Transcript for:
محبتِ رسول ﷺ کی اہمیت

قرآن پاک نے ہمارا نبی پاک علیہ السلام کے ساتھ جو رشتہ بیان کیا ہے وہ رشتہ بڑا خوب ہے کہاں نبی وعولا بالمؤمنین من انفسهم فرمایا یہ نبی مومنوں کے جانوں سے بھی زیادہ قریب ہے ہم بڑا عام لفظ بولتے ہیں کہ فلان چیز میرے دل کے بڑی قریب ہے میری سوچ کے بڑی جو لوگ دل کے قریب ہوتے ہیں ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے کو دل کرتا ہے تو اللہ کریم نے قرآن پاک میں فرمایا کہ یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری جانوں سے بھی تمہارے قریب ہیں اور حضور نے وضاحت کر دی نبی پاک نے وضاحت کر دی حضور نے فرمایا لا يؤمن احدكم حتى اکونا احبا علیہ من والده وولده والناس اجمعین اوکم اکال نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا تم میں سے کوئی اتنی دیر تک مومن ہوئی نہیں سکتا جب تک ہر چیز سے بڑھ کر مجھ سے پیار نہ کرے ایک مثال دے لوں بات آسان ہو جائے گی جس گھر کے اندر پیسہ بے شمار ہو دولت بے شمار ہو مکان ایک نہیں چار ہو اور دنیا کی ساری آسانیاں گھر میں موجود ہوں سارے دوست میری بات پہ توجہ کرنا ہر شئے ہو بینک بیلنس بھی ٹھیک تھاک ہو بچوں کا فیوچر سیف ہو لیکن گھر کے اندر میاں بیوی کے صلح نہ ہو بچے کہتے ہیں گھر میں ہر چیز ہے پر امی اور اببہ کا جھگڑا ہر وقت جاری رہتا ہے وہ گھر صحیح چلتا ہے آپ نے بولنا اس لیے نہیں کہ یہ باتیں لوگ یہ گھر کے اندر کی باتیں ہیں نا حالانکہ پاکستان کا تجزیہ یہ ہے کہ پچانویں فیصد میاں بیوی کے علاقے ٹھیک نہیں پاکستان یہ سرکاری عداد و شمار ہے پچانویں فیصد گھروں میں اختلاف اے رہے یہ بات ذہن میں بٹھال ہے کہ میاں بیوی کا اگر اتفاق نہیں نہ ہوتا تو وہ کہیں کہ گھر میں کوئی بھی خوشی رہے گی تو یہ ممکن ہی نہیں یہ سوال ہی نہیں پیدا ہو چھے چھے بچے ہوتے ہیں اور شادی کو چوبیس سال گزر جاتے ہیں پھر بھی طلاق ہو جاتی ہے اس لیے کہ میاں بیوی کے لیے سب سے ضروری چیز آپس کی محبت ہے اور یار کیا خوبصورت انداز ہے میرے رسول پاک علیہ السلام کا جتنی شاندار طبیعت حضور نے مولا علی شہر خدا کی کی تھی اتنی کوئی کر سکتا ہے اور جتنی اعلی ترین تربیت اور حسن سیدہ فاطمہ کو اللہ نے دیا کسی اور کو مل سکتا ہے لیکن میرے نبی پاک علیہ السلام نے ان کی شادی کے بعد ان کو اکٹھے بٹھا کے ان کے سر آپس میں جوڑ کے ہاتھ اٹھا کے دعا کی تھی کہ اے اللہ ان کے درمیان محبت پیدا فرما دے میاں بیوی کے درمیان جو سب سے اہم چیز ہے وہ محبت ہے بچے کہتے ہیں ہم کدھر جائیں اببا کی سنیں کہ اماں کی سنیں اور اکثر گھڑوں میں بچوں کی تربیت رکھ جاتی ہے اس لیے کہ میاں بیوی کا سلوک نہیں ہوتا تباہی اتر جاتی گھر کے اندر ہر شئے ہے پر ان کا پیار نہیں پتہ یہ چلا کہ گھر میں محبت نہ ہو تو گھر نہیں چلتا اگر محبت کے بغیر ایک گھر نہیں چل سکتا تو محبتِ مصطفیٰ کے بغیر دین کیسے چلے گا گھر نہیں چلتا میرے بھائی ٹوٹ جاتا ہے بکھر جاتا ہے سارا کچھ ہونے کے باوجود میں نے مردوں کو روتے ہوئے دیکھا ہے عورتیں تو روتی ہیں میں نے مردوں کو روتے ہوئے دیکھا ہے کہ کیا کروں چار بچے ہیں پر اس کو نہیں سمجھ آتی وہ پاگل ہے مہربانی کریں وہ سیانی ہو جائیں میں بچوں کے لیے پریشان ہوں کیا کروں یعنی عورت اگر وفادار اور پیار کرنے والی نہ ہو تو مرد کو آنسو نکل آتے ہیں کہ یہ سیانی ہوتی تو میرا گھر بن جاتا او بھائیو پیار بڑا ہی ضروری ہے یہ محبت بڑی ضروری ہے اس کے بغیر نہیں نظام چلتا محبت ہو جاتی ہے نا چلیں ایک واقعہ سناتا ہوں آپ کو بات زیادہ مضبوط ہو جائے گی داتا گانج بکش علی حجویری داتا صاحب نے لکھا ہے یہ آج کل کا جو جدید نوجوان طبقہ ہے وہ ذرا بات جلدی سمن جائے گا داتا صاحب رحمت اللہ لکھا ہے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمت اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ آپ بڑے زبردست محدیس ہیں اور اتنی وارفتگی والے صوفی کم ملتے ہیں جتنے آپ ہیں وجہ کیا ہے تو حضرت عبداللہ بن مبارک فرمانے لگے مجھے نا توبہ کرنے سے پہلے ایک عورت سے عشق ہو گیا تھا عورت سے بڑی توجہ سے بات سمجھنا آپ فرماتے ہیں میرا گھرانا نمازی تھا یہ داتا صاحب نے لکھا ہے کشف الماجوب میں حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ جس عورت سے مجھے عشق ہو گیا نا اس کے محلے میں جا کے میں شاہ کی نماز پڑھتا تھا اور پھر ساری رات میں اس کے گھر کے گرد رہتا تھا وہ آدھی رات کو تھوڑی دیر کے لیے چھچ پہ آتی تھی دو ایک باتیں ہوتی تھی میں لوٹ آتا تھا فرماتے ہیں ایک رات میں نے شاہ کی نماز اس کے محلے میں جا کے پڑھی کاری صاحب نے کچھ آیات لمبی پڑھا دی تو مجھے غصہ آیا کہہ دیتے ہیں لوگ مولویوں نے کام کونی سانوں نے اورویں ہیں تو کہتے ہیں کہ نماز لمبی پڑھا دی تو مجھے غصہ آیا کہ جلدی پڑھاؤ فرماتے ہیں نماز وہاں پڑی سخت سردی تھی رات لمبی تھی میں اس کے گھر کے گرد جا کے نا تو منڈلانے لگا کیونکہ مجھے اس سے محبت تھی فرماتے ہیں کہ ایک گھنٹہ دو گھنٹے چار گھنٹے پانچ گھنٹے حتیٰ کے سہری کا وقت ہو گیا اوہ پھوٹنے لگی تو وہ نا بھاگتی بھاگتی چھت پہ آئی اور کہنے لگی کہ گھر میں رش بڑھا ہے مہمان زیادہ ہیں آج بات نہیں ہو سکے گی کہتے یہ لفظ کہتے وہ نیچے اتر گئی جب میں وہاں سے واپس نکلا تو فجر کی آزان شروع ہو گئی یوں سمجھ لیں کہ تیرہ گھنٹے چودہ گھنٹے بیت گئے حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں اچانک نہ میں نے اپنے دل پہ توجہ کی ساری رات وہ آئی نہیں تھی پر مجھے اس پہ غصہ بھی کوئی نہیں آیا مجھے وہ بری بھی نہیں لگی ساری رات اس نے کھڑا رکھا لیکن میرے دل سے اتری بھی نہیں کوئی نہیں سمجھ آئی آپ کو میری بات فرماتے ہیں کہ پھر میں نے اپنے دل پر توجہ کی تو مجھے سمجھ آئی کہ مجھے اس سے کھڑا پیار ہے سچا پیار ہے یعنی اس نے آدھا جملہ کہا کہ میں مجبور ہوں تو میں نے اس سے مزید نہ قسم اٹھوائی نہ گواہ مانگے میں اس کی وہ مجبوری بھی فورا نہیں مان گیا تو جناب عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ جب میں نے وضو کر کے مسجد میں جا کے دو سنتیں پڑی نا تو میرے اندر سے آواز آئی عبداللہ اگر ایک بی بی کے لیے تو ساری رات کھڑا رہ سکتا ہے اور اس کی سخت بات سخت انتظار بھی تجھے غصہ نہیں دلاتا اگر عورت کے عشق میں سارا کچھ ہو سکتا ہے تو رب الرسول کے عشق میں بھی ہو سکتا ہے پھر ان کی بتائی ہوئی ترابیہ تجھے غصہ نہیں دلائیں گی پھر ان کا کہا ہوا روزہ تجھے غصہ پھر تو یہ نہیں کہے گا کہ بڑا مشکل کام میں جی گرمیاں دے روزے نے پھر تیری زبان سے کوئی لفظ ہے اس لیے کہ محبوب پر غصہ وہ کسی اردو کے شاعر نے کہا تھا کہ اس نے کہا تھا عشق ایک دھونگ ہے تو میں نے کہا تجھے عشق ہو خدا کرے پھر کوئی تجھے اس سے جدا کرے پھر تُو اسے تسبیحوں پہ پڑا کرے پھر تُو گلی گلی پھیرا کرے پھر تُو اسی کا نام جپا کرے پھر میں کہوں کہ عشق ایک ڈھونگ ہے اور تو نہیں نہیں کہا کر ایک صاحب نے مجھے ایک دفعہ فون کیا ہارے سنگی ہیں وکیل ہیں بیوی ان کی پروفیسر ہیں کہنے لگے جی آپ کے ایک بزرگ نے کہا ہے کہ صحابہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا بول مبارک پشاب مبارک پی جاتے تھے لوگوں کو بڑی جلدی ٹینشن ہونے لگ جاتی ہے ان چیزوں کی بڑی جلدی اس رستے کے مسافر نہیں نہ ہوتے اس رستے کے مسافر نہیں انہوں نے کہا جی کہ صحابہ حضور کا لعاب دہن اپنے چہرے پہ مال لیتے تھے ناک سے ریٹھ نکالتے تھے تو مال لیتے تھے یہ کیسے ہو سکتا ہے میں نے ان سے کہا کہ تمہاری اکل میں بات نہیں آئے گی تمہارا شعبہ نہیں نا تمہارا یہ شعبہ کہنے لگے آپ سمجھا دیں تو میں نے کہا بھئی سنو آپ کی بیوی امیر خاندان سے ہے ہماری بچیاں جو پڑھی لکھی ہوتی ہیں نا امیر خاندان سے ہوتی ہیں یہ جب کسی کے گھر جاتی ہیں تو ان کا بچہ پشاب کر دے تو انہیں بڑی بدبو آتی ہے اور اگر وہ کہہ کر دے تو یہ بھی کہہ کرنے لگ جاتی ہے ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا اور گھر آ کے کہتی ہیں بڑے جاہل ہیں صفائی نہیں کرتے بچے نے ادھر ہی پشاب کیا ہوا تھا میں تو جو کھا کے گئی تھی وہ بھی باہر آ گیا کہنے لگے جی بالکل یہ بھی ایسے ہی کرتی تھی تو میں نے کہا جب اس بچی کا جو بڑا ناک چڑھاتی ہے جب اس کی اپنی شادی ہو جائے اپنا بچہ ہو جائے اور بچہ بالوں میں پشاپ کرے پھر بھی کہہ آتی ہے کیوں اس لیے کہ اپنا بچہ ہے اور میں نے کہا میاں فرق اتنا ہے کہ سیابا کا اپنا نبی تھا یہ جب محبت ہو جاتی ہے نا تو پھر گھن نہیں آتی پھر کوئی اور پھر مصطفیٰ کریم کا بول مبارک تو اللہ نے بیسے ہی پاک فرمایا ہے تو میں نے کہا یہ باتیں اتنی دیر ہوتی ہیں جتنی دیر تک بچہ غیر کا ہوتا ہے جب بچہ اپنا ہوتا ہے تو پھر یہ گفتگو جب تک بچہ غیر کا تھا آواز کم کریں گی تھوڑی جب تک بچہ غیر کا تھا اس وقت تک کہ بھی آ رہی تھی بدبو بھی آ رہی تھی گین بھی آ رہی تھی اور پھر بچے نے الٹی کر دی اممہ کے کپڑوں پہ کر دی اس کے گود میں کر دی لیکن