Transcript for:
پاڑا چنار: تاریخ اور ثقافت

پاڑا چنار پاکستان کے صبح خیبر پختنخواہ کے زلہ کررم ایجنسی کا مرکزی شہر ہے جو اسلامباد سے مغرب کی طرف 580 کلومیٹر اور پشاور سے 258 کلومیٹر کے فاصلے پر کوہس سفید کے دامن میں واقع ہے پاڑا چنار افغانستان کی سرحد کے پاس دررئی کررم پر واقع ہے دررئی کررم بالائی اور زیری دو حصوں میں تقسیم ہے پاڑا چنار اس کے بالائی خطے پر واقع ہے در حقیقت پاڑا چنار کے تین اطراف میں افغانستان ہے اور مشرق میں پاکستانی سرزمین ہے پاڑا چنار کی سرحدے افغان سائٹ سے صوبہ ننگرہار، خوست اور پکتیا سے جبکے اس کی مغربی سرحدے زلہ خیبر اور اگزائے اور شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ زلہ ہنگو سے بھی متصل ہے زلہ کرم پاکستان کے کسی بھی علاقے بشمول تمام قبائلی علاقوں کے افغاندار الحکومت کابل سے نزدیک ترین اور کم ترین فاصلے پر واقع ہے یہ فاصلہ محض 110 کلومیٹر ہے دریائے کررم کوہ سفید کے جنوبی حصے سے نکل کر علاقہ کررم ایجنسی میں بنگیش قوم کے زمینوں کو سیراب کرتے ہوئے بننو میں داخل ہوتا ہے یہ دریائے تقریباً سارا سال بہتا رہتا ہے شہر کا نام چنار کے درخت کی وجہ سے پڑا ہے کہتے ہیں کسی زمانے میں دریائے کررم کے کنارے چنار کا ایک درخت ہوا کرتا تھا پاڑا چمکنی نامی قبلے کے افراد اس درخت کے نیچے جمع ہو کر اپنے مسائل حل کرنے کے لیے گفتو شنید کیا کرتے تھے اسی مناسبت سے شہر کا نام پاڑا چنار پڑ گیا شاید یہ درخت آج بھی پاڑا چنار میں موجود ہو بعض روایات کے مطابق چنار درخت کی قسط کی وجہ سے علاقے کا نام پاڑا چنار مشہور ہوا ہے یا پھر شہر میں پارا نام کا قبیلہ آباد تھا اس مناسبت سے پارا چنار کہلاتا ہے شہر کے مرکز میں اکثریہ توری اور بنگیش قبائل کی ہے جو کہ کئی صدیوں سے یہاں آباد ہے توری اور بنگیش نسلن پٹان ہے اور ان کی مادری زبان پشتو ہے وادی قرم میں توری اور بنگیش قبائل پانچ سو سال سے زیادہ عرصے سے آباد ہے اور اس کا ذکر پہلی دفعہ مغول بادشاہ زہیر الدین بابر نے اپنی سوان حیات بابر نامہ میں کیا ہے کوہ سفید کے دامن میں بسیعے وسیع و عریض وادی دیگر قبائلی علاقوں کی بنسبت زیادہ زرخیز ہے یہاں کے لوگ آباؤ اجداد کے وقت سے کیتی باڑی کرتے رہے ہیں مال مویشی رکھتے ہیں اور باغات بھی قابل ذکر تعداد میں موجود ہیں لہٰذا وادی قرم اجناس مال مویشی اور مویشات کے حوالے سے نہ صرف خودکفیل ہے بلکہ زمانہ قدیم سے نزدکی علاقوں کو برامت بھی کرتے رہے ہیں جن میں ہنگو کوہارڈ پشاور سمیت کابول گردیز اور ہرات تک کی مارکٹیں شامل تھی سن 1890 میں افغانستان کے متعصیب حکمرانوں کے مسلسل ظلم و ستم سے تنگ آ کر توری قبیلے نے طویل جد و جہد کے بعد انگریزوں کے ساتھ مل کر کوررم ایجنسی کو متحدہ ہندوستان میں شامل کر لیا تھا اور ڈیورین لائن کے اس پار انگریزوں نے توری قبیلے کی حفاظت کے لیے 1893 میں توری ملیشیا کے نام سے قبائلی ملیشیا بنایا جو بعد میں کرم ملیشیا بن گیا اور 1948 میں قائدازم کے اثار پر دیگر ایجنسیوں کی طرح کرم ایجنسی بھی پاکستان کے ساتھ ملحق ہو گئی کرم ایجنسی میں فرقہ وارانہ واقعات کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے جو مقامی لوگوں کے مطابق تقریباً ستر برس کے عرصے پر محید رہی ہے ایجنسی بر میں آخری مرتبہ 2007 اور 2008 میں سنگین فرقہ وارانہ فسادات پوٹ پڑے تھے جو وقفوں وقفوں سے تقریباً چار سال تک جاری رہے تھے بیشتر واقعات کا مرکز پاڑا چنار شہر رہا ہے جہاں توری اور بنگیش قبائل آباد ہیں ان میں زیادہ تر اہل تشریح مسلک سے تعلق رہتے ہیں انیس سو اسی کے عشرے میں افغان جنگ میں مجاہدین نے پاڑا چنار کو ہی اپنا مزاہمتی گڑھ بنایا دو ہزار پانچ کے بعد حالات خراب ہوئے تو کئی سالوں تک پاکستان سے پاڑا چنار جانے والا رستہ بند رہا اور افغانستان کے راستے ایک لمبا چکر کار کر یہاں پہنچنا ممکن تھا چونکہ پاڑچنار شہر کی بیشتر آبادی اہل تشریف پر مجتمل ہے اور آس پاس کے سارے ازلا سنی علاقے ہیں اس وجہ سے مسلکی فسادات اکثر ہوتے رہتے ہیں