ڈیمیج کر دیا تین دن تک پاکستان کی فوج نے لاہور کے فورٹرس کو ہولڈ کر کے رکھا ٹھیک ہے پیش قدمی ہونے نہیں دی ہندوستان کی اپارٹ فرم افیو کلومیٹرز ساتھ ساتھ یہ کہ سپٹمبر گیارہ کی اگر میں بات کروں یعنی کہ جنگ کے پانچ دن بعد تو پاکستان نے کلیم کرنا شروع کر دیا کہ ہم نے کھیم خرن کو کیپچر کر لیا ہے جو کہ امرستر اور فیروزپور کے درمیان واقع ہے انڈیا نے کلیم کیا کہ ہم نے برکی کا جو قصبہ ہے اس کو کنٹرول کر لیا ہے جو آج بھی لاہور کے پاس موجود ہے بی آر بی کنال کے پاس تو اس وقت دونوں طرف سے ٹریٹوریل کلیمز بھی جاری تھے کوئی کہہ رہا تھا کہ ہم نے یہ جگہ لے لی ہے ہم اس کو ڈینائے کرتے ہیں تو دونوں طرف سے اپوزنگ کلیمز آنے کا سلسلہ بھی جاری تھا سیالکوٹ کی اگر میں بات کروں تو وہاں پہ چھ سو ٹینکس کی بیٹل ہوئی بہت بڑی ٹینک بیٹل تھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ورلڈ وار ٹو کے بعد شاید سب سے بڑی ٹینک بیٹل اس ریجن میں ہوئی تو اس بیٹل میں بھی ایپسلوٹ سٹیلمیٹ کی کنڈیشن تھی ائر فورس نے اسسٹ کیا اور ساتھ ساتھ یہ کہ اگر سندھ اور راجستان کے بورڈر کی بات کی جائے تو آٹھ ستمبر کی روز ہندوستان نے گادرو پہ اٹیک کر دیا اور امرسر کو پاکستان کیپچر کرنے والا تھا لیکن جب انڈیا نے یہ ساری سیچویشن دیکھ کے ڈیم کے فلڈ گیٹس کھول دیئے کیونکہ ایک اور ایشو بھی پاکستان کو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ پانی ہندوستان سے پاکستان کی طرف فلو کرتا ہے انڈیا ایز اپر رائپیرین پاکستان ایز لوہر رائپیرین تو پانی کھولنے کے بعد الطاف گور صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں that Khemkharan became a graveyard for Pakistani tanks کہ کھیمکھرن پاکستانی ٹینکو کا قبرستان بن گیا پانی کی آنے کی وجہ سے اور جیتی ہوئی وار وہاں پہ الطاف گوھر کہتے ہیں کہ the war was officially over اس کے بعد اینڈین ائر فورس نے کراچی میں پنڈی میں سرگودہ میں پشاور تک میں بوبنگ کی پاکستان کی ائر فورس نے بہت ہی دلیری سے اور بہت ہی بریلینٹلی فائٹ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ جو زمین پہ سارے لوسز ہو رہے تھے انفنٹری کے اس کو ائر فورس نے کور کر لیا بریلینٹ پرفارمنس اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ تین گناہ بڑی انڈین ائر فورس کو کلٹیل کیا ساتھ ساتھ یہ کہ پتھانکوٹ میں جامنگر میں امبالا میں امرسر میں آسام میں ویسٹ بنگال میں اٹیکس کیے اور اس دوران بہت سے وار ہیروز کا بھی آپ کو تذکرہ سننے کو ملتا ہے جس میں آپ کو یاد ہوگا کہ آج تک ان کے نام سے پاکستان کے اندر بہت سی سڑکیں بھی منصوب ہیں سکوارڈن لیڈر تھے محمد محمود عالم یعنی کہ ایم ایم عالم جنہوں نے تقریباً پانچ ہنٹر ائرکرافٹس کو ایک منٹ کے اندر ڈسٹرائے کر کے اس وقت ورلڈ ریکارڈ قائم کیا پھر اور بہت سے وار ہیروز تھے میجر عزیز بھٹی کی کہانی بی آر بی کنال پہ آپ کو یاد ہوگا کیسی رہی سکورڈن لیڈر سفراز احمد رفیقی کی جو کارنامے