پھر اممہ کو کوئی تکلیف ہے کیوں اب کیا ہوا ہے اب اس سے پیار ہو گیا اب اس سے محبت ہو گئی پھر بڑے بڑے سردار یہ بخاری مسلم ہے عروب بن مسعود سقفی ابھی غیر مسلم تھے جب ہدیبیہ کے مقام پہ آئے تو واپس جا کے انہوں نے پیغام مسلمانوں کو نہیں دیا عالمِ کفر کو دیا عالمِ کفر کو جا کے کہانے لگے کافروں مسلمانوں سے کبھی جنگ نہ کرنا کہا کیوں کہنے لگے میں ہدیبیہ میں دیکھ کے آیا ہوں اور میں کوئی بے وکوف آدمی نہیں نادان نہیں کہ دیکھ کے آیا ہوں تو مطمئن ہو گیا ہوں میں نے بڑے بڑے بادشاہ دیکھے ہوئے میں سفیر ہوں میں نے دنیا دیکھی ہے لیکن جو تعظیم مصطفیٰ کریم کے غلام ان کی کرتے ہیں وہ میں نے کسی کو کرتے نہیں دیکھا وہ وہ میں نے نہیں دیکھا کہا کیا دیکھائے ہو یہاں تو ہمارے اب درود و سلام پر گریب گریب لوگ رہ گئے ہیں سنیں جی آپ باتیں نہ کریں بڑی مہربانی میری بات سنیں ہمارے ہاں تو ملاد کے جھنڈے اٹھانے والے بھی گریب گریب لوگ رہ گئے ہیں نراز تو نہیں ہو گئے آپ ادراک جلسے میں آنے والے بھی گریب لوگ جلسہ کرانے والے بھی گریب لوگ تگڑے لوگ بھی جلسہ کراتے ہیں پر کسی امنے کا وہ بھی جھنڈا لگاتے ہیں پجاروں پر پر کسی سیاسی جماعت کا اپنے اپنے نصیب ہے نا ساری زندگی جھوٹوں کے نعرے مارتے ہیں سچے رسول کا نعرہ اللہ نے ہمیں عطا فرمایا ہے مقام توجہ سنیں اربا بن مسعود کہنے لگے کہ ان سے جانگ نہ کرنا کیوں کہنے لگے یار میں نے بھی زمانہ دیکھا ہے پر میں عجیبی نظام دیکھ کے آیا ہوں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا ہے کلی کے لئے پانی موں میں ڈالا ہے جب وہ پانی باپس نکلا ہے نا تو میں نے دیکھا ہے سیابا نے ہاتھ آگے کر دی اور اروہ کہنے لگا یہ سارے غریب لوگ نہیں تھے ان میں بلال عبشی جیسے غریب بھی تھے اور عبد الرحمن ابن عوف جیسے سیٹھ بھی تھے اور میں نے دیکھا ہے کہ جب نبی پاک علیہ السلام نے ریت مبارک نکالی ہے تو میں نے ابو بکر صدیق جیسے دانشوروں کو لائن میں کھڑے دیکھا ہے میں نے عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے مضبوط آسام کے لوگ مضبوط قوت فیصلہ رکھنے والے ان لوگوں کو میں نے لائنوں میں کھڑے دیکھا ہے اور میں نے علی المرتجاز ایسے شیر کو لائن میں کھڑے دیکھا ہے میں شیروں کو دیکھ کے آیا ہوں جو لائنوں میں کھڑے ہیں اور خواہش یہ ہے کہ حضور کی کلی کے پانی کا ایک کترہ مل جائے کترہ اور یار میں نے عجیب رنگ دیکھا ہے عجیب آج تو میری جماعت کا یہ حال ہوا ہے کہ جالی پیرو پہ تنقید کرتے کرتے لوگوں نے اصلیوں کا عدب بھی چھوڑ دیا ہے اب تو یہ حال ہوا ہے کہ یہاں درد والی سوز والی مجالس میں بھی یوں لگتے ہیں میفل نہیں میلہ ہے کہاں گئے آنسوں کہاں گیا درد کہاں گیا عدب کہاں گیا سوز کہاں گئی وہ کیفیات عربہ بن مسعود کہنے لگے خبردار ان سے جانگ نہ کرنا اس لیے کہ جو اپنے مصطفیٰ سے اتنا پیار کرتے ہیں وہ دین کا جھنڈا کبھی زمین پہ نہیں گرنے دیں گے آپ لوگ اپنی اپنی جگہ پہ بیٹھیں جی آپ پیسے لے کے نہ آئیے گا اور ایک مسئلہ شریعہ اور یاد رکھ لیں بات سامنے آگئی کبھی کسی نادکہاں کو پیسے دینے ہو تو نابالک بچے کے آدھ کبھی نہ بیجیں یہ جائز ہی نہیں شرن پتہ آپ کو مسئلہ کہاں؟ نبالک بچہ کو چیز کسی کو دے تو اس سے لینا جائز ہی نہیں وہ خوشی سے بھی دے تب بھی لینا جائز نہیں جب تک وہ بالک نہیں تب تک وہ دے سکتا ہی نہیں اس مسئلے کو ہمیشہ ذہن کے اندر رکھیں سمجھا رہی ہے میری بات کی؟ نہیں کوئی نہیں آپ نے سمجھا نہیں بات کو سمجھتے تو ہاں نہ کرتے نبالک بچے کو کبھی پیسے دے کے نہیں اٹھائیں اس لیے کہ جائز نہیں اس کے ہاتھوں سے لینا جائز نہیں مولانا دیدار علی شاہ صاحب رحمت اللہ علیہ آل عزت کے خلیفہ تھے وہ کہتے مجھے کئی دفعہ میرے یاروں نے کہا تھا کہ آل عزت سے ملنے چلیں تو میں کہتا تھا میں خود سید ہوں خود علیم ہوں میں کیوں جاؤں کسی کے پاس کہتا جس دن پہلے دن گیا نا تو ایک چھوٹا طالب علم کوئے پہ پانی نکال کے وضو کر رہا تھا میں نے کوئے سے پانی اس نے میں نے سمجھا کہ ڈیوٹی آپ کو پتا نا بڑی مصیبت ہوتی ہے طالب علموں کے حصے میں آئی ہوئی سارے کام ان بچاروں نے کرنے ہوتے ہیں یعنی قدموں کے نکے فرشتوں نے پار بچھائے ہوتے ہیں اور کندے کے اوپر کمیٹی والوں نے قربانی کی خال رکھی ہوتی ہے یہ طالب علموں کا عشر ہوتا ہے تو وہ طالب علم بیچارہ پانی نکالا ہوا تھا اس نے سید صاحب کہتے ہیں میں وضو کرنے لگا نا تو طالب علم کہنے لگا بابا جی پوچھ تو لو پانی تو میرا ہے میں