اس کو کہو اپنی معصومیت کم کر دے سنا ہے بچھڑ جانے کی یہ پہلی نشانی ہوتی ہے میں تم کو بھول تو جاؤں مگر چھوٹی سی الجن ہے سنا ہے دل سے دھڑکن کی جدائی موت ہوتی ہے ہم نے اس کے بعد نہ رکھی محبت کی آس ایک شخصی بہت تھا جو سب کچھ سکھا گیا جب تم ساتھ تھے تو کانٹے بھی پھول لگتے تھے اب تم ساتھ نہیں تو پھولوں سے بھی ڈر لگتا ہے ابھی تو راکھ ہوئے ہیں تیرے فراک میں ہم ابھی تو راکھ ہوئے ہیں تیرے فراک میں ہم ابھی ہمارے بکھرنے کا کھیل باقی ہے اتنے برسوں کی جدائی ہے کہ اب تم کو دیکھیں گے تو مر جائیں گے اس جدائی میں تم اندر سے بکھر جاؤ گے کسی مازور کو دیکھو گے تو یاد آنگا آنکھیں بھیک جاتی ہیں تیری یاد سے کہ آنکھیں بھیک جاتی ہیں تیری یاد سے میں بہانہ کر دیتا ہوں آنکھوں میں درد ہے محبت مجبور کرتی ہے ورنہ محبت مجبور کرتی ہے ورنہ تجھے یاد کرنے سے ثواب تو نہیں ملتا سبھی کہتے ہیں میرا دل پتھر کا ہے مگر یقین کرو کوئی ایسا بھی تھا جو اسے بھی توڑ گیا اب نہیں رکھتے ہم کسی سے بھی شوقِ محبت بے درد سے لوگ ہیں جانے کب دل توڑ دیں