تھے وہ بھی آپ کو یاد ہوں گے بھارت کی طرف سے بھی بہت سے وار ہیروز تھے چمل لال جو کہ فائرمن تھے بریولی لڑے ٹھیک ہے اور ٹینک ویگنز کو جلتے ہوئے استعمال کیا دشمن کے خلاف رائیفل مین تھے بھارت کے جن کا نام مطن سنگھ تھا انہوں نے راج پتانہ رائیفلز کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے ایک مشین گن سے بہت ہیوی نقصان کیا پاکستان کا تو دونوں طرف جو ایک وارئیرز کی گلوریفیکیشن ہوتی ہے جو ٹیلز ہوتی ہیں وہ بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی اور سچویشن اس پوائنٹ تک یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایبسلوٹلی سٹیل میٹ کی تھی یعنی کہ اگر کہیں ایک ملک جیتا تو دوسری طرف کسی دوسرے ملک نے اڈوانس کر لیا اوورال تیر وز نوٹ اکلیر وکٹر پائیڈ اس پوائنٹ اس دوران تقریباً جنگ کا آغاز ہوئے ہوئے گیارہ دن سے بارہ دن ہو چکے تھے اور پاکستان کے پاس ایمیونیشن ختم ہونا شروع ہو گیا تھا نیگوسیئٹ کرنے کی جہاں تک بات ہے بھارت نیگوسیئٹ کرنا نہیں چاہ رہا تھا پاکستان وز رننگ آٹ آٹ اوف ایمیونیشن یہ وہ ٹائم ہے جب چائنہ کی طرف سے بھارت کے خلاف سٹیٹمنٹس آنا شروع ہو گئیں چین نے یہ بھی کہا کہ بھارت کی طرف سے نیکڈ اگریشن کیا گیا چھ ستمبر کو چین چین نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ چائنہ سکم کالیڈور کی طرف آئے تو پھر ہم آپ کو چھوڑیں گے نہیں یہ سٹیٹمنٹ سن کر بریٹش پرائیم منیسر نے یہ کہا کہ اگر چائنہ اس جنگ میں کودا تو امریکہ اور بریٹن ہم دونوں بھارت کا ساتھ دیں گے یعنی کہ یہ خطہ ایک فلیش پوائنٹ بن سکتا تھا ایک انٹرنیشنل وار کا جو کہ ورلڈ وار میں کنورٹ ہو سکتی تھی کیونکہ یہاں پر کولڈ وار کے دوران جو جنگ ہو رہی تھی اگر اس میں چین یا روس یا بھارت کو سپورٹ کرنے کے لیے امریکہ آ جاتا تو شاید اس جنگ کا اندازہ آپ لگا نہیں سکتے کتنا زیادہ بڑھ جاتا ساتھ ساتھ یہ کہ انیس ستمبر کو ایک سیکرٹ فلائٹ لی ایوب خان نے وہ چین پہنچے چوہن لائی جو کہ وہاں پر پریمیر تھے ان سے ملاقات کی چوہن لائی نے ان کو کہا کہ اگر آپ ہماری اسسسنس چاہتے ہیں تو ہم اس کو دینے کو تیار ہیں وار کو پرولانگ کیجئے بڑھائیں اس جنگ کو and we are ready to support you لیکن ایوب خان نے ریفیوز کر دیا کیونکہ ایوب خان کو تھرٹ تھا کہ ہم لاہور کو لوز کر دیں گے اگر یہ جنگ مزید کنٹینیو ہوتی ہے اور پھر ڈیمیش کنٹرول کرنا ہمارے ہاتھ سے باہر نکل جائے گا اور ویسے بھی چونکہ انہوں نے اپنی فوج کو ائر فورس کو الیڈ تک نہیں کیا تھا تو ایک لمبی جنگ کے لیے پاکستان کی فوج تیار نہیں تھی۔ بیس ستمبر کو سیکیورٹی کانسل ریزولوشن پاس کرتی ہے کہ دو دن کا ٹائم ہے سیز فائر نہ ہوا تو سینکشن لگائیں گے یا پھر ڈیسائسیو ایکشن لیں گے یہ دیکھتے ہوئے بھارت نے فوری سیز فائر کر دیا پاکستان نے بھی سیز فائر کر دیا۔ اور یوں جنگ ختم ہوئی بائیس ستمبر کو بھٹو صاحب گئے سیکیورٹی کانسل میں خطاب کرنے کے لیے اور ہمیشہ کی طرح جو بھٹو صاحب کا وطیرہ تھا کہ لمبی لمبی تقریریں اور بڑی بڑی جذباتی باتیں کر کے لوگوں کو رام کرنے کی کوشش کرنا یہاں بھی انہوں نے کہا کہ ہزاروں سال کی جنگ ہم لگانے کو تیار ہیں بھارت سے کیونکہ بھارت نے اپنی پوری منسٹروسٹی میں پاکستان پر اگریشن انلیش کیا ہے تو اسی ویڈیو ہم بھی ہزار سال تک جنگ لڑنے کو تیار ہیں لڑی کتنے دن سترہ دن وہ بھی مشکل سے ٹھیک ہے تو اس کے بعد یو ایس نے بھی خاصی گریونسز کا اظہار کیا کیونکہ انہوں نے کہا کہ جو ہتھیار ہم نے آپ کو روس سے لڑنے کو دیئے تھے وہ آپ نے بھارت میں استعمال کر دیئے امبارگوز لگا دیئے کہ آئندہ سے بھارت اور پاکستان کو اسلحہ نہیں بیچنا یو ایس ایس آر نے انڈیا کو اسلحہ دیا لیکن نیوٹرل رہا چین نے پاکستان کو سپورٹ کرنے کی کوشش کی پاکستان نے سپورٹ سے جب انکار کیا تو چین بھی تھنڈا ہو گیا یہ تھا اس ساری جنگ کا لبے لباب لوسز کی بات کریں تو بی بی سی کی ریپورٹ یہ کہتی ہے کہ بے شک پاکستان نے بڑے ہیوی لوسز کلیم کیے بھارت کی سائیڈ پہ اور بھارت نے پاکستان کی سائیڈ پہ لیکن انڈیپینڈنٹ ریپورٹنگ یہ کہتی ہے کہ ہندوستان انیس سو سکوئر مائل ٹریٹری کیپچر کرنے میں کامیاب ہوا پاکستان پانچ سو چالیس سکوئر مائل کیپچر کرنے میں کامیاب ہوا ٹو ورڈز دی انڈین بورڈر اٹھائیس سو لوگ اٹھائیس سو فوجی ہندوستان کے مرے پانچ ہزار آٹھ سو جانے پاکستان کے فوجیوں کی گئیں نائنٹی سیون ٹینکس ہندوستان کے ڈسٹرائے ہوئے ساڑھے چار سو ٹینک پاکستان کے ڈسٹرائے ہوئے اس طرح ہندوستان کے سات لاکھ فوجیوں نے جنگ لڑی پاکستان کے ڈھائی لاکھ فوجیوں نے جنگ لڑی یعنی کہ تین گناہ تقریباً کم بھارت سے سترہ دن کی یہ جنگ سترہ دن کی یہ جنگ سٹیلمیٹ میں ریزلٹ ہو کے ختم ہو گئی لیکن اگر آپ یہ دیکھیں کہ یہ جنگ لگانے والا پاکستان تھا اور بدلے میں پاکستان کو کچھ نہیں ملا تو اس کو ہار تصور کر سکتے ہیں لیکن بہت ہی ویلر کے ساتھ اور بریوری کے ساتھ پاکستان کے فوجیوں نے پاکستان کی ٹیریٹری کو ڈیفینڈ کیا انفورچونیٹلی جن لوگوں نے چھ ہزار پاکستانیوں کو مروا دیا ان کا کوئی اعتصاب نہیں ہوا کسی نے نہیں پوچھا کہ تمہیں ہیرو بننے کے لیے کس نے کہا تھا نہیں سوال ہو ابھٹو صاحب سے کہ آپ کون ہوتے ہیں پورے ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے without telling the people نہیں پوچھا اور اتنے بڑے losses پاکستان نے سہے اور اس کے بعد میں تاشکنت declaration کو sign کر لیا اس declaration کے حوالے سے اگر کچھ points میں آپ کو بتاؤں تو 10 جنوری 1966 کو پاکستان کی طرف سے اور بھارت کی طرف سے یو ایس ایس آر یعنی کہ اس وقت کے روس میں جا کر اس ڈیکلریشن کو سائن کیا گیا اور اس میں یہ کہا گیا کہ تمام جو پرسونلز ہیں ان کو ہم وڈڈراؤ کر رہے ہیں یہ بھی کہا گیا کہ کوئی پروپیگنڈا ایک دوسرے ملک کے خلاف نہیں کیا جائے گا جو آج تک ہو رہا ہے یہ بھی کہا گیا کہ اکانومک اور ٹریڈ ریلیشنز کو ریسٹور کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے آج تک نہیں ہو رہے یہ بھی کہا گیا