نے سمجھا کہ شاید خدمت میں معمور ہے نمازیوں کو وضو کرو اس نے کہا پانی تو میرا ہے تو میں نے کہا چل بیٹے تو اجازت ہی دے دے میں وضو کرلوں تو کہنے لگا آپ کو مسئلہ کا پتہ ہونا چاہیے میں نابالی ہوں اپنی مرضی سے بھی چیز کسی کو نہیں دے سکتا سیدہ صاحب کہتے ہیں میں نے اللہ اکبر کہا اور میں نے کہا دیدار علی شاہ تو بڑا عالم ہے پر احمد رضا کے تو نبالیوں کا علم بھی تجھ سے زیادہ ہے اس کرومد ہے اہل دول رضا اور پڑے اس بلا میں میری بلا میں تو گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارائے نا نہیں عام دام برسر مطلب رسول پاک کی محبت یہ انسان کو سجاتی ہے سوارتی ہے تکبر دور کرتی ہے آجزی پیدا کرتی ہے یہ روح کا وضو کراتی ہے جب حضور کی محبت میں لوگ روتے ہیں تو پھر انسان کیا دل صاف ہو جاتا ہے نبی پاک کی محبت انسان کو آداب کا پبند کرتی ہے وہ ناد کے ساتھ وبستہ ہو جاتا ہے مسجد کی صفائی کرنا اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے حضور سے محبت ہوتی ہے تو بہانے نہیں کرتا بندہ کہ اب میں رمضان سے نماز شروع کروں گا حاج کر کے آؤں گا تو نیک بنوں گا داڑی رکھوں گا تو لوگ کیا پھر یہ بہانے ختم ہو جاتے ہیں اس لئے کہ محبت عمل کرنا آسان کر دیتی ہے محبت آسانی پیدا کرتی ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ سب سے زیادہ راضی کب ہوئے حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے پرکنزل مال سے ارز کر رہا ہوں وہاں تفصیل زیادہ ہے حضرت ابو دردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کسی نے پوچھا راضی کب ہوئے انسان بڑی دفعہ راضی ہوتا ہے نا جب مسلمان ہوئے تھے تب بھی بڑے راضی ہوئے ہوں گے جب اللہ نے بیٹا دیا تھا تب بھی بڑے راضی ہوئے ہوں گے اور پھر اللہ نے انہیں امیر المومنین بنایا یہ سارے وقت ہوتے ہیں نا خوشی کے کا راضی کب ہوئے تو صدیق اکبر بیٹھ گئے فرمانے لگا بتاتا ہوں بتائیے فرمانے لگے اس دن بڑا ہی راضی ہوا تھا جس دن میں نبی پاک کو مکہ سے مدینہ لے کے جا رہا تھا صلی اللہ علیہ وسلم میں بڑا راضی ہوا کہا کس طرح تو حضرت صدیق اکبر فرماتے ہیں جب ہم مکہ سے مدینہ جا رہے تھے تو گرمی زیادہ تھی میں نے دیکھا کہ حضور کو پسینہ آ رہا ہے اور پسینے کے قطرے میں نے چہرے پر ٹپکتے دیکھے فرماتے ہیں میں پریشان ہو گیا کہ کوئی تھنڈا سایا ملے تو میں حضور کو تھوڑا آرام کراؤں فرماتے ہیں دائیں بائیں دیکھا کوئی چیز نظر نہ آئی ایک پہاڑ کی ڈھلان تھوڑی چھکی ہوئی تھی میری نظر پڑی تو میں نے عرض کی یا رسول اللہ اگر اجازت دیں تو دیکھاؤں حضور نے فرمایا دیکھ لو کہتے میں گیا اور اپنی پگڑی کھول کے میں نے اس جگہ کو صاف کیا پھر میں نے وہاں اپنی چادر بچھائی عرض کی حضور تھوڑی دیر آرام کر لیں بھائی یہاں لوگ کہتے ہیں تعلیمات کی بات کرو نماز روزہ حج زکاة کی بات کرو جب تک ذات سے پیار نہیں نہ ہوتا بندہ بات بھی نہیں مانتا یہ محبتِ مصطفیٰ ہوگی تو سارے کام آسان ہو جائیں عشقِ رسول ﷺ آسان کر دے گا جینا آل عزت فرماتے ہیں عشق تیرے صدقے جلنے سے چھٹے سستے جو آگ بجھا دے گی وہ آگ لگائی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے میں دیکھ کے آیا سایا آپ فرماتے ہیں پھر میں نے ارز کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر آرام کریں کہتے ہیں حضور لیٹ گئے تو میرے دل میں خیال آیا کہ کوئی ٹھنڈی چیز ملے نا تو مصطفیٰ کریم کو پیش کروں کہتے ہیں دائیں بائیں دیکھا تو ایک چرواہا وکریاں چرارا تھا اس سے میں نے کہا کہ دودھ دے دوگے تھوڑا سا وہ کہنے لگا کہ اگر آپ ڈیرے پہ مانگتے تو تین دینار یہاں چار دینار کا آپ فرمانے لگے میں نے تو سوچا تھا تو بہت بڑی قیمت مانگے گا صرف چار دینار کہتے ہیں اسی وقت دیا میں نے اسے کہا کہ پانی کہاں ملے گا ذرا دیکھنا یہ یہ صحابہ روایت کر رہے ہیں مودیسین قبول کر رہے ہیں جرہ و تعدیل کے بعد اپنی کتب ملا رہے ہیں اس کا مطلب ہے یہ بھی دین کی اصل ہے اس کا مطلب ہے یہی بنیادی دین ہے جو ہمارے محدثین نے ہم تک پہنچایا میرے رسول کریم علیہ السلام کے غلاموں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نے کہا کہ پانی کہاں ملے گا وہ کہنے لگا پانی بڑی دور ہے میں نے کہا کتنی دور ہے کہنے لگے وہ پہاڑ کے پیچھے میں نے کہا سفر نہ بتا بس تو رستہ بتا اس لیے کہ جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی پھر کھلتے ہیں غلاموں پہ اسرارِ شہنشاہی بتا جانا کہاں ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اس نے کہا پہاڑی کے پیچھے کنواں ہیں آپ فرماتے ہیں میں دوڑا گیا لکڑی کے پیالے میں وہاں سے پہلے میں نے ہاتھ دھوئے پھر میں نے پیالہ دھویا پھر پانی بھرا پھر میں تیزی سے واپس آیا آ کر کے میں نے اس چرواحے سے کہا یار اس طرح کرو پہلے اپنے ہاتھ دھولو پھر بکری کے تھن دھولو پھر مجھے دودھو دو کہتے مجھے کہنے لگا بڑے ساف سترے لگتے ہو بڑے نفیس ہو اور میں نے کہا یار میری بات نہیں جن کے لیے لے کے جانے انہیں اللہ نے بڑا پاک ساف پیدا فرمائے جن کے لیے لے کے جانے ان کی بڑی شان ہے جنہاں ابی ابو بکر صدیق فرماتے ہیں اس نے مجھے کہا تو خود ہی دھولے فرماتے ہیں میں نے پہلے بکری کے تھن دھوئے پھر دودھ دھویا شدید گرمی پھر وہ پیالہ لے کے میں کمے پہ گیا پھر وہاں سے پانی نکالا پھر میں نے اس کو رکھ کے پیالے کو اس پانی میں تھنڈا کیا جب دودھ تھنڈا ہو گیا تو میں اب آ رہا ہوں آہستہ آہستہ اس لیے چل رہا ہوں کہ دودھ گر نہ جائے اور پریشان اس بات میں ہوں کہ دیر ہو گئی تو دوبارہ گرم نہ ہو جائے آپ فرماتے ہیں لا کے میں محبوب کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو حضور کی آنکھ مبارک لگی ہوئی تھی اب دل میں خیال آئے جگہ میں سکتا نہیں اور اگر حضور دیر سے اٹھے تو پھر گرم ہو جائے گا کہتے ہیں ابھی میں کھڑا ہوا ہی تھا کہ میرے مصطفیٰ نے آنکھیں کھول دی رسول کریم علیہ السلام نے آنکھیں کھول دی حضرت ابو بکر صدیق فرماتے ہیں گھٹنوں کے بال بیٹھ کر ��ب میں نے وہ دودھ کا پیالہ مصطفیٰ کو پیش کیا اس پردیس میں اس سفر میں جب دائیں بائیں کوئی اور نہیں تھا جب وہ میں نے پیش کیا نا حضور نے پہلے تین گھونٹ پیئے فرمانے لگی ابو دردہ یہ وہ تین گھونٹ پی کے میری طرف دیکھ کے حضور مسکرائے نا تو میں کھل کے رویا میں کھل کے رویا اور فرماتے ہیں جب نبی پاک نے وہ سارا دودھ پی لیا اور حضور نے فرمایا مجھے بڑا اچھا لگا ہے تو فرماتے ہیں ابو دردہ میں اس دن اتنا راضی ہوا اتنا راضی ہوا کہ نہ اس سے پہلے کبھی ہوا تھا نہ اس کے بعد کبھی ہوا ذات رسالت کے ساتھ صحابہ کا جو تعلق ہے نبی پاک کی ذات کے ساتھ یہ نا اکل مند آدمی بیچارہ ساری زندگی بیعش ہی کرتا رہتا ہے میں نے دیکھیں ساری زندگی حضرت مولا رومی فرمایہ کرتے تھے اللہ نے لوگوں کو اکل دیا استعمال کرنے کے لیے پر لوگ ساری زندگی اکل کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہے اکل مندوں کا مرشد بھی کوئی نہیں ہوتا کہیں میری طرح کے پڑھے لکھے ہوتے ہیں ان کا بھی پیر کوئی نہیں ہوتا وہ خود ہی بہت بڑے پیر ہوتے ہیں کوئی نہیں جس سے راہنمائی لے اس لیے کہ وہ نفس اتنا موٹا ہو جاتا ہے کسی جگہ نہ پیار کرنے دیتا ہے نہ محبت کرنے دیتا ہے چار پیسے آ جائیں تو اس آدمی کا بھی کوئی رہنما نہیں ہوتا اس لیے کہ اب وہ خود سارا کچھ ہو جاتا ہے بھائیو رسول پاک کے غلاموں نے جب مصطفیٰ کریم کی باری آئی تو اکل نبی پاک کے قدموں پہ قربان کر دی پھر انہوں نے دائیں بائیں ادھر ادھر نہیں دیکھا کبھی نہیں کوئی سوال کوئی جواب کبھی ادھر ادھر نہیں گئے سیدھا ذات رسالت کے ساتھ پیار پڑھئیے یہ روایت تو مشکات میں بھی ہے تبرانی میں بھی ہے سولہ حدیبیہ کا معاہدہ لکھا جا رہا تھا توجہ ہے میرے دوستوں ہم ویسے سارے دن دی کے یہی سنتے رہے ہیں کہ الامرو فوق العدب حکم عدب پر فوقیت رکھتا ہے سنا یہی ہے لیکن سولہ حدیبیہ کا معاہدہ لکھا جا رہا تھا لکھنے والے تھے مولا علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ حضرت اہلی لکھ رہے تھے حضور نے فرمایا لکھو لکھا حضرت علی نے پہلی عبارت لکھی تو لکھا محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش مکہ کے درمیان معاہدہ جب لکھا محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ابو سفیان بول پڑے کہنے لگے جی آپ محمد ابن عبداللہ لکھیں کیونکہ ہم معاذ اللہ ہم رسول اللہ تو مانتے نہیں یہ مان جائیں تو جھگڑا ختم محمد ابن حضور محمد ابن عبداللہ بھی ہیں نا اور محمد الرسول اللہ بھی ہیں امام زرقانی کہتے ہیں نبی کریم علیہ السلام نے فوراں کہا حضرت علی سے علی اس طرح کرو رسول اللہ کاٹ کے نہ تو ابن عبداللہ لکھ دو حضرت مولا علی شہر خدا خموش ہو گئے سنا ہم نے یہی ہے ساری زندگی کہ حکم فوقیت رکھتا ہے لیکن حضرت علی خموش ہو گئے حضور نے دوسری دفعہ کہا علی رسول اللہ کاٹ کے نہ تو محمد ابن عبداللہ لکھ دو حضرت مولا علی شہر خدا خموش ہیں تیسری دفعہ جب حضور نے کہا تو امام زرقانی کہتے کلم نیچے رکھ حضرت علی نے ہاتھ باندے اور آنکھوں میں آنسو آگئے کہ یا رسول اللہ میں مجبور ہوں مجھے رسول اللہ لکھنا تو آتا ہے پر کاٹنا نہیں آتا حضور میں میں نہ یہاں مجبور ہوں حضور میں مجبور ہوں لکھنا آتا ہے پر کاٹنا بھئی سوال اٹھتا ہے نا کہ لکھنا آتا ہے تو کاٹنا کیوں نہیں آتا لیکن پندرہ سو سیابا موجود تھے کسی نے اطراز نہیں کیا کیلئے گزرہ رکم دے رہے ہیں لکھو کیوں نہیں لکھ رہے ہیں جہاں وہ مفتی ہوتا نا وہ بی کام ایم کام ایم نیسی تو فٹا فٹا درس دیتا مولانا آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں حضور نے کہا تو ویسے کریں اور میرے بھائی جب محبت ہوتی ہے نا ایک شعر ہے خاجہ غلام فرید صاحب کا اگر آپ کی سمجھ میں آئے تو بڑی اچھی بات ہے نہ آئے تو پھر بھی بڑی اچھی بات ہے اگر سمجھ میں آئے تو کیا بات خاجہ غلام فرید صاحب کا کرتے تھے تن تندور ہڈان دا بالن تیسی ہاما نال تپایا کپ کپ مکیاں پیڑے کیتے اتوں عشق پلیتھاں لایا تاندہ سالن مندی ہانڈی تیلون صبر دا پایا غلام فریدا وے میں ساری تیری تینو اجے یقین نہیں آیا غلام فریدہ و میں ساری تیری تینوں اجے یقین نہیں آیا حضرت مولا علی شیر خدار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے حضور کاتا بولیے کاتا پتہ نہیں یا رسول اللہ لکھا ہوتا ہے تو لوگ کیسے کات لیتے ہیں یا رسول اللہ لکھا ہوتا ہے کٹ دیتے ہیں کیسے کٹ دیتے ہیں خدا بہتر جانے مولا علی سے تو نہیں کٹا گیا حضرت علی شیرِ خدا فرمانے لگے نہیں کٹا جاتا میرے مصطفیٰ کریم کے غلاموں آپ یقین کرو پاکستان میں پانچ لاکھ کے قریب ہے نفسیات کے مریض اکل کے گھوڑے دڑا دڑا کے لوگ پاگل ہو گئے علامہ اقبال جیسے لوگ تڑپتے تھے آخری عمر میں کہتے تھے خرد کی گتھیاں سلجھا چکا یا رب مجھے صاحبِ جنو کر دے اللہ مجھے مجنون کر دے نبی پاک عشق میں میں نہیں مزید فلسفہ منتہ کدھر نہیں جانا چاہتا مجھے دیوانگی دے رسول اللہ کی محبت کی میں نہیں جانا یہ جو لوگ دیوانے تھے نا یہ بڑے اچھے تھے اب تو بحث ہی رہ گئی ہے عمل ختم ہو گیا ہے اب بحث رہ گئی جس کو پینتی سال ہو گئے نا ملاد مناتے وہ بھی ہر سال آ کے پوچھ لیتا ہے کہ جائز تو ہے نا منانا میں کہتا ہوں خدا کے بندے پینتی سال سے تو منا رہا ہے آپ تو یہ پوچھا کر کہ میں کتنا درود پڑھوں محفل ملاد پہ آپ تو یہ کہا کر کے وضوح کس طرح کرنا ہے ملاد کا لنگر پکانے کے ابھی تک سوال کر رہے ہو محبت کرنے والے کر کے گزر گئے تو ابھی تک بیعث کر رہا ہے اور بہت ساری ایسی چیزیں تھی جو سیابا کی سمجھ میں نہیں آتی تھی لیکن کیونکہ سامنے رسول اللہ کی ذات تھی اور جب محبت ہوتی ہے تو محبت بیعث نہیں کرتی محبت پیار کرتی ہے محبت ہے ہمیں غلام نبی پاک ہیں ایسے ہی ہے نا جی؟ کسی سے کہنا داڑی داخلے ہو بیعث شروع کر دیتا ہے کہنا میں آج نیک نہیں میں کہتوں یہ حضور کو کہنا چاہیے تھا نا کہ جب پورا نیک بنے تب رکھے تو نے کون بیعث شروع کی داڑی حضور نے رکھی ہے نا لہذا ہم نے انشاءاللہ تو کہہ دیں وعدہ نہیں لے رہا حضور نے رکھی ہے نا ہمیں اس سے غرض ہے کہ اچھی لگے یا نہ لگے غلام کا کام غلامی کرنا کہ بیعث کرنا حضور نے کہا سچ بولو دکان چلے چاہے ہم نے کیا کرنا ہے؟ بولیں یہ بحث ہے حضور نے کہا بیبیاں پردہ کریں اب ہمارے گھر میں وہ بیبی رہے گی جو پردہ کرے گی جو نہیں کرے گی وہ ہمارے گھر میں رہ سکتی کیونکہ ہم نبی پاک کے غلام ہیں ہم رسول اللہ کے غلام ہیں صلی اللہ علیہ وسلم امام احمد بن عمر رحمت اللہ علیہ بازار گئے تو گلام خرید کے لائے آپ نے فرمایا تیرا نام کیا ہے تو وہ کہنے لگا حضور غلاموں کا نام نہیں ہوتا آپ کسی کو بھی آواز دیں گے تو میں سمجھوں گا مجھے ہی بلا رہے ہیں آپ فرمانے لگے تو کھائے گا کیا کہنے لگا حضور غلاموں کے نخرے نہیں ہوتے جو ٹکڑا بچ گیا نہ ڈال دے نہ چوب کر کے کھا جاؤں گا فرمایا یہ ہجرے ہیں کو کمرہ پسند کر لے کہنے لگا حضور غلاموں کے نخرے نہیں ہوتے آپ جہاں اشارہ کریں گے میں سو جاؤں گا امام صاحب فرماتا ہے مجھے وجد ہو گیا میں تو رونے لگا میں نے کہا اٹھو یار سینے سے لگ تو غلام بننے کے قابل تو نہیں تو تو آقا بننے کے قابل ہے بابا بلے شاہ صاحب رحمت اللہ نے تبصرہ کیا اس موضوع پر بابا صاحب بابا صاحب کہتے ہیں کہ ایک لکمہ ڈالتے ہو کتے کو کتا مارا غلام ہوتا ہے نا ہم مالک ہوتے ہیں اس کے ایک لکمہ ڈالتے ہو اور دوسرا لکمہ وہ مانگے نا دوسری روٹی تو جوتے مارتے ہو خود رات کو پنکھے کے نیچے