کہ دونوں ریاستوں کے جو بڑے ہیں وہ آپس میں ملتے رہیں گے کوپریٹ کرنے کے لیے دوستانہ تعلقات کو پرموٹ کرنے کے لیے لیکن آج تک ایسا نہیں ہو رہا اس اگریمنٹ کی سائننگ کے بعد بھٹو صاحب نے عوام کو یہ بتایا کہ دراصل عیوب خان صاحب نے آپ کے ملک کو جا کے ادھر بیش دی ہے اسی وجہ سے یہ غدار وطن ہے اور میں ان کا آپ ساتھ نہیں دوں گا اور اس کے بعد میں انہوں نے پیپس پارٹی کا آغاز کر دیا جو آج تک جمہوریت کی سٹرگل کر رہی ہے انڈیپینٹ ہسورینز کیا کہتے ہیں اس بارے میں وہ یہ کہتے ہیں جس طرح سے ڈینس کوکس کی ایک ریپورٹ ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ یعنی کہ پاکستان کو کچھ نہ ملا ایک ایسی جنگ سے جس کا آغاز انہوں نے خود کیا تھا انگلیس اسورین جان کیا یہ کہتے ہیں یعنی کہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان نے زیادہ لوسز انفلکٹ کیے اور وکٹری کا کلیم ان کا ہم سے بڑا ہے سٹینلی ولپٹ جو کہ بڑے آتھانٹک اسورین ہیں وہ یہ کہتے ہیں یعنی کہ دونوں میں سے کوئی ایک بھی اس سے پہلے کے جیتتا پہلے ہی سیز فائر ہو گیا یعنی کہ لیکن جب جنگ بندی ہوئی اس وقت ہندوستان اس پوزیشن میں تھا کہ لاہور پہ قبضہ کر لیتا انڈ کنٹرول کشمی سٹرٹیجک اوڑی پونچ بلچ مچ ٹو ایوبز چیکرن تو کہہ سکتے ہیں کہ سٹینلی ولپٹ نے بھی یہ کہا کہ یہ وار سٹیلمیٹ میں انڈ ہوئی کوئی نہیں جیتا اسی لیے دونوں طرف سے اگر کوئی کلیر وکٹری کو سبسٹانشیئٹ کرنے کی اناوس کرنے کی کوشش کرتا ہے غلط کہتا ہے اس جنگ سے نقصان کیا ہوا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان کی ایکنومک گروتھ رک گئی پاکستان نے ملٹرالیٹی سوچنا شروع کر دیا اور پاکستان نے اپنے تمام جو ترقیے کی ایک پوری دہائی تھی اس کا سارا خون چوس کے اس جنگ پہ جھونک دیا چھے ہزار لوگوں کو مروا دیا اور ملا کچھ بھی نہیں اور ہر طرف سے سینکشن لگ گئے سپورٹ بند ہو گئی آئیسولیٹ ہونا شروع ہو گیا چھ سال بعد آدھا پاکستان سیونٹی ون میں ٹوٹ گیا کنکلوشن یہ ہے کہ جب بھی ایسے فیصلے ہوں گے جس میں تین سے چار لوگ بیٹھ کے پوری قوم کا فیصلہ کر کے انہیں کانفیڈنس میں لینا بھی نہیں چاہیں گے تو تب تب یہی ریزلٹ آئے گا جب تک آپ یہ سوچیں گے کہ آپ نے جنگ کے میدان میں مقابلے کرنے ہیں، معیشت کے، آئی ٹی کے، سائنس کے، تعلیم کے میدان میں نہیں کرنے یہی ریزلٹ آئے گا۔ جب جب آپ یہ سوچیں گے کہ صرف جنگ و جدل سے ہی آپ گین کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں ہے، تب تب یہی ریزلٹ آئے گا۔ اور اگر پاکستان کے سیاسی حکمران یہ سوچتے ہیں کہ ایک اوبسکیورانٹس سٹیٹ بنائیں گے یعنی کہ پوشیدہ ریاست جو کہ کوئی بھی فیصلہ عوام کے منتخب نمائندوں سے پوچھے بغیر ہی کرتی جائے گی تو ہمیشہ یہ ریزلٹ آئے گا اس جنگ کے بارے میں پڑھ کے سب سے پہلی کنکلوشن یہ نکالیے کہ یہ جنگ ہم پر مسالت نہیں ہوئی ہم نے کی تھی نمبر دو یہ جنگ کوئی بھی نہیں جیتا نمبر تین اس جنگ سے پاکستان کی اس تنزلی کا آغاز ہوا جس کا ہم آج بھی حصہ ہیں