سوتے ہو وہ بچارہ ساری رات پیرا دیتا ہے اور صویرے جا کے کسی درخت کے نیچے روکھ کے نیچے سو جاتا ہے آپ فرماتے ہیں کہ جس کا تو مالک ہے تو اپنا احسان دیکھ اور اس کی نوکری دیکھ اور جو تیرا مالک ہے اس کا احسان دیکھ اور اپنی ڈیوٹی دیکھ خود تو بھانے کیا کہتے ہیں بابا صاحب بابا صاحب کہتے ہیں راتی جاگیں تی شیخ صدا میں تی راتی جاگ دے کتے تیتھوں اتے مالک دا درمول نہ چھٹ دے پا میں مارو سو سو جتے تیتھوں اتھے ایک برکی دا قدر پچھانن پا میں مالک ہو ون ستے تیتھوں اتھے رکھا سکھا کھا دنے جار رکھاں وچ ستے تیتھوں اتھے اٹھ بلیا چل یار منال ہے نہیں تے بازی لے گئے نہیں کتے اٹھ بلیا چل یار منال ہے نہیں تے بازی لے گئے وہ تو آگے گزر جائیں گے اس طرح اور تو اشرف المخلوقات ہے تھوڑا خیال کریں ایک صحابی تھی حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالی ہماری محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بحثوں میں رہ گئی بحثوں میں اتنے کمزور ہیں ہم کی آج تک بحث کر رہے ہیں آج تک کہ حضور پہ درود کون سا پڑھنا چاہیے خدا کے بندے جس کو محبت ہوتی ہے وہ بحث نہیں کرتا وہ درود پڑھتا ہے درود و سلام پڑھنے والے کم ہیں مسئلہ پوچھنے والے زیادہ ہیں آپ یقین کریں یا رسول اللہ کا نعرہ لگانے والے جوش کے ساتھ وہ تو چند ملتے ہیں علاقے میں اور اس پر دلائل لینے والا سارا شہر ہے خدا کا خوف کریں عمل کریں دین کو بیعث کرنے نہیں آیا کہ ہر موضوع پر بیعث کریں فیس بک پر اپنی رائے کا اظہار کریں دین بیعث کے لیے نہیں آیا اسے موضوع بیعث نہ بناو یہ عمل کرنے کے لیے ہے اس پر عمل کریں حضور حدیبیہ تک تشریف لائے نبی کریم علیہ السلام ادھر سے حضرت ابو جندل جو تھے یہ وہ دلیر سے آبی تھے کہ ان کے والدین انہیں زنجیروں سے باندھا ہوا تھا ہاتھ میں بھی زنجیریں تھی پیروں میں بھی زنجیریں تھی اور ان کا باپ روز ڈنڈوں سے مارتا تھا انہیں پتہ چل گیا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیبیہ تک آگئے ہیں حضرت ابو جندل کمرے میں قید تھے باپ اور بھائی نے قید کیا ہوا تھا انہوں نے نا اپنا سر مار مار کے نا کھڑکی کو تو کھڑکی توڑی ڈاکٹر احمد عبدالرزاق نے عصیرت النبویہ میں لکھا ہے کھڑکی توڑ کے باہر آئے دیگر کتابوں میں بھی ہے یہ روایت باہر آئے نا جب تو حضرت مولا علی شیر خدا خدا فرماتے ہم نے نا ہدیبیہ کی شرائط لکھ لی تھی ان شرائط میں ایک شرط یہ تھی کہ مکہ سے جو شخص آئے گا حضور صاحب نہیں لے جائیں گے اور وہاں بھی جائے گا تو پناہ نہیں دیں گے اور اگر مدینہ کا کو وہاں چلا گیا تو وہ واپس نہیں کریں گے اس وقت تو یہ شرط بڑی کمزور لگتی تھی پر سب سے زیادہ فائدہ اسی شرط نے اسلام کو عطا فرمایا اس لیے کہ جو آدمی مکہ سے آتا تھا اسے پتا تھا مدینہ تو حضور کے پاس رہ نہیں سکتا حضور نے وعدہ کر لیا مکہ واپس جا نہیں سکتے تھے وہ کسی تیسرے شہر میں جا کے بیٹھتا تھا تو سیابی جب تیسرے شہر میں بیٹھتے تھے تو سارے کا سارا شہر ہی مسلمان ہو جاتا تھا اس شرط کی برکت سے کئی کئی شہروں تک دین پھیل گیا حضرت ابو جندل قید تھے ان کے والد نے بھائی نے قید کیا ہوا تھا یہ کھڑکی توڑ کر کے آئے میرے دوستو جب ہدیبیہ میں پہنچے تو حضرت علی کہتے ہیں جس رستے سے یہ چل کے آئے تھے کیونکہ پیروں میں زنجیریں تھیں تو جہاں سے چل کے آ رہے تھے خون بیٹھا آ رہا تھا خون بیتا آرہا تھا فرماتے ہیں آکے حضور کے سامنے کھڑے ہوئے تو بڑے درد سے روئے بڑے درد سے یا رسول اللہ مجھے چھوڑ کے نہ جائے گا میرا باپ ڈنڈوں سے مارتا ہے تو مجھے بتا باپ کبھی ایسے چھوڑ کے چلا جائے اور مرشد چھوڑ کے چلا جائے تو کچھ چیز باقی رہتی ہے لیکن عشق جب سچا ہوتا ہے تو میں شروع میں کہہ چکا پھر محبوب پہ غصہ نہیں آتا پھر کوئی بات ایسی نہیں ہوتی جو دل میں رہ جائے میرے قریم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے درد سے روئے یا رسول اللہ چھوڑ کے نہ جائیے گا حضور یہ دیکھیں میرا باپ مجھے ڈنڈوں سے مارتا ہے حضرت علی کہتے ہیں کہ کیونکہ معاہدہ تیہ ہو گیا تھا ابھی دستخط نہیں ہوئے تھے ہمارا دل کر رہا تھا کہ حضور اجازت دیں تو ہم ان کافروں کے پر خشے بخیر دیں اتنا بھی کوئی ظلم کرتا ہے لیکن کہتے ہیں حضور اٹھے حضرت ابو جندل کا سر محبوب نے اپنے کندے پہ رکھا جناب ابو جندل بھی کھل کے روئے ایک باری میری آنکھیں آچوں اونا نے اتھ رو پون جیسا ہون تے چسکا پہ گیا رونے دا تے ہر ویلے آہو زاری دا کہتے ہیں کھل کے روئے حضرت ابو جندل کہا حضور مجھے چھوڑ کے نہ جائیے گا جب وہ رو رہے تھے تو ابو صفیان اٹھے کہا آپ نے وعدہ کر لیا لے جا نہیں سکتے ایک شہابی نے کہا ابھی تو دسخت نہیں ہوئے کہا نہیں پھر ہم توڑتے ہیں معاہدہ سننا بعد غور کرنا اکل کہاں تک انسان کو پریشان کرتی ہے اور محبت اسے کتنا سلیکہ سکھاتی ہے کتنی اطاعت اور اتباع سکھاتی ہے نبی کریم علیہ السلام نے نا حضرت ابو جندل کو تسلی دی اور پھر حضور نے تھبکی دے کے نکندے پہ فرمایا تیرا تھوڑا سا امتحان رہ گیا ہے دل پہ ہاتھ رکھ کے بتانا کام بڑا مشکل ہے تیرا تھوڑا سا امتحان رہ گیا ہے جناب ابو جندل کو یہ کہہ کہ حضور نے رخی انور پھیرا تو ان کے والد نے گرے بان سے پکڑا کھینچ کے لے گئے اور کہنے لگے ان کے ساتھ تم آگ اللہ جانا چاہتا تھا جو تجھے لے کے نہیں گئے ان کے ساتھ جناب ابو جندل نے باپ کا ہاتھ جھٹکا اٹھ کے کھڑے ہوئے کہنے لگے زیادہ باتیں نہ کر میرا تو ایمان پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گیا کہ میرا رسول وعدوں کا پکا ہے میرا تو ایمان پیرنے سے مضبوط ہو گیا اور کیا شاندار لفظ لکھیں ڈاکٹ صاحب نے حضرت ابو جندل کہنے لگے ابا آپ تو اس طرح کارہ میری یہ زنجیریں کھول دے ہاتھوں کی بھی کھول دے پیروں کی بھی کھول دے اور مجھے بتا میں نے کس کمرے میں قید ہونا ہے تو بس بتا دے کہاں قید ہونا ہے اب میں تیرا قیدی نہیں ہوں اب میں محمد عربی کے حکم کا قیدی ہوں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نیا حکم نہیں آتا میں قید میں رہوں گا اور میں خوشی کے ساتھ رہوں گا جتنے کفار وہاں کھڑے تھے جتنے کھڑے تھے جتنے حضرت ابو جندل کے والد سمیت وہ کہتے ہیں ہماری توجہ باقی معاملہ سے ہٹ گئی اور جناب ابو جندل کی طرف چلی گئی یہ بھی رنگ ہوتا ہے وہ کیا کہا تھا میاں صاحب نے میاں صاحب فرمانے لگے کچھا رنگ لالاری والا جیڑا چڑھ دا لین دا رین دا اے عشق تیرے دا رنگ محمد چڑھ جائے پھر نہیں لیندا یہ پکا رنگ ہوتا ہے اپنے آپ کو سمیٹیں دین کے ساتھ خوشک رشتہ بناوگے تو لمبا نہیں چلے گا جو بوجھ سمجھ کے نماز پڑھتے ہیں وہ تو زور سے اثر تک مسجد کے اجرے میں گپے لگا رہے ہوتے ہیں اثر کی اذان ہوتی ہے تو کام یاد آجاتا ہے یہ بہت بڑی سزا ہے ساری زندگی انسان باقی سارے کام دلچسپی سے کرے اور نماز اس پر بوجھ رہے تو اسے توبہ کرنی چاہیے کہ کہاں کوئی ایسی کوتاہی ہے جس کی وجہ سے یہ سارا کچھ ہے میرے بھائی جب محبت ہوتی ہے پھر سجدے بھی طویل ہوتے جب محبت ہوتی ہے پھر قرآن پاک کی تلاوت کی بھی کسرت ہوتی ہے جب محبت ہوتی ہے سارے کام آسان ہو جاتے ہیں حضور سے محبت کریں وہ کیسے پیدا ہوگی درود و سلام زیادہ پڑھا کریں حضور کی ناتیں زیادہ سنا کریں اور نات کے لئے محفل ضروری نہیں ہوتی اب تو ٹیپ ریکارڈر پہ بھی نات مل جاتی ہے رات کو کوشش کریں نات سن کے سویا کریں نات سن کے مجھے ایک سنگی نے کہا ایک دفعہ کہ محبت رسول بچوں میں پیدا کرنی ہو تو کیا طریقہ ہے تو میں نے کہا میں نے تو ایک بزرگ کو دیکھا ہے میرا خیال ہے اس طرح محبت پیدا ہوئی جاتی ہے ایک ہے میں تقریر کر رہا ہوں محبت رسول پہ تو یہ تو کئی دفعہ رٹے رٹائے جملے بھی ہو سکتے ہیں ایک ہے میرے بچوں میں جب محبت رسول پیدا ہوگی تو وہ میرا عمل دیکھیں گے اس سے محبت کریں گے ایک مزورہ گھر میں لیٹے ہیں اچانک رونے لگے بیوی جاگی بچوں کو جگایا پتہ کرو بچے کہنے لگے اما آپ پوچھیں پوچھ کے باہر آئی کمرے سے اما اببا کو کیا ہے کہ تمہارے والی بات نہیں اتنا زور زور سے کیوں رو رہے ہیں کوئی حکیم طبیب کا معاملہ ہے ڈاکٹر کا تو بلاتے ہیں کہ بیٹا تمہارے والی بات کہ امہ بتائیں تو صحیح ماجرہ کیا ہے کہ بیٹا کچھ بھی نہیں تمہارے اببہ کو مدینہ یاد آتا ہے رسول اللہ کا شہر یاد آتا ہے اس درد سے رو رہے ہیں بتاؤ بچوں میں محبت رسول پیدا ہوگی کہ نہیں ہوگی وہ تڑپ آئے گی کہ نہیں آئے گی وہ سمجھیں گے نا اس بات کو کہ یہ بھی ایک دکھ ہے یہ بھی ایک تکلیف ہے لیکن اگر اببہ صرف اسی لیے روئے کہ دس لاکھ ڈوب گیا ہے صرف اسی لیے روئے کہ وہ سامنے والا پلٹ نہیں مل رہا پھر بچوں میں محبت نہیں پیدا ہوتی لالچ ہی پیدا ہوتا ہے عمل ہمارا کردار کچھ تو آنسو ایسے ہوں جو ہم نے نبی پاک کے لیے سنبھال کے رکھے ہیں جو مدینہ شریف جا کے بہانے ہو محفوظ کر کے رکھے ہوں دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اللہ ہمیں اپنے محبوب کی سچی غلامی عطا فرمائے غلامی میں زندہ رکھے غلامی میں موت عطا فرمائے آمین آخر دعوان